ضمیر یعنی سینسر

دورِ جدید کا ایک ظاہرہ یہ ہے کہ ہم آٹومیٹک سسٹم کے درمیان رہتے ہیں۔ یہ آٹومیٹک سسٹم سینسر کے ذریعہ کام کرتا ہے۔ جیسے ہماری موجودگی کا پتا لگا کردروازہ کھولنا، دھواں یا آگ کا پتا لگاکر سائرن بجانا، گیراج کےدروازوں کو اس وقت کھولنا جب گاڑی دروازے کے قریب ہو ۔ یہ سب اور اس کے علاوہ دیگر بہت سے آٹومیٹک کام سینسروں کی وجہ سے ممکن ہوتے ہیں۔آپ اپنے گھر، دفتر اور کاروبار وغیرہ میں مختلف قسم کے سینسرز کا استعمال کر سکتے ہیں جو ہماری زندگی کو آسان بنانے کے لیےکام کرتے ہیں۔ سینسر کیا ہے۔ یہ ایک آلہ ہے، جو کسی جسمانی حرکت کو پہچان کر اس کے مطابق نتیجہ ظاہر کرتا ہے:

A sensor is a device that detects changes in its environment and sends information about those changes to another device or system. A sensor is like a sense organ — just as your skin feels heat or cold, a sensor "feels" or senses things like temperature, light, movement, sound, or pressure.

انسانی جسم پر غور کیا جائے تو انسانی جسم میں بھی سینسرز لگے ہوئے ہیں، جو آپ کے جسم کے اندر اورباہر جاری ایک ایک حرکت کو محسوس کرکےاس کی خبر آپ کے دماغ تک پہنچاتے ہیں، جس بنا پر آپ ان کو جان پاتے ہیں۔ عرف عام میں ان کو حواس خمسہ کہا جاتا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں:

باصرہ (sight)، سامعہ (sound)، شامہ (smell)، ذائقہ(taste) اورلامسہ (touch)

اگر یہ حواس خمسہ نہ ہوں تو انسان کو بے شمار قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ایک خاتون کا مجھے علم ہے۔ ان کی قوت شامہ (sense of smell)ختم ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ پریشان رہتی تھیں۔ کچن میں کھانا جل جائے یا کہیں آگ لگ جائے تو ان کو اس کا بالکل علم نہیں ہوپاتا تھا۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں ایک اورسینسر رکھا ہے، یعنی اچھائی اور برائی کو پہچاننے کا سینسر۔ اس سینسر کو ضمیر (conscience)کہا جاتا ہے۔غالباً اسی ضمیر کو قرآن میں نفس لوامہ کہا گیا ہے (75:2)۔ ضمیر انسان کے لیےخدائی گائڈ ہے۔وہ ہر موقع پر انسان کو الارم دیتا ہے کہ وہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے۔ لیکن یہ رہنمائی خاموش زبان میں ہوتی ہے۔ اگر آدمی بر وقت اس آواز کو سن لے، تو وہ فوراً انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتا ہے، لیکن اگر انسان فوراً متحرک نہ ہو تو وہ انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

  دنیا کی زندگی میں بار بار آدمی کے اوپر غیر ربانی انٹرسٹ غالب آجاتا ہے،اور وہ اپنے ضمیر کے خلاف چلنے لگتا ہے۔یہ روش ضمیر کودھیرے دھیرے مردہ بنا دیتی ہے۔جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرلے اور باز آجائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر دوبارہ گناہ کی طرف لوٹ آیا تو وہ سیاہی زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے سارے دل پر چڑھ جاتی ہے۔ یہی وہ (گناہ کا)زنگ ہے جس کا ذکر قرآن مجید (83:14)میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے : ہرگز نہیں بلکہ ان کے برے کاموں سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3334)

 صحابیِ رسول حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی انسان گناہ کرتا ہے تو اس سے دل ہتھیلی کی مانند سکڑ جاتا ہے۔ پھر جب وہ مزید گناہ کرتا ہے تو دل اور زیادہ سکڑ جاتا ہے یہاں تک کہ اس پر مہر لگ جاتی ہے۔ پھر وہ خیر کی بات کو سنتا ہے مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ گناہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب وہ ڈھیر بن جاتا ہے تو اس کےدل پر ایک بڑی مہر لگادی جاتی ہے۔اس کے بعد انسان اگر خیر کا کلمہ بھی سنے تو وہ دل میں داخل نہیں ہو پاتا۔(تفسیر ابن ابی حاتم19181)

یہاں دل سے مراد وہی چیز ہے، جس کو اوپر ضمیر کہا گیا ہے۔ یعنی انسان کے اندر خیر و شر کو ڈیٹکٹ (detect) کرنےکی فطری صلاحیت۔اس صلاحیت کو قرآن میں فرقان کی صلاحیت بھی کہا گیا ہے اور تقوی کو اس کا ذريعہ بتایا ہے(8:29)۔ ضمیر کسی آدمی کے اندر بصیرت پیدا کردیتا ہے ،جس سے وه معاملے كے ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر چيز کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔وہ مغالطوں میں پھنسے بغیر معاملے كي اصل حقیقت تک پہنچ جائے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ آدمی اپنے ضمیر کوزنده ركھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ خیرکو پہچانے اوراس کے مطابق عمل کر سکے، ٹھيك اسي طرح جيسے وہ کسی خارجی سینسر کے ذریعہ اپنے مادی کام کو آسان بناتا ہے (ڈاکٹر فریدہ خانم)۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom