ذکر اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے ایک صحابی معاذ بن جبل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:اذْكُرِ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ عِنْدَ كُلِّ حَجَرٍ وَعِنْدَ كُلِّ شَجَرٍ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 374)۔ یعنی اللہ رب العالمین کو یاد کرو، ہر پتھر کے پاس اور ہر درخت کے پاس۔
اس حدیث میں پتھر اور درخت کا ذکر بطور تمثیل ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز میں خالق کی نشانی ہے، اس کے ذریعہ خالق کی دریافت کرو، اور اس کی معرفت حاصل کرو۔ یہاں ذکر ُاللہ سے مراد اللہ کا لفظی ورد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد اللہ کی شعوری یاد (conscious remembrance of God) ہے۔ یہ یاد شعوری انداز میں ہر وقت مطلوب ہے۔ یہ شعوری یاد کسی قسم کے روٹین کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ حقیقت کی دریافت کے نتیجے میں ذہن انسانی میں خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک زندہ اور تخلیقی سوچ ہے۔
اعلیٰ ذکر کسی انسان کے اندر اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ وہ گہرے غور و فکر کے ذریعہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ یہ دریافت اتنی کامل ہوکہ وہ اس کی سوچ پر غالب آجائے، اس کی شخصیت اسی دریافت میں ڈھل جائے۔ وہ اس کے صبح و شام کا ناگزیر اثاثہ بن جائے۔
جدید سائنسی ڈسکوری نے بذریعہ تخلیق خالق کی دریافت کو بے انتہا حد تک وسیع کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے سائنسی مطالعہ کامقصد صرف ٹیکنکل ترقی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کا ایک اور مقصد ہے، اور وہ ہے تخلیقات میں خالق کو دریافت کرنا۔ تخلیقات کا گہرا مطالعہ کرکے زندگی کے راز کو معلوم کرنا۔ مادی کائنات کی تحقیق کرکے یہ جاننا کہ اس کے نقشہ کے مطابق، انسانی ترقی کاقانون کیا ہے۔چنانچہ انسان جب کائنات کامطالعہ کرتا ہے تو وہ اس میں ایک طرف خالق کی تجلیات کو پالیتا ہے اور دوسری طرف اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کی کامیاب تعمیر کن خطوط پر کرنا چاہیے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)