ایک خط

برادر محترم محمد مسیح الدین فاروقی صاحب        السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا خط مورخہ ۳۰ مارچ ۲۰۰۲ء تحفہ کے پارسل کے ساتھ ملا، جزاکم اللہ۔ مجھے فاروقی منجن کے مقامی ڈیلر کا پتہ مطلوب تھا۔ میں نے آرڈینری پوسٹ کارڈ پر اپنے رفیق کار برادرم ندیم احمد سنابلی سے معمولی انداز میں ایک خط لکھوا کر بھیج دیا تھا۔ ایسا میں نے اس لیے کیا تھا تاکہ میری آئیڈینٹیٹی مخفی رہے۔ مگر یہ اتقوافراسۃ المؤمن فإنہ ینظربنور اللہ کا معاملہ بن گیا۔ آپ نے حیرت انگیز طورپر اس کو پہچان لیا اور تحفہ کی صورت میں مطلوب اشیاء کا ایک پارسل روانہ فرما دیا۔

اصل یہ ہے کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، مجھے بھی دانت کی شکایت تھی۔ میں پابندی کے ساتھ سفر وحضر میں مسواک کرتا رہا ہوں۔ اسی طرح ملک کے اندر اور ملک کے باہر بننے والے ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کئے۔ مگر اس کے باوجود دانت میں وہی مسئلے پیدا ہوگئے جو عام طورپر دوسرے لوگوں کو پیش آتے ہیں، یعنی درد وغیرہ۔

اس کے بعد میں نے آپ کے یہاں کا بنا ہوا فاروقی منجن استعمال کیا جو پچھلے سفر حیدرآباد میں آپ نے مجھے دیاتھا۔ مگر میں بروقت اس کو استعمال نہ کرسکا تھا۔ اُس کی ایک شیشی میرے پاس باقی تھی۔ اُس کو استعمال کرنے سے حیرت انگیز طورپر دانت کی تکلیف دور ہوگئی۔ اس تجربہ کی بنا پر میں نے مقامی ڈیلر کا پتہ معلوم کرنے کے لیے وہ کارڈ آپ کے دفتر کے نام بھجوایاتھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ آپ کے دفتر کے کارکن مجھ سے بخوبی واقف ہیں، ورنہ یہ صورت حال پیش نہ آتی۔

یہاں میں اپنا ایک اور احساس درج کرنا چاہتا ہوں۔ تقریباً تیس سال پہلے، الجمعیۃ ویکلی میں میں نے چند مضامین شائع کئے تھے۔ اُن میں میں نے لکھا تھا کہ مسلم طب، جو عام طورپر یونانی طب کے نام سے مشہور ہے، وہ امکانی طورپر مغربی طب سے بدرجہا زیادہ فائق حیثیت رکھتی ہے۔ مغربی طب کی بنیاد جراثیم (بیکٹریا) کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ خارجی جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہو کر بیماری پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے مغربی طب میں زہریلی دواؤں کے ذریعہ ان جراثیم کو ہلاک کیا جاتا ہے تاکہ انسان کو مرض سے بچایاجاسکے۔ مگر یہ طریقہ دودھاری تلوار کی مانند ہے۔ وہ اگر مفروضہ جراثیم کو ہلاک کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ خود انسان کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

نیز تجربہ بتاتاہے کہ جب اس قسم کی ایک دوا کو کچھ عرصہ تک استعمال کیا جائے تو جراثیم کے اندر مقاومت (resistance) پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ضرورت ہوتی ہے کہ ان جراثیم کو ہلاک کرنے کے لیے زیادہ شدید دوا استعمال کی جائے۔ اس طرح جراثیم کُشی کا عمل آخر کار انسان کُشی کے ہم معنٰی بن جاتا ہے۔

قدیم یونانی طِب جس کو مسلمانوں نے مزید ترقی دے کر ایک مکمل فن بنا دیا تھا اُس کا اُصول علاج اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ طبیعت مدبّر ۂ بدن کے اصول پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم میں فطری طورپر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ مرض کا مقابلہ کرکے اُس کو دفع کرتی رہے۔ جدید حیاتیات میں اس پر کافی ریسرچ ہوئی ہے۔ اس کو اصطلاحی طور پر مقاومت (immunity) کہا جاتا ہے:

The ability of an organism to resist infection, by means of the presence of circulating antibodies and white blood cells. (Concise Oxford dictionary)

اس موضوع پر کافی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں امیونٹی (immunity) کے عنوان سے تفصیلی مقالہ شامل ہے۔ اس سلسلہ میں ایک مستند کتاب کا نام یہ ہے:

Genitics of the Immune Response, 1968.

مغربی طب جراثیم کشی کے اصول پر قائم ہے جو خود ایک بیماری ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسلم طِب یا قدیم طب کا اصول یہ ہے کہ جسم کے تدبیری نظام کو تقویت دی جائے۔ اوراُس کو متحرک کرکے فطری انداز میں مرض کا علاج کیا جائے۔ بعض ہنگامی حالات میں استثنائی طورپر بعض دوسرے طریقوں، مثلاً آپریشن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مگر عام حالات میں فطرت کا نظام ہی حفظان صحت کے لیے کافی ہے۔ حیوانات کے اندر یہی نظام حیوانات کی صحت کا ضامن بنا رہتا ہے۔

میں نے الجمعیۃ ویکلی میں لکھا تھا کہ حکیم اجمل خاں (وفات ۱۹۳۰) جو طب میں اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے، انہوں نے طب قدیم کی اس امتیازی اہمیت کو جان لیا تھا۔ وہ دہلی میں ایک طبّی یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے جہاں ریسرچ کے جدید طریقوں کو استعمال کر کے مسلم طب کو زمانۂ حال کے مطابق ترقی دی جائے۔ اس کے لیے اُنہوں نے قرول باغ میں ایک وسیع زمین بھی حاصل کر لی تھی۔ مگر اُس زمانہ میں کچھ مسلم لیڈروں نے جو منفی سیاست چلا رکھی تھی، وہ بد قسمتی سے اُس کا شکار ہوگئے۔ اُن کی زندگی کے آخری نہایت قیمتی بارہ سال اس بے فائدہ سیاست میں ضائع ہوگئے۔ طب کے احیاء جدید کا خواب پورا نہ ہوسکا اور اُس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ حکیم اجمل خاں جیسا مجتہدانہ صلاحیت رکھنے والا طبیب دوبارہ اس فن کے لئے حاصل نہیں ہوا۔

فاروقی منجن کے تجربہ نے مجھے یہ باتیں یاد دلا دیں۔ فاروقی منجن مذکورہ طبی اُصول پر بنایا گیا ہے۔ اور میرے تجربہ کے مطابق، وہ مغربی ٹوتھ پیسٹ سے زیادہ مفید ہے۔ آج مغربی طب کو غلبہ حاصل ہے اور مسلم طب بظاہر مغلوب ہے۔ لیکن اگر مسلم طب کے مذکورہ امکان کو جدید طرز پر زندہ کیا جائے تو صورت حال برعکس ہوجائے گی۔زندہ طلسمات کے بارے میں بھی میرا تجربہ یہی ہے۔

موجودہ زمانہ میں حکیم عبد الحمید دہلوی (وفات ۱۹۹۹) نے اس سلسلہ میں قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔ اُن کے بھائی حکیم محمد سعید دہلوی جو ملک کی تقسیم کے بعد کراچی میں آباد ہوگئے تھے، وہ مسلم طب کے احیاء جدید کے لیے زیادہ بڑے پیمانہ پر یہی کوشش انجام دے رہے تھے، مگر جیسا کہ معلوم ہے، کراچی میں ۱۹۹۸ء میں اُن کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ہمارے لیڈروں نے جو پاکستان اسلام کے قلعہ کے طورپر بنایا تھا، وہ عملاً اس کے برعکس ثابت ہوا۔

نئی دہلی، ۵ ؍اپریل ۲۰۰۲     دعا گو   وحید الدین

 

ایک خط

برادر محترم مولانا محمد عمر عابدین قاسمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا مقالہ بعنوان ’’ہندستان میں دعوتِ اسلام۔ تاریخ، مواقع اور امکانات‘‘ پڑھا۔ یہ ایک جامع تحریر ہے۔ آپ نے کامیابی کے ساتھ ہندستان میں دعوت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ہے، جزاکم اللہ خیر الجزاء۔

اسلام میں دعوت کی اہمیت میرے مطالعہ کا خاص موضوع رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور اوّل میں ۶ھ میں صلح حدیبیہ کا جو واقعہ پیش آیا، اس نے ہمیشہ کے لئے اسلامی دعوت کا رُخ متعین کردیا۔ صلح حدیبیہ کا پیغام ایک لفظ میں یہ تھا کہ صُلح کا ماحول قائم کرو اور اسلام کی اشاعت اپنے آپ ہونے لگے گی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف صُلح حدیبیہ کے بعد اُترنے والی سورت میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: انا فتحنا لک فتحا مبینا(الفتح ۱)۔ دوسر ے لفظوں میں یہ کہ فریقِ ثانی کے ساتھ صلح کرنا اسلام کے لیے فتح مبین کا ذریعہ ہے۔مصالحانہ رویہ اختیار کرنا اسلام کے لیے پُرامن فاتحانہ اقدام کا راستہ کھولتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے ہندستان میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان معتدل تعلقات قائم کئے جائیں۔ یک طرفہ اعراض کے ذریعہ امن کے ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ اس کے بعد اسلام کی نظریاتی اشاعت اپنے آپ ہونے لگے گی۔ ہندستانی صوفیاء کا تجربہ اس معاملہ کی ایک تاریخی مثال ہے۔ اُن کے زمانہ میں اسلام کی اشاعت کا خاص سبب یہی تھا کہ اُنہوں نے اپنی صلح کُل کی پالیسی کے ذریعہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول کو ختم کر دیا تھا۔

موجودہ دنیا کا نظام آزادمسابقت کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ اس بنا پر موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق کو دوسرے فریق سے شکایتیں پیدا ہوں۔ یہ ایک فطری امر ہے جو ہمیشہ اور ہر سماج میں باقی رہے گاحتیٰ کہ خود مسلم سماج کے درمیان بھی۔ ان شکایتوں کا حل شکایت کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اُن سے اعراض کرنا ہے۔ میرے نزیک، عملی اعتبار سے دعوت کایہی سب سے زیادہ اہم نکتہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت تمام ترصبر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جتنا زیادہ صبر اتنا ہی زیادہ دعوت۔

میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ ہندستان کے مسلمان صرف یہ کریں کہ وہ کچھ نہ کریں۔ اور اس کے بعد اسلام اپنے آپ پھیلنے لگے گا۔ اسلام کی اصل طاقت یہ ہے کہ وہ دین فطرت ہے۔ یعنی جو اسلام ہے وہی انسانی فطرت ہے، اور جو انسانی فطرت ہے وہی اسلام ہے۔ اس لیے جہاں مصنوعی نفرت اور کشیدگی کا ماحول نہ ہو وہاں اسلام خود اپنے زور پر بندگان خدا کے دلوں میں جگہ پکڑنے لگے گا۔

برادرانِ وطن کی طرف سے بعض اوقات اسلام کے خلاف باتیں سامنے آتی ہیں۔ اس سے مسلمانوں نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ یہ لوگ اسلام سے عناد رکھتے ہیں۔ یہ سراسر بے اصل بات ہے۔ یہ مخالفانہ باتیں جو لکھی اور بولی جاتی ہیں، بظاہر وہ اسلام کے حوالہ سے ہوتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ قومی اور سیاسی شکایت کا مظہر ہوتی ہیں۔ مسلمان اگر اس حکمت کو جانیں اور برادرانِ وطن کے مقابلہ میں قومی اور سیاسی شکایت کا ماحول ختم کردیں تو اس کے بعد وہ دیکھیں گے کہ کسی کو بھی اسلام کے خلاف نہ نفرت ہے اور نہ عناد۔

ہندستان میں اسلام کی جو اشاعت ہوئی ہے وہ زیادہ تر ملک کے پسماندہ طبقات یا غیر تعلیم یافتہ عوام کے درمیان ہوئی۔ یہ لوگ فطر ی طور پر شعوری انقلاب کے نتیجہ میں اسلام میں داخل نہیں ہوئے بلکہ وہ دوسرے اضافی اسباب کے تحت اُس میں داخل ہوئے، مثلاً برکت یا سماجی برابری جیسی چیزوں کی کشش کی بنا پر۔ یہ عوام جب اسلام میں داخل ہوئے تو وہ اپنے پچھلے مذہب کی رسوم و روایات بھی اپنے ساتھ لائے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہندستان میں بدعات کا جو زور ہے وہ عرب ملکوں میں موجود نہیں۔ بدعات کیا ہیں، بدعات دراصل ہندوؤں کی مشرکانہ رسموں کا اسلامائزیشن ہیں۔ ہندستان میں سماجی ناانصافی کا ماحول اسلام کی اشاعت کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوا۔ مگر اسی کا دوسرا نتیجہ وہ مسائل بھی ہیں جن کو ہم بدعات کہتے ہیں۔ اور جن میں اس ملک کے،پچاس فیصد سے زیادہ مسلمان مبتلا ہیں۔

اس علاقہ میں اسلامی دعوت کی جو منصوبہ بندی کی جائے اُس میں اس بنیادی نکتہ کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام آج کی دنیا میں حقیقی معنوں میں غالب دین کی حیثیت سے ابھرے تو اسلام کو علم کے زور پر اٹھانا ہوگا، نہ کہ برکت اور فضائل کے زور پر۔ اسلام کے غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ نہیں ہے بلکہ فکری اور نظریاتی غلبہ ہے۔ اسلام کو فکری غلبہ اُسی وقت مل سکتا ہے جب کہ اُس کو اس طرح دنیا کے سامنے لایا جائے کہ وہ دوسرے معاصر افکار کے مقابلہ میں لوگوں کو برتر فکر دکھائی دے۔

برکت اور فضائل کا اسلوب صرف عوام کو متاثر کرسکتا ہے، وہ ہرگز خواص کو متأثر کرنے والا نہیں۔ جب کہ یہ حقیقت ہے کہ کسی سماج یا کسی انسانی گروہ کے درمیان کسی فکر کو غالب فکر کی حیثیت اُس وقت ملتی ہے جب کہ اُس سماج یا اُس گروہ کے خواص اُس فکر کو کھلے طور پر اپنا لیں۔ دو راول کے مکہ میں ابو بکر صدیق اور عمر فاروق، اسی طرح دور اول کے مدینہ میں سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کے قبولِ اسلام کے بعد پیدا ہونے والے موافق حالات اس کا تاریخی ثبوت ہیں۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کا خطاب سب سے پہلے اپنی قوم کے خواص سے ہوتا تھا۔ یہ حقیقت قرآن کی اُن آیات سے معلوم ہوتی ہے جن میں قوم کے جواب کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وقال الملاء الذین کفروا من قومہ۔

قرآن میں جن لوگوں کو ملاء قوم (سردار قوم) کہاگیا ہے وہ دراصل وقت کے خواص یا وقت کے ذہین لوگ (intellectuals) تھے۔ کسی قوم کے ذہین لوگ در اصل قوم کے مزاج ساز (opinion makers) ہوتے ہیں۔ وہی عوام کے فکر و عمل کا رُخ متعین کرتے ہیں۔ بسا اوقات ایک شخص پوری قوم میں زندگی پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ کسی نے درست طورپر کہا ہے: رجُلٌ ذُو ہمۃ یُحی الأمۃ۔

اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں تبایا گیا ہے: خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الإسلام۔ دین میں خواص کی یہی اہمیت ہے جس کی بنا پر رسول اللہ نے مکّہ میں یہ دعا فرمائی: اللّھم اعز الإسلام بأحد العمرین۔ آغاز اسلام کے وقت مکہ میں دو بے حد ذہین آدمی تھے، عمر بن الخطاب اور عمروبن ہشام (ابوجہل)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کے بارے میں مذکورہ دعا فرمائی۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ ذہن کی دین میں کتنی زیادہ اہمیت ہے۔

آپ نے اپنے مقالہ میں بارہویں صدی عیسوی کے مشہور صوفی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا ذکر کیا ہے اوراُن کو اس معاملہ میں ’’اُسوہ‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ نے لکھا ہے:

تاریخ بتاتی ہے کہ خواجہ اجمیری جب افغانستان سے ہندستان آئے تواُس وقت راجستھان میں جہاں آپ نے قیام فرمایا تھا، پرتھوی راج کی حکومت تھی۔ جب اُس نے آپ کا چرچا سنا تو وہ آپ کو ستانے اور پریشان کرنے کے درپے ہوگیا۔ آپ کو تکلیف پہنچائیں۔ مگر آپ نے کبھی اس کی حرکتوں کا بُرا نہیں مانا اور اس کے خلاف سیاسی ٹکراؤ کی راہ اختیار نہیں کی بلکہ آپ پوری طرح دعوت کے کام میں یکسو رہے، اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ پرتھوی راج بھی خواجہ اجمیری کے حلقۂ عقیدت میں داخل ہوگیا۔

آپ کا یہ بیان بالکل درست ہے۔ خواجہ معین الدین اجمیری نے کام کا جو طریقہ اختیار کیا، بلاشبہہ وہی طریقہ آج بھی سب سے زیادہ مفید اور مؤثر طریقہ ہے۔ میں اللہ کی توفیق سے اسی طریقہ کا مبلّغ ہوں او ر عملاً اسی پر کار بند ہوں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ موجودہ مسلمان خواجہ اجمیری کا تو زبردست اعتراف کرتے ہیں لیکن آج اگر کوئی شخص ان کے طریقہ کو موجودہ حالات میں زندہ کرنا چاہے تو اس کے اوپر فرضی الزام لگا کر اس کو بدنام کرنے کی کوشش کریں گے۔

نئی دہلی ۲۷ مارچ ۲۰۰۲ء    دعا گو    وحید الدین

 

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب    السلام علیکم ورحمۃ اللہ

۱۴ مارچ ۲۰۰۲ ء کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ آپ نے ملّی اتحاد کے مسئلہ پر زور دیا۔ اس معاملہ پر غور کرنے کے بعد میری سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد نہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اتحاد کی بڑی بڑی کوششو ں کے باوجود مسلمان متحد نہ ہوسکے۔

مولانا محمد علی جوہر نے خلافت کے نام پر بظاہر سارے برّ صغیر ہند کے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کردیا تھا۔ مگر یہ اتحاد بہت جلد ریت کے ڈھیر کی طرح بکھر گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں بظاہر مسلمانوں کا بہت بڑا اتحاد قائم ہوا،مگر پاکستان بننے کے بعد ہی یہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کر منتشر ہوگیا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی صورت میں بظاہر پورے ملک کے مسلمانوں کا اتحاد قائم ہوگیا مگر اُس سے بھی جلسہ جلوس کے وقتی دھوم کے سوا مسلمانوں کو کچھ اور نہیں ملا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام سے بڑے بڑے اتحادی جلسے کئے گئے مگر ملّت ایک متحد گروہ نہ بن سکی۔ بابری مسجد کے نام پر بڑی تعداد میں اتحادی مظاہرے ہوئے مگر وہ غیر متّحد ملت کو متحد ملت نہ بنا سکے، وغیرہ۔

مذکورہ اتحادی کوششوں کے درمیان ہمارا ہر لیڈر بڑے بڑے الفاظ بولتا رہا۔ اس لحاظ سے جائزہ لیجئے تو یہ محسوس ہوگا کہ ہمارے لیڈروں کو شاید یہ خبرہی نہ تھی کہ اتحاد کیسے قائم ہوتا ہے اور اتحاد کیسے باقی رہتا ہے۔

مثلاً ہمارے لیڈر بظاہر اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ بھیڑ اور اتحاد میں فرق ہے۔ خطرہ کی گھنٹی بجاکر کوئی بھی شخص وقتی بھیڑ اکٹھا کر سکتا ہے مگر حقیقی اتحاد ایک مثبت واقعہ ہے جو صرف شعوری بیداری کے نتیجہ میں کسی قوم کے اندرپیدا ہوتا ہے۔ ان تمام لوگوں نے بھیڑ کو اتحاد سمجھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتحاد کو شعوری طورپر جانتے بھی نہ تھے۔ پھر جو لوگ اتحاد کی حقیقت سے بے خبرہوں، وہ کیوں کرعملی اتحاد قائم کریں گے۔

دوسری بات یہ کہ اکثر اتحاد اپنے رہنماؤں کے اختلاف کی بنا پر ختم ہوا۔ مثلاً آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے رہنماؤں کا باہمی اختلاف۔ یہ لوگ اس ابتدائی حقیقت سے بے خبر تھے کہ اتحاد ہمیشہ اختلاف کے باوجود قائم ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر۔ ایسے بے شعور لوگوں سے یہ اُمید کرنا ہی بے سود ہے کہ وہ ملت کو ایک متحد ملت بنائیں گے۔

میرے نزدیک اتحاد کا آغاز اتحاد کانفرنس سے نہیں ہو سکتا بلکہ وہ شعوری بیداری کے ذریعہ ہوتا ہے۔ موجودہ مسلمانوں میں سب سے پہلے شعوری بیداری پیدا کرنا ہے۔ اُن کے اندر وسیع پیمانہ پر ملّی صحافت وجود میں لانا ہے۔ اُن کے اندر تعمیری معنوں میں ایک قیادت برپا کرنا ہے۔ اُن کے اندر صبر اور تحمل کا مزاج پیدا کرنا ہے۔اُن کے اندر انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی سوچ لانا ہے۔ اس قسم کی ابتدائی کوششوں کے بغیر جو اتحادی کانفرنس ہوگی وہ نشستند و گفتند و برخاستند کے سوا کوئی اور مثال قائم نہیں کرسکتی۔

اس وقت ہندستان کے مسلمان ذہنی اعتبار سے جس مقام پر ہیں وہ یہ ہے کہ اُن کے پاس صرف منفی سوچ کا سرمایہ ہے، مثبت سوچ کا فکری سرمایہ اُن کے پاس موجود نہیں۔ وہ صرف اپنی ملّت کے سطحی مفاد کو جانتے ہیں۔ اُن کی موجودہ تمام سرگرمیاں کمیونٹی ایکٹوزم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وسیع تر انسانیت کے درد سے اُن کے سینے خالی ہیں۔ اعترافِ حقیقت کی اہم ترین انسانی قدر اُن کے اندر اتنی کم ہے کہ شاید اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ذاتی مفاد اور ذاتی مصالح سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی اہمیت نہ اُن کے اصاغر کو معلوم ہے اور نہ اُن کے اکابر کو۔ زمانہ کی تبدیلیوں سے اُن کے دانشور اور علماء دونوں اتنا زیادہ بے خبر ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم شاید اتنی زیادہ بے خبر نہیں ہوگی۔ اُن کا ذہنی ارتقاء اتنا کم ہوا ہے کہ اُن کے درمیان یا تو برکت اور فضیلت پر مبنی تحریکیں مقبول ہوتی ہیں یا جذباتی سیاست پر مبنی تحریکیں۔ ایسی حالت میں اتحاد ملت عمومی معنوں میں ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں۔

۲۷ مارچ ۲۰۰۲ء دعا گو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom