آگ کو بجھانا، نہ کہ بھڑکانا

قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں ارشاد ہوا ہے: کلما أوقدو ا نارا للحرب أطفأھا اللہ۔ (المائدہ ۶۴) یعنی جب کبھی وہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اُس کو بجھا دیتا ہے۔

اس آیت میں وقتِ نزول کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر یہود مراد تھے۔ مگر اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ایک عمومی حکم ہے اور وہ اہل اسلام کے لیے ابدی رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے یہ اُصول معلوم ہوتا ہے کہ مخالف فریق اگر آگ بھڑکانے کی کوشش کرے تواہلِ اسلام کا کام یہ ہے کہ وہ اُس کو فوراً بجھانے کی تدبیر کریں، نہ کہ وہ اُس کو مزید بھڑکائیں۔

مثال کے طورپر ایک بس میں کچھ غیر مسلم مسافر سفر کر رہے ہیں۔ اُس میں ایک باریش مسلمان بھی موجود ہے۔ بس میں کچھ غیر سنجیدہ قسم کے غیر مسلمہیں۔ وہ مذکورہ مسلمان سے دل آزاری کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ اُس کواشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھربس جب اپنے اسٹیشن پر رکتی ہے تو مذکورہ مسلمان باہر آکر بلند آواز سے یہ کہتا ہے کہ اے مسلمانو، اس بس کے مسافروں نے میری بے عزتی کی ہے، تم ان کو سبق دو۔

اس کے بعد مقامی مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں۔ وہ بس پر یورش کردیتے ہیں۔ بات بڑھتی ہے۔ یہاں تک کہ غصہ میں بھرے ہوئے مسلمان بس میں آگ لگادیتے ہیں۔ اس آگ میں بس بھی تباہ ہوتی ہے اور اُس کے بیشترمسافر جل کر مر جاتے ہیں۔

مذکورہ مسلمانوں کا یہ رویہ قرآن کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کی روشنی میں اس معاملہ پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ بس کے غیر مسلم مسافروں نے جو ’’آگ‘‘ بھڑکائی تھی اُسے مسلمانوں کوبجھانا چاہیے تھا۔ پُر امن تدبیر کے ذریعہ اُنہیں اشتعال کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تھا۔ مگر انہوں نے اس کے برعکس عمل کیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب بس کو اور اُس کے مسافروں کو زندہ جلانے کی خبر پھیلی تو پوری ریاست کے غیر مسلم غصہ میں بھڑک اٹھے۔انہوں نے ریاست میں بسے ہوئے مسلمانوں کو جلانا اور مارنا شروع کیا۔ اُن کی دکانوں اور مکانوں کو تباہ کیا گیا۔ اس طرح بس کے ایک مسلمان مسافر کے ساتھ بدتمیزی کی صورت میں جو بُرائی پیش آئی تھی وہ بہت بڑے اضافہ کے ساتھ پوری ریاست کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی۔ آگ لگانے والے اگر آگ لگائیں تب بھی مسلمان کا کام اُس کو بجھانا ہے، نہ کہ اُس کو مزید بھڑکانا۔

نزاع کے معاملہ میں جوابی سلوک کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) زیادتی کرنے والے کے ساتھ مزید اضافہ کے ساتھ زیادتی کرنا (۲) زیادتی کاجواب برابر کی زیادتی سے دینا (۳) زیادتی کرنے والے کو یک طرفہ طورپر معاف کردینا۔ اس طرح کے معاملہ میں ان کے علاوہ کوئی چوتھی صورت غالباً نہیں ہے۔

زیادتی کا جواب مزید زیادتی کے ساتھ دینا اصل مسئلہ کو تو حل نہیں کرتا، البتہ وہ انتقام اور جوابی انتقام کا جذبہ بھڑکاکر مسئلہ کو اورزیادہ سنگین بنا دیتا ہے۔ فریق ثانی بھی دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ زیادتی کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس طرح بُرائی ایک ایسی حد پر پہنچ جاتی ہے جس کو ختم کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔

زیادتی کاجواب برابر کی زیادتی سے دینا اگر چہ جائز ہے مگر وہ بھی منفی جذبات پیدا کرنے والا ہے اس لیے بہتر ہے کہ اُس سے پرہیز کیا جائے۔ کیوں کہ اس کے ذریعہ دل کی بھڑاس تو نکل سکتی ہے مگر وہ مسئلہ کو حل کرنے والی نہیں۔

اس طرح کے نزاع کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ اُس کو یک طرفہ طورپر معاف کردیا جائے۔ اس طرح کا اعلیٰ سلوک نزاع کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردیتا ہے۔ وہ ظالم کے مقابلہ میں مظلوم کو اخلاقی فتح عطا کرتا ہے اور بلاشبہہ اخلاقی فتح سے بڑی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔ اخلاقی فتح بلا شبہہ سیاسی فتح سے بھی زیادہ عظیم ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom