کام کا صحیح طریقہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کار کیا تھا، اس سوال کا جواب حضرت عائشہ کی ایک روایت میں ملتا ہے: ما خیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین إلا اختار ایسرھما۔ (صحیح البخاری، کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امرکا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان کا انتخاب فرماتے تھے۔

حدیث میں أیسر کا لفظ ہے۔ اس کی تشریح شارحینِ حدیث نے عام طور پر أسہل کے لفظ سے کی ہے (فتح الباری ۶؍۶۶۵) یعنی زیادہ سہل۔ مگر اسہل (سہل تر) کے لفظ سے اُس کی اصل حقیقت واضح نہیں ہوتی۔ پیغمبر اسلام اور دوسرے تمام پیغمبر، قرآن کے بیان کے مطابق، اولو العزم پیغمبر (الاحقاف ۳۵) تھے۔ کوئی پیغمبر کبھی سہل پسند نہیں ہوتا۔ سہل پسندی پیغمبر کے مزاج کے خلاف ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس حدیث میں أیسر کا لفظ زیادہ قابل عمل کے معنٰی میں ہے، نہ کہ سادہ طورپر محض سہل کے معنیٰ میں۔

حضرت عائشہ کی اس روایت کا مفہوم اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سیرت کی روشنی میں متعین کیا جائے تو اس سے پوری حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو اس روایت میں أیسر سے مراد قابل حصول نقشۂ کار (available framework) ہے۔ ہر صورت حال میں دو عملی طریقہ ممکن ہوتا ہے۔ ایک وہ طریقہ جو بر وقت موجود نقشہ ہی میں قابلِ عمل ہو۔ اور دوسرا طریقہ وہ جس کا تقاضا یہ ہو کہ پہلے موجود نقشہ کو بدلا جائے، اُس کے بعد ہی اپنا مطلوب عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اُس نقشۂ کار میں اپنا عمل جاری کیا جوبر وقت آپ کے لیے ممکن اور قابل حصول تھا۔ اس پیغمبرانہ طریقِ کار کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم مکہ میں آپ کو دین توحید کی تبلیغ کا کام کرنا تھا۔ اب اس کی دو صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ کعبہ کے موجود اجتماع گاہ کو استعمال کیاجائے جہاں بتوں کی پوجا کے لیے لوگ پہلے سے اکٹھا ہوا کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ آپ اس سے الگ اپنا کوئی نیا مقام اجتماع بنائیں۔ دوسرا اورنیا اجتماع گاہ بنانا اس وقت سخت مشکل کام تھا۔ اس کے برعکس کعبہ کا صحن ایک بنے بنائے اجتماع گاہ کی صورت میں موجود تھا۔ پیغمبر اسلام نے بتوں کی موجودگی کے ناپسندیدہ پہلو کو وقتی طورپر نظر انداز کرتے ہوئے اس موجود نقشۂ کار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور وہاں اپنے دعوتی خطاب کا مستقل سلسلہ شروع کر دیا۔

کام کا یہی وہ عملی طریقہ ہے جس کو مذکورہ حدیث میں اختیار ایسر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں قابلِ حصول نقشۂ کار (available framework) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں نے اس پیغمبرانہ حکمت کو نہیں سمجھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ أیسر اور أعسر میں فرق نہ کرسکے۔ اُن کے لیے قابلِ حصول نقشۂ کار موجود تھا مگر اپنی بے خبری کی بنا پر وہ ناقابلِ حصول نقشۂ کا ر میں اپنی عملی سرگرمیاں دکھاتے رہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اس کا نتیجہ صرف یک طرفہ تباہی ہو سکتا تھا اور وہی اُن کے حصہ میں پیش آیا۔

بر صغیر ہند میں اس کی ایک مثال انگریزوں کے خلاف علماء ہند کی پُرتشدد تحریک ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ علماء کی یہ پُر تشدد تحریک ساٹھ سالہ قربانیوں کے باوجود اپنے مقصد میں ناکام رہی۔ اس کے برعکس مہاتما گاندھی کی انہی انگریزوں کے خلاف پُر امن تحریک صرف پچیس سال میں اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوگئی۔ اس فرق کا واحد سبب یہ تھا کہ مہاتما گاندھی کی پُر امن جدوجہد قابلِ حصول نقشۂ کار کے دائرہ میں تھی، جب کہ علماء ہند کی پُر تشدد جدوجہد ناقابلِ حصول نقشۂ کار کے دائرہ میں۔

اس معاملہ کی دوسری مثال الإخوان المسلمون کی تحریک ہے۔ انہوں نے مصر میں شاہ فاروق (وفات ۱۹۶۵) اور صدر جمال عبد الناصر (وفات ۱۹۷۰) کو مغرب نواز اور اسلام دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف پُر تشدد تحریک چلائی۔ مگر غیر معمولی قربانیوں کے باوجود اخوانیوں کے حصہ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ البتہ مصر ایک تباہ شدہ ملک ہو کر رہ گیا۔ مزید یہ کہ اسی اخوانی فکر کے لوگ اپنے ملک میں سیاسی داروگیر سے بھاگ کر بڑی تعداد میں امریکہ گئے۔ اب وہ وہاں مختلف قسم کے اسلامی ادارے بڑے پیمانہ پر چلارہے ہیں۔ اور پُر فخر طورپر وہاں اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں۔

ا لإخوان المسلمون مصر میں کیوں ناکام رہے اور امریکہ میں خود اپنے دعویٰ کے مطابق، وہ کیوں کامیاب ہیں۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ انہوں نے مصر میں پُر تشدد نقشۂ کار کے مطابق کام کرنا چاہا جو وہاں اُن کے لیے قابل حصول ہی نہ تھا۔ اس کے برعکس امریکہ میں وہ پر امن طریقِ کار کے مطابق کام کررہے ہیں جو وہاں کے حالات میں اُن کے لیے پوری طرح قابلِ حصول ہے۔

تاہم الإخوان المسلمون کو نہ مصر میں اُن کے کام پر کوئی کریڈٹ دیا جاسکتا ہے اور نہ امریکہ میں اُن کے کام پر۔ مصر میں اُن کا کام صرف سیاسی نادانی کے خانہ میں لکھا جائے گا۔ اور امریکہ میں وہ اپنے کام پر دوہرا معیار (ڈبل اسٹینڈرڈ) اختیار کرنے والے قرار پائیں گے، إلّا یہ کہ وہ کھلے لفظوں میں یہ اعلان کریں کہ مصر میں اُن کی پالیسی سراسر غلطی اور نادانی کی پالیسی تھی۔ اعتراف کے بعد غلطی ایک نیکی بن جاتی ہے اور اعتراف کے بغیر غلطی صرف غلطی رہتی ہے۔

جماعت اسلامی کا معاملہ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ جماعت اسلامی اور اُس کے بانی نے پاکستان میں زبردست سیاسی ہنگامہ برپا کیا۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان میں وہاں کے سیکولر حکمرانوں نے سیکولر نظام قائم کر رکھا ہے۔ جب تک اس سیکولر نظام کو توڑا نہ جائے یہاں کوئی قابلِ ذکر اسلامی کام کرنا ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی اوراُس کے بانی کی ٹکراؤ کی اس سیاست کا کوئی مثبت نتیجہ پاکستان کو نہیں ملا۔ بلکہ برعکس طورپر پاکستان ایک تباہ شدہ ملک بن کر رہ گیا۔

اب اسی جماعت اسلامی کی فکر کو ماننے والے لوگ نہایت اطمینان کے ساتھ انڈیا کے سیکولر نظام کے تحت کام کررہے ہیں۔ وہ پُر فخر طور پر یہاں اپنے اسلامی کارنامے بیان کرتے ہیں۔ مگر جماعت اسلامی کا معاملہ بھی وہی ہے جو ا لإخوان المسلمون کا معاملہ ہے۔ جماعت اسلامی کے لوگوں نے پاکستان میں جو کچھ کیا اُس پر اُنہیں صرف سیاسی نادانی کا کریڈٹ دیا جائے گا۔ اسی طرح انڈیا کی جماعت اسلامی کے لوگ انڈیا میں اپنے اعلان کے مطابق، جو کارنامے انجام دے رہے ہیں اُس پر بھی وہ کوئی کریڈٹ نہیں پا سکتے۔ إلّا یہ کہ وہ کھُلے طورپر یہ اعلان کریں کہ اُن کے بانی کا نظریۂ سیکولرزم یا سیکولر نظام کے بارے میں سراسر غلط تھا اور زمانہ سے بے خبری پر مبنی تھا۔ اس کھُلے اعلان کے بغیر یقینی طورپر وہ کسی مثبت انعام کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ غلطی کے اعلان کے بغیر انڈیا میں اُن کی پالیسی دوہرا معیار (ڈبل اسٹینڈرڈ) کی پالیسی قرار پائے گی۔ اور غلطی کے اعتراف کے بعد اُن کی یہ پالیسی موجبِ ثواب توبہ کی حیثیت اختیار کر لے گی۔

قابل حصول نقشۂ کار (available framework) کی جو بات یہاں لکھی گئی، وہ فرد اور جماعت دونوں کے لیے یکساں طورپر نہایت اہم ہے۔ حدیث کی زبان میں وہ اختیار أیسر کی پالیسی ہے، اور فطرت کی زبان میں وہ حقیقت پسندی کی پالیسی۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کو اختیار کئے بغیر اس دنیا میں نہ کوئی فرد کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرسکتا ہے اور نہ کوئی جماعت۔ یہ ایک ایسا اٹل قانون ہے جس میں کسی کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom