سیاسی اختلاف
حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گئی فرمائی ہے کہ میرے بعد حکمرانوں کے اندر بگاڑ پیدا ہوگا۔ لوگ اس سیاسی بگاڑ کی اصلاح کے نام پر حکمرانوں سے لڑیں گے۔ یہ لڑائیاں میری امت کو تباہ کردیں گی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی جنگ سے شدّت کے ساتھ منع فرمایا۔ آپ نے تاکید کی کہ حکمرانوں میں خواہ تم کتنا ہی بگاڑ دیکھو مگر تم ان سے جنگ نہ کرنا۔ تم ان کے مقابلہ میں صرف صبر اور خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا۔
اس سلسلہ میں حدیث کی ہر کتاب میں کثرت سے روایتں آئی ہیں۔ مثلاً رسو ل اللہﷺنے فرمایا: من کرہ من امیرہ شیئا فلیصبرہ (جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیزدیکھے تو وہ اس پر صبر کرے)۔ اس موضوع پر سعودی عرب سے ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے الغلو فی الدین (عبدالرحمن بن مُعلاّ اللویحق)۔ چھ سو صفحے کی اس کتاب میں اس موضوع پر تمام احادیث اور آثار کو جمع کردیا گیا ہے۔ تفصیل کے طالب اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
تجربہ بتاتا ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ لڑائیاں سیاسی اختلاف کی بنا پر پیدا ہوئی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست کبھی پوری طرح بگاڑ سے خالی نہیں ہوسکتی۔ سیاسی اقتدار اور بگاڑ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اس میں کچھ نادر شخصیتوں کا استثناء ہوسکتا ہے۔ مگر عمومی قاعدہ یہی ہے۔
اب ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب سیاسی حکمرانوں میں بگاڑ دیکھتے ہیں تو وہ فوراً اس کی اصلاح کے نام پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ اصلاح سیاست کے نام پر حکمرانوں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ یہ اصلاحی جنگ ہمیشہ فسادی جنگ بن جاتی ہے۔ پوری تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی اصلاح کے نام پر سیاسی حکمرانوں سے لڑائی کی گئی تو اس کے نتیجہ میں صرف بگاڑ اور فساد میں اضافہ ہوا، مزید یہ کہ مسلمانوں کا اجتماعی اتّحاد ٹوٹ گیا۔ مسلمان دو گروہ—حکمراں اورغیر حکمراں میں تقسیم ہوکر آپس میں لڑنے لگے۔ تمام دینی اور تعلیمی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں۔
ایسی حالت میں اہل اسلام کے لیے لازم ہے کہ وہ اخفّ المفسدتین کا طریقہ اختیار کریں۔ ایسی حالت میں حکمراں سے لڑنا زیادہ بڑی برائی ہے اور حکمرانوں سے ٹکراؤ کو اعراض کرتے ہوئے پُرامن دائرہ میں دینی اور تعلیمی خدمات انجام دیتے رہنا چھوٹی برائی۔ اور جب انتخاب چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے درمیان ہوتو بہترین عقل مندی یہ ہے کہ بڑی برائی سے بچا جائے اور چھوٹی برائی کو گوارا کر لیا جائے۔
اتحاد اسی حکمت کی نقد قیمت ہے۔ جب بھی یہ حکیمانہ تدبیر اختیار کی جائے تو امّت کے اندر اتّحاد اور اتفاق کی فضا قائم ہوگی اور جب اس حکیمانہ تدبیر کو چھوڑ دیا جائے تو اس کے بعد لازماً ایسا ہوگا کہ اتحاد اور اتفاق کا خاتمہ ہوجائے گا،اور اسی کے ساتھ تمام تعمیری کاموں کا خاتمہ بھی۔
سیاسی بگاڑ کے موقع پر سوچنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ایک بگاڑ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو درست کریں۔ اس کے مقابلے میں سوچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ہم بگاڑ کو درست کرنے کے لیے اٹھیں تو اس کا عملی نتیجہ کیا ہوگا۔ اسلام کی تعلیم بتاتی ہے کہ اہل ایمان کے لیے صرف دوسرا طریقہ درست ہے، پہلا طریقہ ان کے لیے درست نہیں۔ یعنی عملی نتیجہ کو دیکھ کر اقدام کرنا۔
جب حالات بتاتے ہوں کہ اہل ایمان اگراصلاح کے نام پر ارباب اقتدار کے خلاف اقدام کریں تو اس کا عملی نتیجہ الٹا نکلے گا۔ ایسا اقدام صرف بگاڑ کو بڑھانے کا سبب بنے گا جب صورت حال ایسی ہو تو اہلِ ایمان پر فرض ہوگا کہ وہ عملی اقدام سے اپنے آپ کو بچائیں۔ وہ دعا کریں اور خاموشی کے ساتھ پر امن دائرہ میں اصلاح کی کوشش کریں۔ ایسی حالت میں اہل اقتدار کے خلاف اقدام کرنا ایک گناہ کاکام ہے، وہ کوئی ثواب کا کام نہیں۔