اتحاد ایمان کا حصّہ ہے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابرو، وکونوا عباد اللہ اخوانا، ولا یحل لمسلم ان یہجر اخاہ فوق ثلاث لیال (رواہ ابو داؤد) یعنی آپس میں ایک دوسرے سے بغض نہ کرو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو۔ سب اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن جاؤ۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے۔

یہ حدیث بظاہر حکم کی زبان میں ہے مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ بتا رہی ہے کہ ایمان آدمی کے اندر کس قسم کی صفات پیدا کرتا ہے۔ خدا کی معرفت انسان کو کس قسم کے کردار والا انسان بناتی ہے۔ اس حدیث میں در اصل کسی ایمان والے آدمی کی ان صفات کو بتایا گیا ہے جن کو اجتماعی صفات کہا جاتا ہے۔ گویا کہ یہ چیزیں ایمان کی اجتماعی پہچان ہیں۔

ذاتی دائرہ میں ایمان اللہ سے تعلق کا نام ہے۔ لیکن جب ایمان والے لوگ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہیں تو اس وقت باہمی اختلاط کے نتیجے میں بار بار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب معاملہ صرف خدا اور انسان کاہو تو وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوگا، مگر جب انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہیں، تو ایسی صورت میں ایک دوسرے کے خلاف مسائل کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح اجتماعی زندگی ایک پہچان بن جاتی ہے۔ جو یہ بتائے کہ لوگوں کے اندر ایمان کی سچی اسپرٹ موجود ہے یا نہیں۔

اللہ کے وہ بندے جو اللہ کو حقیقی معنوں میں اپنا معبود بنالیں، ان کا دل ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کا دل خدا کی بلندیوں میں اٹکا ہوا ہو، وہ دنیا کی پستیوں میں لت پت ہو کر نہیں رہ سکتے۔ ایسے لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان اس طرح رہنے لگتے ہیں جیسے ہوا لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے، مگر وہ کسی سے نہیں ٹکراتی۔ جیسے پھول کی مہک ہر ایک کو پہنچتی ہے مگر وہ ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتی۔ جیسے روشنی ہر ایک کے پاس آتی ہے مگر وہ کسی سے خوش اور کسی سے خفا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اسی طرح ایک دوسرے کے مکمل ساتھی ہوتے ہیں۔ جیسے باغ کے درخت ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی قسم کی باہمی رنجش کے ایک مقام پر کھڑے ہوئے ہوں۔

اسلام کے رزق سے آدمی کو حصہ ملا ہے یا نہیں، اس کی ایک واضح پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے درمیان اس طرح رہنے لگے کہ اس کو نہ کسی سے بغض ہو اور نہ کسی سے حسد۔ کسی قابل شکایت بات پیش آنے پر وہ اپنے بھائی سے بگڑ نہ جاتا ہو، وہ سارے لوگوں کو اللہ کی عیال سمجھ کر اس طرح رہ رہا ہو جیسے ایک باپ کی اولاد مل جل کر رہتی ہے۔ اس قسم کا ذہن جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایسا ہوجائے گا کہ کسی بھائی سے اگر اس کا بگاڑ ہو جائے اور وقتی تأثر سے مغلوب ہو کر وہ اس سے جدائی اختیار کرلے تو تین دن گزرتے گزرتے اس کا سینہ پھٹنے لگے گا۔ وقتی جذبہ نے اس کو جس بھائی سے دور کیا تھا، اس سے وہ اپنے رب کی خاطر دوبارہ اس طرح مل جائے گا جیسے کہ اِس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom