اتحاد میں خدا کی مدد
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ عزوجل: انا ثالث الشریکین مالم یخن احدہما صاحبہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں دو شریکوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہوں، جب تک ان میں کا کوئی ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھ کے ساتھ خیانت نہ کرے۔
اس حدیث کو لفظی طورپر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوآدمی اگر خدا کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں تو ان کے ساتھ خدا خود ایک تیسرے رکن کی حیثیت سے شریک ہوجاتا ہے اور جس اتحادی مجموعہ میں خود خدا شریک ہوجائے اس کی طاقت بلا شبہہ بے پناہ حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کا اتحاد ناقابل تسخیر حد تک مضبوط ہوجاتا ہے۔
یہ کوئی پر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب کچھ لوگ صرف اللہ کی خاطر متحد ہوں تو ان کی نفسیاتی حالت عام لوگوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے کو اپنی ذات کی نظر سے دیکھنے کے بجائے خدا کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ انہیں اگر اپنے ساتھی سے کوئی شکایت ہو تو وہ یہ سوچ کر اسے بھلا دیتے ہیں کہ میں تو خدا کے لیے متحد ہوا ہوں نہ کہ کسی انسان کے لیے۔ کسی موقع پر اگر ان کی انا کو چوٹ لگتی ہے تو وہ اس کا اثر نہیں لیتے کیوں کہ وہ پہلے ہی اپنی اَنا کو خدا کے لیے چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں انہیں کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ میں نے آخرت کا فائدہ لینے کے لیے اس اتحاد میں شرکت کی ہے نہ کہ دنیا کا فائدہ لینے کے لیے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کے لیے متحد ہونا اپنے آپ میں ایک طاقت ہے۔ خدا کے لیے متحد ہونے والے لوگوں میں وہ مزاج بن جاتا ہے جو اختلاف کا قاتل ہے۔ یہ رباّنی مزاج اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ کوئی بھی اختلافی سبب ان کے اتحاد کو نہ توڑے۔ وہ تمام اختلافات کو بھلا کر پوری مضبوطی سے اتّحاد کی رسّی کے ساتھ بندھے ہوئے رہیں۔
اتحاد کی یہ برکت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک اتّحادیوں میں خیانت کی ذہنیت نہ پیدا ہو۔ خیانت کیا ہے۔ خیانت یہ ہے کہ ایک شریکِ اتّحاد دوسرے شریکِ اتّحاد کا خیر خواہ نہ رہے، ایک شریکِ اتّحاد، دوسرے شریک اتّحاد کو غیر سمجھ لے۔ جب لوگوں میں یہ نفسیاتی برائی آجائے تو لوگوں کے دل ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے کو اپنا سمجھنے کا مزاج باقی نہیں رہتا۔ وہ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو ان کے اتحاد کی تمام اینٹیں ہل جاتی ہیں۔ ان کا آپس کا جوڑ ختم ہوجاتا ہے۔ اتّحاد کے افراد پہلے اگر جمی ہوئی اینٹوں کے مانند تھے تو اب وہ بکھری ہوئی اینٹوں کے مانند ہوجاتے ہیں۔ اب ان کا اتحاد بھی ختم ہوجاتا ہے اور ان کی طاقت بھی۔
اتحاد پیدا ہونا نہایت آسان ہے، مگر اتحاد کو باقی رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کے بعد لازماً آپس میں شکایتیں پیدا ہوجاتیں ہیں۔ ایک کو دوسرے سے نقصان پہنچتا ہے۔ اب لوگوں کے لیے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک خیانت کا اور دوسرا اخلاص کا۔ اتحادی افراد میں جب خیانت کامزاج آجائے تو ان کی شکایتیں بڑھتی رہیں گی۔یہاں تک کہ ان کا اتّحاد ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس جب لوگوں میں اخلاص کا مزاج ہو تو ہر شکایت پیدا ہوتے ہی ختم ہوجائے گی۔ کوئی بھی شکایت اختلاف کے درجے تک نہ پہنچے گی۔