ہر حال میں خیر
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجباً لامر المؤمن! إنّ امرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد الا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ، (صحیح مسلم، کتاب الزہد) یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے پھر وہ خوشی اُس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پھر وہ تکلیف اس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔
غیر مومنانہ روش یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو خوشی ملے تو وہ اُس پر فخر کرے۔ اور اگر اُس کو تکلیف پہنچے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طور پر بُرائی کی حالتیں ہیں۔ اس کے برعکس مومنانہ روش یہ ہے کہ آدمی کو خوشی ملے تو اُس کا سینہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے۔ اور اگر اُس کو تکلیف کا تجربہ ہو تو وہ اُس کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اُ س پر راضی رہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح تنبیہ کی گئی ہے: پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اُس کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتاہے تو وہ کہتاہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔ (الفجر ۱۵۔۱۶)
موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔