عالی شان مسجدیں

سنن ابی داؤد (کتاب الصلٰوۃ، با ب فی بناء المساجد) میں عبد اللہ بن عباس کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما امرت بتشئید المساجد‘‘ قال ابن عباس لتزخرفنہا کما زخرفت الیہود والنصاریٰ۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے بلند و بالا مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ تم لوگ ضرور مسجدوں کو مزین کروگے جس طرح یہود اور نصاریٰ نے اپنی عبادت گاہوں کو مزین کیا۔ایک اور روایت میں ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہم کو بلند وبالا مسجدیں بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ (نہینا عن تشئید المساجد)

یہ پیشین گوئی موجودہ زمانہ میں ایک واقعہ بن چکی ہے۔ اورہر ملک میں اس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جہاں بھی کچھ مسلمان آبادہیں وہاں عالی شان مسجدیں بنائی جارہی ہیں۔ کہیں قصر نما، کہیں قلعہ نما، اور کہیں تاج محل نما۔ شاندار مساجد تعمیر کرنے کا یہ کام امریکہ اور یورپ میں مزید اضافہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں وہاں زیادہ بہتر ٹکنیکی سہولتیں حاصل ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ عالیشان مسجدیں بنانے کو اسلام میں کیوں ناپسند کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسجدوں کی عالیشان تعمیرات امت کے روحانی زوال کی علامت ہیں۔ کیوں کہ جب روح (اسپرٹ) ختم ہوتی ہے تو اس کی تلافی کے لیے مظاہر میں اضافہ ہوجاتاہے۔

عالیشان مسجدوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ نمود ونمائش والی دینداری کی علامت ہیں۔ شاندار عمارتوں میں نمود ونمائش کے جذبہ کو بے حد تسکین ملتی ہے۔ وہ شکست خوردہ نفسیات کے لئے عظمت و فخر کی تسکین کا سامان ہیں۔موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی عام نفسیات یہ ہے کہ انہوں نے پولٹیکل گلوری کو کھو دیا ہے۔ ایسی حالت میں درودیوار کی عظمت انہیں یہ فرضی تسکین دیتی ہے کہ اب بھی انہوں نے زمین پر اپنی عظمت کا نشان قائم کررکھا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom