بیمار ی سے تطہیر
حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص بیمار ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کہا کہ: لا بأس، طہور إن شاء اللہ (صحیح البخاری، کتاب المرضٰی، باب ما یقال للمریض) یعنی کوئی حرج نہیں، انشاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر اس کے گناہ دھل جاتے ہیں، وہ خود بخود ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ در اصل ایک معلوم شعوری واقعہ ہے جو ایک سچے مومن کے ساتھ پیش آتا ہے۔
کوئی آدمی اگر بیمار نہ ہو، اُس کا جسم مکمل طورپر ایک صحت مند جسم ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کے سینہ میں دردمندانہ احساسات کی پرورش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
لیکن جب ایک مومن بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔
اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میں اصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میں صرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔