ایمانی کیفیات
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرض علی ربی عزو جل لیجعل لی بطحاء مکۃ ذہبا فقلت لا یا رب، ولکن اشبع یوماً و اجوع یوماً فاذا جعت تضرعت الیک وذکرتک واذا شبعت حمدتک وشکرتک (مسند احمد ۵؍۲۵۴) یعنی اللہ نے یہ پیشکش فرمائی کہ تمہارے لیے مکہ کی وادی کو سونابنا دیا جائے۔ میں نے کہا کہ اے میرے رب، نہیں۔ بلکہ میں چاہتاہوں کہ میں ایک دن سیر ہوکر کھاؤں اورایک دن بھوکا رہوں۔ پھرجب مجھے بھوک لگے تو میں تجھ سے تضرع کروں اورتجھ کو یاد کروں اور جب مجھے سیری حاصل ہو تو میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمانی کیفیات کاتعلق براہ راست طورپر حالات سے ہے۔ زندگی میں جب بھی کوئی صورت حال پیش آتی ہے تو اس کے لحاظ سے مومن کے لیے ایمانی کیفیات کا سرمایہ موجود رہتا ہے۔ جس طرح احوال کی بہت سی قسمیں ہیں اسی طرح ایمانی کیفیات کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ اور ہر قسم میں اُس کے مطابق، آدمی کے اندر ایمانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔موجودہ دنیا میں آدمی کو امتحان کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسی لیے یہاں ہر عورت اور مرد کے ساتھ طرح طرح کے احوال پیش آتے ہیں۔ ایسا اسی لیے ہوتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون اپنی جانچ پرپورا اُترا اور کون اس میں ناکام ہوگیا۔
اس دنیا میں آرام کی حالت ہو یا تکلیف کی حالت ہو، دونوں حالتیں اضافی ہیں۔ دونوں حالتوں میں اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ اُس کے اندر کسی عورت یا مرد سے جومطلوب رویہ درکار تھا اس کا ثبوت اُس نے دیا یا نہیں دیا۔ اصل اہمیت حالات کے مقابلہ میں ردعمل کی ہے، نہ کہ خود حالات کی۔یہ حقیقت جس عورت اور مرد پر واضح ہوجائے اُس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اُس کی نظر آرام اور تکلیف پر نہ ہوگی بلکہ اس بات پر ہوگی کہ ملے ہوئے حالات میں اس نے کس قسم کے رد عمل کا ثبوت دیا۔ شکر کا یا ناشکری کا، صبر کا یا بے صبری کا۔ ایسے لوگ ہر حال میں اپنا احتساب کریں گے، نہ کہ خارجی حالات کا شکوہ کرتے رہیں۔