رمضان اور جنگ

کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رمضان کا مہینہ شہر الفرقان ہے، یعنی یہ مہینہ فتح کا مہینہ ہے۔ اُن کے نزدیک رمضان کے مہینے میں اگر جہاد (بمعنی قتال) کیا جائے تو فتح یقینی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ پچھلے برسوں میں کچھ لوگوں نے اس خیال کو لے کر رمضان کے مہینے میں اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ لیکن یہ جنگ یک طرفہ طورپر’’مجاہدین‘‘ کی تباہی پر ختم ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ اِس معکوس تجربے کے باوجود لوگوں کے نظریے میں فرق نہیں آیا۔ وہ اب بھی رمضان کے مہینے میں جنگ کی باتیں کررہے ہیں۔

رمضان کے مہینے کو فتح کا مہینہ سمجھنے کا ماخذ کیا ہے۔ اس کا ماخذ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنگِ بدر پیش آئی۔ یہ جنگ ۱۷ رمضان ۲ ہجری کو ہوئی۔ اِس جنگ میں رسول اور اصحابِ رسول کو فتح حاصل ہوئی۔ اس لیے یہ سمجھ لیا گیا کہ رمضان کا مہینہ فتح کا مہینہ ہے،مگر یہ ایک بے اصل بات ہے۔ بدر کی لڑائی کا رمضان کے مہینے میں پیش آنا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا انتخاب(choice) نہ تھا۔ بدر کی جنگ ایک دفاعی جنگ تھی۔ وہ رمضان کے مہینے میں اس لیے پیش آئی کہ فریقِ مخالف کا لشکر اسی مہینے میں اقدام کرکے مدینے کے قریب بدر کے مقام پر پہنچا۔ یہ فریقِ مخالف کی طرف سے یک طرفہ اقدام تھا او راس مسلّح اقدام کی بنا پر بدر کی دفاعی جنگ پیش آئی۔

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بدر کی لڑائی کے علاوہ بھی کچھ اور لڑائیاں پیش آئی ہیں۔ مثلاً غزوۂ اُحد اور غزوۂ حُنین۔ مگر یہ د وسری لڑائیاں رمضان کے مہینے میں نہیں ہوئیں۔ احد کی لڑائی مدینہ کے پاس ۶شوال ۳ ہجری میں پیش آئی، اورحنین کی لڑائی ۱۱ شوال ۸ ہجری میں ہوئی۔ اگر ایسا ہوتا کہ بدر کی لڑائی کا رمضان کے مہینے میں پیش آنا، پیغمبر اسلام کا اپنا انتخاب ہوتا تو احد اور حنین کی لڑائیاں بھی رمضان کے مہینے میں پیش آتیں۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو یہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رمضان کے مہینے کا کوئی تعلق قتال اورجنگ سے نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جنگ کبھی بھی اہلِ اسلام کا اپنا انتخاب (choice) نہیں ہوتا۔ اسلام میں جب بھی کوئی جنگ پیش آتی ہے تو وہ فریقِ مخالف کے مسلّح اقدام کے نتیجے میں صرف دفاعی طورپر پیش آتی ہے۔ اور یہ واضح بات ہے کہ اقدام کرنے والے کے لیے تو تاریخ کا تعین اس کا اپنا انتخاب ہوتا ہے، مگر دفاع کرنے والے کے لیے تاریخ کا تعین اس کا اپنا انتخاب (choice) نہیں ہوسکتا۔

حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ وسئلوا اللہ العافیۃ( صحیح البخاری) یعنی تم لوگ دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت (امن) مانگو۔ اِس حدیثِ رسول سے جنگ کے بارے میں اسلام کا بنیادی اصول معلوم ہوتا ہے۔ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت استثنا (exception) کی۔ اسلام میں جنگ ایک مجبورانہ فعل ہے نہ کہ اختیارانہ فعل۔ اسلام میں جنگ کی صورتِ حال خود اسلام کی طرف سے پیدا نہیں کی جاتی۔ یہ دراصل فریقِ مخالف ہے جو جنگ کی صورتِ حال پیدا کرکے اہلِ اسلام کو دفاعی طورپر مسلّح ٹکراؤ کے لیے مجبور کرتا ہے۔

جہاں تک رمضان کے مہینے کی بات ہے تو حدیث میں رمضان کو شہر الصبر (البیہقی) کہاگیا ہے، یعنی صبر کا مہینہ۔ رمضان کا مہینہ اِس بات کی تربیت کا مہینہ ہے کہ لوگ اپنے آپ پر کنٹرول کرکے رہنا سیکھیں۔ وہ اپنی خواہشوں پر لگام لگائیں۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں۔ وہ بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرکے اپنے اندر روحانیت پیدا کریں۔ ذکر اور تلاوت اور نماز کی کثرت سے وہ خدا کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ رمضان کے مہینے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو آخری حد تک خدا سے قریب کرے۔ اور یہ قربت اُسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اپنے آپ کو انسانوں کی دنیا سے دور لے جائے اور اپنے آپ کو خدا کی دنیا سے قریب کرے۔

اِن حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ رمضان کا مہینہ امن کا مہینہ ہے، وہ جنگ کا مہینہ نہیں۔ رمضان کا مہینہ اپنی داخلی فطرت کو جگانے کا مہینہ ہے، وہ خارجی نزاعات میں سرگرم ہونے کا مہینہ نہیں۔ رمضان کا مہینہ خدا کی یاد میں گم ہونے کا مہینہ ہے، وہ انسانوں سے الجھنے اور خون بہانے کا مہینہ نہیں۔حدیث میں آتا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آیا اور رمضان کا نیا چاند آسمان پر دکھائی دیا تو پیغمبر اسلام کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: اللہمّ أہلّہ علینا بالأمن والإیمان، والسّلامۃ والاسلام۔ (الترمذی:کتاب الدعوات، الدارمی:کتاب الصوم، مسند احمد)یعنی اے خدا، تو رمضان کے چاند کو ہمارے اوپر امن اور ایمان کے ساتھ اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ ظاہر فرما۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے کا استقبال اس احساس کے ساتھ فرمایا کہ وہ اہلِ اسلام کے لیے امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئے اور اہلِ اسلام کے درمیان امن اور سلامتی کا ماحول بنائے۔ پیغمبر اسلام کے یہ الفاظ اِس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ رمضان کے مہینے کا کوئی تعلق قتال اور جنگ سے نہیں، بلکہ وہ اس لیے ہے کہ لوگوں کے اندر امن کے جذبات پیدا کرے اور سماج میں امن کو فروغ دے۔

قرآن میں روزے کا حکم دیتے ہوئے اس کا یہ فائدہ بتایاگیا ہے کہ: لعلکم تتّقون (البقرہ: ۱۸۳)یعنی رمضان کے مہینے کا روزہ اس لیے فرض کیاگیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ لوگ متّقیانہ زندگی گذارنا سیکھیں، وہ برائیوں سے بچ کر زندگی گذارنے کی تربیت حاصل کریں۔

تقویٰ کیا ہے۔ اس کی وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ خلیفۂ ثانی عمر فاروق نے ایک سینئر صحابی اُبی بن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے امیر المؤمنین، کیا آپ کسی ایسے راستے سے گذرے ہیں جہاں دونوں طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ ابی بن کعب نے پوچھا کہ اُس وقت آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور بچتا ہوا اُس سے گذر گیا۔ ابی بن کعب نے کہا : ذلک التّقویٰ۔ یعنی اِسی روش کا نام تقویٰ ہے۔ (القرطبی، جلد اوّل، صفحہ ۱۶۲)

رمضان کا مہینہ تقویٰ کا مہینہ ہے۔ اب مذکورہ قولِ صحابی کی روشنی میں اس معاملے کی وضاحت کی جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ رمضان کا مہینہ کانٹوں سے نہ الجھنے کا مہینہ ہے۔ ایسی حالت میں کتنا عجیب ہوگا کہ رمضان کے مہینے کو کانٹوں سے الجھنے کا مہینہ بنا دیا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom