مذہب اور سائنس

مذہب کیا ہے۔ مذہب زندگی کی سائنس ہے۔ اس کے مقابلے میں معروف سائنس، طبیعیات کی سائنس ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، طبیعیات کی سائنس یا فزیکل سائنس میں پچھلے پانچ سو سال کے اندر بہت ترقی ہوئی ہے، جب کہ اِس مدت میں مذہب میں کوئی ترقی نہ ہوسکی۔

مثلاً پانچ سوسال پہلے انسان سادہ قسم کی اونٹ گاڑی یا گھوڑا گاڑی پر سفر کرتا تھا، مگر پچھلے کئی سو سال کی مسلسل ترقی کے نتیجے میں اب انسان، سواری کے میدان میں بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے—بائسکل، اسٹیم شِپ، موٹر کار، ہوائی جہاز، وغیرہ، اِس ترقی کے نمونے ہیں۔

اس کے مقابلے میں مذہب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مذہب پر جُمود کا عالم طاری ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہب، پانچ سو سال پہلے جہاں تھا وہیں وہ آج بھی پایا جاتا ہے۔ مذہب میں کوئی حقیقی ترقی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حالت ہر مذہب کی ہے۔ اس معاملے میں کسی مذہب کا کوئی استثنا نہیں۔ طبیعیاتی ترقیوں کے سیلاب میں مذہب ایک غیر ترقی یافتہ ڈسپلن بنا ہوا ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ طبیعیات کی دنیا میں پچھلے پانچ سو سال سے انکوائری(inquiry) کا عمل جاری ہے۔ ہر چیز کی تحقیق ہورہی ہے۔ ہر چیز کھلے ڈائلاگ کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں طبیعیات کے شعبوں میں ردّوقبول کا عمل جاری ہے۔ مثلاً پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے، مگر مشاہدہ اور تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں، بلکہ سورج درمیان میں ہے اور زمین اور دوسرے سیّارے وسیع خلا میں اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نئی دریافت ہوئی تو اس کے فوراً بعد علما ئے فلکیات نے قدیم روایتی نظریے کو ترک کرکے جدید سائنسی نظریے کو اختیار کرلیا۔

یہی انکوائری کا عمل ترقی کا اصل سبب ہے۔ لیکن مذہب کے میدان میں انکوائری کا یہ عمل جاری نہ ہوسکا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مذہب کی دنیا میں جُمود آگیا۔ مذہب کا عمل ایک مقام پررُک کر رہ گیا۔

موجودہ زمانے میں مذہب کو ٹریڈیشن (tradition) کہاجاتا ہے۔ مثلاً مذہب یہودیت کو یہودی ٹریڈیشن، مذہب عیسائیت کو عیسائی ٹریڈیشن اور مذہب اسلام کو اسلامی ٹریڈیشن، وغیرہ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ مذہب کو ایک جامد روایت مان لیا گیا، ایک ایسی روایت جو نسل در نسل ایک ہی حالت پر چلی جارہی ہے، حالاں کہ سائنس میں ایسا نہیں ہوا۔ سائنس کی دنیا میں ایسا نہیں ہوا کہ برٹش سائنس کو برٹش ٹریڈیشن، جرمن سائنس کو جرمن ٹریڈیشن اور امریکن سائنس کو امریکن ٹریڈیشن کہا جانے لگے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح معروف سائنس ایک سائنس ہے، اسی طرح مذہب بھی ایک سائنس ہے۔ مذہب کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مذہب میں بھی آزادانہ انکوائری اور کھُلا ڈائلاگ اُسی طرح جاری کیا جائے جس طرح وہ سائنس میں عملاً جاری ہے۔ اِس طرح کی انکوائری یا ڈائلاگ جاری نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ مذہب میں قدیم زمانے میں کم تر واقفیت کی بنا پر جو باتیں مان لی گئیں، وہی بدستور آج تک جاری ہیں۔ ضرورت تھی کہ بعد کی تحقیقات کو لیتے ہوئے قدیم بے اصل نظریات کو ترک کردیا جائے اور ان کی جگہ اُن باتوں کو مان لیا جائے جو بعد کی تحقیقات سے انسان کے علم میں آچکی ہیں۔

مذاہب کے حلقے میں باشعور لوگوں کے اندر خود بھی اس کا احساس پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے درمیان بار بار اِس قسم کی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، اگر چہ موافق فضا نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریکیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ مثلاً ہندو ازم میں آریہ سماج کی تحریک، جو مورتی پوجا کے خلاف اٹھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ مورتی پوجا ویدوں میں نہیں ہے، یہ بعد کا اضافہ ہے۔ اِسی طرح بھکتی موومنٹ، جو ہندوازم میں بڑھی ہوئی ریچول ازم (Ritualism) کے خلاف اٹھی۔ اُس نے رسمی اعمال کے بجائے ڈووشن (devotion) پَر زور دیا۔ اِسی طرح بُدھ ازم میں، نیو بدھ ازم(neobuddhism) کی تحریک۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بعد کو پیدا ہونے والے رسم ورواج سے پاک کرکے بدھ ازم کو ابتدائی دور کے بدھ ازم کی طرف واپس لے جانا۔

یہی معاملہ مسیحیت کا ہے۔ ۳۲۵ء میں ہونے والی نیقیا کاؤنسل (Nicaea Council) کے بعد مسیحیت میں کافی تبدیلی آئی۔ اب مسیحی تعلیمات کے بجائے چرچ کی روایات، مسیحیت کا ماخذ بن گئیں۔ اس کے بعد مسیحی حلقے میں سولھویں صدی میں رفارمیشن (Reformation) کی تحریک اٹھی جو گویا چرچ سے بائبل کی طرف واپسی کی تحریک تھی، مگر وہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح، ڈی ہیلی نائزیشن(Dehellenization) کی تحریک، جو انیسویں صدی کے آخر میں اٹھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یونانی اور رومی اثرات سے مسیحیت کو پاک کیا جائے، اگرچہ یہ تحریک زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔

اس معاملے میں اسلام کا معاملہ مختلف ہے۔ دوسرے مذاہب کے برعکس، اسلام میں اصل متن کامل طورپر محفوظ ہے۔ یہاں جو بگاڑ آتا ہے وہ مسلم قوم میں آتا ہے نہ کہ خود اسلام میں۔ اس لیے اسلام میں رفارمیشن جیسی تحریک کی ضرورت نہیں۔ البتہ اسلام میں احیاء (Revivalism) کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ مسلم اضافوں سے پاک کرکے اسلام کو اس کی اصل صورت میں سامنے لایا جائے۔

مثلاً مانزم(monism) کے عقیدے کو لیجئے، جس کو اَدوئت واد،یا وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ یعنی حقیقت کو ایک سنگل وحدت کے روپ میں دیکھنا۔ پانچ ہزار سال پہلے یونانی فلسفیوں نے آئڈنٹٹی کرائسس کے سوال پر غور کرنا شروع کیا۔انھوں نے یہ فرض کیا کہ انسان ایک کُلی حقیقت کا حصہ ہے۔ وہ صرف اِس لیے اُس سے الگ ہوا ہے کہ ایک دن دوبارہ وہ اس سے مل جائے۔ انسان ایک الگ وجود کی حیثیت سے اپنی شناخت نہیں پارہا تھا، لیکن جب اس نے یہ مان لیا کہ وہ ایک عظیم تر حقیقتِ کُلّی کا ذاتی جُز ہے، تو اس نے گویا اپنی شناخت پالی۔ کائنات کے اندر اس کو اپنی پہچان معلوم ہوگئی۔ یہ نظریہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلا۔

مگر اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مانزم کا نظریہ صرف ایک فلسفیانہ تخیل تھا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ بیسویں صدی میں فلکیاتی سائنس میں جو تحقیق ہوئی ہے، اس نے اِس مفروضے کو بے بنیادثابت کردیا ہے۔ بِگ بینگ(Big Bang) کا نظریہ جو سائنسی حلقے میں اب ایک مسلّمہ بن چکا ہے، وہ ثابت کرتا ہے کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک نہیں ہوسکتے۔ خالق بلا شبہہ تخلیق سے الگ ہے، اسی لیے وہ تخلیق کا واقعہ ظہور میں لا سکتا ہے۔ اگر خالق خود تخلیق کا حصہ ہو تو تخلیق کا واقعہ کبھی وجود ہی میں نہ آئے اور تخلیق ہمیشہ کے لیے غیر موجود بنی رہے۔

بگ بینگ کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ تیرہ بلین سال پہلے پوری کائنات ایک واحد سپر ایٹم کی صورت میں تھی۔ پھر خارجی مداخلت کے ذریعے اس کے اندر انفجار (explosion) ہوا۔ اِس انفجارکے بعد سپر ایٹم کے ذرّات خلامیں پھیل گیے اور موجودہ دنیاوجود میں آئی۔ سپر ایٹم کے اندر یہ انفجار، داخلی سبب کے ذریعے نہیں ہوا، بلکہ وہ واضح طورپر ایک خارجی مداخلت کار (intervener) کے ذریعے ہوا۔ اور جب یہ مان لیا جائے کہ زیرِ مداخلت(entervened) سپر ایٹم الگ تھا اور مداخلت کار (intervener) الگ، تو اپنے آپ ادوئت واد یا مانزم کا نظریہ ختم ہوجاتا ہے۔

قدیم زمانے میں انسان نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس نے فرض کرلیا کہ چاند ایک دیوتا ہے۔ اِس طرح چاند کو ایک آسمانی دیوتا مان لیا گیا اور اس کی پرستش کی جانے لگی۔ بعد کو جب مزید تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ چاند کوئی روشن وجود نہیں۔ وہ سورج کی روشنی پڑنے سے چمکتا ہے۔ بعد کو جب خلائی سفر میں ترقی ہوئی تو انسان چاند کی طرف پرواز کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔ یہاں تک کہ امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ(Neil Armstrong) ۲۱جولائی ۱۹۶۹ کو چاند کی سطح پر اتر گیا۔ یہ پہلا انسان تھا جو چاند کی سطح پر اُترا۔

اِس براہِ راست مشاہدے کے بعد معلوم ہوا کہ چاند صرف ایک خشک چٹان ہے، وہ نہ تو روشن ہے اور نہ گول، اور نہ اس کے اندر کوئی امتیازی صفت ہے۔ اِس دریافت نے چاند کے تقدّس کا نظریہ علمی طورپر ختم کردیا۔ ضرورت تھی کہ اس کے بعد چاند کو دیوتا سمجھنے کے عقیدے کو مکمل طورپر ترک کر دیا جائے، لیکن ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔

یہی معاملہ آوا گَون(cycle of life) کے نظریے کا ہے۔ یہ نظریہ اِس تصور پر قائم ہے کہ آدمی اپنے پچھلے جنم کے اعمال کے مطابق، دوبارہ زمین پر پیدا ہوتا ہے اور پھر اپنے کَرم کی سزا بھُگت کر مر جاتا ہے، تاکہ اسی طرح دوبارہ پیدا ہو اور اپنے کرم کا نتیجہ بھُگتے۔ یہ سلسلہ ۸۰ لاکھ سال سے بھی زیادہ مدت تک بار بار جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ نِروان (نجات) کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔

یہ عقیدہ ہزاروں سال پہلے ایک فلسفیانہ نکتے کے طورپر لوگوں کے سامنے آیا۔ فلسفی نے دیکھا کہ لوگ پیدا ہوتے ہیں تو اُن میں سے کوئی امیر ہوتا ہے اور کوئی غریب، کوئی محروم ہوتا ہے اور کوئی پائے ہوئے ہوتا ہے۔ اس معاملے کو اس نے انسان کے’’ کرم‘‘ سے جوڑ کر آواگون کا فلسفہ بنا لیا۔ دھیرے دھیرے یہ فلسفیانہ نکتہ ایک باقاعدہ مذہبی عقیدہ بن گیا اور کروڑوں لوگ اِس کو درست سمجھنے لگے۔

مگر موجودہ زمانے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، انھوں نے بتایا ہے کہ محروم اور غیر محروم (haves and have nots) کا فرق انسانی عمل (کرم) کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک قانونِ فطرت ہے۔ فطرت کے نظام میں عدم مساوات (inequality) کا طریقہ رکھا گیا ہے۔ اِس کی وجہ سے انسانی سماج میں چیلنج اور کامپٹیشن کا ماحول قائم ہوتا ہے۔ تمام ترقیاں اِس چیلنج اور کامپٹیشن کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ (ملاحظہ ہو—آرنلڈ ٹائن بی کی ضخیم کتاب: دی اسٹڈی آف ہسٹری)

اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان امیر اور غریب، پس ماندہ اور ترقی یافتہ کا فرق کوئی برائی کی بات نہیں، بلکہ وہ ایک مطلوب فطری نظام ہے، وہ تمام انسانی ترقی کا ضامن ہے۔ اِس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد ضرورت ہے کہ آواگون کے مفروضے کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے۔ اور یہ مان لیا جائے کہ آواگون کا نظریہ محض ایک فلسفیانہ لطیفہ (joke) تھا، نہ کہ کوئی حقیقی نظریہ۔

اِسی طرح روحانیت کے میدان میں ہزاروں سال سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ انسان کا دل(heart) رُوحانی معرفت کا خزانہ ہے۔ دل کا مراقبہ (meditation) کرکے اِس روحانی خزانے کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ اتنا پھیلا کہ تمام روحانی اسکول نے اس کو اختیار کرلیا۔ مگر موجودہ زمانے میں انسانی جسم پر جو تحقیقات ہوئی ہیں، اُن سے یقینی طورپر ثابت ہوجاتا ہے کہ دل کسی بھی قسم کے معارف کا خزانہ نہیں، وہ صرف گردشِ خون (circulation of blood) کا ذریعہ ہے۔ فکر اور جذبات دونوں کا مرکز یکساں طورپر انسان کا ذہن (mind) ہے۔ اب اہلِ علم کے درمیان اِس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں۔

اِس تحقیق کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ اِس پورے معاملے پر نظر ثانی کی جائے، اور پھر مبنی بَر قلب روحانیت(heart-based spirituality) کے نظریے کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور اس کے بجائے مبنی بَر ذہن روحانیت(mind-based spirituality) کے نظریے کو اختیار کرلیا جائے۔

قدیم زمانے میں مذہب کو ایک مقدس چیز سمجھا جاتا تھا۔ اِس بنا پر مذہب کا تنقیدی جائزہ ایک امرِ ممنوع بنا ہوا تھا، مگر موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے اثر سے یہ ہوا کہ جس طرح دوسرے تمام شعبوں کا تنقیدی جائزہ لیاجارہا تھا، اسی طرح مذہب کا بھی تنقیدی جائزہ لیا جانے لگا۔ اِس شعبۂ تحقیق کو اب تاریخی انتقاد (historical criticism) کہاجاتا ہے۔ اِس تحقیق و تنقید کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام مذاہب بعد کی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب غیر تاریخی بن چکے ہیں، ہر مذہب گویا کہ ایک میتھا لوجی ہے۔ جس کے پیچھے کوئی تاریخی سند(historical credibility) موجود نہیں۔

مذاہب کے اِس عموم میں صرف ایک استثنا ہے، اور وہ مذہبِ اسلام کا ہے۔ خالص علمی جائزے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام مذاہب میں صرف اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کو پورے معنوں میں تاریخی مذہب کہاجاسکتا ہے۔ ایسی حالت میں علم کا تقاضا ہے کہ دوسرے مذاہب کو قابلِ احترام اثاثہ سمجھتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ عملی طورپر صرف اسلام قابلِ اعتبار مذہب ہے، الہامی سچائی کو جاننے کے لیے اسلام ہی واحد مستند ذریعے کی حیثیت رکھتا ہے۔

مسیحی پوپ(Pope Benedict XVI) نے ۱۲ستمبر ۲۰۰۶ کو ویسٹ جرمنی کی یونیورسٹی ریجنس برگ(Regensburg) میں ایک لکچر دیا۔ یہ لکچر سات صفحات پر مشتمل تھا۔سات صفحے کے اِس لکچر کا عنوان یہ تھا:

Faith and Reason

مسیحی پوپ نے اپنے اِس لکچر میں چودھویں صدی عیسوی کے بازنطینی کنگ، مینویل دوم (Manual II) کے ایک قول کو نقل کیا تھا۔ وہ قول یہ تھا—مجھے محمد کی لائی ہوئی کوئی ایسی بات بتاؤ جو نئی ہو:

Show me just what Muhammad brought that was new.

بازنطینی کنگ کی یہ بات پوپ نے کسی تنقید کے بغیر نقل کی ہے۔ مگر بلا شبہہ یہ ایک ایسی بات ہے جو خلافِ واقعہ بھی ہے اور غیر سنجیدہ بھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ وہ کوئی نئی چیز لائے ہیں، یا انھوں نے کوئی نیا مذہب پیش کیا ہے۔انھوں نے جو کیا وہ صرف یہ تھا کہ پچھلے مذاہب، جو ملاوٹ کا شکار ہوگیے تھے اور اِس بنا پر اصل خدائی مذہب ان کے یہاں گم ہوکر رہ گیا تھا، پیغمبر اسلام نے اس کی تصحیح کی۔ انھوں نے خدا کی مددسے خدا کے دین کا اصل ورژن(version) دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہی پیغمبرِ اسلام کا اصل کنٹری بیوشن ہے۔ یہ کنٹری بیوشن اتنا بڑا ہے کہ اس سے بڑا ور کوئی کنٹری بیوشن نہیں ہوسکتا۔

خدا نے پچھلے زمانوں میں بہت سے پیغمبر بھیجے۔ یہ تمام پیغمبر ایک ہی خدائی دین کو لے کر آئے، لیکن قدیم زمانے میں کسی متن (text) کو اس کی اصل صورت میں محفوظ رکھنے کاکوئی باقاعدہ نظم نہ تھا۔ اس لیے پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا دین، تبدیلی اور ملاوٹ کا شکار ہوگیا۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی وحی کے مطابق، خدا کے اصل دین کو جانا اور اس کو اس کی اصل صورت میں محفوظ کردیا۔

خدائی مذہب کا محفوظ متن نہ ہونے کی وجہ سے انسان گمراہی کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ تلاش کے باوجود اس کو سچائی نہیں ملتی تھی۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت الٰہی نے تاریخ بشری کے اِس خلا کو پُر کردیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی مُتلاشی روح جب حق کی دریافت کرنا چاہے تو وہ اس کو یقین کے ساتھ دریافت کرسکے۔ یہ ایک عظیم خدائی تحفہ ہے جو پیغمبرِ اسلام کے ذریعے انسانیت کو ملا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom