انسان کی دریافت

ایک فلسفی نے کہا ہے کہ—انسان کی تاریخ اندھیرے میں بھٹکنے کی تاریخ ہے۔ یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پوری تاریخ میں بے خبری کے اندھیروں میں بھٹکتا رہا ہے۔ انسان کی اِس بے خبری کو تین عنوان کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ آئڈیل ازم(Idealism)

۲۔ بہیویر ازم(Behaviourism)

۳۔ یوٹلیٹرین ازم (Utilitarianism)

یہاں میں نے آئڈیل ازم کا لفظ اس کے کلاسکل معنی میں استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے لغوی معنی میں اس کو استعمال کیا ہے۔ انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر آئڈیل کا ایک تصور لیے ہوئے ہے، ہر انسان اس آئڈیل کو پانا چاہتا ہے۔ اِس معاملے میں عوام اور خواص کا کوئی فرق نہیں۔ عوام کی اکثریت اپنی غفلت کی بناپر آئڈیل کی تلاش کے بارے میں شعوری طورپر باخبرنہیں ہوگی، تاہم غیر شعوری طورپر اس کا کیس پوری طرح یہی ہے۔ البتہ خواص، یعنی فلسفی اور مفکر اور رفارمر سب کے سب اِس میں مبتلا رہے ہیں۔

مگر دوسری طرف تاریخ یہ بتاتی ہے کہ تمام لوگ، بلا استثناء آئڈیل کے بارے میں اپنی تلاش میں ناکام رہے۔ آئڈیل سماج، آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل ادارہ، آئڈیل نظام، یہی ہر ایک کا محبوب نشانہ رہا ہے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ ہر ایک اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہا، اور آخر کار وہ مایوسی کے عالم میں مرگیا۔

۱قدیم یونان کا مشہور فلسفی افلاطون(Plato) ۴۲۷ قبل مسیح میں پیدا ہوا، اور ۳۴۷ قبل مسیح میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے سُقراط (Socrates) سے تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ مشہور فلسفی ارسطو(Aristotle) اس کا شاگرد تھا۔ افلاطون کو اپنے زمانے میں اتنا بڑا درجہ ملا کہ وہ اُس زمانے کے شاہی خاندان کامعلم بن گیا۔ لیکن اس کی سوانح عمری میں ہمیں یہ الفاظ لکھے ہوئے ملتے ہیں کہ— وہ ایک مایوس انسان کی طرح مرا:

He died as a disappointed person.

ایسا کیوں ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ افلاطون نے یونان میں آئڈیل اسٹیٹ قائم کرنے کو اپنا مقصد بنایا۔ اس نے اِس موضوع پر کتاب لکھی۔ اس نے وقت کے شاہی خاندان کی اپنے آئڈیل نظریے کے مطابق، تعلیم و تربیت کی۔ اُس کے نزدیک اس کا آئڈیل اسٹیٹ اتنا کامل تھا کہ اس نے اِس موضوع پر اپنی کتاب میں سزا (punishment) کا قانون شامل نہیں کیا۔

مگر عملاً یہ ہوا کہ اس کا آئڈیل اسٹیٹ سرے سے قائم ہی نہ ہوسکا، نہ کسی شہر میں اور نہ پورے ملک میں۔ آخر کار وہ سخت مایوسی میں مبتلا ہوا، اور اِسی مایوسی کے عالم میں حسرت کے ساتھ مر گیا۔

یہی انجام، بلا استثناء ہر فلسفی اور ہر مفکر اور ہر رفارمر کا ہوا ہے۔ ہر ایک نے اپنے ذہن میں ایک آئڈیل دنیا بنانے کا خواب دیکھا۔ مگر کوئی بھی شخص اپنی آئڈیل دنیا نہ بنا سکا۔ آپ کسی بھی مشہور آدمی کی سوانح عمری پڑھیے تو آخر میں ہر ایک کے بارے میں یہ لکھا ہوا ملے گا کہ وہ اپنے نشانے کو پانے میں ناکام رہا اور آخر کار مایوسی کے عامل میں مرگیا—روسو، مارکس، ڈارون، جان آسٹن، لارڈ کرزن، وغیرہ ہر ایک کا خاتمہ محرومی کے احساس کے ساتھ ہوا۔

انسان کی اِس عمومی ناکامی کا سبب یہ تھا کہ ہر ایک نے یہ غلطی کی کہ اس نے خدا کی تخلیقی اسکیم (creation plan) کو سمجھے بغیر خود اپنے ذہن سے اپنا ایک آئڈیل نقشہ بنایااور وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑا۔ حالاں کہ خالق کے تخلیقی پلان کو سمجھے بغیر اِس قسم کی کوشش سراسر عبث تھی۔ ایسی کوشش کبھی اِس دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی ناکام تجربے کی بنا پر لوگوں میں عمومی طورپر وہ تصور رائج ہوگیا جس کو ایک جملے میں اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ— آئڈیل کبھی حاصل نہیں ہوسکتا:

Ideal can't be achieved.

مگر حقیقتِ واقعہ کے اعتبارسے یہ قول درست نہیں۔ انسان کے دماغ میں جو آئڈیل بسا ہوا ہے وہ یقینی طورپر قابلِ حصول ہے، مگر موت سے پہلے کی دنیا میں نہیں بلکہ موت کے بعد کی دنیا میں۔ خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، یہ آئڈیل دنیا جنت ہے، اور وہ مستحق افراد کو صرف موت کے بعد کی زندگی میں حاصل ہوگی۔ انسان کی غلطی یہ ہے کہ وہ آئڈیل دنیا کو موت سے پہلے کی زندگی میں پانا چاہتا ہے۔ حالاں کہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، یہ آئڈیل دنیا صرف موت کے بعد کی زندگی میں حاصل ہونے والی ہے۔

خدا کے تخلیقی پلان سے اِس بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر انسان کا یہ کیس بن گیا کہ وہ امید کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرے اور محرومی کا احساس لے کر مرجائے۔ حالاں کہ اگر وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے اور اس کے مطابق عمل کرے تو اس کے لیے موت سے قبل کی زندگی میں بھی امید ہے اور موت کے بعد کی زندگی میں بھی امید۔ ایسا آدمی فطری طورپر کبھی ذہنی تناؤ(tension) میں مبتلا نہیں ہوگا اور وہ اِس المیے سے بھی بچ جائے گا کہ محرومی کے احساس پر اس کا خاتمہ ہو۔

تاریخ میں بہت سے مفکر اور رفارمر گذرے ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل نظام، آئڈیل سماج، آئڈیل ادارہ بنے، مگر بلا استثنا ہر ایک اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موت سے پہلے کی یہ موجودہ دنیا اِس مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی۔

اصل یہ ہے کہ خالق نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، ہر انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ اِس دنیا میں ایسا کوئی میکانزم نہیں جو لوگوں کو مجبور کرے کہ وہ اپنی آزادی کاغلط استعمال نہ کریں۔ چنانچہ پوری تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ افراد نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے پورے نظام کو غلط رُخ پر ڈال دیا اور ابتدائی مُصلح کے پورے نقشے کو تباہ کرڈالا۔

فلسفی افلاطون نے اپنے زمانے کے بادشاہ سکندر اعظم(Alexander the Great) کو شہزادگی کے زمانے میں تربیت دے کر تیار کیا کہ وہ افلاطون کے آئڈیل اسٹیٹ کو قائم کرے۔ لیکن سکندر اعظم جب بڑا ہوا تو اس نے افلاطون کی تعلیم کو چھوڑ کر اپنی پسند کا راستہ اختیار کر لیا۔ جرمن فلسفی کارل مارکس (وفات ۱۸۸۳) کے اقتصادی نظریات کی بنیاد پر کمیونسٹ پارٹی بنی۔ لینن اور اسٹالن کی قیادت کے تحت، کمیونسٹ پارٹی کی حکومت بھی زمین کے بڑے رقبے پر قائم ہوگئی۔ لیکن یہ حکومت مکمل طورپر ناکام رہی۔ کمیونسٹ لیڈر ٹراٹسکی (Trotsky leon) نے کمیونسٹ نظام کی اِس ناکامی کو خود کمیونسٹ لیڈروں کی غدّاری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اِس موضوع پر ٹراٹسکی نے ایک کتاب شائع کی جس کا ٹائٹل یہ تھا: Revolution — Betrayed

جرمن سائنس داں آئن سٹائن(Albert Einstein) نے جوہری توانائی (atomic energy)کو دریافت کیا۔اِس دریافت میں عظیم مثبت فائدہ چھپا ہوا تھا، لیکن پولٹکل لیڈروں نے جوہری توانائی کی دریافت کو لے کر ایٹم بم بنا ڈالا اور ساری دنیا میں جنگی تیاری کا جنون پیدا کردیا۔

انڈیا کے لیڈر مہاتما گاندھی نے زبردست جدوجہد کے ذریعے انڈیا کوانگریزوں سے آزاد کرایا۔ان کا نظریہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میں ایسا سماج بنایا جائے گا جوانسانی خدمت اور سیوا پر مبنی ہوگا۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے ایک ماڈل بستی کے طور پر مہاراشٹر میں ’’سیوا گرام‘‘بنایا۔ مگر آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کے تمام ساتھی، سیوا کے نظریے کو چھوڑ کر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے گاندھی کی نصیحتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ چنانچہ اِس منظر کو دیکھ کر مہاتما گاندھی نے کہا—اب میری کون سنے گا

اِس قسم کے واقعات تمام مصلحین کے ساتھ پیش آئے۔ اِن تمام واقعات کا مشترک سبب یہ تھا کہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے ہر اصلاحی اسکیم کو تہہ وبالا کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی بھی کوئی اصلاحی اسکیم اپنے مطلوب معیاری معنوں کامیاب نہ ہوسکی۔

۲انسان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے تحت، ہر انسان کنڈیشننگ کا کیس ہے۔ اِس بنا پر ہر انسان درست سوچ (right thinking) سے محروم رہتاہے۔ وہ کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ جیتا ہے اور کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ ہی مرجاتا ہے۔ اپنی عدم واقفیت کی بنا پر اس کو کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ ہر آدمی اپنی سوچ اور اپنے جذبات کے اعتبارسے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے، مگر اپنی بے خبر کی بنا پر وہ اِسی مصنوعی شخصیت کو اصل شخصیت سمجھ لیتا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی بار انسان نے کنڈیشننگ کے اِس معاملے کو جانا۔ امریکا کے پروفیسر جے بی واٹسَن (John Broadus Watson)نے لمبی تحقیق کے بعد ۱۹۲۵ میں اپنی کتاب بہیویر ازم(Behaviourism) شائع کی۔ اِسی کتاب کے نام پر نفسیات میں بہیویر سٹ اسکول(Behaviourist School) قائم ہوا، جو اتنا عام ہوا کہ عرصے تک دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں وہ علم النفس کے نصاب کے طورپر پڑھایا جاتا رہا۔

لیکن پروفیسر واٹسن کی یہ دریافت صرف ایک ادھوری دریافت تھی۔ اِس دریافت کے مطابق، کنڈیشنڈ انسان ہی اصل انسان تھا۔ اِس نفسیاتی اسکول میں یہ مان لیاگیا کہ جو چیز انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے وہ اس کا پیدائشی نیچر نہیں ہے، بلکہ وہ بعد از پیدائش اس کے ماحول کا نرچر (nurture) ہے،مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کنڈیشننگ کا یہ معاملہ انسان کے لیے ایک امتحان ہے۔ ہر انسان کو اپنی تعمیرشخصیت کے لیے یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ قدرت نے پیاز کی صورت میں اِس معاملے کا ایک نمونہ انسان کے لیے رکھ دیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیاز میں ایک کے بعد ایک پرتیں (layers) ہوتی ہیں۔ اِن پرتوں کو ہٹایا جائے تو آخر کار اس کا اصل مغز سامنے آجائے گا۔

ایسا ہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کی اصل شخصیت وہ ہے جو فطرت کی طرف سے اس کو پیدائشی طورپر ملتی ہے، پھر خارجی ماحول سے اس کے اوپر کنڈیشننگ کی پرت چڑھتی رہتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ باشعور ہونے کے بعد اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے وہ ان خارجی پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ فطری انسان سامنے آجائے۔

ہر انسان پیدائشی طور پر مسٹر نیچر ہے، لیکن ماحول کے اثر سے وہ مسٹر کنڈیشنڈ بن جاتا ہے۔ ایسا خدا کے تخلیقی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ انسان کو خدا نے شعور اور آزادی کی صلاحیت بخشی ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے شعوری فیصلے کے تحت، اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ انسانِ فطری (Mr. Nature) بنائے۔ یہی انسان کا امتحان ہے، اور اِس امتحان میں کامیاب ہونے والوں ہی کے لیے خدا نے اپنے ابدی انعامات کا اعلان کیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کی کنڈیشننگ ہوتی ہے، مگر پوری معلوم تاریخ میں ڈی کنڈیشننگ کا نظریہ کبھی موجود نہیں رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے تحت، ہر زمانے میں لوگوں کی کنڈیشننگ ہوتی رہی، لیکن عدم واقفیت کی بنا پر وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ نہ کرسکے۔ ایسی حالت میں محفوظ طورپر کہا جاسکتا ہے کہ پوری تاریخ ایسے افراد سے خالی ہے جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے آپ کو مسٹر نیچر بنا سکے ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تاریخ کے تمام مفکرین اور فلاسفہ اپنے اصلاحی یا فکری کردار کو ادا کرنے کے لیے نااہل تھے۔ وہ اِس مقصد کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔

تمام فکری نظاموں میں اسلام اِس معاملے میں ایک استثناکی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں سے ایک بنیادی تعلیم وہ ہے جس کو تزکیہ(purification) کہاجاتا ہے۔ تزکیہ کسی پُراسرار چیز کا نام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ اُسی عمل کا نام ہے جس کے لیے ہم نے ڈی کنڈیشننگ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنا محاسبہ(introspection) کرے۔ وہ اپنی فکری اور نظریاتی غلطیوں کو ڈھونڈ کر نکالے اور ان کی اصلاح کرے۔ یہ عمل تمام تر ایک ذہنی عمل ہے۔ آدمی بے لاگ طورپر اپنے اوپر نظر ثانی کرتا ہے۔ یہ عمل مسلسل طورپر ساری عمر جاری رہتا ہے۔ اِس طرح آدمی تزکیہ کے عمل کے ذریعے اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک مزکّٰی اور مطہّر شخصیت (purified personality)بن جاتا ہے۔

موجودہ زمانے میں ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کے لفظ کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس استعمال کے اعتبار سے ڈی کنڈیشننگ کا مطلب ہوتا ہے—ذہنی تناؤ کو ختم کرنا۔

مگر میرے نزدیک یہ ڈی کنڈیشننگ کے لفظ کا نادرست استعمال ہے۔ میرے نزدیک ڈی کنڈیشننگ سے مراد یہ ہے کہ پروفیسر واٹسن کے تصور کے مطابق، کنڈیشننگ کے ساتھ برعکس عمل کیا جائے۔ جس کنڈیشننگ کو پروفیسر واٹسن نے حتمی سمجھ لیا تھا، اس کو حتمی نہ سمجھتے ہوئے فکری عمل کے ذریعے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے،اسی کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔ میرے علم کے مطابق، مفکرین نے اگر چہ ڈی کنڈیشننگ کو اِس مخصوص معنی میں استعمال نہیں کیا ہے، لیکن میرے نزدیک ڈی کنڈیشننگ کا صحیح ترین مفہوم یہی ہے۔

اِس موضوع پر ایک بار میری گفتگو ایک کمیونسٹ پروفیسر سے ہورہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ڈی کنڈیشننگ کو ہم بھی مانتے ہیں، مگر ہم اس کو ڈی کلاسنگ (de-classing) کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ڈی کنڈیشننگ، اور ڈی کلاسنگ دونوں بالکل الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔ ڈی کلاسنگ ایک سماجی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب ہے— بے طبقاتی سماج(classless society) بنانا۔ مگر ڈی کنڈیشننگ مکمل طورپر ایک نفسیاتی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب ہے—ذہن کی فکری آلودگی کو دور کرکے ذہن کو دوبارہ خالص فطری حالت پر لے جانا۔

۳اِس معاملے میں تیسری چیز وہ ہے جس کو اِفادی نظریہ (Utilitarianism) کہا جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ سے مادّی مفادات کا طالب رہا ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں اِس تصور نے باقاعدہ فلسفے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اِسی فلسفے کو یوٹلٹیرین ازم کہاجاتا ہے۔ اِس افادی فلسفے کو پہلے برطانوی فلسفی بنتھم (Jeremy Bentham) نے پیش کیا تھا۔ بنتھم ۱۷۴۸ میں انگلینڈ میں پیدا ہوا، اور ۱۸۳۲ میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد اِس افادی فلسفے کو انیسویں صدی کے مشہور فلسفی جان اسٹوارٹ مِل (John Stuart Mill) نے، اور دوسرے فلسفیوں نے آگے بڑھایا، یہاں تک کہ عملاً یہ فلسفہ جدید دنیا کا سب سے بڑا فلسفہ بن گیا۔ آج شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام انسان اِسی فلسفے کے تحت سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔

یوٹلٹیرین اسکول میں بہت سے نام شمار کیے جاتے ہیں، اور ان کے درمیان بعض ظاہری اختلافات بھی ہیں، مگر عملاً یہی فلسفہ آج کی دنیا کا سب سے بڑا فلسفہ ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر آج تمام دنیا کے لوگ اس فلسفے کو قبول کیے ہوئے ہیں۔ وہ چیز جس کو مادّیت (materialism) کہاجاتا ہے، وہ دراصل یوٹلیٹرین ازم ہی کا دوسرا نام ہے۔

یوٹلیٹرین اسکول، یامٹیریلسٹ اسکول کے مطابق، موجودہ دنیا ہی وہ جگہ ہے جہاں آدمی اپنی تمناؤں اور خواہشوں کو پورا کرسکتا ہے۔ ویبسٹر کے مطابق، اس نظریے کی سادہ تعریف یہ ہے:

The doctrine that the worth or value of anything is determined solely by its utility.

یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ وہی چیز ہے جس کو عوامی زبان میں اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ— کھاؤ، پیو اور خوش رہو:

Eat, drink and be merry.

یہ تصور دنیا کی ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ اِسی تصور کو ہندستان کے شہنشاہ بابر (وفات ۱۵۳۰) نے اپنے ایک شعر میں اِس طرح بیان کیا تھا:

بابر بہ عیش کوش کہ عالَم دوبارہ نیست!

مگر پوری تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ نشانہ قابلِ حصول نہیں۔جیسا کہ معلوم ہے، ہر آدمی سوسال سے کم مدّت کے لیے موجودہ دنیا میں جینے کا موقع پاتا ہے۔ اِس محدود مدّت میں اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی آرزوؤں کے مطابق، یہاں اپنی مطلوب دنیا بنا سکے، ایسی آرزوئیں جو کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے لامحدود حیثیت رکھتی ہیں۔ طرح طرح کی رکاوٹیں اس کا راستہ روک دیتی ہیں۔ حادثات اور بیماری اور دوسرے ناموافق اسباب اس کے لیے اپنے منصوبے کی تکمیل میں فیصلہ کُن رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اگر بالفرض کوئی شخص اپنی خواہشوں کا ایک محل بنا لے، تب بھی بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر موت آتی ہے اور یک طرفہ فیصلے کے تحت، اس کی خواہشوں کے محل کو ڈھا دیتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے مقرر نقشے کے مطابق، انسان کی زندگی دو دَورں میں تقسیم ہے— موت سے پہلے، اور موت کے بعد۔ موت سے پہلے کا زمانہ عمل کرنے کا زمانہ ہے اور موت کے بعد کا زمانہ اپنے عمل کے مطابق، اس کا انجام پانے کا زمانہ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ امتحان ہال، کسی اسٹوڈنٹ کے لیے ٹسٹ دینے کی جگہ ہے، اور امتحان ہال کے باہر کی دنیا جاب(job) حاصل کرنے کی دنیا۔ جو لوگ موت سے قبل کی دنیا میں اپنی تمناؤں کا محل بنانا چاہتے ہیں وہ اُس طالبِ علم کی مانند ہیں جو امتحان ہال کے اندر اپنے لیے جاب تلاش کرنے لگے، حالاں کہ ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔

پہلی عالمی جنگ جب ہوئی تو اُس وقت انگریز، انڈیا کے اوپر حکومت کررہے تھے۔پہلی عالمی جنگ کے بعد انھوں نے نئی دہلی کے علاقے میں ایک شان دار دنیا تعمیر کی۔ اس میں وہ وسیع محل بھی شامل تھا جس کا نام اُس وقت ’’وائس رِگل لاج‘‘ رکھا گیا تھا، اور اب اس کو ’’راشٹرپتی بھون‘‘ کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ وہ اِس شان دار دنیا میں ابدی طورپر پُر عیش زندگی گذار سکیں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ دوسری عالمی جنگ نے ان کے سنہرے خواب کو درہم برہم کردیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ایک فرانسیسی مدبّر نئی دہلی آیا تھا۔ اس نے انگریزوں کی بنائی ہوئی اِس خوش نما دنیا کو دیکھا تو اس نے کہا کہ— انھوں نے کیسی شاندار دنیا بنائی، صرف اس لیے کہ ایک دن وہ اس کو چھوڑ دیں :

What a magnificent world they built to leave.

انگریزوں سے پہلے دہلی میں مغل خاندان کا راج تھا۔ ۱۸۵۷ء میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ دہلی میں ان کی چھوڑی ہوئی شان دار عمارت ’’لال قلعہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔ لال قلعہ کے ایک حصے میں میوزیم ہے۔ اِس میوزیم میں جو چیزیں موجود ہیں، اُن میں سے ایک وہ ٹوٹا ہوا پتھر ہے جس کے اوپر یہ فارسی شعر کَندہ ہے— آسمان کے نیچے ان کی سلطنت ہمیشہ باقی رہے:

ہمیشہ باد بہ زیرِ سپہر بُو قلموں!

اس ٹوٹے ہوئے پتھر کے ساتھ جو تشریحی عبارت لکھی ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پتھر ایک قدیم محل میں نصب تھا۔ وہ محل اب بالکل مٹ چکا ہے۔ اس کا یہ پتھر یادگار کے طورپر لال قلعہ کے میوزیم میں رکھ دیا گیا ہے۔

یہی معاملہ پوری تاریخ میں تمام انسانوں کا ہوا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے انسان نے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے اپنا محل بنانے کی کوشش کی، مگر کسی کے لیے بھی اس کا محل آرزوؤں کی تکمیل کا محل نہ بن سکا۔ یہ تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ ایک غیر فطری اور غیر واقعی نظریہ ہے۔ یہ ایک ناممکن کو حاصل کرنے کی کوشش ہے، جو موجودہ دنیا میں کبھی کسی کے لیے واقعہ نہیں بنی اور نہ آئندہ وہ کسی کے لیے واقعہ بن سکتی ہے۔

اصل یہ ہے کہ یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ خدا کے تخلیقی نقشے کے خلاف ہے۔ خدا نے انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ پھر اس کی مدتِ حیات(life span) کو اس نے دو مختلف حصوں میں بانٹ دیا۔ اس کا مختصر حصہ، قبل از موت دنیا میں رکھا گیااور اس کا بقیہ تمام حصہ، بعد از موت کی زندگی میں رکھ دیا گیا ہے۔ قبل از موت کا عرصۂ حیات ٹسٹ کے لیے ہے اور بعداز موت کا عرصۂ حیات اپنی کارکردگی کے مطابق، انعام پانے کے لیے۔

یہ ٹسٹ کیا ہے۔ یہ ٹسٹ بنیادی طورپر یہ ہے کہ آدمی اختیار کے باوجود اپنے کو بے اختیار بنا لے، وہ آزادی کے باوجود اپنی آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ وہ سب کچھ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود خدا کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کرے۔

دنیا میں انسان کو اگرچہ کامل آزادی دی گئی ہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ ایک کمزور مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً وہ حادثے کا شکار ہوتا ہے، وہ بیمار ہوتا ہے، وہ بوڑھا ہوتا ہے، وہ لامحدود طور پر اپنی خواہشوں کو پورا نہیں کرپاتا۔ طرح طرح کے ناموافق حالات اس کے لیے رُکاوٹ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کار وہ بے بسی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ یہی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر انسان، خواہ وہ کوئی بھی ہو، بیک وقت کمزوری اور آزادی دونوں کا مجموعہ بنا رہتا ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں کرپاتا کہ وہ اپنی آزادی سے اپنی کمزوری کو جدا کرسکے۔

جنت نہ صرف ابدی ہوگی بلکہ وہ ایک ایسی کامل جگہ ہوگی جہاں ہر قسم کی محدودیت (limitations) کو ختم کردیا گیا ہوگا، جہاں آدمی نہ صرف آزاد ہو بلکہ وہ اپنی ہر قسم کی آرزوؤں کو پورا کرنے کے مواقع بھی رکھتا ہو۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جنت میں عظیم اقتدار (great kingdom) حاصل ہوگا (الدھر ۲۰) اسلامی تصور کے مطابق، جنت مکمل طورپر فساد سے پاک ہوگی۔ ایسی حالت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جنت میں کوئی ایسا شخص جگہ نہیں پاسکتا جو اپنے اقتدار کو فساد کے لیے استعمال کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت کے اِس ماحول میں صرف اُن لوگوں کو داخل کیا جائے گا جو موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں یہ ثابت کرچکے ہوں کہ وہ اتنے زیادہ با شعور ہیں کہ کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی انھیں اِس پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ وہ اپنے اقتدار کو کسی معمولی درجے میں بھی فساد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہر لمحہ موجودرہتے ہیں جو اس کی زندگی کے ہر واقعے کو رکارڈ کرتے رہتے ہیں، خواہ وہ نیت ہو، یا قول، یا عمل۔ اس معاملے کو اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ فرشتے ہر لمحہ انسان کی نگرانی کررہے ہیں۔ اگر وہ صحیح کام کرتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر پر اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھ دیتے ہیں کہ یہ شخص جنت کا مستحق ہے:

He is a deserving candidate for Paradise.

اس کے برعکس، اگر وہ دیکھتے ہیں کہ آدمی غلط کام کررہا ہے تو وہ اپنے رجسٹر میں یہ اندراج کرلیتے ہیں کہ— یہ شخص جنت میں داخلے کا استحقاق نہیں رکھتا:

He is not a deserving candidate for Paradise.

یہی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر عورت اور مرد کا معاملہ اسی قانونِ الٰہی کے تحت ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اِس حقیقت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے اور دنیا میں انتہائی محتاط زندگی گذارے۔ اِس کے برعکس، وہ لوگ ناکام ہیں جو اِس حقیقت کو بھلا کر زندگی گذاریں اور نتیجۃًٌ ابدی تباہی میں مبتلا ہو کر رہ جائیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom