نقطۂ آغاز
ایک سفر میں میری ملاقات ایک عرب شیخ سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں اسلام کا کام کرنے کے لیے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ: من أین نبدأ (عمل کا آغاز کہاں سے کیا جائے)۔
یہ سوال مجھ سے کئی بار کیا گیا ہے۔ اِس سوال کا جواب پانے کے لیے میں نے تقابلی مطالعے کا طریقہ اختیار کیا۔ میں نے سوچا کہ اصحابِ رسول نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا سوال نہیں کیا تھا۔ اوّل دن سے انھیں معلوم تھا کہ ان کو کیا کرنا ہے اور آخر وقت تک وہ اس پر یقین کے ساتھ کار بند رہے۔ موجودہ زمانے میں پورا قرآن ہمارے سامنے موجودہے اس کے باوجود کیوں لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ عمل کا آغاز کہاں سے کیاجائے۔
غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ دورِ اول میں قرآن کی خود ترتیبِ نزول ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ کہاں سے شروع کرنا ہے اور پھر کیا کام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ موجودہ زمانے میں صورتِ حال یہ ہے کہ تیئس سال میں نجماً نجماً اترنے والا قرآن ایک کامل مجموعے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضروری ہوگیاہے کہ ہم خود دریافت کریں کہ اپنے زمانے میں ہم کو اپنے عمل کا آغاز کس طرح کرنا چاہیے۔ گویا کہ دورِاول میں بغیر تحقیق کیے ہوئے ہر قدم پر ہم کو فطری طورپر بتایا جارہا تھا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے، جب کہ آج یہ صورت حال ہے کہ تقریباً ساڑھے چھ ہزار آیتوں کے مجموعے میں ہم کو خود یہ دریافت کرنا ہے کہ اِن آیتوں میں نقطۂ آغاز کی آیت کون سی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ بعد کے زمانے میں طالبِ حق کو بہت سے انتخابات(options)میں سے کسی ایک انتخاب (option)کو ڈھونڈھ کر نکالنا ہے، جب کہ دورِ اوّل میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سِرے سے موجو ہی نہ ہوتا تھا۔
یہی مسئلہ ہے جس کی بنا پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسلم گروہ ہیں اور ہر ایک قرآن کے حوالے سے اپنی تحریک چلا رہا ہے، مگر سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کسی کے نزدیک احیائِ اسلام کے عمل کا آغاز یہ ہے کہ فضائل کی کہانیاں سُنا کر لوگوں کو نمازی بنایا جائے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ اقتدار حاصل کرکے اسلامی قوانین کو نافد کیا جائے۔ کسی کا خیال ہے کہ قومی فخر کا احساس پیدا کرکے مسلمانوں کو بیدار کیا جائے۔ کسی کا ماننا یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں اور سورتوں کے اندر چھپے ہوئے نظم کو کھولا جائے۔ کسی کا کہنا یہ ہے کہ جغرافی تقسیم کرکے مسلمانوں کا علیٰحدہ پاکٹ بنایا جائے، اِس طرح مسلمان خیرِ امت کا کردار اداکرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عشقِ رسول کی دھوم مچائی جائے اور پھر سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہوجائے گا۔ اسی طرح کچھ لوگ مسائلِ اسلام اور مظاہرِ اسلام کو اصل سمجھ کر اس کی دھوم مچائے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ کچھ اور لوگ ہیں جو حصولِ برکت کو سب سے زیادہ اہم چیز سمجھتے ہیں اور اسی کو تمام سعادتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ کمیونٹی ورک یا ملّی خدمت کو اصل کام سمجھے ہوئے ہیں اور اس کو نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ شوکتِ اسلام کے نام پر تقریر اور تحریر کی سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہیں اور اس کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ جہاد کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جہادی سرگرمیاں جاری کرنا ہی اسلام کا سب سے زیادہ مطلوب کام ہے، وغیرہ۔
حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانے میں امتِ مسلمہ میں تہتّر فرقے ہوجائیں گے (ابوداؤد، کتاب السنّۃ) میرا خیال ہے کہ یہ تہتر فرقے، دراصل وہ تہتر گروہ ہوں گے جو قرآن کی تہتر آیتوں سے اپنے لیے الگ الگ نقطۂ آغاز دریافت کریں گے اور پھر امتِ واحدہ کو امتِ متفرقہ میں تبدیل کردیں گے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ نقطۂ آغاز کا فرق پورے معاملے میں فرق پیدا کردیتا ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ترتیبِ کار کے سوال کا جواب اصحابِ رسول کی تاریخ میں تلاش کیاجائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طورپر اپنے اصحاب کو کیا نقطۂ آغاز دیا اور کس رخ پر انھیں چلایا، یہی اِس مسئلے کاواحد حل ہے۔ نقطۂ آغاز یا ترتیب کار کا سوال ایک عملی سوال ہے، اور اس کو عملی تاریخ ہی کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
حدیث میں آیاہے کہ: إنّ اللہ یبعث لہذہ الأمۃ علیٰ رأس کلّ مائۃ سنۃ من یجدّد لہا دینہا (ابوداؤد، کتاب الملاحم) اور دوسری طرف حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثمّ الذین یلونہم(صحیح البخاری)۔ اِس دوسری حدیث کے مطابق، ابتدائی تین زمانوں (عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین) کو قرونِ مشہود لہا بالخیر کہاگیا ہے۔
اِس قسم کی حدیثوں پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آتا ہے کہ پہلے دَور سے مراد وہ دور ہے جب کہ صحیح نقطۂ آغاز کو لے کر کام کیا گیا اور اس کے مطابق، ایک نسل تیار ہوئی۔ فطرت کے قانون کے مطابق، دوسری نسل پہلی نسل سے گہرے طورپر متاثر ہوتی ہے۔ یہ اثر تیسری نسل تک کم و بیش باقی رہتا ہے۔ اس کے بعد حالات بدل جاتے ہیں اور ضرورت ہوتی ہے کہ صحیح نقطۂ آغاز سے کام شروع کرکے دوبارہ پہلے گروہ کے مانند ایک گروہ بنایا جائے۔
اِس سلسلے میں حدیث میں ’سَو سال‘ کا ذکر کیاگیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سو سال سے مراد مذکورہ تین نسلوں کا زمانہ ہے۔ سوسال کے اندر تربیت یافتہ تین نسلوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ضرورت ہوتی ہے کہ دوبارہ پہلے کی طرح ایک تربیت یافتہ نسل بنائی جائے۔تربیت یافتہ نسل بنانے کے اِسی کام کو حدیث میں ’تجدید‘ کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق، تجدید کا یہ کام بار بار سوسالہ وقفے کے ساتھ جاری رہے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں امتِ مسلمہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کو المہدی کا نام دیاگیا ہے۔ المہدی کوئی سیاسی لیڈر نہیں ہوگا۔ وہ حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں اٹھے گا، بلکہ اس کا کام یہ ہوگا کہ دورِ آخر کے زیادہ بدلے ہوئے حالات میں از سرِ نو صحیح نقطۂ آغاز کو دریافت کرے اور اس کے مطابق، اصلاح اور دعوت کا عمل جاری کرکے اسلام کو دوبارہ اس کی اصل صورت میں قائم کردے۔
صحیح نقطۂ آغاز سے مراد صحیح ترتیبِ کار ہے۔ صحابہ کے حالا ت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا آغاز سچائی کی تلاش سے ہوا۔ ابتداء ً وہ سچائی کی تلاش میں سرگرداں ہوئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ان کو سچائی کی ڈسکوری ہوئی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں ایک اور عمل جاری ہوا جس کو قرآن میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ تزکیہ سے مراد کوئی پُر اسرار چیز نہیں۔اس کا مطلب ہے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ(de-conditioning)، ذہن کی ری انجینئرنگ(re-engineering)، اور وہ چیز جس کو تزکیۂ نفس (purification of soul) کہا جاتا ہے۔
اسی کے ساتھ ہر صحابی کی زندگی میں دعوت کا عمل شامل ہوگیا۔ معرفت اور دعوت دونوں باہم اس طرح جُڑے ہوئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ معرفت اور دعوت دونوں اپنی حقیقت کے اعتبارسے وہی کام ہیں جو دورِ اول میں پیش آئے تھے، لیکن جدید سائنسی دور میں جو نیے فکری مواقع ظہور میں آئے ہیں وہ بھی حسبِ امکان اس کا حصہ بنتے چلے جائیں گے۔ گویا کہ موجود زمانے میں حق کی اعلیٰ معرفت کسی کو سائنسی فریم ورک میں حاصل ہوگی، اور اسی طرح دعوت کا کام بھی سائنسی فریم ورک کے مطابق، انجام پائے گا۔ سائنسی فریم ورک سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں لسانِ قوم، یعنی لسانِ عصر کہاگیا ہے (ابراہیم ۴)۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ قدیم اور جدید کا امتزاج نہیں ہوگا بلکہ وہ قدیم کا صرف ایک نیا اظہار ہوگا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب کوئی آدمی ایک بڑی سچائی کو دریافت کرے تو فوراً وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو وہ اس سچائی میں حصے دار بنائے۔ عین فطری تقاضے کے طورپر اس کے اندر یہ تڑپ جاگ اٹھتی ہے کہ وہ چیز جو اس نے اپنے نسخٔہ نجات کے طورپر دریافت کی ہے، اس سے کوئی بھی عورت اور مرد محروم نہ رہے، اس طرح دعوت، معرفت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ گویا کہ دعوت، معرفت ہی کی توسیعی صورت ہے۔ جہاں معرفت ہوگی وہاں دعوت ضرور ہوگی۔ اگر کوئی شخص حصولِ معرفت کا دعویٰ کرے، لیکن اس کی زندگی میں دعوت شامل نہ ہو تو یقینی طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ابھی تک معرفت سے آشنا نہیں ہوا۔
حقیقت اپنی ذات میں ایک ناقابلِ تقسیم اکائی ہے۔ حقیقت کے مختلف مظاہر ہوسکتے ہیں، لیکن خود حقیقت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔ یہی معاملہ معرفت حق کا ہے۔ جب ایک آدمی کو لمبی مدت تک سنجیدہ تلاش کے بعد سچائی کی دریافت ہوتی ہے تو وہ یونانی فلسفی اَرشیمیدس (Archimedes) کی طرح چیخ کر بھاگتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو بتائے کہ اس کی دریافت کے مطابق، سچائی کیا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ معرفت اور دعوت دونوں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ معرفت اپنے داخل کے اعتبار سے معرفت ہے، اور اپنے خارج کے اعتبار سے دعوت۔
دین کا نقطۂ آغاز دریافت کرنے کا تعلق، بیک وقت دو چیزوں سے ہے۔ ایک، خود اپنی دینی زندگی کی تعمیر اور دوسرے، قرآن کو صحیح طورپر سمجھنا۔
نقطۂ آغاز جاننے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ جب تک آدمی کو نقطۂ آغاز معلوم نہ ہو، اُس وقت تک وہ بظاہر جاننے کے باوجود کچھ بھی جاننے سے محروم رہے گا، وہ بے یقینی اور کنفیوژن میں جیے گا، وہ بے نتیجہ کام اور نتیجے والے کام میں فرق نہ کرسکے گا، اس کی روح سچے یقین سے محروم رہے گی، وہ فارم والے دین کو جانے گا لیکن حقیقت والے دین کو وہ نہ جان سکے گا، دین اس کے لیے ایک قسم کا خارجی کلچر ہوگا نہ کہ وہ گہری حقیقت جو اس کی زندگی کا جز بن جائے، وہ سطح کی کچھ باتوں کو جانے گا، لیکن وہ گہری باتوں کو جاننے سے بے خبر رہے گا۔
یہی معاملہ قرآن فہمی کا ہے۔ وہ قرآن کے مرکزی تصور کو نہ جان سکے گا، اور جو آدمی قرآن کے مرکزی تصور سے بے خبر ہو اس کو اعلیٰ سطح پر قرآن کی بصیرت بھی حاصل نہ ہوگی۔ بظاہر وہ قرآن کو پڑھے گا، لیکن وہ اس کی گہرائی میں نہ اتر سکے گا، وہ گہرے معنوں میں قرآن کی تفسیر و تشریح نہ کرسکے گا۔