قولِ زور، عملِ زور

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ(صحیح البخاری، کتاب الصوم، رقم الحدیث ۱۹۰۳) یعنی جس شخص نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔

روزہ بظاہر اس کا نام ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ مگر یہ روزہ کی ظاہری صورت ہے، اور صرف ظاہری صورت کا نام روزہ نہیں۔ مطلوب روزہ وہ ہے جس میں ظاہری صورت کے ساتھ اس کی داخلی روح بھی پائی جائے۔ یہ داخلی روح یا صوم اسپرٹ ہی کسی کے روزہ کو حقیقی روزہ بناتی ہے۔ روزہ رکھ کر کوئی شخص قول زور اور عمل زور میں مبتلا ہو تو اس کا روزہ روزہ نہیں۔

قول زور یا جھوٹ بولنا یہ ہے کہ آدمی کھلے طورپر خلاف واقعہ بات کہے۔ مثلاً وہ اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرے اور کہے کہ میں تو اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں۔ اس روش کو کذب یا براہ راست جھوٹ بولنا کہہ سکتے ہیں۔

عمل زور یا جھوٹ پر عمل کرنا یہ ہے کہ آدمی اپنے کام کی جھوٹی تاویل کرے۔ یعنی غلط کام کرنا اور اس کے لیے جھوٹا جواز پیش کرنا(Doing wrong under false justification.)۔

سیدھے طورپر جھوٹ بولنا بلا شبہہ برا ہے۔ مگر یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے کہ آدمی ایک برا کام کرے اور اس کو ایک خوبصورت نام دے۔ مثلاً مادی مقصد کے تحت ایک کام کرنا اور اس کو خدمتِ دین بتانا۔عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک کام کرنا اور اس کو دعوت کا عنوان دینا۔ دولت حاصل کرنے کے لیے ایک کام کرنا اور اس کو ملّی یا سماجی کام بتانا۔ لیڈری حاصل کرنے کے لیے ایک کام کرنا اور اس کو اصلاح کا نام دینا، وغیرہ۔ جھوٹ بولنا اور خوبصورت الفاظ کے پردہ میں جھوٹا کام کرنا دونوں یکساں طورپر ناقابل معافی جرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom