دیباچہ
زیرِ نظر کتاب اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب: حریف یا حلیف اپنے موضوع پر ایک دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب ہے۔ یہ کتاب ۲۲ ممتاز مسلم شخصیتوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اس بنا پر اس کتاب میں تنوع کی صفت پیدا ہوگئی ہے۔ اس میں زیر بحث موضوع پر مختلف تعلیم یافتہ شخصیتوں کے اپنے اپنے افکار اور تجربات کا خلاصہ دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کتاب کو پاکستان کے ایک معروف صحافی مسٹر افضال ریحان نے مرتب کیا ہے۔ کتاب میں جو مختلف انٹرویوز شامل ہیں وہ سب انہی کے لیے ہوئے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ انٹرویو لینا ایک مشکل آرٹ ہے۔ انٹرویو رجب سوال کرتا ہے تو اپنے ہر سوال میں وہ خود اپنے آپ کو متعارف کراتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کتاب میں مسٹر افضال ریحان کے سوالات ان کی اپنی شخصیت کا تعارف ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ سوالات خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سوالات کے ذریعہ انٹرویو رکی جو شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ایک ایسے انسان کی شخصیت ہے جو ذہین اور سنجیدہ ہونے کے ساتھ مثبت طرز فکر کا حامل ہے۔
کتاب میں جو انٹرویوز شامل کیے گیے ہیں ان میں غور وفکر کا کافی مواد موجود ہے۔ بار بار ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس قسم کے چند جملے یہاں مثال کے طور پر نقل کیے جاتے ہیں۔
کسی بھی قوم کے رہن سہن (way of living) کا نام کلچر ہے۔ دنیا کی ہر قوم کا ایک کلچر ہوتا ہے جب کہ سولائزیشن سے مراد شہری زندگی ہے۔ کلچر کے ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ تک پہنچنے کا نام سولائزیشن ہے۔ افریقہ جیسے پسماندہ خطے میں بھی کلچر تو ہے لیکن وہ سولائزڈ (مہذب) نہیں ہے (160)۔ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا تعلق داعی اور مدعو جیسا ہوناچاہیے نہ کہ دشمن جیسا(2)۔ اپنی اصلاح کی بجائے ماضی پر فخر کرناہمارا شیوہ بن چکا ہے (37) ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ’’مسلمان اور غیر مسلموں کے تعلقات امن پر مبنی ہیں لڑائی پر نہیں ‘‘ (38)۔اسرائیل میں بوسنیا کے مسلمانوں کا وفد آیا تو انہیں وہاں پناہ دی گئی اور کہا گیا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ کو دیکھ کر ہمیں اپنی دربدری کا زمانہ یا د آگیا ہے (40)۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلامی تہذیب نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے بلکہ یہ سب مسلم تہذیبیں ہیں اور اس پر آفاقی رنگ کے بجائے علاقائی رنگ غالب رہا ہے (101)۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں سب سے پہلے اسلام کے essential اور non-essential میں فرق کرنا پڑے گا(104)۔ عجیب بات ہے کہ مسلمان امریکا میں رہنا پسند بھی کرتے ہیں اور اس کو گالی بھی دیتے ہیں (107)۔ اسلامی تہذیب دنیا میں داعی اور مدعو کا پیغمبرانہ رشتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان قائم کرنا چاہتی ہے(109)۔
برٹرینڈ رسل کا قول ہے کہ جب میں نے اسلام کی تعلیمات پڑھیں تو میری خواہش ہوئی کہ میں مسلمان ہو جاؤں لیکن جب میں نے مسلمانوں کو دیکھا تویہ سوچا کہ میں جیسے ہوں ویسے ہی بہتر ہوں (120)۔خود کش حملہ دہشت گردی کی ایک تکلیف دہ شکل ہے(162)،وغیرہ۔
جہاں تک کتاب کے اصل موضوع کا تعلق ہے، وہ بلا شبہہ ایک اہم موضوع ہے۔ یہ موضوع اگرچہ پچھلی تقریباً پانچ سو سالہ تاریخ سے تعلق رکھتا ہے مگر مختلف پہلوؤں سے اس کی اہمیت بدستور زندہ ہے اور ضرورت ہے کہ اس کا مزید جائزہ لیا جائے۔
عام تصور کے مطابق، اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب دونوں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ حتیٰ کہ سموئیل ہنٹنگٹن کی مشہور کتاب کے مطابق، دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کے خلاف متصادم ہیں۔ یہ تصادم تشدد کی حدتک پہنچ چکا ہے۔ مگر راقم الحروف کے نزدیک یہ تجزیہ اصل واقعہ کے مطابق نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب اصولی طور پراسلام کے حق میں ایک معاون واقعہ تھا۔ اُس نے اسلام کے لیے بہت سے نئے امکانات کھولے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے وہ ایک مطلوب انقلاب تھا۔ اس انقلاب کے لانے والوں میں بالفرض اگر کچھ منفی پہلو پائے جاتے ہوں تب بھی اس انقلاب کا مؤید ِاسلام ہونا مشتبہ نہ ہوگا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار غیر مسلموں کی رائے یا ان کے طریقہ کو کسی عملی معاملہ میں اختیار فرمایا۔
فنی تعریف سے قطع نظر، کوئی تہذیب ہمیشہ تخلیقی طاقت کے زور پر اُٹھتی ہے۔ کوئی گروہ اپنی تخلیقی صلاحیت کے ذریعہ نئی فکری اور عملی طاقتوں کو دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت اُس گروہ کو دوسرے لوگوں سے آگے کردیتی ہے۔ اس طرح ایک تہذیب وجود میں آتی ہے اور اس تہذیب کے حامل دوسروں کے اوپر فوقیت حاصل کرلیتے ہیں۔
مغربی تہذیب کا ظہور اصلاً اسی قسم کے ایک مثبت واقعہ کی حیثیت سے ہوا۔ مگر بعدکو اس میں ایسے اضافی پہلو شامل ہوگئے جن کی وجہ سے مغربی تہذیب کی وہ متنازعہ صورت بن گئی جو آج نظر آتی ہے۔ یہ اضافی پہلو خاص طورپر دو ہیں۔ ایک پہلو کا تعلق خود مغربی تہذیب کے علم برداروں سے ہے۔ اور دوسرے پہلو کا تعلق اُن مسلم علماء اور دانشوروں سے ہے جنہوں نے اس کو غیر اسلامی قرار دے کر مطلق طور پراس کی مخالفت شروع کردی۔
مغربی تہذیب کا آغاز زیادہ واضح صورت میں سولہویں صدی میں ہوا۔ اُس وقت یہ تہذیب فطرت کے قوانین یا فطرت میں چھپی ہوئی طاقتوں کی دریافت کے ہم معنٰی تھی۔ مگر یہ ایک اتفاقی بات تھی کہ اپنے ابتدائی زمانہ میں مغربی تہذیب کے بانی سائنسدانوں نے عالمی فطرت کے جو حقائق دریافت کیے وہ زوال یافتہ مسیحیت کے مزعومہ عقائد سے ٹکراتے تھے۔ مسیحیت کے پیشواچوں کہ اس وقت اقتدار کی حالت میں تھے، اُنہوں نے ان سائنس دانوں کی سخت مخالفت کی اور انہیں سخت سزائیں دیں۔ ان سزاؤں کی تفصیل ڈریپر کی مشہور کتاب (Conflict between Science and Religion) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ ٹکراؤ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اہل سائنس اور اہل مذہب کے درمیان تھا۔ مگر غلط طور پر اس کو سائنس اور مذہب کا ٹکراؤ سمجھ لیا گیا۔اُس وقت جذباتی ہیجان کی بنا پر اس فرق کو سمجھا نہ جاسکا اور مغربی تہذیب غلط طور پراپنے آغاز ہی میں عملاً ایک مخالفِ مذہب تہذیب کی حیثیت اختیارکر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی تہذیب کے لوگ مذہب کو اپنا حریف سمجھنے لگے اور اہل مذہب نے مغربی تہذیب کو اپنا دشمن فرض کرلیا۔ یہ منفی ذہن ابتدائً مسیحیت کے مقابلہ میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد وہ توسیع پاکر دوسرے مذاہب تک پہنچ گیا۔
موجودہ زمانہ میں تقریباً تمام مسلم علماء اور دانشوروں کا رخ مغربی تہذیب کے معاملہ میں منفی رہا۔ اس کا سبب بھی حقیقی کے بجائے اضافی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ انیسویں صدی میں جب یہ مغربی تہذیب اپنے عروج تک پہنچ کر مسلم دنیا میں داخل ہوئی تو یہ داخلہ صرف ایک تہذیبی داخلہ نہ تھا بلکہ وہ سیاست اور ملک گیری کے جلو میں ہوا جس کو نوآبادیاتی نظام(colonialism) کہا جاتا ہے۔
مغربی تہذیب کے اس سیاسی مارچ کی زد سب سے زیادہ جن لوگوں پر پڑی وہ مسلمان تھے۔ اس وقت ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبہ میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں۔ مغربی تہذیب کے سیاسی مارچ نے ان مسلم حکومتوں کا خاتمہ کرکے ان کے اوپر اپنا غلبہ قائم کردیا۔
انیسویں صدی کے مسلم علماء اور دانشور مغربی تہذیب اور اس کے سیاسی پہلو میں فرق نہ کرسکے۔ مغربی سیاست کو ایک غیر مطلوب چیز سمجھنے کے ساتھ انہوں نے یہ کیا کہ خود مغربی تہذیب کو بھی ایک غیر مطلوب چیز سمجھ لیا۔ انگریزسے متنفر ہونے کے ساتھ وہ انگریزی سے بھی متنفر ہوگئے۔ ابتدائی طورپردو چیزوں کے درمیان یہی عدم تمئیز تھی جس نے مغربی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا کردی۔ مگر بعد کو خود مغربی تہذیب میں کچھ مزید برائیاں پیدا ہوئیں۔ یہ برائیاں اگر چہ اضافی تھیں مگر وہ اسلامی مزاج کے سراسر خلاف تھیں۔ اس لیے مغربی تہذیب کے معاملہ میں مسلم علماء اور دانشوروں کے منفی ذہن میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے مسیحی مذہب کے خلاف رد عمل میں آزادی کے تصور کو اتنا زیادہ بڑھایا کہ اس کو خیر مطلق (summum bonum) کا درجہ دے دیا۔ انسانی آزادی کے نام پر مذہبی قدروں کی وسیع پیمانہ پر پامالی شروع ہوگئی۔اس کی آخری حد وہ مجرمانہ عریانیت (criminal pornography) ہے جو اب شرمناک حد تک غیر انسانی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تاہم ان تمام منفی پہلوؤں کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ مغربی تہذیب نے اسلام اور اسلامی دعوت کے حق میں ایسے نئے امکانات کا دروازہ کھولا ہے جو اس سے پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ مسلمان اگر خذ ما صفا، دع ما کدر کے اصول کے مطابق یہ کریں کہ وہ مغرب کے برے پہلوؤں کو نظر انداز کریں اور اس کے موافق پہلوؤں کو لے لیں تو بلا شبہہ مغربی تہذیب ان کے لیے ایک عظیم نعمت ثابت ہوسکتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ وسیع تر معنوں میں اسلام کے دو پہلو ہیں—اساسات اسلام، اور تائیدات اسلام۔ اساسات اسلام سے مراد اسلام کی وہ بنیادی تعلیمات ہیں جن کا ماخذ وحی الٰہی ہے، یعنی عقائد، عبادات، اخلاقیات، اور روحانیات وغیرہ۔اسلام کا یہ پہلو پیغمبر اسلام کے زمانہ میں آخری طورپر مکمل ہوچکا ہے۔ اس کو جاننے کے لیے قرآن اور حدیث اور سیرت کا مطالعہ بالکل کافی ہے۔ اس حصۂ اسلام میں اگر کوئی مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے تو وہ اصحابِ رسول کی سنت کا اضافہ ہے۔ اس کے بعد اس حصۂ اسلام میں کوئی اور اضافہ بدعت ہے، اور اسلام میں بدعت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
اسلام کا دوسرا حصہ جس کو ہم نے تائیدات اسلام کا نام دیا ہے اس کی نوعیت بالکل الگ ہے۔ یہ حصہ اتنا زیادہ وسیع ہے کہ اس میں غیر مومنین اور غیر مخلصین بھی مفید حصہ ادا کرسکتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری) یعنی اللہ اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعہ بھی کرے گا۔
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو عظیم انقلاب برپا ہوا اس کے کچھ اجزاء ایسے تھے جو مستقبل میں تکمیل پانے والے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انقلاب محمدی نے انسانی تاریخ میں ایک عمل (process) جاری کیا۔ یہ عمل مختلف نشیب و فراز کے ساتھ مستقل جاری رہا۔ مغربی تہذیب اپنے سائنسی پہلو کے اعتبار سے اسی انقلابی عمل کا گویاایک نقطۂ عروج (culmination) ہے۔
اس اعتبار سے اسلام کے حق میں جو مفید اسباب پیدا ہوئے ان کو چار عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔ یہ چار عنوانات یہ ہیں—حفاظت اسلام، دلائل اسلام، دعوت اسلام، شعور اسلام۔
حفاظت اسلام
قرآن آخری آسمانی کتاب ہے۔ اس کے بعد اب خدا کی طرف سے کوئی اور کتاب آنے والی نہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس کتاب کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا جائے۔ اس منصوبۂ الٰہی کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون (الحجر ۹) یعنی ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
خدا کے قانون کے مطابق، اس حفاظت کا نظام اسباب کے دائرہ میں کرنا تھا۔ چنانچہ ظہور اسلام کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک اس کی حفاظت اس طرح کی جاتی رہی کہ قرآن کا ایک ایک نسخہ لوگ اپنے ہاتھ سے لکھتے رہے اور اسی کے ساتھ حافظہ کی مدد سے اس کو یاد کرتے رہے۔ اس طرح کتابت اور حفظ کے ذریعہ اس کو محفوظ حالت میں رکھا جاتا رہا۔ مگر موجودہ زمانہ میں پریس اور پرنٹنگ کے طریقہ نے قرآن کو زیادہ مستحکم طورپر محفوظ کر دیا ہے۔ یہ جدید ذرائع تمام تر مغربی تہذیب کے زیر اثر ظہور میں آئے ہیں۔
اسی طرح ظہور اسلام کے بعد ہزار سالہ ابتدائی تاریخ میں کثیر تعداد میں اسلامی موضوعات پرکتابیں لکھی گئیں۔ حدیث، سیرت، تاریخ، فقہ، اور دوسرے اسلامی علوم پر عربی زبان میں بہت بڑی تعداد میں کتابیں لکھی گئیں۔ یہ کتابیں اسلام کے کلاسیکل لٹریچر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر یہ تمام کتابیں مخطوطات کی شکل میں تھیں۔ ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے مختلف اسلامی کتب خانوں کی الماریوں میں محفوظ تھے۔ قدیم زمانہ میں یہ کتابیں صرف مخصوص علماء کی دسترس تک محدود تھیں۔ آج وہ ساری دنیا میں ہر شخص کے لیے قابل حصول ہوگئی ہیں۔ ان کتابوں کی یہ عمومی اشاعت کیسے ممکن ہوئی۔ یہ واقعہ پرنٹنگ پریس کے ذریعہ ہوا۔ مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے پرنٹنگ پریس تیار کیا۔ انہوں نے اعلیٰ قسم کے کاغذ بنائے اور دوسری متعلق چیزیں ایجاد کیں۔ اس طرح یہ قیمتی کتابیں چھپ کر اور مجلّد ہو کر ساری دنیا میں پھیل گئیں۔
اسی طرح مغربی تہذیب کے زیر اثر ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ تمام قدیم کتابوں اور دستاویزات کی سائنٹفک تحقیق شروع ہوگئی۔ یہ ذوق توسیع پاکر مذاہب کی مقدس کتابوں تک پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ اس کے لیے ایک مستقل فن وجود میں آیاجس کو تنقید عالیہ (higher criticism) کہا جاتا ہے۔
اس کے تحت قدیم مذہبی کتابوں کی تحقیق و تنقید خالص علمی انداز میں کی جانے لگی۔ اس کے ذریعہ پہلی بار یہ حقیقت واضح ہو کر لوگوں کے سامنے آئی کہ اسلام کے سوا تمام دوسرے مذاہب کی مقدس کتابیں تاریخی اعتبار سے غیر معتبر ہیں۔ صرف اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی مقدس کتاب کو تاریخی اعتباریت(historical credibility) حاصل ہے۔ یہ اہم واقعہ بھی مغربی تہذیب کے زیر اثر پیش آیا۔
دلائل اسلام
قرآن میں آئندہ آنے والے عہد کے بارہ میں کچھ پیشین گوئیاں کی گئی تھیں۔ اُن میں سے ایک پیشین گوئی وہ ہے جو قرآن کی سورہ نمبر ۴۱ میں بیان ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہے: عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے نفسوں میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے (حٰم السجدہ ۵۴)
قرآن کی اس پیشین گوئی کے مطابق، مستقبل میں ایسا ہونے والا تھا کہ کائنات میں چھپی ہوئی نشانیاں ظاہر ہوں اور وہ قرآن کے بیانات کی علمی تصدیق کریں۔ یہ واقعہ کب پیش آیا۔ وہ مسلم عہد میں پیش نہ آسکا۔ وہ مغربی تہذیب کے ظہور کے بعد موجودہ زمانہ میں پیش آیا۔ اس زمانہ میں مغربی سائنس دانوں نے کائنات کی تحقیق و تفتیش جدید ذرائع سے کی۔ اُنہوں نے دور بین اور خوردبین جیسے بہت سے طریقے ایجاد کیے جن کے ذریعہ کائنات میں چھپی ہوئی حقیقتیں ظاہر ہو کر انسانی علم کے دائرہ میں آگئیں۔
اس موضوع پر ایک مغربی سائنس داں کی انگریزی کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں کیاگیا ہے اور موضوع کی مناسبت سے اس کتاب کا نام با معنٰی طور پر یہ رکھا گیا ہے: اللہ یتجلی فی عصر العلم۔ اس موضوع پر انگریزی زبان میں کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے دو کتابوں کے نام یہ ہیں :
The Evidence of God in an Expanding Universe
Nature and Science speak about God
راقم الحروف نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور اس کے بارہ میں کئی کتابیں تیار کرکے شائع کی ہیں۔ اُن میں سے ایک کتاب کا نام مذہب اور جدید چیلنج ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں الاسلام یتحدی کے نام سے شائع ہواہے۔ انگریزی زبان میں اس کتاب کے ترجمہ کا نام گاڈ ارائزز (God Arises) ہے۔
مذہب اور جدید چیلنج (صفحات ۲۲۰) کا موضوع خاص طور پر یہی ہے۔ وہ گویا قرآن کی مذکورہ آیت کی سائنسی تفسیر ہے۔ اس کتاب میں دورِ جدید کی سائنسی دریافتوں کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ یہ دریافتیں قرآن کی تعلیمات کی سائنسی تصدیق ہیں۔ گویا کہ جو بات پہلے وحی کے ذریعہ بتائی گئی تھی وہ اب خود علمِ انسانی کی سطح پر ثابت شدہ بن گئی۔
قرآن میں حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ آخری مرحلہ میں جب فرعون پانی میں غرق ہوا تو قرآن کے بیان کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے اس کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا: فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیۃ (یونس ۹۲) یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔
جیسا کہ معلوم ہے، فرعون پانی میں ڈوب کر مرا۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منصوبہ تھا کہ فرعون کا جسم اس کی موت کے بعد بھی محفوظ رہے اور بعد کے زمانہ میں ظاہر ہو کر وہ لوگوں کے لیے خدائی نشانی بنے۔ یہ واقعہ مسلم دور میں پیش نہ آسکا۔ ہزار سالہ مسلم دور میں وہ ایک نامعلوم واقعہ بنا رہا۔ انیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار اہل مغرب نے اس کو اہرام مصر کے اندر دریافت کیا اور جدید سائنسی طریقوں کو استعمال کرکے یہ ثابت کیا کہ یہ اسی فرعون کا جسم ہے جو حضرت موسیٰ کا ہم عصر تھا۔ (اس معاملہ کی تفصیل راقم الحروف کی کتاب عظمت قرآن میں دیکھی جاسکتی ہے)نیز ملاحظہ ہو ڈاکٹر موریس بوکائی کی کتابThe Bible, the Qur’an and Science :
دعوتِ اسلام
اہلِ اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کے دین کی دعوت تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ وہ اس کام کو نسل در نسل مسلسل جاری رکھیں۔ اس کام کو مؤثر طورپر جاری رکھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ دنیا میں مکمل مذہبی آزادی ہو۔ اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں، بالفاظِ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوں۔
جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے، قدیم زمانہ میں وہ موجود نہ تھی۔ اسی صورت حال کو قرآن میں فتنہ کہا گیا ہے۔ اہل اسلام کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ مذہبی عدم آزادی کی صورت حال کو ختم کردیں۔ خواہ اس کے لیے اُنہیں مخالف طاقتوں سے لڑنا پڑے۔ یہی وہ حکم ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں دیاگیا ہے: وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ (اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے)۔
تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اور اصحاب رسول نے اس حکم کی تعمیل فرمائی۔ اُنہوں نے زبردست جدوجہد کے ذریعہ عرب اور اطرافِ عرب میں مذہبی جبر کا خاتمہ کردیا اور مذہبی آزادی کا دروازہ کھولا۔ اس طرح پہلی بار دنیا میں مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا۔ یہ دور ایک عمل (process) کے روپ میں تاریخ میں جاری ہوگیا۔ مغربی تہذیب نے موجودہ زمانہ میں اس عمل کو آخری حد تک پہنچا دیا۔ اب ساری دنیا میں مذہبی آزادی آگئی۔ ہر ملک کے دستور میں مذہبی آزادی کی دفعات شامل کی گئیں۔ اقوام متحدہ کے منشور میں مذہبی آزادی کو انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق قرار دیاگیا اور اس پر تمام قوموں کے نمائندوں نے اپنے دستخط ثبت کیے۔
پیغمبر اسلام کے زمانہ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے دس سال کے لیے ٹکراؤ کا خاتمہ کردیا۔ صلح حدیبیہ کے بعد عرب کے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں معتدل تعلقات قائم ہوگئے اور کھلا ڈائیلاگ شروع ہوگیا۔ باہمی تعلقات کے اسی نارملائزیشن کا یہ نتیجہ تھا کہ صرف چند برسوں میں پورے عرب میں اسلام پھیل گیا۔
موجودہ زمانہ میں اقوام متحدہ اور دوسرے بین اقوامی اداروں کے ذریعہ امن اور اعتدال کی جو حالت قائم ہوئی ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے گویا ایک انٹرنیشنل صُلح حدیبیہ ہے۔ موجودہ زمانہ میں سیکولرزم کی صورت میں ناطرفداری کا جو اجتماعی اصول ساری دنیا میں رائج ہوا ہے اُس نے عملاً اُسی چیز کا تحفہ انسانیت کو دیا ہے جو اسلام کے دور اول میں صلح حدیبیہ کے ذریعہ حاصل ہوا تھا۔ اس انقلابی تبدیلی نے اب دعوت کے تمام مواقع کھول دیے ہیں۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے اندیشہ کے بغیر ہر ملک میں آزادانہ طور پردعوت کا کام کیا جائے۔
یہ آزادی مغربی تہذیب کے زیر اثر حاصل ہوئی۔ یہ ایک مکمل آزادی ہے۔آزادی کے ان مواقع کو استعمال کرنے کی صرف ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ داعی کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ وہ پوری طرح پُر امن دائرہ میں رہتے ہوئے اپنا دعوتی کام جاری رکھے۔
شعوراسلام یا اضافۂ ایمان
قرآن اور حدیث میں بتایاگیا ہے کہ ایمان کوئی جامد چیز نہیں، وہ ایک اضافہ پذیر چیز ہے۔ ایمان ایک پودے کی مانند ہے جو اپنے گرد وپیش کی دنیا سے غذا لے کر بڑھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی آخری اونچائی تک پہنچ جاتا ہے (ابراہیم ۲۴)۔ اس اضافۂ ایمان کو دوسرے لفظوں میں شعوری ارتقاء (intellectual development) بھی کہا جاسکتا ہے۔
یہ اضافۂ ایمان یا ازدیادِ ایمان کس طرح حاصل ہوتا ہے۔ اس اضافہ کا ذریعہ خدا کی یاد ہے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ ہے۔ کائنات میں غور کرنا ہے۔اپنے اندر تفکر اور تدبر اور توسم کی صلاحیت کو اتنا زیادہ بیدار کرنا ہے کہ گردوپیش کی پوری دنیا آدمی کے لیے ایک وسیع دستر خوان بن جائے جس سے ربّانی غذا لے کر آدمی اپنی دینی شخصیت میں اضافہ کرتا رہے۔
قدیم زمانہ کے خدا پرست افراد ہمیشہ اپنے ایمان میں اس قسم کے اضافے کرتے رہتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں مغربی تہذیب کے زیر اثر جو علمی انفجار (knowledge explosion) ہوا ہے اُس نے اضافۂ ایمان کی کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے زمانہ کا انسان روایتی فریم ورک (traditional framework) کے اندر اپنے شعور کو بیدار کرسکتا تھا اور اُس کے دائرہ میں اضافۂ ایمان کی غذا حاصل کرتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں اس کا دائرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ سائنٹفک فریم ورک کے زیادہ وسیع دائرہ میں اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کی جاسکے۔
مثال کے طورپر قدیم زمانہ کا انسان جب رات کے وقت کھلے آسمان کو دیکھتا تھا تو وہ برہنہ آنکھ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دس ہزار ستاروں کو گن سکتا تھا۔ مزید یہ کہ جن ستاروں کو وہ دیکھتا تھا، ظاہری مشاہدہ کے مطابق، وہ ان کو آسمانی چراغ جیسی چیز سمجھتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں دوربینی مشاہدہ نے بتایا ہے کہ آسمان میں ستاروں کی تعداد اُس سے بھی زیادہ ہے جتنا کہ تمام سمندروں کے کنارے ریت کے ذروں کی تعداد۔ نیز یہ کہ یہ ستارے اُس سے بہت زیادہ بڑے ہیں جتنا کہ وہ برہنہ آنکھ سے دکھائی دیتے ہیں۔ سورج جو بظاہر بڑا دکھائی دیتا ہے وہ دوسرے ستاروں کے مقابلہ میں بہت چھوٹا ہے۔ اس طرح ستاروں کے مشاہدہ سے ایمانی غذا لینے کا دائرہ اب بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
جدید سائنسی ترقی نے بتایا ہے کہ خلائی دنیا ناقابلِ قیاس حد تک وسیع ہے۔ اُس کی وسعت دہشت ناک حد تک بڑی ہے۔ اُس کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ اُس کا تصور کرنے سے دماغ میں بھونچال آجائے اور جسم تھرتھرا اُٹھے۔ یہی پانی اور ہوا اور دوسری تمام کائناتی چیزوں کا معاملہ ہے۔ سائنس نے بتایا ہے کہ ہر چیز اتنی زیادہ عظیم اور عجیب ہے کہ اُس کا ابتدائی علم بھی انسان کو سراسیمہ کردینے کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ تفصیلات حسب ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہیں :
Man Does Not Stand Alone by Cressy Morrison
موجودہ زمانہ میں اس قسم کی بے شمار دریافتیں ہوئی ہیں جنہوں نے انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ زیادہ وسیع دائرہ میں سوچے۔ وہ زیادہ وسیع معلومات کی روشنی میں چیزوں کو دیکھ سکے۔ د وسرے لفظوں میں یہ کہ آج کا انسان اس پوزیشن میں ہو گیا ہے کہ وہ خدا کی تخلیقات میں زیادہ گہرائی کے ساتھ ازدیاد ایمان کا وہ عمل کرسکے جس کو قرآن میں تفکر اور تدبر اور توسم کہا گیا ہے۔ تفکر و تدبر کے یہ نئے مواقع کس نے پیدا کئے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ مغربی تہذیب کے تحت پیدا ہونے والی جدید سائنس نے۔
خلاصۂ کلام
جدید مغربی تہذیب اسلام دشمن تہذیب کے طورپر نہیں ابھری وہ خود اپنی مثبت طاقت کے زور پر پیدا ہوئی۔تاہم اسی کے ساتھ اس میں کچھ ایسے غیر مطلوب اجزاء شامل ہوگئے جنہوں نے مغربی تہذیب اور مسلم دنیا کے درمیان تلخی پیدا کردی۔ اس تلخی کے اسباب دونوں طرف تھے، مغربی تہذیب کی طرف بھی اور مسلمانوں کی طرف بھی۔
مگر یہ صورت حال مسلم علماء اور دانشوروں کے لیے کوئی عذر فراہم نہیں کرتی۔ اس ناخوشگوار صورت حال کے باوجود مسلم علماء اور مسلم دانشوروں کا فرض تھا کہ وہ مغربی تہذیب کے حقیقی پہلو اور اس کے اضافی پہلو کے فرق کو سمجھیں۔ وہ اضافی پہلو کو نظر انداز کرکے اس کے اصل پہلو کو دیکھیں اور اس کو اپنے حق میں استعمال کریں۔
یہ غلطی جو ماضی میں کی گئی وہ بلا شبہہ نہایت مہلک تھی۔ مغربی تہذیب اسلام کی تائید کے طورپر ابھری تھی مگر اہل اسلام نے غلط فہمی کی بنا پر اس کو اپنا دشمن سمجھ لیا۔ وہ الناس اعداء ما جہلوا کے مصداق بن گئے۔
اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس امکان کو واقعہ بنایا جائے۔ مسلم علماء اور دانشور وں کو چاہئے کہ وہ اپنی غلطی کا احساس کریں۔ وہ اکیسویں صدی میں اس غلطی کو نہ دہرائیں جس کا ارتکاب وہ بیسویں صدی میں کرتے رہے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کے پیدا کردہ مواقع کو بھر پور طورپر استعمال کرکے اسلام کی جدید تاریخ بنائیں۔ یہ مواقع ماضی میں بھی خدا کے دین کے لیے تھے اور آج بھی وہ خدا کے دین کے لیے ہیں۔ مسلمان صدیوں سے اونٹ اور گھوڑے پر یہ کہہ کر سواری کرتے رہے ہیں کہ: سبحان الذی سخر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس دعا کا نیا استعمال دریافت کریں۔ وہ صنعتی دور کی طاقتوں کو کلمۂ اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال کرنے کا ثبوت دیں اور اس طرح دنیا اور آخرت میں خدا کی نصرتوں کے مستحق بنیں۔ (نئی دہلی، ۱۰ اگست ۲۰۰۴)