ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا

۲۵ جولائی ۲۰۰۴ کا واقعہ ہے۔ صبح کے وقت میں دہلی میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ پاس کے درختوں سے چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پھر میں نے اپنا ریڈیو کھولا تو آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی کے صبح کے نشریہ میں ایک مذہبی گیت سنائی دینے لگا۔ اس کی ایک لائن یہ تھی:

سجن رے جھوٹ مت بولو خدا کے پاس جانا ہے   نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے وہا ں پیدل ہی جانا ہے

اس تجربہ کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ریڈیو کا گیت اور چڑیوں کا نغمہ دونوں ایک ہیں۔ گویا کہ ریڈیو اسی حقیقت کا اعلان ملفوظ زبان میں کر رہا ہے جس کا اعلان اس سے پہلے چڑیاں غیر ملفوظ زبان میں کررہی تھیں۔ دونوں کا پیغام ایک ہے—اے انسان، تو جس دنیا میں ہے وہ خدا کی دنیا ہے۔ تیری کامیابی کاراز یہ ہے کہ تو اس بنیادی حقیقت کو جانے اور اپنی زندگی کو اس حقیقت کے مطابق ڈھال لے۔

زندگی امتحان کی ایک مدت ہے اور موت اس مدت امتحان کا خاتمہ۔ موت گویا مالک کائنات کی طرف سے انسان کی گرفتاری ہے۔ موت کے بعد ہر عورت اور مرد خدا کی عدالت میں پہنچا دیے جاتے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے قول و عمل کا حساب دیں۔ اسی حساب کی بنیاد پر ہر عورت اور مرد کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا ہے۔ خدا کے حکم پر چلنے والوں کے لیے جنت کا فیصلہ، اور خدا کے حکم کے خلاف چلنے والوں کے لیے جہنم کا فیصلہ۔

لوگ ہر سال اپنا برتھ ڈے مناتے ہیں۔ وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کا ایک اور سال پورا ہوگیا۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ ہر سال اپنا ڈِتھ ڈے منائیں۔ وہ ہر سال یاد کریں کہ ان کی مقرر زندگی کا ایک اور سال کم ہوگیا۔اس دنیا میں ہر عورت اور مرد ایک محدود مدت کے لیے آتے ہیں— پچاس سال، نوّے سال، بہت سے بہت سوسال۔ اس کے بعد ہر ایک کے لیے مقدر ہے کہ وہ اپنی عمر کی طے شدہ مدت پوری کرکے مرجائے۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو ہر عورت اور ہر مرد کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن ہورہا ہے۔ ہر نیا سال جب آتا ہے تو وہ ہر عورت اور ہر مرد کی عمر کا ایک سال اور کم کردیتا ہے۔

موت ایک ایسا آنے والا واقعہ ہے جو ہر ایک پر آتا ہے۔ موت ایک چیتاونی ہے، وہ یاد دلاتی ہے کہ آخر کار ہر عورت اور مرد کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ خدا کی عدالت میں حاضری کی مدت بہت قریب ہے۔ موت ہر ایک کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اے سونے والو،جاگ اٹھو، اور اے جاگنے والو، ہوشیار ہوجاؤ۔ تم جلد ہی خدا کی کائناتی عدالت میں حاضر کئے جانے والے ہو۔اس آنے والے بڑے دن کی تیاری کرو۔

ہر صبح کو جب آسمان پر سورج طلوع ہوتا ہے تو گویا کہ خدا اپنی کائناتی ٹارچ کو جلا کر انسان کو یہ یاد دلاتا ہے کہ خدا ہر عورت اور ہر مرد کو دیکھ رہا ہے۔ بولنے والوں نے کیا بولا اور چلنے والے کس راہ پر چلے، کسی عورت یا مرد کو خدا نے جو کچھ دیا ہے اس نے اس کو کس طرح استعمال کیا۔ ہر چیز سے خدا پوری طرح آگاہ ہے۔

یہ صورت حال پکار کر ہر عورت اور ہر مرد سے کہہ رہی ہے کہ تم جب سوچو تویہ دھیان میں رکھ کر سوچو کہ خدا تمہاری سوچ تک کو جانتا ہے۔ جب تم بولو تو یہ سوچ کر بولو کہ تمہارے الفاظ دوسرے انسان تک پہنچنے سے پہلے خدا تک پہنچ رہے ہیں۔ جب تم کوئی کام کرو تو یہ سمجھ کر کرو کہ تمہارا ہر کام خدا کی نظر میں ہے اور ہر کام پر تم کو خدا کی طرف سے سزا یا انعام ملنے والا ہے۔

ہر پیدا ہونے والی عورت اور ہر پیدا ہونے والے مرد پر لازم ہے کہ وہ خدا رخی زندگی (God-oriented life) کاطریقہ اختیار کرے۔ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔وہ وقتی خواہشوں سے بلند ہو اور وہ روش اختیار کرے جو اس کے ابدی مستقبل کے لیے کار آمدہو۔

ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بندہ ہونے کی حیثیت کو پہچانے۔ وہ خدا کی خدائی کا اقرار کرے۔ وہ خدا کے آگے پوری طرح جھک جائے۔وہ خدا کا کامل پرستار بنے۔ وہ اپنے دماغ کو برے خیالات سے پاک کرے۔ وہ لوگو ں کا خیر خواہ بنے نہ کہ بد خواہ۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری کے ساتھ اداکرے۔ وہ ایسے مال کو اپنے لیے حرام سمجھے جو جائز طورپر اس کا حق نہیں۔ اس کو کوئی عہدہ ملے تو اس عہدہ کو وہ ایک ذمہ داری سمجھے نہ کہ ایک اعزاز۔ وہ نفرت اور تشدد سے پوری طرح اپنے آپ کو بچائے۔ وہ حسد اور بغض اور کینہ کو اپنے لیے ہلاکت سمجھے۔ وہ اپنی ڈیوٹی کو پوری طرح انجام دے۔ وہ اپنے سماج کا ایک پر امن شہری بنے۔وہ دوسروں کی مدد کرنے والا ہو۔ وہ جب بھی بولے اور جب بھی کوئی کام کرے تو یہ سوچ کر بولے یا کرے کہ اس کا یہ عمل خدا کی پسند کے مطابق ہے یا خدا کی پسند کے خلاف۔ اس کا ضمیر جس کام کو خدا کی پسند کا کام بتائے اس کووہ اپنا لے اور جس کام کو اس کا ضمیر خداکی پسند کے خلاف بتائے اس سے وہ اسی طرح بچے جس طرح کوئی شخص آگ سے بچتاہے۔

یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر عورت اور ہر مرد کے سامنے دو راستے کھلے ہوئے ہیں۔ ایک جہنم کا راستہ اور دوسرا جنت کا راستہ۔ جو آدمی اپنی خواہشوں کے پیچھے چلے وہ گویا جہنم کی طرف جارہا ہے اور جو آدمی خدا کے حکم اور اپنے ضمیر کی رہنمائی میں چلے وہ جنت کی طرف جارہا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ وقتی فائدے کے بجائے ابدی فائدے کو سامنے رکھے اور وقتی مفاد کے بجائے ابدی کامیابی کے لیے عمل کرے۔ہر عورت اور ہر مرد کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کو جانے تاکہ اس کے مطابق وہ اپنی زندگی کی درست منصوبہ بندی کرسکے۔ تاکہ وہ بھٹکے بغیر اپنی حقیقی منزل تک پہنچ جائے۔

انسانی زندگی کی مثال آئس برگ جیسی ہے۔ اس کا بہت چھوٹا حصہ (ٹپ) آج کی دنیا میں دکھائی دیتا ہے اور اس کا بہت بڑا حصہ موت کے بعد آنے والی دنیا میں رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کو پیدا کرنے والے نے انسان کو ایک ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اور پھر اس کی عمر کے بہت چھوٹے حصہ کو موجودہ دنیا میں رکھا اور اس کے بڑے حصہ کو اگلی دنیامیں رکھ دیا۔ اور پھر اس کے لیے مقدر کردیا کہ وہ اپنی زندگی کے امتحانی حصہ کو موجودہ مختصر دنیا میں گزارے اور اپنی بقیہ طویل عمر گزارنے کے لیے موت کے بعد اگلی دنیا میں پہنچا دیا جائے۔

موجودہ دنیا کیا ہے اور اگلی دنیا کیا۔ موجودہ دنیا ناقص دنیا ہے اور اگلی دنیا کامل دنیا۔ موجودہ دنیا انسان کے لیے ٹسٹ کی جگہ ہے اور اگلی دنیا ٹسٹ میں پورا اترنے کی صورت میں انعام پانے کی جگہ۔

اگلی دنیا میں خدا نے ایک معیاری دنیا بنائی اسی کا نام جنت ہے۔ موجودہ دنیا اس معیاری دنیا کا ایک ناقص نمونہ ہے۔جنت آج کی ناقص دنیا کی ایک زیادہ کامل صورت ہے۔ جنت ایک ابدی دنیا ہے جب کہ موجودہ دنیا صرف ایک فانی دنیا۔

موجودہ امتحان کی دنیا میں وہ لوگ چنے جارہے ہیں جو اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کریں کہ وہ جنت کی اعلیٰ دنیا میں بسائے جانے کے اہل ہیں۔ سلکشن کی یہ مدت جب پوری ہوگی تو منتخب افراد جنت کی معیاری دنیا میں پہنچا دئے جائیں گے، جہاں نہ کوئی تکلیف ہے اور نہ کوئی اندیشہ، جہاں نہ کوئی شور ہے اور نہ کوئی مصیبت۔ اور جو لوگ اس معیار پرپورے نہ اتریں انہیں کائنات کے ابدی کوڑے خانے میں پھینک دیا جائے گا۔ آج کی دنیا میں لوگوں کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ ہر عورت اور ہر مرد بے اطمینانی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جن کو بظاہر دنیا کے سارے سامان حاصل ہیں، وہ بھی مطمئن نہیں۔ اس بے اطمینانی کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے معیاری دنیا (ideal world) کا طالب ہے جب کہ موجودہ دنیا اپنے سارے سازوسامان کے باوجود ایک غیرمعیاری دنیا ہے۔ انسان کی طلب اور موجودہ دنیا کے درمیان یہی فرق بے اطمینانی کا اصل سبب ہے۔

جنت میں یہ فرق ختم ہوجائے گا۔ وہاں کی جنت عین وہی معیاری دنیا ہوگی جس کی طلب انسان اپنے اندر فطری طور پر پاتا ہے۔ جنت میں ہر عورت اور ہر مرد کو پورا فل فلمنٹ(fulfilment) حاصل ہوگا۔ وہاں ہر ایک اپنی طلب کے مکمل جواب کو پالے گا۔

یہی وہ جنت کی معیاری دنیا ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا خیال گزرا (لاعین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر)

انسان کو اس کی ابدی عمر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا اصل مسئلہ دنیا کی کامیابی یا دنیا کی ناکامی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اگلی دنیا میں جہنم کی سزا سے بچے اور اپنے آپ کو جنت میں داخلہ کا مستحق بنائے۔ایسی حالت میں انسان کو چاہیے کہ وہ جہنم سے سب سے زیادہ ڈرے، اور وہ جنت کا سب سے زیادہ خواہش مند بنے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور یہی حقیقت پسندی کا تقاضا بھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom