اصلاح کے نام پر فساد

ایک گاؤں میں ایک قدیم مکتب تھا۔ یہ مکتب معمولی حالت میں تھا۔ اس کے بعد ایک نوجوان عالم کو اس کا ناظم بنایا گیا۔ انہوں نے رات دن محنت کی۔ لوگوں سے تعاون حاصل کیا۔ لوگوں کی رایوں اور لوگوں کے تجربوں سے فائدہ اُٹھایا۔ یہاں تک کہ چند سال کی کوششوں سے یہ مکتب ایک بڑا مدرسہ بن گیا۔ اس کی کئی بلڈنگیں کھڑی ہوگئیں۔ اسی کے ساتھ اُنہوں نے یہ اضافہ کیا کہ الگ سے لڑکیوں کا ایک مدرسہ نئی عمارت میں قائم کیا۔

مذکورہ نوجوان عالم کے حوصلے بلند تھے۔ اب انہوں نے ایک نیا منصوبہ بنایا کہ مدرسہ کے ساتھ الگ بلڈنگ میں ایک اسکول بھی قائم کریں۔ گاؤں کے لوگوں پر فرض تھا کہ وہ تعلیم کی اس ترقی پر خوش ہوں۔ وہ نوجوان عالم کو دعائیں دیں۔ حسب مقدور اس کے ساتھ تعاون کریں۔ اور اگر اس قسم کا کوئی مثبت عمل پیش نہ کرسکیں تو حدیث کے مطابق، کم از کم یہ کریں کہ اگر وہ ادارہ کو نفع نہ پہنچا سکیں تو اُس کو نقصان بھی نہ پہنچائیں (ان لم تنفعہ فلا تضرہ

مگر بد قسمتی سے وہی ہوا جو اکثر دوسرے مقامات پر موجودہ زمانہ میں پیش آرہا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگ اصلاح کے نام پر فساد کے درپے ہوگئے۔ حتٰی کہ اُن کی منفی سرگرمیوں کے نتیجہ میں مدرسہ کو عملاً بند کردینا پڑا۔

ان تخریب پسندمصلحین کا کہنا یہ تھا کہ مذکورہ نوجوان عالم اپنی ذاتی رائے سے مدرسہ کو چلارہے ہیں۔ حالاں کہ قرآن کا حکم ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی کام شورائی انداز میں چلایا جائے۔ مجھے اس میں شک نہیں کہ یہ حضرات خلیفۂ چہارم حضرت علی کے اس قول کا مصداق ہیں کہ: کلمۃ حق ارید بہا الباطل۔ یعنی انہوں نے بظاہر ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیامگر اس سے ان کا مقصد فساد کے سوا اور کچھ نہ تھا۔اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ جلن اور حسد کا معاملہ ہے، نہ کہ قرآن کے اتباع کا معاملہ۔

یہ حضرات قرآن کی آیت: امرہم شوریٰ بینہم (الشوریٰ ۳۸) کا حوالہ دیتے ہیں۔ یعنی اُن کا معاملہ آپس میں مشورہ ہے۔اس آیت میں مشورہ کی تعلیم بطور لازمی حکم نہیں ہے بلکہ اس میں ایک اسپرٹ کا ذکر ہے۔ یعنی یہ روحِ شوریٰ ہے، نہ کہ حکم شوریٰ۔ ایمان آدمی کے اندر سنجیدگی اور احتیاط پیداکرتا ہے۔ اس بنا پر وہ ایسا کرتا ہے کہ معاملات میں وہ ہمیشہ دوسروں سے مشورہ لیتا ہے۔ وہ دوسروں کی رائیں معلوم کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ تنقید کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ سنتا ہے۔ ایسا وہ اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ پیش آمدہ معاملہ میں درست فیصلہ لے سکے۔اس شورائی اسپرٹ کا تعلق انفرادی معاملہ سے بھی ہے اور اجتماعی معاملہ سے بھی۔

دو باتیں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ ایک ہے، معاملات میں مشورہ لینا، اور دوسرا ہے، لوگوں کے مشورہ کے مطابق عمل کرنا۔ مذکورہ آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ پہلی بات ہے نہ کہ دوسری بات۔ اس آیت میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ معاملات میں دوسروں کے ساتھ مشورہ کریں، وہ کھلا ڈسکشن کریں، وہ فکری تبادلۂ خیال (intellectual exchange) کریں۔ وہ لوگوں کی رائیں سنیں اور اپنی رائے دوسروں کو بتائیں۔مذکورہ قرآنی آیت کا مدّعا اصل میں یہی ہے، نہ کہ شوریٰ کے نام پر ایک باقاعدہ تنظیم بنانا۔

مذکورہ مدرسہ کے معاملہ میں اگر اس قرآنی آیت کو منطبق کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مدرسہ کے ناظم کو چاہیے کہ مدرسہ کا کام چلاتے ہوئے وہ لوگوں سے مشورہ لیتے رہیں۔ لوگوں کی رائیں اور تجربے سے استفادہ کرتے رہیں۔ کوئی فیصلہ لینے سے پہلے لوگوں سے ڈسکشن کریں تاکہ وہ زیادہ صحیح فیصلہ لے سکیں۔ اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ گاؤں کے لوگ مدرسہ کے ناظم کے اوپر انسپکٹر بن جائیں۔ وہ قرآن کی آیت کے حوالہ سے ناظم کا محاسبہ کریں۔ وہ اس کو مدرسہ سے اکھاڑنے کی تدبیریں کریں۔ اس قسم کی روش بلا شبہہ تخریب ہے۔ وہ نہ مشورہ ہے اور نہ تعمیر۔

شوریٰ یا مشورہ کا یہ مفہوم قرآن کی دوسری آیت سے واضح ہورہا ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد ہوا ہے: وشاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (آل عمران ۱۵۹) یعنی تم ان سے معاملہ میں مشورہ لو، پھر جب تم عزم کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔

قرآن کی یہ آیت بظاہر پیغمبر اسلام کو خطاب کرتی ہے۔ مگر پیغمبر اسلام ایک اعتبار سے پیغمبر تھے اور دوسرے اعتبار سے وہ تمام اہل ایمان کے لیے اسوہ تھے۔ اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اصل چیز مشورہ کی اسپرٹ ہے نہ کہ مشورہ کا نظامی ڈھانچہ۔ اس کے مطابق، ہر مومن کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ چھوٹے اور بڑے ہر معاملہ میں بار بار لوگوں سے پیش آمدہ معاملہ میں مشورہ لے۔ وہ لوگوں سے ڈسکشن کرے۔ وہ معاملہ کے سارے پہلوؤں پر نہ صرف خود غور کرے بلکہ اس کو دوسروں کے ساتھ زیر بحث لائے۔ اس طرح وہ زیادہ بہتر طورپر اس پوزیشن میں ہوگا کہ وہ یقین کے ساتھ فیصلہ لے سکے۔ اور جب وہ اس طرح کسی فیصلہ پر پہنچ جائے تو خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام شروع کردے۔

قرآن کی اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ شوریٰ یا مشورہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ معروف جمہوری ڈھانچہ کی صورت میں اس کا ایک قانونی نظام بنایا جائے اور اس نظام کے ممبران کے اتفاق رائے یا ان کی کثرت رائے کو حتمی حیثیت دے کراس کے مطابق کام کیا جائے۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کا نظامی ڈھانچہ نہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں بنایا گیا اور نہ خلفاء راشدین کے زمانہ میں اور نہ بعد کے زمانہ میں موجود تھا۔ جو چیز موجود تھی وہ یہ کہ صاحب امر معاملات میں ہمیشہ لوگوں کی رائے دریافت کرتا جس کا مقصد خود اپنے آپ کو تیار کرنا ہوتا تھا۔ اور جب صاحب امر یہ سمجھ لیتا کہ اس کی ذہنی تیاری کا کام ہوچکا ہے تو وہ اللہ کے بھروسہ پر اقدام کرتا۔ گویا کہ اسلام میں شورائی کلچر ہے، اسلام میں شورائی نظام نہیں۔ واضح ہو کہ اسپرٹ کے ساتھ ہی شوریٰ کا فائدہ ہے۔ اگر اسپرٹ نہیں تو شوریٰ بھی نہیں۔ کوئی تنظیمی ڈھانچہ اسپرٹ کا بدل نہیں بن سکتا۔

غیر رسمی شورائیت تو اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ مگر رسمی ڈھانچہ کے اعتبار سے شورائی نظام اسلام کی تاریخ میں پایا نہیں جاتا۔ گویا شورائی مزاج تو تھا مگر شورائی تنظیم جیسی کوئی چیز کبھی قائم نہیں کی گئی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پنج وقتہ نماز کا باقاعدہ نظام بنایا اور اس کے مرکز کے طورپر مسجد کی تعمیر کی۔ اسی طرح آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ شوریٰ کا تنظیمی ڈھانچہ بنائیں اور دارالشوریٰ کے نام سے اس کے لیے ایک عمارت تعمیر کریں جو بعد کے لوگوں کے لیے اس معاملہ میں ایک نمونہ ہو۔ اس قسم کا عمل نہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں کیا گیا، نہ خلفاء راشدین کے زمانہ میں اور نہ بعد کے کسی زمانہ میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں شوریٰ بطور روح تو ضرور ہے مگر اسلام میں شوریٰ بطور ڈھانچہ نہیں۔

اس موضوع پر ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔ وہ شوریٰ کی نظامی تعبیر یا اس کی تنظیمی ڈھانچہ بندی کے قائل تھے۔ میں نے کہا کہ یہ مفہوم قرآن کے الفاظ سے نہیں نکلتا۔ اور اگر بالفرض اس کا یہ مفہوم ہو تو اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی اس پر عمل نہیں ہوا۔

میں نے کہا کہ پیغمبر اسلام ایک مکمل اسوہ بنا کر بھیجے گئے۔ مگر آپ نے کبھی تنظیمی مفہوم میں شوریٰ کا کوئی نظام نہیں بنایا۔ خلفاء راشدین کے زمانہ میں ایسا کوئی باضابطہ نظام نہیں تھا۔ بعد کے زمانہ میں بھی کسی دور میں شوریٰ کے نام سے کسی تنظیمی ڈھانچہ کا ثبوت نہیں ملتا۔ حتٰی کہ پانچویں خلیفۂ راشد عمربن عبد العزیز کے زمانہ میں بھی نہیں۔ ہر دور میں مشورہ ضرور تھا، مگر کسی بھی دور میں اس مقصد کے لیے کسی رسمی تنظیم کا ثبوت نہیں ملتا۔

انہوں نے کہا کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں بڑے بڑے صحابہ موجود تھے۔ اس لیے اس زمانہ میں مستقل شورائی تنظیم بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے کہا کہ اس معاملہ میں اصل فیصلہ کن مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اکابر صحابہ موجود تھے یا نہیں۔ اصل قابل لحاظ مسئلہ یہ ہے کہ اشو پیدا ہوئے یا نہیں پیدا ہوئے۔ دور اول کی تاریخ بتاتی ہے کہ رسول کی وفات کے فوراً بعد بڑے بڑے اِشوز پیدا ہوئے—ارتداد کا مسئلہ، خلیفہ کے تقرر میں اختلاف، خلیفۂ سوم کے زمانہ میں مناصب کی تقرر ی میں اختلاف، خلیفۂ چہارم کے زمانہ میں خون عثمان کے معاملہ میں اختلاف، حسن اور حسین کے زمانہ میں خروج کے مسئلہ پر اختلاف، وغیرہ۔ مگر اس پوری مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس پر غور و فیصلہ کے لیے تنظیمی مفہوم میں کوئی باقاعدہ شوریٰ بنائی جائے۔

ایسی حالت میں یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ قرآن میں ایک ایسے اجتماعی اصول کا حکم دے دیا جائے جس پر کبھی عمل ہی نہ کیا جائے۔ جس کے لیے یہی مقدر ہو کہ وہ ہمیشہ کے لیے کتابوں میں معطل پڑا رہے۔

ایک روایت کے مطابق، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھاجو لوگوں سے اتنا زیادہ مشورہ کرتا ہو جتنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے (مارأیت رجلاً اکثر استشارۃ للرجال من رسول اللہ صلعم) پیغمبر اسلام کے زمانہ میں تمام اکابر صحابہ موجود تھے۔ پھر اگر اکابر صحابہ کی موجودگی شوریٰ میں مانع ہو تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اتنا زیادہ مشورہ کیوں کرتے تھے۔ یہ واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اکابر صحابہ کی موجودگی یا غیر موجودگی کا کوئی تعلق شوریٰ کے عمل سے نہیں ہے۔شوریٰ یا مشورہ انسانی زندگی کا ایک جزو ہے۔ اُس کو کسی بھی حال میں زندگی سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

تنظیم ایک محدود گروہ کا نام ہوتا ہے۔ شوریٰ کو تنظیمی ڈھانچہ کی صورت دینا شوریٰ کی افادیت کو محدود کرنا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ شوریٰ کے مقرر ممبران ہی ساری بات جانتے ہوں۔ بہت سی باتیں ایسی ہوسکتی ہیں جن کے بارے میں ممبران شوریٰ کے باہر کے افراد زیادہ بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ بد رکے میدان کے انتخاب کے بارے میں ایک عام آدمی کا قیمتی مشورہ۔ اسی طرح غزوۂ خندق کے موقع پر ایک ایرانی نومسلم کا نہایت مفید مشورہ وغیرہ۔ ایسی حالت میں شورائی تنظیم کے مقابلہ میں شورائی کلچر کا اصول زیادہ با معنٰی اور زیادہ کار آمد ہے۔

ضرورت کے تقاضے کے تحت شوریٰ کا تنظیمی ڈھانچہ بنایا جاسکتا ہے۔ مگر اس قسم کے تنظیمی ڈھانچہ کو شرعی معنوں میں فرض کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ شرعی فرض وہی ہوگا جو قرآن و سنت سے براہ راست طورپر ثابت ہو اور جس کی نظیر قرون مشہود لہا بالخیر میں پائی جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom