امن پسندی تحفظ کا ذریعہ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک پیغمبر سے اُس کی قوم نے کہا: ولولا رہطک لرجمناک (ھود ۹۱)۔ یہ رہط پیغمبر کے مومنین کا نہ تھا بلکہ پیغمبر کی قوم کا تھا جو ایمان نہ لانے کے باوجود قبائلی روایت کی بنا پر، پیغمبر کا تحفظ کرتے تھے۔ یہی حقیقت حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: ما بعث اللہ نبیا الا فی منعۃ ٍ من قومہ (مسند احمد ۲؍ ۵۳۳) یعنی ہر پیغمبر کو خدا نے اپنی قوم کی منعت (محافظ قوت) کے ساتھ بھیجا۔
قدیم زمانہ میں جب کہ جدید طرز کا حکومتی نظام موجود نہ تھا لوگ قبائل کی حمایت میں رہا کرتے تھے۔ قبائلی روایات کے مطابق، ہر قبیلہ اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنے افراد کا تحفظ کرے۔ قدیم زمانہ میں یہی قبائلی روایت پیغمبروں کے لیے محافظ قوت بنی رہی۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہاشم کے سردار ابو طالب کی طرف سے یہ منعہ حاصل تھا۔ ابو طالب اگر چہ آخر وقت تک ایمان نہیں لائے مگر وہ قبائلی روایات کی بنا پر، پیغمبر اسلام کے مخالفین کے مقابلہ میں آپ کے لیے منعہ(محافظ قوت) بنے رہے۔ (ملاحظہ ہو سیرت ابن ہشام، الجزء الاول صفحہ ۲۸۱)
موجودہ زمانہ میں قبائلی نظام ختم ہوچکا ہے۔ مگر جدید تصور ریاست کے تحت سیکولر نظام اہل ایمان اوراہل دعوت کو یہی منعہ فراہم کر رہا ہے۔ موجودہ زمانہ کی سیکولر حکومت اپنے ہر شہری کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے مانے اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے، اُس کو کوئی روک نہیں سکتا، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اہل مذہب یا اہل دعوت کسی کے خلاف تشدد نہ کریں۔
پیغمبروں کو قدیم زمانہ میں جو منعہ ملا وہ قبائلی منعہ تھا، نہ کہ اسلامی منعہ۔ اس کے باوجود پیغمبروں نے اُس کو قبول کیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو جو منعہ ملا وہ بھی سیکولر منعہ ہے، نہ کہ اسلامی منعہ۔ پیغمبروں کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کوچاہئے تھا کہ وہ اس منعہ کو قبول کرتے ہوئے اس کے ماتحت پُر امن طورپر دعوت کا کام کریں۔ مگر ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں نے سیکولرزم کو لادینیت قرار دے کر اُس کے خلاف لفظی اورعملی لڑائی چھیڑ دی۔ اس طرح وہ غیر ضروری طورپر سیکولرزم کے حریف بن گئے۔ سیکولر نظام کے تحت ملا ہوا قیمتی منعہ استعمال ہونے سے رہ گیا۔