زیادہ بڑی گود
ہندستانی روایات میں ایک کہانی اس طرح ہے کہ ایک راجہ کے یہاں دو رانیاں تھی۔ دونوں رانی کے یہاں ایک ایک بچہ تھا۔ دونوں کے درمیان رقابت رہتی تھی۔ ایک دن ایک رانی کا بچہ راجہ کی گود میں آکر بیٹھ گیا۔ دوسری رانی نے اس منظر کو دیکھا تو اسے غصہ آگیا۔ وہ اپنے بیٹے کو لے کر آئی اور دوسری رانی کے بیٹے کو ہٹا کر اپنے بیٹے کو راجہ کی گود میں بٹھا دیا۔بچہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس گیا اور پورا قصہ بتایا۔ ماں نے کہا کہ اے میرے بیٹے تم پرم پتا کی گود میں بیٹھ جاؤ۔ اس کے بعد تمہیں ان باتوں کی شکایت نہ ہوگی۔
یہ ایک تمثیلی کہانی ہے۔ تاہم اس میں بہت بڑا سبق ہے۔ انسان عام طورپر مختلف قسم کی شکایتیں لیے رہتاہے۔ اس کو اپنے گھر والوں کی طرف سے اور سماج کے لوگوں کی طرف سے مختلف قسم کے ناپسندیدہ تجربات پیش آتے رہتے ہیں جو شکایت بن کر اس کے سینہ میں بس جاتے ہیں۔ مگر یہ سب بہت چھوٹی باتیں ہیں۔ زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آدمی خدا کی یادوں میں جینے والا بنے۔ وہ اپنا سارا بھروسہ خدا پر قائم کرے۔ وہ خدا کی دی ہوئی چیزوں کی عظمت میں اس طرح گم ہو کہ اس کو یاد ہی نہ رہے کہ کسی اور نے اس کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا۔
انسانوں سے شکایت دراصل خدا سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ خدا کی طرف سے انسان کو جو بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہیں وہ ایک اتھاہ سمندر کی مانند ہیں اور انسانوں کی طرف سے جو کچھ پیش آتا ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک قطرہ سے بھی کم ہے۔ عطیاتِ الہٰی کے اس سمندر میں اگر کوئی شخص اپنی طرف سے ایک قطرہ اور ڈال دے تو سمندر میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس سمندر سے ایک قطرہ نکال لے تب بھی اس میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں۔
ہر آدمی ’’پرم پتا‘‘ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس واقعہ کا شعوری ادراک اگر پوری طرح حاصل ہو جائے تو آدمی بڑی سے بڑی شکایت کو اس طرح نظر انداز کردے گا جیسے کہ اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔