تربیت کا طریقہ
ایک صاحب کو ان کے پڑوسی نے نہایت سخت بات کہہ دی۔ وہ صاحب اس کو سن کر چپ چاپ اپنے گھر میں چلے آئے۔ انھوں نے کہنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے لڑکے کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت بگڑا۔ اس نے کہا کہ اس شخص کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ میرے باپ کو اس طرح ذلیل کرے۔ میں اس کو سبق دوں گا تاکہ آئندہ وہ کبھی ایسی ہمت نہ کرے۔
باپ نے بیٹے کو ٹھنڈا کیا۔ باپ نے کہا کہ آخر اس نے ایک لفظ ہی تو کہا ہے۔ اس نے مجھے کوئی پتھر تو نہیں مارا۔ پھر اس میں ہمارا کیا نقصان ہے۔ اس نے اگر اپنی زبان خراب کی ہے تو ہم اپنی زبان کیوں خراب کریں۔ باپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اس کو بھلادو اور اپنے کام میں لگ جاؤ۔بیٹا اس واقعہ کو ’’یاد‘‘ کے خانہ میں رکھنا چاہتا تھا، باپ نے اس کو ’’بھول‘‘ کے خانہ میں ڈال دیا۔ جو واقعہ عام حالات میں غصہ اور انتقام کا موضوع بنتا، وہ صبر اور برداشت کا موضوع بن گیا۔ کچھ دنوں بعد خود پڑوسی کو شرمندگی ہوئی۔ اس نے آکر اپنی گستاخی کی معافی مانگی اورآئندہ کے لیے پہلے سے زیادہ بہتر ہوگیا۔
باپ اگر اپنے بیٹے کے اندر انتقام کی نفسیات ابھارتا تو وہ برائی کا ایجنٹ بن جاتا۔ مگر باپ نے جب اپنے بیٹے کو بھلانے اور برداشت کے راستہ پر ڈالا تو وہ ان کے لیے نیکی اور سچائی کا رہنما ہوگیا۔ قرآن کے لفظوں میں وہ متقیوں کا امام بن گیا(الفرقان، 25:74)۔
اسی کا نام بچوں کی تربیت ہے۔ بچوں کی تربیت یہ نہیں ہے کہ ایک وقت مقرر کرکے انھیں بٹھایا جائے اور تحریر یا تقریر کی صورت میں انھیں اصلاحی باتیں سنائی جائیں۔ اصل تربیت یہ ہے کہ گھر کے اندر جب عملی طورپر وہ مواقع پیدا ہوں جہاں ایک راستہ صحیح سمت میں جاتاہو اور دوسرا راستہ غلط سمت میں۔ ایسے مواقع پر جذبات کو برداشت کرکے اور ذاتی نقصان اٹھا کر گھر والوں کو رہنمائی دی جائے۔ ان کے ذہن کو ایک رخ سے دوسرے رخ کی طرف پھیر دیا جائے-تربیت پیدا شدہ حالات کے درمیان رہنمائی کی جاتی ہے نہ کہ مجرّد قسم کی وعظ خوانی کے ذریعہ۔
ایک مثال
بچوں کی تربیت کے سلسلے میں عام طور سے یہ کیا جاتا ہے کہ ایک مقرر وقت پر جمع کرکے بچوں کو دین کے مسائل بتایا جائے۔ بچوں کی تربیت اس قسم کے وقتی وعظ سے نہیں ہوتی بلکہ تربیت کا اصل ذریعہ گھر کا ماحول ہے۔ اگر آپ کے گھر میں اخلاق اور انسانیت کا ماحول ہو۔ آپ کے گھر میں کسی کی غیبت اور شکایت نہ کی جاتی ہو، اور آپ کے گھر میں دوسروں کو عزت دینے کا ماحول ہو، خواہ وہ اپنا ہو یا غیر تو یہ ماحول آپ کے گھر کو ایک زندہ تربیت گاہ بنا دے گا۔ اس کے بعد کسی رسمی وعظ کی ضرورت نہ ہوگی۔
یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے، جو بتاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کیا ہوتی ہے۔ مظفر نگر (یوپی) کے ایک قصبہ کا واقعہ ہے۔ وہاں ایک مسلم خاندان کے یہاں ایک ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے روزانہ آتی تھی۔ گھر کی ایک بچی سے اس ہریجن عورت کی دوستی ہوگئی۔ یہ ہریجن عورت جب وہاں صفائی کے کام کے لیے آتی تو وہ سب سے پہلے مذکورہ بچی سے ملتی۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ گھر کے اندر جنت اور جہنم کا تذکرہ ہوا۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ جنت میں داخلہ کے لیے ایمان ضروری ہے۔ جو شخص مومن اور موحد ہو وہی موت کے بعد جنت میں جائے گا۔اور جو لوگ مشرک ہیں، جو غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ بچی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ میں تو مومن اور موحد ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی۔ مگر ہریجن عورت تو شرک میں مبتلا ہے، وہ کس طرح جنت میں جائے گی۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ اگلے دن جب مذکورہ ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی دوست بچی گھر میں ایک کنارے کھڑی ہوئی بری طرح رو رہی ہے۔ عورت اس کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے پوچھا کہ تم کو کیا تکلیف ہے۔ تم کیوں اس طرح رو رہی ہو۔ بہت پوچھنے کے بعد بچی نے کہا کہ میں مومن ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی، اورتم مشرک ہو اس لیے تم جنت میں نہیں جاؤ گی۔ اس طرح موت کے بعد کی زندگی میں میرا اور تمہارا ساتھ چھوٹ جائے گا۔ یہ سن کر ہریجن عورت نے کہا کہ تم مت روؤ۔ میں آج سے اسلام قبول کرتی ہوں تاکہ ہم دونوں ایک ساتھ جنت میں رہیں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اگر گھر کا ماحول جیساہوگا، بچے اسی طرح کی راہ کا انتخاب کریں گے،اور یہی ماحول بچوں کی ذہن سازی میں رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔
امریکا میں مقیم ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ہم کو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد دینی اعتبار سے اِن بچوں کا کیا حال ہوگا۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے بچے سیکولر اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے گھر پر اسی کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا میں اس کو ہوم اسکولنگ (home schooling) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ جب آپ نے امریکا میں رہنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ یہاں کے کلچر سے اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ ہوم اسکولنگ کے ذریعہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذ کی دیوار سے سیلاب کا مقابلہ کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ غالباً کو ئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں جس کی مثال کو لے کر یہ کہا جاسکے کہ ہوم اسکولنگ کا طریقہ اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف گھر کے ماحول کو بدلا جائے، اور دوسری طرف بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا جائے۔ گھر میں سادگی (simplicity)اور بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کئے بغیر اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔