سوال وجواب
سوال
میری خواہش ہے کہ مذکورہ ذیل چند عناوین پر آپ کے خیالات معلوم کروں:
۱۔ ختم نبوت کی حقیقت۔ ۲۔ مسئلہ حیات و ممات حضرت عیسیٰ؈۔ ۳۔ حضرت امام مہدی؈، یعنی ان کا کام کیا ہوگا۔ آپ کے نزدیک ان کا مقام کیا ہوگا۔ ۴۔ مسئلہ اجزائے وحی کی حقیقت۔ یعنی وحی کی کتنی اقسام ہیں۔ کیا وحی کا تعلق صرف انبیاء سے ہوتا ہے۔ کیااب ہر قسم کی وحی بند ہے۔ (محمد وسیم خاں، قادیان)
جواب
۱۔ ختم نبوت کے بارہ میں میں اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔ میرے نزدیک پیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت آخری طورپر ختم ہوگیا۔ اب نہ کوئی براہ راست پیغمبر آنے والا ہے اور نہ کوئی بالواسطہ پیغمبر۔ پیغمبر اسلام کے بعد دین خدا وندی کا متن محفوظ ہوگیا۔ عملی طورپر اُس کا ایک تاریخی نمونہ قائم ہوگیا۔ دنیا کے حالات میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن کے بعد دین خدا وندی میں کسی قسم کی تحریف کا امکان باقی نہیں رہا۔ اس لیے اب کسی نئے نبی کی ضرورت بھی نہیں۔
۲۔ میرے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اُسی طرح ہوچکی ہے جس طرح دوسرے پیغمبروں کی ہوئی۔ جہاں تک حضرت مسیح کی آمد ثانی کا سوال ہے تو اس بارہ میں میری رائے تقریباً وہی ہے جو علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بیان کی ہے:
ابن مریم سے مسیح ناصری مقصود ہیں یا مجدد جس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات
۳۔ مہدی کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ وہ پیغمبر کی طرح کوئی عہدہ نہیں ہے بلکہ وہ خدمتِ دین کا ایک معاملہ ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،مہدی در اصل ایک ہدایت پایا ہوا شخص ہوگا، نہ کہ ہدایت دینے والا شخص۔ غالباً اسی لیے اُس کو ہادی نہیں کہا گیا بلکہ مہدی کہا گیا۔ بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک ایسا وقت آئے گا جب کہ بگاڑ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ حقیقی سچائی لوگوں سے اوجھل ہوجائے گی۔ اُس وقت اللہ کی توفیق سے ایک ’’رجل مؤمن‘‘ ہوگا جو حقیقی سچائی کو پائے ہوئے ہوگا اور اُس کو لوگوں کے سامنے بیان کرے گا۔ میرے نزدیک مہدی سے مراد مجدّد ہے۔ لیکن مہدی کا مہدی ہونا خود مہدی کو بھی شعوری طور پر معلوم نہ ہوگا۔ اُس کا علم صرف اللہ کو ہوگا جو آخرت میں اُس کا اظہار فرمائے گا۔
۴۔ وحی کی صرف ایک قسم ہے۔ اور یہ وحی وہی ہے جو فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچتی ہے۔ البتہ جیسا کہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے، غیر انبیاء کو بھی خواب یا القاء (inspiration) کی صورت میں خدائی رہنمائی دی جاتی ہے۔ تاہم یہ رہنمائی صرف ایک قرینہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ نہ قطعی ہے اور نہ وہ کسی کے لیے حجّت ہوسکتی ہے۔
سوال
میں ذہنی اعتبار سے پریشان ہوں اور اس کا حل آپ کے ذریعہ سے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک دینی ادارے میں سروس کرتا ہوں۔ میری تنخواہ کم اور گھریلو حالات ناقابلِ بیان ہیں۔ اس وقت حالات بڑے ہی خراب ہیں۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لڑائی و فساد رونما ہوتا ہے۔ ان حالات میں دل کو اطمینان نہیں ہوتا اور خیالات فاسدہ دل و دماغ میں آتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں۔ کیا سروس ختم کردوں یا ان تمام حالات کو برداشت کروں۔میں معاشی اعتبار سے بہت ہی پریشان ہوں۔ برائے کرم اس کا کوئی حل بتائیں۔(محمد عتیق الرحمن، ہنگولی)
جواب
معاشی مسئلہ ایک انفرادی مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہر ایک کو اپنے حالات کے اعتبار سے ڈھونڈھنا پڑتا ہے۔ کسی کے لیے معاشی مسئلہ کا حل یہ ہوتا ہے کہ وہ کفایت اور سادگی کاطریقہ اختیار کرے۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی ہنر سیکھے۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف تنہا نہ کمائے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کام میں لگائے۔ کسی کا کیس یہ ہوتاہے کہ وہ بہتر تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ ایسے شخص کے لیے میرا مشورہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے لیے قناعت کا طریقہ اختیار کریں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں۔ تاکہ آپ کی اگلی نسل دوبارہ اس مسئلہ کا شکار نہ ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ مسائل ہر ایک کو پیش آتے ہیں، خواہ اُس کی آمدنی کم ہو یا زیادہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ گھر والوں کی طرف سے شکایات ہوں تو اُن کا جواب تحمل کے ساتھ دیا جائے۔ ردعمل کا طریقہ ہرگز نہ اختیار کیا جائے۔ کامیاب زندگی گذارنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز دانش مندی ہے، نہ کہ زیادہ آمدنی۔
سوال
یہ حقیقت واضح ہے کہ پانچ وقت کی نماز کاتحفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں عطا کیا گیا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول معراج میں جانے سے قبل بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیائے کرام کی امامت فرمارہے ہیں۔ برائے مہربانی یہ بتانے کی زحمت فرمائیں کہ وہ کون سی نماز تھی جس کی ہمارے رسول نے امامت فرمائی۔ (زبیر احمد، بھاگلپور)
جواب
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سوال سے منع فرمایااور یہ کہا کہ پچھلی امتیں کثرت سوال کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں (فانما ہلک من کان قبلکم بکثرۃ سؤالہم) (النسائی، کتاب الحج، مسند احمد ۲؍۲۴۷)
مذکورہ سوال اسی نوعیت کا ایک سوال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اس قسم کا سوال ذہن میں آئے تو اُس کو شیطانی وسوسہ سمجھ کر اُس کو اپنے دماغ سے نکال دینا چاہئے، نہ یہ کہ اُس کا جواب حاصل کرنے کے لیے اپنا وقت ضائع کیا جائے۔
کثرتِ سوال سے مراد در اصل غیر متعلق سوال(irrelevent question) ہے۔ اصل یہ ہے کہ فکر صحیح کے لیے ترکیز (concentration) بہت ضروری ہے۔ ترکیز یہ ہے کہ آدمی اپنے فکری عمل کو صرف متعلق سوال تک محدود رکھے اور غیر متعلق سوال میں اُلجھنے سے اپنے آپ کو بچائے۔
مثلاً انبیاء کی امامت کے معاملہ میں یہ ایک غیر متعلق سوال ہے کہ وہ نماز کس وقت کی نماز تھی۔ اُس کا اصل متعلق پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اہتمام کے تحت پیغمبر اسلام نے تمام انبیاء کی امامت کی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ پچھلے نبیوں کے پیروؤں کو چاہئے کہ اب وہ ہدایت کے معاملہ میں پیغمبر اسلام کی اقتدا کریں۔
ایسا جو کیا گیا اُس کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دوسرے ادیان کو ماننے والے یہ جان لیں کہ اب نجات دین محمدی کی پیروی میں منحصر ہوگئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی امّت اپنی بڑھی ہوئی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ انسانیت کے حق میں اُس کی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مزید شدت کے ساتھ تمام انسانوں تک پیغمبر اسلام کا لایا ہوا دین پہنچائے۔ وہ اس معاملہ میں آخری حدتک لوگوں کی ہدایت کے لیے حریص بن جائے۔
سوال
حدیث میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ مُسلمان تہتّر فرقوں میں بٹ جائیں گے اور ایک کے علاوہ باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ کیا آج کے دور میں ایساکوئی فرقہ موجود ہے جو رسول اللہ ﷺکے طریقوں پر ہُو بہو عمل پیراہے جس سے ہم اپنا ناطہ جوڑ کر اپنی عاقبت سنوار سکیں۔ مذکورہ حدیث کا صحیح مفہوم بھی سمجھائیے۔ (محمد اسلم چوگلے، باندرہ)
جواب
مذکورہ حدیث میں اگر چہ فرقہ کا لفظ آیا ہے مگر اُس سے مراد اجتماعی معنوں میں کوئی فرقہ یا تنظیم یا جماعت نہیں ہے۔ اُس سے مراد کوئی مجموعی فرقہ نہیں ہے بلکہ ایسے صالح افراد ہیں جو بگاڑ کے زمانہ میں امت کے اندر پائے جائیں گے۔ بعد کے زمانہ میں دین کے نام پر اُمت کے اندر جو تنظیمیں بنائی گئیں وہ میرے نزدیک تنظیمی بدعتیں تھیں۔ یہ تصور بلا شبہہ بے بنیاد ہے کہ ان تنظیموں میں سے کوئی تنظیم ایسی ہے جو فرقۂ ناجیہ کی حیثیت رکھتی ہو اور جس سے منسلک ہو کر نجات حاصل ہو جائے۔ اسلامی تصور کے مطابق، نجات ایک انفرادی معاملہ ہے، نہ کہ اجتماعی معاملہ۔