صدام حسین کے لیے انتخاب
(Option for Saddam Husain)
عراق کے صدر صدام حسین کے سامنے محفوظ طورپر صرف ایک ہی چوائسہے۔ وہ یہ کہ وہ عراق کو چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ باہر چلے جائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام پرسکون جلاوطنی میں گزاریں۔ جیسا کہ ان سے پہلے بہت سے حکمراں کرچکے ہیں۔ خوش قسمتی سے کئی عرب ملک اُن کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔
صدام حسین کے لیے یہی واحد چوائس ہے۔ دوسرا چوائس جو اس وقت وہ لیے ہوئے ہیں وہ عملی طورپر کوئی چوائس نہیں۔ یعنی اپنی پولیٹکل گدّی پر بدستور جمے رہنا۔اس دوسری چوائس میں یقینی طورپر آخرکار ان کی اپنی تباہی بھی ہے اور عراق کی تباہی بھی۔
صدام حسین اگر اسلامی اصول کی بنیاد پر فیصلہ کریں تو میں اُن کو یاد دلاؤں گا کہ پیغمبر اسلام کی پالیسی کیا تھی۔عائشہ زوجِ رسول کہتی ہیں کہ جب بھی پیغمبر اسلام کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا تو وہ ہمیشہ آسان انتخاب(easier option) کو لے لیتے اور مشکل انتخاب(harder option) کو چھوڑ دیتے (البخاری)
موجودہ حالات میں یہ بالکل واضح ہے کہ صدام حسین کے لیے ترک وطن کا چوائس ہی واحد آسان انتخاب(easier choice) ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنی موجودہ حالت پر اصرار کریں تو یہ امریکہ کو عراق پر بمباری کی دعوت دینے کے ہم معنٰی ہوگا۔ دوسری صورت اُن کے لیے مشکل انتخاب ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ صدام حسین اگر اس شرعی اصول کو نہ مانیں تب بھی میں کہوں گا کہ اُن کے حق میں عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے۔ دنیا کے تمام دانشمند سیاست داں کا کہنا ہے کہ سیاست ممکن کاآرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
اس عقلی فارمولے کی روشنی میں بھی صدام حسین کے لیے درست پالیسی یہ ہے کہ وہ امریکا کے پیش کردہ محفوظ نقل مقام (safe passage) کی پیشکش کو قبول کرلیں اور عراق کے باہر جاکر پر سکون زندگی گزاریں۔ اس طرح کی زندگی کے لیے وسائل کے اعتبار سے ان کے پاس اب بھی بہت کافی وسائل موجود ہیں۔
اس کے برعکس اگر وہ عراق میں اپنی سیٹ پر جمے رہنے پر اصرار کریں تو یہ اُن کے لیے یقینی طورپر ناممکن کا آرٹ(art of the impossible) کو اختیار کرنے کے ہم معنٰی ہوگا اور ظاہر ہے کہ ناممکن کی سیاست ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس کا کوئی بھی دانش مند آدمی تحمل نہیں کرسکتا۔
یہاں میں یاد دلاؤں گا کہ صدام حسین کے لیے جنگ کوئی نیا تجربہ نہیں۔ اس سے پہلے کم ازکم دوبار وہ باقاعدہ جنگ کرچکے ہیں۔ پہلی بار ایران کے ساتھ اور دوسری بار کویت کے معاملہ میں امریکا کے ساتھ جس کو انہوں نے ام المعارک(mother of battles) کانام دیا تھا۔ مگر ان دونوں جنگوں میں صدام حسین کو ایسی شکست ہوئی جس کو مبصرین نے ذلّت آمیز شکست کا نام دیا تھا۔
دوبار کے اس ناکام تجربہ کے بعد اب وہ کس چیز کے بَل پر تیسری بار امریکہ جیسے سُپر پاور سے لڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔ جب کہ حالت یہ ہے کہ صدام حسین بوقتِ تحریر (۱۵ فروری ۲۰۰۳) پہلے سے زیادہ کمزور ہوچکے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اب پہلے سے زیادہ طاقتور حیثیت حاصل کرچکا ہے۔ صدام حسین اور امریکا کے درمیان فوجی طاقت کے اعتبار سے اتنی واضح نابرابری (disparity) ہے کہ دنیا کاکوئی بھی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرے گا کہ اگر جنگ ہوئی تو صدام حسین امریکا کو شکست دے دیں گے اور فتح کا جشن منائیں گے۔
صدام حسین کے لیے افغانستان میں دو مختلف مثالیں موجود ہیں۔ ایک ظاہر شاہ کی اور دوسری ملّا محمد عمر کی۔ ظاہر شاہ نے اسی قسم کی صورت حال میں اپنی گدی چھوڑ دی اور افغانستان سے ہجرت کرکے اٹلی چلے گئے۔ وہاں وہ آج بھی عافیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے برعکس مثال ملا محمد عمر کی ہے۔ انہوں نے غیر حقیقت پسندانہ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی ہلاک ہوئے اور افغانستان کو بھی تباہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدام حسین اگر ظاہر شاہ کی مثال کو اپنائیں تو یہ ان کے لیے بھی اچھا ہوگا اور عام مسلمانوں کے لیے بھی۔
صدام حسین کے متعلق معلوم ہے کہ وہ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ عرب سربراہانِ مملکت میں وہ غالباً سب سے زیادہ تعلیم یافتہ حکمراں ہیں۔ اُن کو عربی زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اس حقیقت کو سمجھیں تو سیاست اُن کے لیے صرف ایک سیکنڈری چوائس ہے۔ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو اس سے زیادہ بڑے کام میں استعمال کرسکتے ہیں اور اپنے بعد دنیا کے لیے زیادہ بہتر وراثت چھوڑ سکتے ہیں۔
مثلاً وہ امریکہ کے جیفر سن کی طرح ایک بڑی یونیورسٹی قائم کریں۔ وہ برطانیہ کے چرچل کی طرح اپنی ممائرس (memoirs) لکھیں۔ حتیٰ کہ اپنی غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر وہ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ گوتم بدھ کی طرح سیاسی اقتدار کو چھوڑ کر مذہب کے احیاء کاکام کریں، وغیرہ۔ صدام حسین اگر یہ فیصلہ کریں کہ آئندہ وہ سیاسی رول کے بجائے تعمیری رول کو اپنے لیے منتخب کریں گے تو یہ بلاشبہہ ایک عظیم واقعہ ہوگا۔ اس طرح وہ اپنے جیسے بہت سے لوگوں کے لیے ایک کامیاب رول ماڈل بن جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ اُن کا یہ فیصلہ جدید تاریخ میں ایک نئے دور انقلاب کاآغاز بن جائے۔ (۱۵ فروری ۲۰۰۳)