خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۸
۱۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کی نمائندہ مزونٹیکا نے یکم نومبر۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ٹیلی فون پر انٹرویو لیا۔ سوالات کاتعلق کلوننگ اور اسلام سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ علاج کی ضرورت کے لیے جزئی کلوننگ اسلام میں جائز ہے مگر پورے معنوں میں کلوننگ، یعنی انسان کا مثنیٰ بنانا اسلام میں جائز نہیں۔ اس طرح کی کلوننگ سے سارا تمدّنی نظام تباہ ہو جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ اہلِ مغرب ایک طرف انسانی آبادی میں اضافہ کو سب سے بڑا مسئلہ بتاتے ہیں اور دوسری طرف انسانی کلوننگ کے ذریعہ انسانی آبادی میں اضافہ کی کوشش کر رہے ہیں۔
۲ سہاراٹی وی (نئی دہلی) میں پرکھ کے پروگرام کے تحت ۳۱ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کا موضوع جہاد تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اُنہوں نے جوکچھ کہا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ جہاد پُرامن جد وجہد کا نام ہے، وہ قتال کے ہم معنٰی نہیں۔ اسلام میں قتال صرف قائم شدہ ریاست کا کام ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو قتال کرنے کی اجازت نہیں۔ ریاست بھی صرف دفاع کے لیے شدید ضرورت کے تحت قتال کرسکتی ہے۔ ریاست کا یہ قتال بھی اعلان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ بلااعلان جنگ یا پراکسی وار اسلام میں جائز نہیں۔
۳ انجمن امن دوست انسان دوست (نئی دہلی) کے تحت ۲ فروری ۲۰۰۳ کو مہندیان کے میدان میں ایک عوامی جلسہ ہوا۔ اس میں ہندو، مسلم، عیسائی ہر مذہب کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور قومی اتحاد کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کی۔ اس میں بتایا گیا کہ ہندستان مختلف مذہب اور کلچر کا ملک ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اس فرق کو مٹا کر اتحاد قائم کریں۔ مگر یہ ناممکن ہے۔ اتحاد ہمیشہ فرق و اختلاف کو گوارا کرنے سے آتا ہے، نہ کہ فرق و اختلاف کو مٹانے سے۔ مزید یہ کہ فرق و اختلاف ایک رحمت ہے وہ کوئی برائی نہیں۔
۴ ۸ فروری ۲۰۰۳ کو دور درشن (نئی دہلی) نے صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر ریکارڈ کی۔ اس کا موضوع عید الاضحی تھا۔ پندرہ منٹ کی تقریر میں بتایا گیا کہ عیدالاضحی کا مقصد یہ ہے کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم کی سنت پر عمل کرنے کا عہد کیا جائے۔ عیدالاضحی قربانی کی عید ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں حق پر قائم رہے، خواہ اُس کے لیے اُس کو قربانی دینا پڑے۔
۵ کیرلا (کالی کٹ) کے ملیالم اخبار پر بودھنی کے نمائندہ مسٹر کے کے عبد الحکیم اور مسٹر ٹی سعید نے ۱۹ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹر ویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اس وقت دنیا میں ۵۷ مسلم ممالک ہیں۔ ان سب کے مقابلہ میں ہندستان کے مسلمان نہ صرف تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ وہ ہر اعتبار سے سب سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان میں انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے جو مسائل ہیں وہ اُن کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے فطرت کی مہمیز ہیں تاکہ وہ اُن کے لیے ترقی کا زینہ بن سکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستان کے مسلمان تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔ البتہ میڈیا میں چونکہ یہ خبریں بہت کم آتی ہیں اس لیے عام لوگوں کو اس کی خبر نہیں۔
۶ ہندی پندرہ روزہ وطن دوست (دہلی) کے نمائندہ مسٹر محمد رفیع نے ۲۰ فروری ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد سے تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ ہر سماج میں ہمیشہ نزاع کے اسباب موجود رہـتے ہیں۔ ایسا حقیقۃً فطری قانون کے تحت ہوتا ہے، نہ کہ کسی کے عناد کی بنا پر۔ ایسی حالت میں ہر سماج میں اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ لوگ صورت حال سے باخبر رہیں اور ایسے کسی بھی اقدام سے بچیں جس کا نتیجہ دھماکے کی صورت میں نکلنے والا ہو۔ بابری مسجد کے معاملہ میں اس قسم کی ضروری تدبیر نہیں کی گئی۔ اگر پہلے سے ضروری تدبیر کی جاتی تو یقینی طورپر ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کاحادثہ پیش نہ آتا۔
۷ سری نگر کے ہفت روزہ (The Week) کے سینئر کرسپانڈنٹ مسٹر طارق احمد بھٹ نے ۲۱ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمانانِ ہند کے مسئلہ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندستان کے مسلمان کی موجودہ حالت کا تقابل اگر ۱۹۴۷ کی حالت سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر اعتبار سے وہ بہت زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ ذاتی اعتبار سے بھی اور مسجد، مدرسہ، ادارہ وغیرہ کے اعتبار سے بھی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کا مسئلہ صرف میڈیا کی خبروں میں ہے۔ حقیقت میں ان کا کوئی واقعی مسئلہ نہیں۔ اگر کوئی واقعی مسئلہ ہوتا تو ہر گز وہ اتنی ترقی نہیں کرسکتے تھے۔
۸ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۱ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد،ایودھیا کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ تین مسجد یا تین ہزار مسجد کی بات اٹھانا بے معنٰی ہے۔ ۱۹۹۲میں ہندستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کو پلیسز آف ورشپ ایکٹ(Places of Worship Act) کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ میں یہ مقرر کیا گیا تھا کہ ملک کی تمام عبادت گاہوں کو ۱۹۴۷ کی حالت (statusquo) پر باقی رکھا جائے۔ البتہ اس میں بابری مسجد کا استثناء کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ بابری مسجد کا اشو کورٹ میں ہے اس لیے بابری مسجد کا معاملہ کورٹ سے طے ہوگا۔ اب تمام فریقوں کو اسی ایکٹ پر قائم رہنا چاہیے۔ کوئی بھی اقدام جو اس ایکٹ کے خلاف ہو وہ ملک میں انارکی لائے گا، وہ مسئلہ کا حل نہ ہوگا۔
۹ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۲ فروری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کا موضوع متوقع گاؤکشی قانون تھا۔اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور سوال و جواب کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ گائے اسلام میں کوئی مقدس جانور نہیں۔ وہ دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہے۔ ہندستان میں جمہوری نظام ہے۔ اکثریت کی رائے سے اس معاملہ میں جو بھی فیصلہ ہوگا مسلمانوں کے لیے وہ قابل قبول ہونا چاہئے۔ کوئی ایسا فیصلہ جو مسلمانوں کے عقیدہ اور عبادت جیسی مذہبی چیزوں میں خلل کا باعث ہو اس میں تو ضرور مسلمان سامنے آئیں گے۔ مگر گائے کشی جیسے مسئلہ میں مسلمانوں کی پالیسی غیرجانبداری (indifference) کی ہونی چاہئے۔
۱۰ بھارتیہ ودیا بھون (نئی دہلی) کی طرف سے بھون کے ہال میں ۲۵ فروری ۲۰۰۳ کوایک بڑا فنکشن ہوا۔ ا س میں ان کے اسکول کے بارہویں کلاس کے طلبہ اور ان کے ٹیچر اور سر پرست اکٹھا ہوئے۔ یہ ایک الوداعی فنکشن تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں چیف گیسٹ کے طورپر بلایا گیا۔اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زندگی میں کامیابی کا سب سے کارگر فارمولا کیا ہے۔ وہ یہ کہ آپ انسانوں کے خیر خواہ بن جائیں۔ آپ انسان سے محبت کریں۔ ایک جملہ میں وہ فارمولا یہ ہے—ہمیشہ انسان دوست رویہ اختیار کرو:
Be always insan-friendly
۱۱ ایران ٹی وی کی ٹیم نے ۷ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع نماز اور نماز باجماعت سے تھا۔ آدھ گھنٹہ کے اس انٹرویو میں جو کچھ کہاگیا اس کا خلاصہ یہ ـتھا کہ نماز اصلاً اللہ کی یاد کے لیے ہے۔ وہ اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔ مگراسی کے ساتھ وہ ہماری روز مرّہ کی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ پنج وقتہ نمازگویا ٹائم مینیجمنٹ کی تربیت ہے۔ اللہ اکبر تواضع کا سبق ہے۔ سورہ فاتحہ کی قرأت خدا رخی زندگی اختیار کرنے کا پیغام ہے۔ نماز کے آخر میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنا پر امن زندگی گزارنے کا عہد ہے۔ با جماعت نمازکا مطلب، تنظیم اور ڈسپلن کے ساتھ نماز ادا کرنا۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے اتحاد کا پیغام ہے۔ اسی لیے قرآن میں نماز کو فلاح کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
۱۲ نئی دہلی کے میگزین راشٹریہ سہارا (انگریزی) کے نمائندہ مسٹر عابد حسین نے ۸ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کاتعلق مسلمانان ہند سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے حالات بدسے بد تر ہوتے جارہے ہیں بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے حالات بد سے بہتر ہورہے ہیں۔ مسائل زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ وہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی دوسروں کی طرح مسائل پیش آتے ہیں اور پیش آتے رہیں گے۔ مگر اسی کے ساتھ نیا زمانہ مسلمانوں کے لیے بہت سے نئے مواقع لایاہے۔ ان مواقع کو استعمال کرکے مسلمان ہرجگہ ترقی کررہے ہیں۔ ہر آدمی خود اپنے حالات کو دیکھ کر جان سکتا ہے کہ آج اس کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ مسجد، مدرسہ، اسلامی ادارے ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔ اس لیے یہ وقتشکر کرنے کا ہے،نہ کہ شکایت کرنے کا۔
۱۳ سینٹر فار پروموٹنگ ملٹی کلچرل ڈائیلاگ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ کو ہمدرد یونیورسٹی کے کنونشن سینٹر میں ایک سیمینار ہوا۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Communal Harmony for Peace And Progress
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور موضوع پر خطاب کیا۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ سماجی ہم آہنگی ہر ملک کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مگر سماجی ہم آہنگی اس طرح نہیں آسکتی کہ سماج کے اندر اختلافات کو ختم کرکے یکسانیت لائی جائے۔ اس قسم کا اتحادجس کو یونی کلچرلزم کہا جاتا ہے وہ بالکل ناممکن ہے۔ جو چیز ممکن ہے وہ صرف ملٹی کلچرلزم ہے۔ ضرورت ہے کہ لوگوں کو برداشت اور ٹالرنس کی تعلیم دی جائے، نہ کہ بے فائدہ طورپر کلچرل یکسانیت کا بلڈوزر چلایا جائے۔
۱۴ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام چنمیا مشن (نئی دہلی) میں ایک آل انڈیا سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا: اکیسویں صدی میں فروغ اردو کا ایجنڈا۔ اس سیمینار کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس کے دو اجلاس ۲۱ مارچ اور ۲۳ مارچ ۲۰۰۳ میں شرکت کی۔ اس موقع پر اُنہوں نے دو تقریریں کیں۔ ان تقریروں میں خاص طور پر بتایا گیا کہ ۱۹۴۷ کے بعد کے حالات میں اردو زبان کوملک میں زندہ رکھنے کا سب سے بڑا کام مدارس نے کیا ہے جس کا جال ہمارے علماء نے سارے ملک میں پھیلا دیا۔ یہ مدارس جن کا ذریعۂ تعلیم اردو ہوتا ہے وہ ملک میں اردو زبان کے فروغ کے سلسلہ میں سب سے بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اردو اخبارات کا کردار اس سلسلہ میں صرف ثانوی ہے۔ کیوں کہ اُردو خواں طبقہ پیدا کرنے کا کام مدارس نے کیا ہے۔ اردو اخبارات تو صرف مدارس کی اس فصل کو کاٹ رہے ہیں۔
۱۵ ساؤتھ افریقہ کے ڈاکٹر محمد سادات نے ۲۶ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ایک مقالہ کے سلسلہ میں تھا جو وہ امریکی جرنل پیس اینڈ کانفلکٹ (Peace and Conflict) کے لیے تیار کررہے ہیں۔ اس مقالہ کاعنوان یہ ہے:
Violence, Peace and Peace Promotion in Contemporary Islamic Thought: Implications for Dialogue.
جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ اسلام کااقدامی عمل دعوت ہے۔ موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اور اظہارِ رائے کی آزادی نے دعوتی عمل کے زبردست امکانات کھو ل دئے ہیں۔ یہ نئے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ اب جنگ و قتال کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اسلام کانشانہ حکومت کا قیام نہیں بلکہ افراد کے اندر فکری اور اخلاقی انقلاب لانا ہے۔ افراد کے بدلنے سے ادارے بدلتے ہیں۔ سوسائٹی میں تبدیلی آتی ہے اور آخر کار ریاستی نظام میں انقلاب آتا ہے۔ حکومت کو نشانہ بنا کر سیاسی تحریک چلانا غیر فطری ہے اور گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے کے ہم معنٰی ہے۔
۱۶ میرٹھ شہر میں الرسالہ کے قارئین کا حلقہ عرصہ سے دعوتی کام کررہا ہے۔ وہاں پابندی کے ساتھ ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے اور الرسالہ اور کتابوں کی تقسیم جاری ہے۔ الرسالہ مشن کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرنا ہو یا الرسالہ یاکوئی کتاب برائے مطالعہ درکار ہو تو ذیل کے پتہ پر رابطہ قائم کریں:
Muhammad Sajid Khan
Highway Tailors, 143 Valley Bazar
Meerut-250002, Tel. 912-2533268