رشی کیش کا سفر
رشی کیش میں پرمارتھ نکیتن کے نام سے ایک انٹرنیشنل ہندو سنٹر ہے۔ اس کی شاخیں بہت سے ملکوں میں قائم ہیں۔ ۲۔۳جون ۲۰۰۲ کو اس سنٹر کے تحت ایک بڑا پروگرام ہوا جس میں ملک کے اندراور ملک کے باہر کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر رشی کیش کا سفر ہوا۔ یکم جون ۲۰۰۲ کو روانگی ہوئی اور ۴ جون کو دوبارہ دہلی واپس آیا۔
یکم جون ۲۰۰۲ کی صبح کو ۶ بجے ہمارا قافلہ دہلی سے روانہ ہوا۔ جب ہماری گاڑی دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے یوپی میں داخل ہوئی تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بظاہر آپ ایک مادی سفر کررہے ہیں لیکن اگر آپ سوچیں تو آپ کا یہ سفر ایک روحانی سفر بن جائے گا۔ میں نے کہا کہ یہ کار کیا ہے۔ کار جامد مادہ (dead matter) کا متحرک مادہ (moving matter) کی صورت اختیار کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ایک تبدیلی (conversion) کا معاملہ ہے۔ یہ کنورژن ہماری دنیا کا ایک عالمی اصول ہے۔ ایک کنورژن وہ ہے جو فطری طورپر ہوتا ہے۔ مثلاً ناقابل خوراک (non-edible) چیز کا بدل کر قابل خوراک (edible) چیز کی صورت اختیار کرنا۔ دوسرا کنورژن وہ ہے جس کو انسان قانون فطرت کے استعمال کے ذریعہ کرتا ہے۔ کار اور ہوائی جہاز اور موبائل ٹیلی فون جیسی چیزیں، اسی دوسری قسم کے کنورژن کی مثالیں ہیں۔
سفر کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ رشی کیش اس وقت ہندو روحانیت کا عالمی سنٹر بن گیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بتایا کہ کناڈا کا ایک سیاح رشی کیش گیا۔ واپسی کے بعد اس نے اپنے مشاہدات پر مبنی ایک رپورٹ تیارکر کے شائع کی جس کا عنوان یہ تھا:
A week spent in the flakes of Shankara.
اس رپورٹ میں سیاح نے لکھا تھا کہ رشی کیش اس وقت ہندو سوامیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بیشتر سوامی کسی نہ کسی طور پر رشی کیش سے وابستہ ہیں۔ ان کے شاگرد نہ صرف ہندستان میں بلکہ بیرونی ملکوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے سوامیوں کے پاس ہر وقت موبائل ٹیلی فون موجود رہتا ہے۔ اکثر کے پاس انٹرنیشنل رومنگ ہوتا ہے۔ دور دور کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد اپنے مسائل کے لئے اُن سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً بیماری، تجارتی گھاٹا، حادثہ وغیرہ۔ سوامی لوگ موبائل اپنے کان میں لگائے ہوئے اپنے شاگردوں کو ان کے سوالات کاجواب دیتے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اس نے لکھا تھا کہ ٹکنالوجی آج روحانیت کی ایک شدید ضرورت ہے:
Technology is most wanted by spirituality.
ہماری گاڑی چلتے ہوئے ایک ریستوران میں داخل ہوئی۔ یہ ایک وسیع اور خوبصورت ریستوران تھا۔ اس کے وسیع احاطہ میں کثرت سے گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ کھتولی کے قریب واقع اس ریستوران کا نام چیتل گرانڈ (Cheetal Grand) ہے۔ اس ریستوران کا مالک ایک مسلمان ہے۔ مجھے اس ریستوران کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا۔ چنانچہ میں نے لوگوں کو بتایا کہ اس مسلمان کے اندر دوسروں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ وہ اس علاقہ میں گویا ایک ٹرنڈ سٹر (trend setter) بن گیا ہے۔
دہلی سے نینی تال جانے والی سڑک پر بیس سال پہلے مسافروں کے لیے بہت معمولی قسم کے ہوٹل ہوتے تھے جس کو ڈھابہ کہا جاتا تھا۔ چیتل گرانڈ کے مالک نے پہلی بار مغربی انداز پر یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے وہ چیز بنائی جو مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں پہلے سے قائم تھی۔ بیس سال پہلے اس قسم کا جدید ریستوران صرف یہی ایک تھا۔ لوگ دہلی سے یہ سوچ کر چلتے تھے کہ راستہ میں اُنہیں چیتل گرانڈ میں ٹھہرنا ہے اور وہاں کھانا پینا ہے اور ضروریات سے فارغ ہونا ہے۔ اس کا اثر دوسروں پر پڑا۔ ہر ایک نے اپنے ڈھابا کو ماڈرنائز کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ راستہ میں میں نے کئی جگہ اسی انداز کے دوسرے ریستوران دیکھے۔ اگرچہ اپنی کوالٹی کے اعتبار سے چیتل گرانڈ اب بھی اس راستہ میں غالباً نمبر ایک ہے۔
ہماری گاڑی اندر پال چلارہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں چالیس سال سے گاڑی چلا رہا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی گاڑی کا کبھی اکسیڈنٹ ہوا یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ اس کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں رفتار کی حد (speed limit) کے اندر اپنی گاڑی چلاتا ہوں۔ کسی کا دباؤ ہو تب بھی میں اپنی گاڑی کو تیز نہیں چلاتا۔ مثلاً کوئی پیچھے سے ہارن دے رہا ہو یا بیٹھی ہوئی سواری تیز دوڑانے کو کہے تب بھی میں حد کے اندر رہ کر اپنی گاڑی کو چلاتا ہوں۔ میں نے سوچا کہ یہی قومی پالیسی کا معاملہ بھی ہے۔ ہمیں اپنی قومی پالیسی خود اپنے مثبت فیصلہ کے تحت چلانا چاہئے، نہ کہ دوسروں کے ردّ عمل کے طورپر۔ مثلاً فریقِ ثانی اگر مشتعل کرے تب بھی ہمیں مشتعل ہوئے بغیر اپنا عمل جاری رکھنا چاہئے۔
اس گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی خالد انصاری نے ایک انگریزی مقولہ سنایا—تیز رفتاری بہت اچھی لگتی ہے مگر وہ ہلاک کرتی ہے:
Speed thrills but kills.
راستہ میں کئی جگہ گاڑیاں الٹی ہوئی پڑی تھیں۔ اس قسم کے حادثے ان سڑکوں پر اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات کے اسباب زیادہ تر دو ہوتے ہیں—شراب پی کر گاڑی چلانا یا غیر ذمہ دارانہ طورپر گاڑی دوڑانا۔
اس موقع پر ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے گھر کی ایک خاتون ڈرائیونگ لائسنس لینا چاہتی تھیں۔وہ دہلی میں ٹسٹ دینے کے لیے گئیں۔ ان کے بیچ میں ۱۰ آدمی تھے۔ ٹسٹ کے بعد ۸ آدمیوں کو ڈرائیونگ لائسنس دے دیا گیا۔خاتون نے کہا کہ میں نے ان لوگوں سے اچھا چلایا تھا پھر تم نے مجھ کو لائسنس کیوں نہیں دیا۔ جواب دینے والے نے جواب دیا کہ ہماراآج کا کوٹہ ۸ لائسنس کا تھا وہ پورا ہوگیا۔ آپ کل آئیں تو ہم پہلے نمبر پر آپ کو لائسنس دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا میں، خاص طورپر دہلی میں، اتنے زیاد ہ اکسیڈنٹ ہونے کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کو ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کی بنیاد پر لائسنس دئے جاتے ہیں، نہ کہ واقعی معنوں میں ٹریننگ کی بنیاد پر۔
اس طرح کی باتوں میں راستہ طے ہوتا رہا، یہاں تک کہ چھ گھنٹہ کا سفر کرنے کے بعد ہم لوگ دو پہر کے وقت پرمارتھ نکیتن پہنچے۔ یہاں کے آشرم میں تقریباً ایک ہزار کمرے ہیں۔ مجھے یہاں کمرہ نمبر ۲۱۵ میں ٹھہرایا گیا۔
سب سے پہلے میں نے غسل کیا۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو دوپہر کا کھانا کھلایا گیا۔ کھانا بالکل سادہ تھا، اسی کے ساتھ وہ صحت بخش اور زود ہضم تھا۔ قدیم تصور کے مطابق، کھانا صرف دو مقصد کے لیے ہوتا تھا—لذت اور شکم سیری۔ مگر موجودہ سائنسی زمانہ میں دو اور تصور زیادہ اہم سمجھے جانے لگے ہیں۔ اوروہ ہیں متوازن خوراک (balanced diet)اور غذائی اجزاء (nutritive value) کا حامل ہونا۔
رشی کیش ہندو دھرم کے بڑے مرکزوں میں سے ایک مرکز ہے۔ یہاں کاموجودہ پروگرام ایک ایسا پروگرام تھا جس میں ہندو دھرم کے بڑے بڑے نمائندے شریک ہورہے تھے۔ یہاں ہندو مذہب کا ایک مکمل مظاہرہ متوقع تھا۔ اس لیے میں بعض دوسرے پروگراموں کو کینسل کرکے رشی کیش آیا تا کہ ہندو مذہب کو قریب سے دیکھ سکوں اور اس کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کروں۔
یکم جون کی شام کو مغرب کے بعد افتتاحی پروگرام تھا۔ میں جس آشرم میں ٹھہرا تھا وہ گنگا کے عین کنارے تھا۔ یہاں گنگا کے اندر کشتیوں کی مدد سے بہت بڑا پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ چاروں طرف دور دور تک روشنیاں جگمگاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ممتاز ہندو رہنما گنگا کے کنارے مخصوص نشستوں پر بیٹھے ہوئے ـتھے۔ فضا میں لاؤڈاسپیکر پر گائے جانے والے بھجن کی آواز گونج رہی تھی۔ اس بھجن کا ایک حصہ جو بار بار دہرایا جارہا تھا وہ یہ تھا۔ میّا گنگا تم ہی داتا۔
ایک طرف یہ الفاظ فضا میں گونج رہے تھے اور دوسری طرف میں یہ دیکھ رہا تھا کہ گنگا ہمالیہ پہاڑ سے اتر کر تیزی کے ساتھ میدانی علاقے کی طرف بہہ رہی تھی۔ چوں کہ یہاں گنگا ڈھلوان پر ہوتی ہے اس لیے یہاں اس کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔ اس کا مسلسل بہتا ہوا پانی اپنی پر شور آواز کے ساتھ گویا یہ کہہ رہاتھا کہ وہ کسی کی طرف سے مسخر کیا ہوا ہے۔ وہ ایک برتر طاقت کے حکم کے تحت ہے۔ ایک طرف ہزاروں لوگ گنگاکی پوجا کے لیے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور دوسری طرف خود گنگا اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی پر شور موجوں کے ذریعہ یہ اعلان کررہی تھی کہ میں ایک عاجز مخلوق ہوں۔ معبود کوئی دوسرا ہے، نہ کہ میں۔ میں نے غور سے دیکھا تو یہاں گنگا کاپانی ویسا صاف و شفاف نہ تھا جیسا کہ وہ ہمالیہ کی چوٹی پر ہوتا ہے۔ بلکہ وہ ایک گدلے پانی کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ چند مہینہ پہلے میں سوئزرلینڈ گیا تھا۔ سوئزرلینڈ کو جھیلوں کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کی جھیلوں کا پانی صاف و شفاف اپنی اصلی حالت میں تھا۔ یہ ایک بڑا عجیب منظر تھا۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ سوئزرلینڈ کے لوگ اپنی جھیلوں کی صفائی کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس گنگا کاحال یہ ہے کہ ہر قسم کی گندگی اس میں بہا دی جاتی ہے۔
ایک ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ گنگا کے بارے میں ہندو عقیدہ یہ ہے کہ اس میں نہانے سے ہر قسم کے پاپ دھل جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی شخص جرم کرکے آئے اور گنگا میں ڈبکی لگالے تو وہ اپنے جرم سے پاک صاف ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ یہاں اشنان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گنگا کے ساحل پر آباد شہروں اور بستیوں کی گندگی مسلسل بہہ کر گنگا کے پانی میں شامل ہوتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے گنگا کے پانی کی کثافت (pollution) اتنا بڑھ گئی ہے کہ اب بہت سے ہندو اس میں نہانا پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ گنگا کا پانی اب آلودگی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ پاک کرنے کا ذریعہ۔
میں نے سوچا کہ پانی کا جو ذخیرہ اپنی صفائی کے لئے خود ہی دوسرے انسانوں کا محتاج ہو پھر وہ کسی انسان کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ سوئزرلینڈ اور ہندستان کا یہ فرق گویا ایک مشاہداتی ثبوت ہے کہ پانی ایک مجبور مخلوق ہے، وہ کوئی با اختیار ہستی نہیں۔
یکم جنوری کی شام کو گنگا پوجا کے مناظر دیکھنے کے بعد گنگا کے کنارے ہم لوگ ایک سجے ہوئے مقام پر لے جائے گئے۔ اس کو روشنیوں اور رنگین کپڑوں سے مزین کیاگیا تھا۔یہاں کھانے کا انتظام میز کرسی پر تھا۔ کھانے کے دوران کچھ تعلیم یافتہ ہندو میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ ایک صاحب جو انگریزی اخبار کے کالمنِسٹ ہیں،انہوں نے کہا کہ میں سچائی اور روحانیت(spirituality) میں یقین رکھتا ہوں۔ میں نے ہر مذہب کا مطالعہ کیا ہے۔ اسلام کے بارے میں آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں۔
میں نے پوچھا کہ آپ سچائی کی تعریف کس طرح کرتے ہیں اور یہ کہ اس کی کیا پہچان ہے کہ کسی کو سچائی مل گئی۔ وہ غیر مربوط انداز میں دیر تک بولتے رہے مگر کوئی واضح بات نہ بتا سکے۔ میں نے کہا کہ آپ متعین اور محدد(specific) الفاظ میں میرے سوال کا جواب دیں۔ مگر کافی دیر تک سننے کے باوجود میں ان کی تقریر سے اپنے سوال کا واضح جواب نہ پاسکا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ سچائی ایک ذاتی تجربہ (experience) کی بات ہے، اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
پنجاب سے آئی ہوئی ایک خاتون پروفیسر بھی کھانے کی میز پر موجود تھیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ گنگا میا میری ہر ضرورت کو پوری کر دیتی ہیں۔ جب بھی میں ان کو پکارتی ہوں میں ان کو موجود پاتی ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ اس سلسلہ میں آپ اپنا کوئی عملی تجربہ بتائیں۔ انہوں نے کہا، ایسے بہت تجربات ہیں۔ کافی اصرار کے بعد انہوں نے ایک تجربہ بتایا۔
انہوں نے کہا کہ رشی کیش کے اس پروگرام میں میں آنا چاہتی تھی۔ میں اس کے لئے بہت زیادہ خواہش مند تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے اپنی اس خواہش کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اس لئے کہ میں جانتی تھی کہ وہ انویٹیشن (دعوت نامہ) کے بغیر کہیں نہیں جاتے۔
میرے مَن میں یہ تھا کہ گنگا میا انویٹیشن بھیج دیں تومیرا کام بن جائے۔ اگلے دن صبح کی ڈاک سے مجھے انویٹیشن مل گیا، اس طرح میں یہاں پہنچ گئی۔
میں نے کہا کہ اب آپ میری مثال لیجئے۔ مجھے یہاں کے پروگرام کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا اور نہ میں نے اس میں شرکت کی خواہش کی تھی۔ مگر اپنے آپ مجھے اس کا انویٹیشن مل گیا۔ اب یہ بتائیے کہ اگر آپ کا انویٹیشن گنگا میا نے بھیجا تو میرا انویٹیشن کس نے بھجوایا۔ میرے اس سوال کا وہ کوئی جواب نہ دے سکیں۔
ایک اور تعلیم یافتہ ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ میں اس طرح کے مندروں اور مذہبی مقامات پر بہت زیادہ گیا ہوں۔ اب میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ بھگوان کے مندر بہت بن چکے اب انسان کا مندر بناؤ۔ مندر کے نام پر جھگڑے بھی بہت ہورہے ہیں۔ انسان کے مندر میں کوئی جھگڑا نہ ہوگا۔ انسان کے مندر سے ان کی مراد یہ تھی کہ ایجوکیشن اور اسپتال جیسے سوشل کام بڑے پیمانہ پر کئے جائیں۔
اس طرح کی گفتگوؤں سے میں نے سمجھا کہ برادران وطن کی بہت بڑی تعداد ہے جو ہندوازم کے موجودہ روایتی ڈھانچہ سے غیر مطمئن ہے۔ اس کی فطرت اس کے سوا کچھ اور چاہتی ہے۔ مگر اس ’’کچھ اور‘‘ کا کوئی واضح نقشہ اس کے سامنے نہیں۔
رشی کیش کے آشرم میں ہر طرف مختلف ہندو بت نصب کیے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر پر ہر وقت ہندو روایات کے مطابق، سنسکرت کے منتر یا بھجن سنائی دیتے رہتے تھے۔ یہاں ایک ضخیم انسائیکلوپیڈیا آف ہندو ازم بھی تیار کی جارہی ہے۔ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ۱۲ ہندستانی اور۱۲ بیرونی ہندو پروفیسر شامل ہیں۔ ڈاکٹر شیشا گری راؤ اس کے ہیڈ ہیں۔ میں نے اس انسائیکلو پیڈیا کے کچھ حصوں کو دیکھا۔ مجھے یہ انسائیکلو پیڈیا بظاہر انسائیکلوپیڈیا آف ہندو ازم کے بجائے انسائیکلوپیڈیا آف ہندو مائتھا لوجی نظر آئی۔ مثلاً اس میں بتایا گیا ہے کہ گنگا ایک دیوتا کی جٹا سے نکلی۔ اس قسم کی افسانوی باتوں سے یہ انسائیکلو پیڈیا بھری ہوئی ہے۔ ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ کا لفظ علمی اور تاریخی معلومات کے لئے ہوتا ہے، نہ کہ افسانوی معلومات کے لیے۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہر مذہب میں مختلف پہلوؤں سے اس قسم کا غیر علمی انداز عام ہورہا ہے۔ ایسا انداز عقیدت مندوں کو خوش کرسکتا ہے مگر وہ جدید ذہن کو مطمئن کرنے والا نہیں۔
یہاں کثرت سے اس قسم کے تجربات اور مشاہدات ہوئے۔ میں نے سوچا کہ برادران وطن سیکڑوں سال سے توہماتی عقائد اور روایات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مگر مسلمان ان کی ہدایت کے لئے نہیں تڑپے۔ ان کی خیر خواہی نے انہیں بے چین نہیں کیا۔ خود ہندوؤں میں ایسے لوگ اٹھے جنہوں نے محدود طورپر اصلاح کی کوششیں کیں۔ مثلاً کبیر نے اس سلسلہ میں بہت سی باتیں کہیں۔ ان کا ایک شعر یہ ہے:
ماتھے تِلک ہاتھ مَلبانا
لوگن رام کھلونا جانا
آریہ سماج کی تحریک بھی اسی نوعیت کی ایک ادھوری تحریک تھی۔ گرونانک کی تحریک اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے غیر خداؤں کی پرستش کے بجائے ایک خدا کی پرستش کاپیغام تھا۔ اقبال نے گرونانک کے بارے میں یہ شعر کہاتھا:
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
مسلمانوں کے پاس محفوظ آسمانی کتاب کی صورت میں کامل سچائی موجود تھی مگر مسلمان برادران وطن کی اصلاح کے لئے کچھ نہ کرسکے۔ رشی کیش میں گفتگو کے دوران بہت سے ہندوؤں نے مجھ سے اسلام کے مطالعہ کی خواہش ظاہر کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی حقیقی اصلاحی کوشش کے لئے گہری خیرخواہی درکار ہوتی ہے۔ وہ خیر خواہی جو شکایتوں کے باوجود نہ ٹوٹے، بیٹے کے ساتھ ماں کی محبت کی طرح جو ہر حال میں قائم رہے۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کے اندر برادران وطن کے لئے اس قسم کی خیرخواہی موجود نہ تھی۔ مسلم سلطنت کے دور میں وہ ہندوؤں کو کمتر سمجھتے رہے اور ۱۹۴۷ کے بعد وہ ہندوؤں سے اپنے سینہ میں نفرت اور شکایت لئے ہوئے ہیں۔ اور جو لوگ اس طرح کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ کبھی اصلاح و دعوت کاکوئی گہرا کام نہیں کرسکتے۔
۱۹۴۷ سے پہلے کے دور میں مسلم صوفیوں نے ضرور کچھ مفید کام کئے مگر جہاں تک مسلم علماء کا تعلق ہے، وہ اس سلسلہ میں کوئی قابل قدر خدمت انجام نہ دے سکے۔ کچھ لوگوں نے ہندستان کو دارالحرب بتا کر مسلمانوں کے اندر منفی نفسیات پیدا کیں۔کچھ لوگوں نے ہندوؤں کے ’’مسلم ملچھ‘‘ کے تصور کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’ہندو کافر‘‘کا نظریہ پھیلایا۔ کچھ لوگوں نے بت شکنی کے نام پر ایسے کام کئے جو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے صرف دل شکنی کے ہم معنٰی تھے۔
حال میں پاکستان نے اس فرقہ وارانہ تناؤ کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہندو نفرت کا عالمی کارخانہ کھول دیا۔ اُس نے ہندستان کے خلاف اپنی قومی جنگ کو اسلامی جہاد کا نام دیا۔ اسی معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ اس نے ہندستان سے امکانی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ میزائل بنائے تو ان کے نام غوری میزائل، غزنوی میزائل اور ابدالی میزائل رکھ دئے۔ یہ نام بلاشبہہ سخت اشتعال انگیز ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میں کوئی بھی عالم یا غیر عالم نہیں جو پاکستانی رہنماؤں سے یہ کہے کہ تم اپنی قومی لڑائی کو انتہائی ناعاقبت اندیشانہ طورپر یہ مجرمانہ رنگ دے رہے ہو کہ ہندوؤں کی مسلم نفرت یا اسلام نفرت اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کے پیغام کو سننے کے قابل ہی نہ رہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرے بچپن کے زمانہ میں کچھ علماء نے ’’تبلیغ‘‘ کے نام پر مناظرہ بازی کی مہم شروع کر رکھی تھی۔حالانکہ اس قسم کی مہم کو تبلیغ کے بجائے اینٹی تبلیغ کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
مثلاً ایک مناظر عالم کو جوش آیا۔ انہوں نے ایک کتاب تیار کی جس کانام انہوں نے ’’کفر توڑ‘‘ رکھا۔ اس کے جواب میں ایک ہندو مناظر نے کتاب شائع کی جس کا نام تھا ’’کفر توڑ کا بھانڈا پھوڑ‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ اردو زبان عمومی طورپر ہندواور مسلمان دونوں کی مشترک زبان تھی۔ گویا داعی اور مدعو کے درمیان وہ لسانی بعد (language gap) موجود نہ تھا جو آج پایا جاتا ہے۔ مگر اس سنہری زمانہ کو خیر خواہانہ دعوت کے بجائے مناظرہ بازی کے لیے استعمال کیا گیا جو صرف یہ کرسکتا تھا کہ برادران وطن کو متنفر کرکے انہیں اسلام سے کچھ اور دور کردے۔ اس قسم کی کوششوں نے یہی کارنامہ انجام دیا۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا: ’’اسلام ہندو ازم کی ایک شاخ ہے۔ ہندو ازم اصل ہے اور اسلام اور دوسرے مذاہب اس کی برانچ‘‘۔ میں نے کہا کہ اس معاملہ میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کون اصل ہے اور کون برانچ۔ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں کو ن سا مذہب زیادہ مستند اور قابل اعتماد ہے۔
۲ جون کی صبح کو ناشتہ پر مسٹر پرکاش ہندوجا اوران کے ساتھی سے ملاقات ہوئی۔ ہندوجا برادرس کا کاروبار اتنا بڑا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ۵۰ برلا اکٹھا کئے جائیں تو ایک ہندوجا بنتا ہے۔ ان سے تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی۔ مگر عجیب بات ہے کہ میرے کسی بھی سوال کا منطقی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ وہ ہر سوال کے جواب میں ایک غیر متعلق بات کہہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ گفتگو کسی نتیجہ پر نہ پہنچی۔ مثلاً میں نے کہا کہ آپ اسلام کو سمجھنے کے لیے خود اسلام کو دیکھئے، نہ کہ موجودہ مسلمانوں کو۔ مگر یہ فرق ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔
میں نے اپنے تجربہ میں اکثر یہ پایا ہے کہ جو لوگ کسی مادی شعبہ میں بہت زیادہ کامیاب ہوتے ہیں وہ اپنے مخصوص شعبہ کے علاوہ دوسرے معاملات میں تفکیری انداز سے سوچ نہیں پاتے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اپنی ساری فکر ی صلاحیت کو صرف ایک پسندیدہ رخ پر مرتکز کردیتے ہیں۔ اس لئے ایک مخصوص شعبہ میں تو ان کی معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں مگر دوسرے شعبہ میں ان کی واقفیت بقدر ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
یہاں انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کا شمارہ ۲ جون ۲۰۰۲ دیکھا۔ اس میں ایک سبق آموز رپورٹ تھی۔ یہ رپورٹ اخبار کے ہفتہ وار کالم انٹرویو آف دی ویک (Interview of the Week) کے تحت چھپی تھی۔ مسٹر یشونت راج نے مشہور لیڈر نٹور سنگھ سے انٹرویو کرکے یہ رپورٹ تیار کی۔
اخباروں میں یہ خبر آچکی ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ کے یہاں دو زبردست خاندانی حادثے ہوئے۔ ان کی بہو نتاشا نے مارچ ۲۰۰۲ میں اور ان کی بیٹی ریتو نے اپریل ۲۰۰۲ میں خود کشی کر لی۔ یہ مسٹر نٹور سنگھ کے لیے بڑا سخت حادثہ تھا۔ اس کے بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی ان کے یہاں تعزیت کے لئے گئیں۔ مسز سونیا گاندھی جب وہاں پہنچیں تو اس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے گھر کے کمرۂ مطالعہ (study) میں تھے۔ یہاں کتابوں سے بھری ہوئی الماریاں ہر طرف دکھائی دیتی تھیں۔
غمزدہ نٹور سنگھ نے رپورٹر سے کہا کہ سونیا گاندھی جب یہاں آئیں تو میں اپنی اسٹڈی میں تھا جہاں تقریباً دس ہزار کتابیں موجودہیں۔ میں نے سونیا سے کہا کہ یہاں ساری دنیا کی حکمت و دانش موجودہے، مختلف ادوار کی حکمت و دانش کا خلاصہ۔ مگر یہاں ایک بھی کتاب ایسی موجود نہیں جس کوپڑھ کر میں تسکین حاصل کرسکوں :
Within an hour of my daughter taking her life, Sonia came to see us. We were in our study upstairs—where I have close to 10,000 books. I told her, here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (p. 14)
اسی اخبار میں صفحہ ۱۰ پر ایک اور سبق آموز رپورٹ تھی جس کا عنوان تھا—نصیحت نہ کرو بلکہ تعلیم دو:
Don't preach, just teach.
۲ جون کی صبح کو ۱۰ بجے یہاں کے وسیع ہال میں ایک جلسہ تھا۔ اس میں گانے بجانے کے پروگرام کے علاوہ ایک خصوصی پروگرام تھا۔ وہ بھگوت کتھا (کرشن کتھا) کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام کو شری کانت ویاس نے کیا۔ وہ بھگوت کتھا کے اکسپرٹ مانے جاتے ہیں۔
اس پروگرام میں مجھے اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا۔ہال کے اندر بڑی تعداد میں مرد اور عورتیں موجودتھیں۔ ہر ایک خوشی سے سرشار دکھائی دیتا تھا۔ مگر میرا حال یہ تھا کہ میں شدید غم کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہا تھا کہ خدایا، یہ لوگ میرے وطنی بھائی ہیں۔ تو ان کے لئے ہدایت کے دروازے کھول دے، تو ان کو جنت کا مسافر بنا دے۔
ایک بات کو سوچ کر میرا دل ہمیشہ تڑپ اٹھتا ہے۔ ہندستان کے مسلم علماء اور مسلم دانشور عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور تعصب کا معاملہ کیا جاتا ہے۔ مگر میرے نزدیک اس ملک میں ہمارے لئے جوسب سے بڑی مصیبت پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نفرت اورتناؤ کاماحول قائم ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ناممکن ہوگیا ہے کہ معتدل فضا میں کھلی بات چیت (open dialogue) کیا جاسکے۔ مسلمان ایک عالمی مشن کے حامل ہیں۔ اس اعتبار سے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان آزادانہ ڈائیلاگ کے مواقع موجود ہوں۔ مگر مسلم رہنماؤں اور مسلم دانشوروں کی ناقابل فہم نادانی کی بنا پر سب سے زیادہ ملک میں اس مطلوب چیز کا خاتمہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے اوپر لازم ہے کہ وہ یک طرفہ صبر واعراض کے ذریعہ دوبارہ ایسا ماحول قائم کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل معافی نہ ٹھہریں گے، خواہ انہوں نے شاندار مسجدیں بنا رکھی ہوں اور بظاہر ان مسجدوں کو نمازیوں سے بھر دیا ہو۔
شری کانت ویاس کو کتھا کرنے کی خصوصی مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی کتھا میں بہت سی عوام پسند باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ چاہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ کرشن کے بنا بھی کام چل سکتاہے۔ اوردوسرا یہ کہ کرشن کے بنا کام ہی نہیں چل سکتا۔ اپنے اس نظریہ کے ثبوت کے لیے انہوں نے ایک مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ آپ سبزی لینے کے لیے بازار جائیں۔ آپ کی چاہ یہ تھی کہ آپ پرول لیں گے۔ لیکن اگر بازار میں پرول نہ ہو تو آپ بھنڈی یا کوئی بھی سبزی لے کر واپس آجائیں گے۔ لیکن اگر آپ کے گھر میں ایک مریض ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس کو انار کھلاؤ۔ اب اگر آپ انار لانے کے لیے بازار جائیں اور ایک دکان پر انار نہ ہو توآپ دوسری دکان پر جائیں گے۔ یہاں تک کہ انار حاصل کرنے کے لئے پورا بازار چھان ماریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج کل لکھ پتی اس کو سمجھا جاتا ہے جس کے پاس لاکھ روپیہ ہو او رکروڑ پتی اس کو سمجھا جاتاہے جس کے پاس کروڑ روپیہ ہو۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ لکھ پتی وہ ہے جو لاکھ بار کرشن کا نام لے اور کروڑپتی وہ ہے جوکروڑ بار کرشن کا نام لے۔ میں نے دیکھا کہ مقرر کے اس قسم کے الفاظ کو سن کر حاضرین جوش سے بھر جاتے تھے۔ حالانکہ اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ صرف الفاظ کا کھیل ہے،اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ الفاظ کا یہ کھیل خود مسلمانوں میں بھی اتنا ہی پایا جاتاہے جتنا کہ دوسرے لوگوں میں۔
انہوں نے کہاکہ گیتا میں ایک بہت بڑی بات کہی گئی ہے۔ مہابھارت میں جب ارجن لڑائی کے لئے آگے بڑھنے سے ہچکچا رہے تھے تو کرشن نے ان کو اکساتے ہوئے کہا کہ تم سوچتے ہو کہ میں ان زندہ لوگوں کو کیسے ماروں۔ مگر میں تم کو بتاتا ہوں کہ یہ مرتیو نہیں، بلکہ یہ تو چولا بدلنا ہے۔ یہ سن کر میں نے ایک صاحب سے کہا کہ چولا بدلنے کا یہ نظریہ اگر کسی سماج میں عام ہو جائے تو اس سماج کا کیسا عجیب حال ہوگا۔ وہ میری اس بات کو سن کر مسکرا دیے۔
۲ جون کی شام کو خصوصی پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے لیے عین گنگا کے اوپر ایک بہت بڑا رنگا رنگ پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ بہت سی کشتیوں کے اوپر اس پلیٹ فارم کو قائم کیا گیا تھا۔ اس کے اوپر بڑی تعداد میں لوگ خصوصی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پلیٹ فارم میں ذرا بھی جنبش نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ ماہرتیراکوں کی مدد سے گنگا کی تہہ میں بڑے بڑے پتھر جمائے گئے ہیں۔ ان پتھروں کے اوپر بہت سے کھمبوں کو جمایا گیا اور پھر اس کے اوپر خصوصی تکنیک کے ذریعہ مسطّح منچ سجایا گیا تھا۔ اب تک لوگ گنگا کے ساحل پر گنگا کی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں جدید تکنیک کو استعمال کرکے ایسا منچ بنایا گیا جس کے نیچے گنگا موجیں مارتی ہوئی بہہ رہی تھی اور اس کے اوپر گنگا پوجاکے پروگرام پر سکون طورپر جاری تھے۔
شام کے پروگرام کے درمیان مغرب کی نماز کا وقت آگیا۔ منچ کے ایک حصہ میں کچھ جگہ خالی تھی۔ یہاں کھڑے ہوکر میں نے مغرب کی نماز پڑھی۔ لوگوں کے بیان کے مطابق،وہاں موجود کیمرہ مین نے میری نماز کا فوٹو بھی لے لیا۔ میرے لئے یہ ایک بڑا عجیب تجربہ تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس منچ کے اوپر لوگ گنگا کی پرستش کے لئے اکٹھا ہوئے تھے۔ وہاں میں نے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر خالق گنگا کی عبادت اور پرستش کا فریضہ انجام دیا۔
شام کے اس پروگرام میں اترانچل کے چیف منسٹر نارائن دت تیواری آکر شریک ہوئے۔ وہ ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ آئے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ شام کے اس فنکشن میں ۷ بجے گنگا آرتی کا پروگرام تھا جس کو چیف منسٹر انجام دینے والے تھے۔ مگر چیف منسٹر کے لیٹ آنے کی وجہ سے گنگا آرتی کا یہ پروگرام دیر سے ہوا۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ اس زمانہ میں چیف منسٹر کا درجہ بھگوان سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
نارائن دت تیواری نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے تقریر کی۔ میں نے پہلی بار ان کی تقریر سنی۔وہ اگرچہ ایک تجربہ کار سیاست داں سمجھے جاتے ہیں۔مگر جہاں تک تقریر کا تعلق ہے، وہ مجھے کوئی اچھے مقرر نظر نہیں آئے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ میں یہاں مکھیہ منتری کے روپ میں نہیں آیا ہوں بلکہ میں یہاں مکھیہ سیوک کے روپ میں آیا ہوں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں گنگا کے پانی کی صفائی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہری دوار سے لے کر گنگوتری تک گنگا کی صفائی کے لئے جو بھی پروگرام بنایا جائے گا اس میں اترانچل گورنمنٹ پوری مددکرے گی۔
شام کے پروگرام کے خاتمہ پر عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ میں نے اس کی امامت کی۔ جماعت میں کل چھ آدمی شریک تھے۔ ان میں سے دو ہندو (آر۔ملہوترا، پی۔ملک) تھے۔ اس قسم کی باجماعت نماز بھی شاید پہلی بار رشی کیش میں پڑھی گئی ہو۔ میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ہندوؤں نے میرے پیچھے جماعت میں شریک ہو کر نماز پڑھی۔
۲ جون کو شام کا کھانا ایک ایسے مقام پر کھایا گیا جو عین گنگا کے کنارے واقع تھا۔ ہم لوگ ایک میزکے چاروں طرف کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری طرف گنگا ہلکی موسیقی کے ساتھ مسلسل بہتی ہوئی نظر آتی تھی۔ اس کے آگے دوسری طرف ہمالیہ پہاڑ پھیلا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اور اس کے اوپر کھلا آسمان اور پھر خالص ہوا کے خوشگوار جھونکے۔ یہ ایک آفاقی منظر تھا جو فطرت کے ناقابل بیان کائناتی حُسن کی یاد دلا رہا تھا۔
میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو قرآ ن کی ایک آیت سنائی: یوم تبدل الارض غیر الارض (ابراہیم ۴۸) یعنی جب ارض کو بدل کر غیر ارض کر دیا جائے گا۔ میں نے کہا کہ اس آیت میں تبدیلی سے مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو کنورژن (conversion) کہا جاتاہے۔ کنورژن فطرت کا عالمی اصول ہے۔ یہاں ہر چیز کنورژن کے عمل (process) سے گزر کر ارتقا یافتہ صورت اختیار کرتی ہے۔ مثلاً لوہا (ore) بدل کر ایک بامعنٰی انجن بن جاتاہے۔ مٹی اور معدنیات بدل کر خوراک کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح ہماری پوری دنیا آخر میں ایک سپر کنورژن (super conversion) کے عمل سے گزرے گی اور پھر وہ زیادہ بہتر اور کامل دنیا وجود میں آئے گی جس کو آخرت کی دنیا کہاگیا ہے۔
مختلف اوقات میں کھانے کی میز پر جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ایک ریٹائرڈ جسٹس گردھر مالوی تھے۔ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی مدن موہن مالوی کے پوتے ہیں۔ انہوں نے ملاقات کے دوران کئی باتیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے دادا نے بنارس یونیورسٹی کو ایک قومی یونیورسٹی کے طور پر بنایا تھا۔ وہاں ملک کے ہر اسٹیٹ کے لیے کوٹا مقرر تھا۔ حیدر آباد کا بھی ایک کوٹا تھا۔ چنانچہ حیدر آباد کے طلبہ کے لئے وہاں ایک نظام کالونی بنائی گئی تھی جو ابھی تک موجود ہے۔
انہوں نے کئی دلچسپ واقعات بتائے۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ایک بار مدن موہن مالوی ٹرین میں سفر کررہے تھے۔ ان کے ساتھ محمد علی اور شوکت علی بھی تھے۔ نماز کا وقت آیا تو علی برادران نے نماز پڑھنے میں دیر کی۔ اس پر مدن موہن مالوی نے یاد دلایا کہ آپ کی عبادت کا وقت آگیا اورابھی تک آپ نے نماز نہیں پڑھی۔
اگر آپ مدن موہن مالوی کی تصویر دیکھیں اور اس کے نیچے ان کا نام لکھا ہوا نہ ہو تو آپ یقین نہیں کرسکیں گے کہ یہ کسی ہندو کی تصویر ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان کے چہرے پر شاندار داڑھی ہے اور ان کا لباس بھی مسلم لباس ہے۔ اسی لیے ایک اُردو شاعر نے کہا تھا:
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
یہ وہ دور تھا جب کہ مسلم کلچر کا غلبہ ملک میں قائم تھا۔ مدن موہن مالوی ایک پنڈت تھے مگر ان کی وضع قطع ایسی تھی کہ ان کو دیکھ کر بظاہر یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ پنڈت مدن ہیں یا مولوی مدن۔ دوسری زبانوں کے ساتھ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔
۲ جون کو ایک مجلس میں میں نے سورہ والعصر کی تشریح کی۔ میں نے بتایاکہ قرآن میں انسان کی زندگی کو زمانہ (ٹائم) سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جس طرح ٹائم ہر لمحہ گھٹتا رہتا ہے اسی طرح انسان ہردن اپنی زندگی کی مقرر مدت کو کم کرتا ہوا موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح برف پگھل کر ہر لمحہ کم ہوتی جارہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہر آدمی کا کائونٹ ڈاؤن (count down) ہو رہا ہے۔ ایک آدمی کی کل عمر اگر تقدیر میں دس ہزار دن کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا۔ یعنی آج اگر اس کی مدت عمر دس ہزار دن تھی تو کل اس کی عمر ۹۹۹۹ دن ہو جائے گی۔ اگلے دن۹۹۹۸ دن اور اس کے بعد ۹۹۹۷ دن، وقس علی ہذا۔
رشی کیش پہلے یوپی کاایک ٹاؤن تھا۔ اب وہ نئی اسٹیٹ اترانچل کا ایک حصہ ہے۔ رشی کیش ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔ اس کے ایک طرف ہمالیہ کی پھیلی ہوئی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیں اور دوسری طرف گنگا کا پانی ہلکی موسیقی کے ساتھ بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں ہر طرف فطرت کا آفاقی ماحول ہے۔ پورا رشی کیش اسی طرح فطرت کی گود میں بسا ہوا ہے۔
یہاں کا پروگرام ہندی زبان میں چھپا ہوا تھا۔ اس میں زیادہ تر سنسکرت کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ میرے لیے ان کو سمجھنا مشکل تھا۔ ۲ جون کو مجھے ایک پروگرام میں لے جایا گیا۔ یہاں گنگا کے کنارے مخصوص سجے ہوئے منچ پر گدی کی نشستیں بنی ہوئی تھیں۔ ان گدیوں پر ممتاز مہمان بٹھائے گئے تھے۔ مجھے بھی لے جا کر وہاں ایک گدی پر بٹھا دیا گیا۔ میری تمام تر دلچسپی اس وقت یہ تھی کہ میں یہ جانوں کہ ہندو دھرم کیا ہے اور اس کے رسم و رواج کیا ہیں۔ یہاں پہلے باجے کے ساتھ بھجن گایا گیا۔ دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد تمام لوگ ایک ایک تھال لے کر کھڑے ہوگئے جس میں کچھ روایتی چیزیں تھیں اور دئے جل رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر مخصوص انداز میں اس کو گھمانا شروع کردیا۔ یہ گنگا پوجا کی رسم تھی۔ میں نے سادہ طورپر یہ کیا کہ میں بدستور اپنی جگہ خاموش بیٹھا رہا۔ اس طرح میں نے اپنے منصوبہ کے مطابق، گنگا پوجا کا معائنہ تو کیا مگر میں نے اپنے آپ کو اس میں شرکت سے بچائے رکھا۔
۳ جون کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد میں اپنے کمرے سے باہر آیا۔یہاں درختوں کے سایہ میں لمبا پختہ راستہ بناہوا تھا۔ یہاں میں اپنا جوتا اتار کر ننگے پاؤں ٹہلنے لگا۔ تازہ ہوا میں ٹہلنا ایک بے حد فرحت بخش تجربہ ہے۔ اسی کے ساتھ اگر ننگے پاؤں ٹہلنا ہو تو تاثیر اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پیدل چلنے میں لمسِ فطرت (contact with nature) کاتجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ اس وقت نہیں ہوسکتا جب کہ آدمی جوتا اور موزہ پہن کر چل رہا ہو۔
یہاں جین مذہب کے کئی لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک جینی پیشوا جو اپنے منہ پر پتّی لگائے ہوئے تھے ان سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ مندر بنانا چھوڑ و، انسان بناؤ۔ میں نے پوچھا کہ انسان بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی خواہشوں (desires) کو ہلاک کرنا۔ انہوں نے بتایاکہ جینی طریقہ کے مطابق، منہ پر پتّی باندھنا اسی باپرہیز زندگی کی ایک علامت ہے۔
میں نے کہا کہ دوسرے لفظوں میں، آپ کا نظریہ سلف کنٹرول کا نظریہ ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کوئی شخص سلف کنٹرول کیوں کرے۔ کوئی شخص اپنی طاقتور خواہشوں کو کیوں دبائے۔ انسان کو سلف کنٹرول پرآمادہ کرنے کے لیے ایک زیادہ بڑا محرک درکار ہے۔ اس سلسلہ میں میں نے انہیں اسلام کے نظریۂ جنت سے متعارف کرایا۔
رشی کیش میں ایک ادارہ ہے جس کا نام یہ ہے—اسٹریٹیجک مینیجمنٹ سروسز (SMS)۔ اس کے نمائندے (مسٹر انل نائر اور شیو ساگر چوپڑا) وغیرہ ۳ جون کو میرے کمرے میں آئے اور کہا کہ ہمیں آپ کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کرنا ہے۔ وہ ایجوکیشن اور اخلاقی سدھا رکے بارہ میں میرے خیالات ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ بلا شبہہ ہمارے دیش کا سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ مگر میں اپنے تجربہ کے مطابق، اس کو نہیں مانتا کہ تعلیمی نصاب کو بدل کر یا ہسٹری کودوبارہ لکھ کر یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ کا حل ہوتا تو اب تک مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ کیوں کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہماری ہر گورنمنٹ اسی مقصد کی بنیاد پر نصاب میں تبدیلی کرتی رہی ہے۔ مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں،اس کا کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں تعلیمی اصلاح کے نام سے بہت سے ادارے قائم ہیں۔ مثلاً شانتی نکیتن اور گروکل وغیرہ، مگر یہ سب بے نتیجہ رہے۔
اسی طرح انگریزوں کی مثال بھی ہے۔ لارڈ میکالے کی سفارشات کے تحت برٹش گورنمنٹ نے ملک میں ایک ایسا انگریزی تعلیمی نظام جاری کیا جس کے متعلق اُن کا اندازہ یہ تھا کہ ہندستانیوں کے خیالات اس طرح بدل جائیں گے کہ وہ ہمیشہ کے لیے برٹش حکومت کی ماتحتی قبول کرلیں گے۔ مگر اس کا نتیجہ بالکل الٹا نکلا۔ اسی انگریزی نظام تعلیم سے وہ تمام لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف فریڈم موومنٹ کی قیادت کی۔
پھر میں نے کہا کہ میں تعلیم برائے تعلیم (education for the sake of education) کا قائل ہوں۔ میرا نظریہ ہے کہ تعلیم کے نظام کو خالص فنی بنیاد پر چلانا چاہئے۔ جہاں تک اخلاق اور کریکٹر کی بات ہے تو اس کام کے لئے زیادہ موثر طریقہ وہ ہے جس کو غیر رسمی تعلیم (informal education) کہا جاتا ہے۔ ہم خود ۴۰ سال سے اسی کام کو کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے مشن کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کے اندر ذہنی اور اخلاقی انقلاب آیا ہے۔
۳ جون کو ناشتہ اور کھانے کی میز پرکئی لوگوں سے ملنے کا اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے ساتھ نوآدمی تھے۔ ان میں سے ۳ فارنر تھے۔ ان لوگوں کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں روحانیت کا وہ تجربہ ہوا ہے جس کو وجد (ecstasy) کہا جاتا ہے۔ میں نے مختلف سوالات کرکے یہ جاننا چاہا کہ وجد کیا ہے۔ مگر وہ لوگ بار بار یہی کہتے رہے کہ وجد ایک اندرونی کیفیت ہے جس کو لفظوں کے ذریعہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ گفتگو کے آخر میں انہوں نے کہا کہ اب آپ بتائیے کہ وجد کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ برا نہ مانیں تو میں کہوں گا کہ جو لوگ وجد کی اصطلاح میں روحانیت کی بات کرتے ہیں وہ صرف ایک مصنوعی یا غیر حقیقی تجربہ کو حقیقی سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں۔ میں نے قرآن کی آیت والذین آمنوا اشد حبا للہ (البقرہ ۱۶۵)کی روشنی میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر فطری طورپر اپنے خالق (خدا ) کے لیے بے پناہ جذبۂ محبت موجود ہوتا ہے۔ ہر آدمی خود اپنی فطرت کے زور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ اس مرکزِمحبت کو پالے جس سے وہ اپنے اعلیٰ جذبات کو وابستہ کرسکے۔
موجودہ حالات میں خدا کا تصور لوگوں پر واضح نہیں ہے۔ خاص طور پر آریائی مذاہب (Aryan Religions) میں خدا کا عقیدہ وحدت وجود (monism) کے تصور پر مبنی ہے۔ اس تصور میں خدا ہم سے علیٰحدہ کوئی مستقل وجود نہیں۔ وہ ایک غیر مشخص قسم کا مجرد تصور (abstract idea) ہے۔ اس لئے جولوگ آریائی روایات میں پرورش پاکر نکلے ہیں وہ عملاً ایسے کسی شخصی خدا سے روشناس نہیں ہوتے جس کو وہ اپنا مرکز محبت بنائیں اور اس کے ذریعہ ان کے اندر وجد کی کیفیت پیدا ہو۔ اس لئے وہ خود ساختہ ورزشوں کے ذریعہ اپنی ایک مفروضہ دنیا بناتے ہیں اور اس کو وجد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا وجد حقیقۃً ایک فطر ی حقیقت کا غیر حقیقی انتساب (attribution) ہے، نہ کہ حقیقی مرکز محبت سے مربوط ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا تجربہ۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے بات کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ان کے دل میں اسلام کے خلاف سخت نفرت ہے۔ میں نے سنجیدگی کے ساتھ ان سے پوچھا کہ اسلام کے بارہ میں آپ کی وہ کون سی معلومات ہیں جن کی وجہ سے آپ کے دل میں اُس کے خلاف منفی جذبات پیدا ہوئے۔ انہوں نے چند باتیں بتائیں۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومناتھ کے مندر کو لوٹا۔ بابر نے انڈیا پر حملہ کیا۔ اورنگ زیب نے ہندوؤں کے خلاف جنگ کی۔ہندستان میں جبر کے ذریعہ اسلام پھیلایا گیا۔
میں نے کہا کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کے درمیان فرق کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ہی آپ اس معاملہ میں منصفانہ رائے قائم کرسکیں گے۔ میں نے کہا کہ محمود غزنوی کا مندر کے سونے کو لوٹنا اسلام کے نزدیک بھی اتنا ہی غلط تھا جتنا کہ وہ آپ کے نزدیک غلط ہے۔ اسی طرح بابر کے حملہ کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے بابر کو یا اور کسی مسلمان کو پر امن پیغام لے کر ہندستان میں داخل ہونا چاہئے تھا، نہ کہ تلوار لے کر۔ اسی طرح اورنگ زیب نے جو کچھ کیا اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک جبری کنورژن کا تعلق ہے تو یہ صرف ایک الزام ہے اس کا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ خود ہندو اسکالر س نے تسلیم کیا ہے کہ ہندستان میں اسلام کی اشاعت پر امن طورپر ہوئی ہے، نہ کہ جبر اور تشدد کے ذریعہ۔
رشی کیش میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی اُن میں سے ایک قابلِ ذکر شخص مسٹر ترلوچن سنگھ تھے۔ وہ نیشنل کمیشن فار مائینارٹیز کے وائس چئر مین ہیں۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں۔ (Tel.: off-4690809, Res- 3384664)۔ وہ مجھ کو میری تحریروں سے جانتے تھے۔ گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ ایک سمجھ دار اور حقیقت پسند آدمی ہیں اور اپنے موجودہ عہدہ کے لیے پوری طرح موزوں ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ انڈیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ کی جو حالت ہے وہ گویا ایک قسم کی سرد جنگ (cold war) ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس فرقہ وارانہ مسئلہ کا صرف ایک ہی مؤثر حل ہے، اور وہ دونوں فرقوں کے درمیان سوشیلائیزیشن(socialization) ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں کے درمیان ملنے جلنے کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ ملنا جلنا اپنے آپ اس مسئلہ کا حل بن جائے گا۔
ایک اور بات اُنہوں نے یہ کہی کہ دونوں فرقوں کے صرف نرم دَل والے لوگ اگر ملیں تو اس سے مطلوب فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔ ضرورت ہے کہ دونوں طرف کے گرم دَل کے لوگ باہم ملیں اور تعلقات کو بڑھائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے:
Extremists should sit.
کانفرنس کے رسمی اجتماعات میں شرکت کے علاوہ بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک ملاقات میں خدا کے وجود کا تذکرہ ہوا۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا: خدا کہیں باہر نہیں، وہ تو خود ہمارے اندر موجود ہے۔ میں نے کہا کہ بہت سے لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں مگر اس نظریہ کے حق میں کوئی علمی دلیل موجود نہیں۔ ’’خدا انسان کے اندر ہے‘‘ صرف ایک لفظی بیان ہے، وہ کوئی مدلّل بیان (reasoned statement) نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہندو ازم ایک گہرے تضاد کا شکار ہے۔ ہندو ازم کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان خدا کا ایک اَنش ہے۔ اس عقیدہ کو ادوئت واد کہتے ہیں۔ انسان اگر خدا کا جزء ہے توانسان کے اندر خدا والی صفت ہونی چاہئے، مثلاً تخلیق کی قدرت۔مگر کسی بھی دلیل سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے قطرہ اور سمندر کی مثال دی جاتی ہے۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، قطرہ میں سمندر کے سارے اوصاف موجود ہیں جب کہ انسان میں کوئی بھی خدائی صفت موجود نہیں۔
اس فکری تضاد کو رفع کرنے کے لیے ہندوؤں میں دوسرا عقیدہ پیدا ہوا جس کو دوئت واد کہا جاتا ہے، یعنی خدا الگ ہے اور انسان الگ۔ اس نظریہ کی حامی ایک ممتاز شخصیت مادھو چاریہ کی ہے۔ اگرچہ ہندوؤں میں شنکر آچاریہ کا ادوئت واد زیادہ مقبول ہوا اور مادھو چاریہ کا دوئت واد زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے خدا کے عقیدہ پر گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ خدا انسان کے اندر ہے، خدا انسان کے باہر نہیں جس کو کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔ میں نے کہا کہ خدا کی موجودگی کا احساس ضرور انسان کے اندر ہے۔ مگر خدا کی ذات ہمارے وجود کے باہر ہے، نہ کہ ہمارے اندر۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ جب خدا کا احساس ہمارے اندر موجود ہے تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے اندر ہے، اُس کو باہر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔
میں نے کہا کہ خدا کا احساس اندر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر موجود نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ توہر انسان کا عام تجربہ ہے۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ پیاس ہمارے اندر موجود ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خود پانی بھی ہمارے اندر موجود ہے۔ ہر آدمی کا ذاتی تجربہ ہے کہ پیاس اگر چہ ہمارے اندر ہے مگر پانی ہم سے الگ اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔ آپ لوگ احساس خداوندی کو وجود خداوندی کے مفہوممیں لے رہے ہیں۔ میری یہ بات سن کر وہ کچھ دیر چُپ رہے اور کہا کہ میں اپنے گرو سے پوچھ کر کل آپ کو بتاؤں گا۔ لیکن اگلے دن اُن سے ملاقات نہ ہوسکی۔
رشی کیش کا یہ اجتماع بہت بڑے پیمانہ پر کیا گیا تھا۔ اس میں نہ صرف ملک کے بلکہ دوسرے ملکوں کے ہندو نمائندے شریک ہوئے۔ تین دن تک ہر طرف زبردست مذہبی دھوم نظر آئی—بھجن، مذہبی سنگیت، کرشن کتھا، گنگا پوجا، طرح طرح کی مذہبی رسمیں، وغیرہ۔
میں نے سوچا کہ کیا یہ حقیقی معنوں میں مذہبی دھوم ہے۔ میرے دل نے کہا کہ نہیں۔ کیوں کہ یہاں ظاہری ہنگامے توکافی تھے مگر مذہب کی حقیقی روح نظر نہ آئی۔ ایک بوڑھے ہندو نے درد کے ساتھ کہا کہ یہاں آکرمجھے زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ رنگ برنگ کے یہ پروگرام مجھے صرف تام جھام دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب کی اصل اسپرٹ کا کہیں پتہ نہیں۔
میں نے مزید سوچا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب مذہب نہیں ہے بلکہ کلچر ہے۔ خود مسلمانوں کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ آج کل مسلمانوں میں مذہب کے نام پر کافی دھوم دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ سب اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل اسلام کے مظاہر ہیں، نہ کہ ربّانی اسلام کے مظاہر۔ ربّانی اسلام وہ ہے جس میں معرفت کی گہرائی ہو۔ جس میں سچائی کا اعتراف ہو۔ جس میں خوف خدا کا غلبہ ہو۔ جس میں اخلاقی اقدار زندہ ہوں۔ جس میں انصاف کی بولی بولی جائے خواہ وہ اپنے موافق ہو یا اپنے خلاف، وغیرہ۔ مگر یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اسلام کے نام پر ہونے والے ہنگاموں میں کہیں پتہ نہیں۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے تفصیلی گفتگوہوئی۔ اُنہوں نے میڈیٹیشن (meditation)کے فائدے بتائے۔اُنہوں نے کہا کہ ہمارے سماج میں سب سے بڑا پرابلم ایگو (ego) کا پرابلم ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ کوئی بات اپنے مزاج کے خلاف ہو تو فوراً اُس کا ایگو بھڑک اٹھتا ہے۔ جس کا آخری نتیجہ بریک ڈاؤن(break down) ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میڈیٹیشن کے ذریعہ ہم ایگو کو تحلیل(disolve) کردیتے ہیں۔ گویا کہ اَنا والا آدمی بے اَنا بن جاتا ہے اور پھر وہ کسی کے لیے پرابلم نہیں رہتا۔
میں نے کہا کہ یہ صرف کہنے کی ایک بات ہے۔ اَنا یا ایگو انسان کی ایک فطری صفت ہے، اُس کو میڈیٹیشن جیسی ورزشوں کے ذریعہ تحلیل یا ڈیزالو کرنا ممکن ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ ایگو انسانی دماغ کی ایک صفت ہے۔ اورمیڈیٹیشن میں آپ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ ایک جسمانی ورزش (physical exercise) ہوتی ہے اور ایک دماغی صفت کو جسمانی ورزش کے ذریعہ ختم کرنا نفسیاتی اعتبار سے ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ میڈیٹیشن کے پورے کورس سے گذرنے کے باوجود لوگوں کے اندر ایگو پوری طرح موجود ہوتا ہے اور جب بھی اُس کے اَنا پر چوٹ پڑے تو وہ بھڑک اُٹھتا ہے۔
میں نے کہا کہ ایگو کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اُس کو ڈیفیوز (defuse) کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا طریقہ یہی ہے۔ اسلام آدمی کی سوچ کے اندر انقلاب لاتا ہے۔ یہ سوچ اس بات کی ضامن بن جاتی ہے کہ جب بھی آدمی کی اَنا بھڑکے تو اُس کی سوچ متحرک ہو کر اُس کی انا کے بم کو ڈیفیوز کردے۔ میں نے کہا کہ اَنا (ایگو) کوئی برائی نہیں، وہ ایک طاقت ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ترقی دیں کہ وہ اَنا کو صرف اچھے استعمال میں لے، وہ اُس کو برے استعمال تک نہ جانے دے۔
ایک صحافی نے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ اسکول اورکالج کی تعلیم میں آج کل ریفارم کی باتیں ہورہی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سوسائٹی میں جو اخلاقی بگاڑ آیا ہے اُس کو اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ تعلیمی نصاب میں اخلاق کو ایک مستقل مضمون کے طورپر شامل کر دیا جائے۔ میں نے کہا کہ یہ تجربہ تو کیاجاچکا ہے۔ موجودہ تعلیمی نصاب میں بھی اکثر جگہ کسی نہ کسی طورپر اخلاقی چیزیں پڑھائی جاتی ہیں۔ شانتی نکیتن اور گروکل جیسے بہت سے تعلیمی ادارے تو خاص اسی مقصد کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ مگر اُن سے مطلوب اخلاقی نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔
میں نے کہا کہ تعلیم کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ ایک فارمل ایجوکیشن، اور دوسرے انفارمل ایجوکیشن۔ فارمل ایجوکیشن سے مراد اسکول اور کالج کی تعلیم ہے اور انفارمل ایجوکیشن سے مراد اصلاحی کوشش ہے جو رسمی تعلیم کے باہر تعمیر شعور کے لیے کی جائے۔ اخلاقی شخصیت پیدا کرنے کے لیے انفارمل ایجوکیشن مفید ہے، نہ کہ صرف فارمل ایجوکیشن۔
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن میں سارا زور نمبر پر ہوتا ہے۔ طالب علم کی آخری کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ امتحان کے موقع پر کسی نہ کسی طرح زیادہ نمبر لائے تاکہ وہ امتحانی اصطلاح میں کامیاب ہوسکے۔
بہائی مذہب کے ایک صاحب بھی یہاں آئے تھے۔ اُنہوں نے ’’یونیورسل مذہب‘‘ کے موضوع پر اپنی مختصر تقریر کی۔ اُنہوں نے آٹھ صفحہ کا ایک پمفلٹ (اپریل ۲۰۰۲) تقسیم کیا۔ یہ بہائی عالمی مرکز کے بیت العدل اعظم کی طرف سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ پمفلٹ عمدہ کاغذ پر نہایت عمدہ چھپا ہوا تھا مگر پورا پڑھنے کے باوجود اُس کا کوئی خلاصہ میری سمجھ میں نہ آسکا۔ اُس کا ایک اقتباس یہ تھا:
“۱۸۹۳ء میں مشہور عالمی کولمبیائی اجلاس (شکاگو) نے ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ کو وجود میں لاکر سب کو حیران کردیا۔ روحانی اوراخلاقی اشتراک کی اس استصواب رائے نے تمام براعظموں کی توجہ مبذول کرائی اور اُس نے سبھی سائنسی، تکنیکی اور تجارتی کامیابیوں سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ تھوڑے عرصہ کے لیے لگا کہ پابندیوں اور قدامت پرستی کی دیواریں گرگئیں۔ مؤثر مفکرین کے لیے بھی یہ اشتراک انوکھا اور تاریخ عالم میں اہمیت کا حامل تھا۔ ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ کے منتظمین نے کہا کہ ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ نے دنیا کو مذہبی جنون سے بچا لیا‘‘۔
یہ میرے نزدیک ایک خیالی بات ہے۔ عالمی انقلاب کبھی کسی جلسہ یا سیمینار کے ذریعہ ظہور میں نہیں آتا۔ اس قسم کا جلسہ صرف ایک مظاہرہ ہے۔ انسانوں کے درمیان کوئی حقیقی انقلاب لانے کے لیے ایک مسلسل فکری تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کا انقلاب ہمیشہ طویل فکری جدوجہد کے ذریعہ آتا ہے، نہ کہ وقتی قسم کے مظاہروں سے۔
بہائی مذہب کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ بہائی لوگوں کے درمیان آپس میں سلام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں : اللہ ابھیٰ(God is most glorious)۔ واضح ہو کہ بہائی مذہب کے بانی کا نام بہاء اللہ تھا۔
رشی کیش میں ایک اور بات معلوم ہوئی جس کا ابھی تک مجھے علم نہ تھا۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کے پان اسلام ازم کی طرح ہندوؤں میں ایک عالمی تحریک پان ہندوازم کے نام پر چل رہی ہے۔ اس کا مقصد تمام دنیا کے ہندوؤں کو متحد کرنا ہے جن کی تعداد تقریباً ایک ارب بتائی جاتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہوا، یہ تحریک تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ مثلاً یہاں پُرتگال کے ایک ہندو لیڈر ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پرتگال میں بسنے والے تمام ہندوؤں کو اُنہوں نے ایک اتحاد میں جوڑ دیا ہے۔
موجودہ ہندوؤں کے ذہن میں یہ خیال ڈالا جارہا ہے کہ مستقبل میں ہندوؤں کے لیے خطرہ عیسائیت وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ صرف اسلام سے ہے۔ اس لیے اپنے خیال کے مطابق، وہ ہر قیمت پر اسلام کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں کچھ ایسے ہندوؤں سے ملاقات ہوئی جو عربی اور فارسی زبانیں بے تکلف بولتے تھے۔ میں نے ایسے ہی ایک ہندو سے کہا: حال شما چیست۔ اُس نے خالص ایرانی لہجہ میں اس کا جواب دیا۔
رشی کیش کے اس عالمی اجتماع کو کنڈکٹ کرنے یا چلانے کا کام ایک ۳۵ سالہ خاتون کر رہی تھیں۔ وہ ایک امریکن خاتون تھیں۔ مگر انہوں نے ہندو مذہب کو اپنا لیا تھا اور اب اُن کا نام بھاگوتی تھا۔ وہ سفید رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی تھیں اور انتہائی پھرتی کے ساتھ تمام پروگرام کو چلارہی تھیں۔
اجلاس کے دوران اُنہوں نے انگریزی میں بولتے ہوئے مجھے تقریر کے لیے مدعو کیا۔ میں نے سادہ اُردو زبان میں اپنی تقریر کی۔ تقریر کے بعد وہ میرے پاس آئیں اور میری تقریر پر اچھے تأثر کا اظہار کیا۔ میں نے کہا کہ یہاں جو لوگ اکٹھا ہیں اُن کی اکثریت ہندی سمجھتی ہے اس لئے میں نے اپنی تقریر ہندی زبان میں کی۔ میں نے اُن سے یہ بات انگریزی میں کہی تھی۔ اس کو سن کر انہوں نے امریکی لہجہ میں کہا:
مولانا صاحب، میں ہندی سمجھتی ہوں۔
رشی کیش میں جو نئی باتیں معلوم ہوئیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ سنسکرت پاٹھ شالاؤں میں ایک مستقل شعبہ ہوتا ہے جس کو کتھا کاریتا کہتے ہیں۔ اس شعبہ میں خصوصی تربیت کے ذریعہ کتھاکار تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کرشن کتھا اور رام کتھا جیسے پروگرام کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تقریروں کو قصے کہانیوں اور لطیفوں اور مختلف اداؤں کے ساتھ اتنا دلچسپ بنا دیتے ہیں کہ سننے والے گھنٹوں دلچسپی کے ساتھ اُس کوسنتے رہتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ اُن کی تقریر کے دوران ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب کہ لوگ باقاعدہ رونے لگتے ہیں۔ کبھی اُن پر وجد (ecstacy) کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ کتھا کار کئی کئی گھنٹے مسلسل بولتے ہیں، مگر اُن کی آواز میں فرق نہیں آتا۔ اُن کے گلے کی طاقت بدستور یکساں طورپر موجود رہتی ہے۔ ان لوگوں کو ہر کتھا پر بڑی بڑی رقمیں ادا کی جاتی ہیں۔
کتھاکار کی ایک خصوصیت پر مجھے بہت تعجب تھا۔ وہ یہ کہ مسلسل کئی گھنٹہ تک بولنے کے باوجود اُن کی آواز خراب کیوں نہیں ہوتی۔ ایک انگریزی صحافی نے اس کا راز بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہاں میں کتھا کا رسے ملا اوراُن سے دوسری باتوں کے ساتھ ان کے گلے کی طاقت کا راز بھی دریافت کیا۔ کتھا کار نے کہا کہ یہ سب ہمارے گرو کی کرپا ہے۔ کتھا کار نے مذکورہ جرنلسٹ کوایک پُڑیا دکھائی اور کہا کہ یہ ہمارے گرو کی دی ہوئی ہے اور اس کا نام مسٹیریس پاؤڈر (mysterious powder) ہے۔
جرنلسٹ نے پڑیا کھول کر پاؤڈر کو چکھا اورکہا کہ مجھے یہ شک ہے کہ اس کے اندر ایسٹرائڈس(steroids) ملا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ جرنلسٹ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے یہ بھی بتادیا کہ وہ فلاں مشہور انگریزی اخبار کا کرسپانڈنٹ ہے۔ اس کے بعد کتھا کار کافی سنجیدہ ہوگئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اصل میں یہ ملہٹھی کا سفوف ہے۔ مذکورہ اخبار نویس نے یہ پڑیا مجھے دی اور میں نے اُس کو چکھا تو میرے اندازہ کے مطابق، اُس کا ذائقہ بالکل ملہٹھی جیسا تھا۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اپنی اصلاح کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز خود احتسابی (self-criticism) ہے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ سلف کریٹیسزم کیا ہے، اس کی مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ حال میں میں ریڈیوسُن رہا تھا۔ اس دوران اُس پر ایک فلم ایکٹر کا انٹرویو آنے لگا۔ انٹرویو ر نے پوچھا کہ اپنی زندگی کا کوئی خاص واقعہ بتائیے۔ فلم ایکٹر نے کہا کہ ایک بار ممبئی میں شوٹنگ ہورہی تھی۔ میں اُس میں ایک رول ادا کررہا تھا۔ اچانک فلم ڈائرکٹر نے شوٹنگ بندکر دی۔ میں اُس کے پاس گیا اور کہا کہ آپ نے شوٹنگ کیوں بند کردی۔ فلم ڈائریکٹر نے کہا کہ تمہارا رول مجھے کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ہے۔
اب فلم ایکٹر نے ایسا نہیں کیا کہ وہ ڈائریکٹر سے جھگڑنے لگے۔ اس کے بجائے وہ خاموشی کے ساتھ اپنے کمرہ میں چلا گیا۔ وہاں وہ آئینہ کے سامنے کھڑاہوگیا اور اپنے بارے میں غور کرنے لگا۔ آئینہ میں جب اُس نے اپنی صورت دیکھی تو اصل راز اُس کی سمجھ میں آگیا۔ بات یہ تھی کہ اُس دن صبح کو وہ مشہور تاج محل سیلون میں گیا اور شاندار طورپر اپنے بال درست کرائے اور شیمپو لگایا۔ اس طرح وہ ایک جینٹلمین تو دکھائی دینے لگا مگر وہ اپنے فلمی رول کے لیے غیر موزوں ہوگیا۔ اس لیے کہ فلم میں وہ ایک ایسے آدمی کا رول ادا کررہا تھا جو فطری طورپر ناقص العقل تھا۔ اُس کو محسوس ہوا کہ میرا موجودہ چہرہ ایک صاحب عقل آدمی کا چہرہ دکھائی دیتاہے،نہ کہ ناقص العقل آدمی کا چہرہ۔
اس دریافت کے بعد اُس نے یہ کیا کہ ایک قینچی لی اور آئینہ دیکھے بغیر وائلڈ ہیر کٹ (wild haircut) کے انداز میں اپنے بال کو بے ترتیبی کے ساتھ ادھر ادھر سے کاٹ دیا اور پھر اپنے چہرہ اور بال پر مٹی لگا لی۔ اس طرح اپنی صورت کو بگاڑ کر جب وہ فلم ڈائریکٹر کے سامنے آیا تو ڈائریکٹر نے کہا کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو۔ اس کے بعد اُس نے اسی طرح پوری شوٹنگ کرائی۔میں نے کہا کہ جو آدمی اپنی ترقی چاہتا ہو اُس کو نہایت بے رحمی کے ساتھ اپنی تنقید آپ کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔
ایک شخص نے نجی گفتگو کے دوران بتایا کہ میرا تجربہ ہے کہ ہندوؤں کو عیسائیت، جین ازم، سکھ ازم، بودھ ازم اور دوسرے مذہبوں سے کوئی نفرت نہیں۔ مگر میرا تجربہ ہے کہ اسلام کے خلاف اکثر ہندوؤں میں نفرت پائی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آخر اس مسئلہ کا کیاحل ہے۔
میں نے کہا کہ اس مسئلہ کا سادہ اور آسان حل یہ ہے کہ مسلمان رد عمل کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ یک طرفہ طورپر ہندوؤں سے محبت کرنے لگیں۔ دشمنی کا جواب دشمنی نہیں ہے۔ بلکہ دشمنی کا جواب محبت ہے۔ یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی تجربہ کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔
میں نے کہا کہ اس قسم کی دشمنی کوئی فطری چیز نہیں۔ وہ ہمیشہ اوپری اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی پتھر کے اوپر کچھ مٹی جم جائے۔ جیسے ہی آپ اُس کے اوپر پانی ڈالیں گے وہ بہہ کر ختم ہو جائے گی۔ ایسا ہی معاملہ اس قسم کی نفرت کا ہے۔ آپ محبت کے سیلاب سے دھو کر اس کو کسی بھی وقت صاف کرسکتے ہیں۔
۴ جون ۲۰۰۲ء کی صبح کو رشی کیش سے واپسی تھی۔ سوامی چیدانند سے آخری ملاقات کرکے روانہ ہوا۔ ہماری گاڑی چلتے ہوئے میرٹھ کے قریب پہنچی تو سڑک کے دونوں طرف سرسبز مناظر تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ مودی پورم ہے۔ تقریباً ۲۵ کیلو میٹر کے رقبہ میں ایک ہری بھری دنیابنائی جارہی ہے۔ اس میں انتہائی جدید قسم کی سہولتیں موجود ہوں گی۔ یہاں تک کہ اس میں فلم بندی کے انتظامات بھی ہوں گے۔ یہ نئی دنیا اُن دولت مندوں کے لیے بنائی جارہی ہے جو شہر کے مسائل سے بیزار ہیں اور فطرت کی کھلی فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔ مودی پُورم کو مودی نگر والوں نے بنایا ہے۔ مودی نگر (مودی انڈسٹریز) کو یہاں ۱۹۳۲ میں قائم کیا گیا تھا۔
مودی پورم کے مختلف منفی اورمثبت پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ موجودہ ہندستان جس کو کرپٹ سیاستداں آخری حد تک تباہ کرچکے ہیں، اُس کو یہاں کے تجارتی طبقہ نے بچایا ہے۔ ہندستان میں سینکڑوں سال سے تجارت کی روایات قائم تھیں۔ آزادی سے پہلے یہاں ایک طبقہ موجود تھا جو ملک کے اندر مضبوط تجارتی بنیاد قائم کر چکا تھا۔ یہی وہ طبقہ ہے جس نے ملک کواقتصادی تباہی سے بچا رکھا ہے۔ ورنہ جہاں تک سیاسی لیڈروں کا تعلق ہے، اُنہوں نے پہلے سوشلزم کے نام پر ملک کو تباہ کیا تھا اور اس کے بعد لیڈروں کے ناقابل بیان کرپشن نے ملک کو بالکل کھوکھلا بنا دیا۔
کانفرنس کے منتظمین نے واپسی کے سفر کے لیِے مجھے جو گاڑی دی تھی، اُس کا ڈرائیور ایک نوجوان تھا۔ اُس کا نام راکیش شرما تھا۔ وہ گاڑی کو تیز دوڑانے لگا۔ میرے ساتھی نے اُس کو منع کیا مگر وہ بدستور تیز دوڑاتا رہا۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ وہ بار بار اوور ٹیک کرتا تھا۔ میرے ساتھی نے کسی قدر سختی کے ساتھ کہا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ سڑک کے دونوں طرف کئی گاڑیاں الٹی پڑی ہیں۔ کیا تم ہمارا انجام بھی یہی کرنا چاہتے ہو۔
اس کے بعد ڈرائیور نے گاڑی کھڑ ی کر دی اور باہر نکل کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا کہ میں ایک پروفیشنل ڈرائیور ہوں۔ میں تو اسی طرح گاڑی چلاؤں گا۔ میرے ساتھی نے محسوس کیا کہ اگر ہم اس ڈرائیور سے ضد کرتے ہیں تو ہمارا سفر مزید مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے اُنہوں نے ڈرائیور کو منانے کی پالیسی اختیار کی اور پھر ہمارا سفر آگے کے لیے جاری ہوگیا۔ یہ واقعہ غازی آباد سے کچھ پہلے پیش آیا۔
اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ سڑکوں پر جو حادثے ہوتے ہیں،اُن کا سبب زیادہ تر اپنے بارے میں بڑھا ہوا اعتماد ہوتا ہے۔ جن لوگوں میں کسی قسم کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے وہ عام طور پر اس نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس اس کا براانجام دیکھتے ہیں مگر اُن کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ—یہ دوسروں کا معاملہ تھا، میرے ساتھ ایسا ہونے والا نہیں۔
خدا کسی انسان کو زیادہ صلاحیت دیتا ہے تاکہ وہ زیادہ کام کرے۔ مگر وہ اپنی برخود غلط نفسیات کی بنا پر اکثر اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے۔ اپنے کو زیادہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایسا کام کر ڈالتا ہے جو اُس کے لیے انتظامی حد (managable limit) سے باہر ہو۔ اکثر لوگوں کی ناکامی کا سبب اُن کا یہی مزاج ہوتا ہے۔
رشی کیش کا یہ سفر میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ وہاں جس ہندو سے بھی اسلام پر گفتگو ہوئی اُس نے دلچسپی کے ساتھ اُس کو سنا۔ کئی لوگوں کو کتابیں دی گئیں جن کو اُنہوں نے شوق کے ساتھ لیا اور پڑھنے کا وعدہ کیا۔ یہاں مجھے چند بار عمومی خطاب کا موقع ملا۔ اپنے خطابات میں میں نے اسلام کو دینِ رحمت کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی۔
میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ لوگ اس کو بہت بُرا مانتے ہیں کہ اُن کے اوپر مذہبی کٹّرپن کا الزام آئے۔ اس لیے وہ اپنے مذہب کے سوا دوسرے مذہب کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔ یہ زمانی مزاج ہم کو موقع دیتا ہے کہ ہم دین حق کی دعوت کو موافق ماحول میں پیش کرسکیں۔
۴ جون ۲۰۰۲ کی رات کو میں واپس ہو کر دہلی پہنچا۔