حفاظت کیجئے

سفید کپڑے پر کوئی دھبہ لگ جائے تو آدمی فوراً اُس کو دھو کر صاف کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر فوراً اُس کو صاف نہ کیا تو بعد کو دھبہ نہیں مٹے گا اور اس کا کپڑا مستقل طورپر داغ دار ہوجائے گا۔

ایسا ہی کچھ معاملہ آدمی کے ذہن کا ہے۔ سماج میں رہتے ہوئے بار بار آدمی کے ذہن میں کوئی نہ کوئی بری بات آتی رہتی ہے۔ مثلاً انتقام کاجذبہ، حسد کا جذبہ، دشمنی کا جذبہ، شکایت کا جذبہ، نفرت کا جذبہ، وغیرہ۔ اس قسم کے جذبات اور احساسات بار بار ہر مرد اور ہر عورت کے ذہن میں صبح و شام آتے رہتے ہیں۔ وہ آدمی کو منفی احساسات میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔

ایسا ہر تجربہ گویا ایک قسم کا نفسیاتی دھبّہ ہے۔ وہ آدمی کے نفسیاتی وجود کو داغ دار کرنے کا ایک واقعہ ہے۔ ان نفسیاتی دھبوں کے لیے بھی آدمی کووہی کرنا ہے جو وہ مادی دھبوں کے لیے کرتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ جیسے ہی اس قسم کا کوئی دھبّہ اُس کے نفسیاتی وجود پر لگے تو فوراً وہ اس کو اپنے دل ودماغ سے نکال دے۔ وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کرکے فوراً اپنے آپ کو اس کے زیراثر آنے سے بچالے۔ جو مرد یا عورت ایسا نہ کرے اُس کو ایسا نہ کرنے کی یہ بھاری قیمت دینی پڑے گی کہ وہ نفسیاتی دھبّہ اُس کے وجود کا مستقل حصہ بن جائے گا۔ وہ اُس کی داخلی شخصیت کو ہمیشہ کے لیے داغ دار کر دے گا۔

جدید نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک زندہ ذہن اور دوسرا خفتہ ذہن۔ فطری نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی بات آدمی کے ذہن میں داخل ہوتی ہے تو پہلے دن وہ اُس کے زندہ ذہن میں رہتی ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو نیند کی حالت میں انسانی دماغ کا فطری نظام اس بات کو زندہ ذہن سے نکال کر خفتہ ذہن میں پہنچا دیتا ہے۔ اور جب ایسا ہوجائے تو پھر وہ بات آدمی کے پورے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ اُس کو ذہن سے نکالنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ عام طورپر عورت اور مرد دوسروں کے بارے میں شکایتوں اور تلخیوں میں جیتے ہیں۔ ہر ایک کسی نہ کسی کے خلاف منفی نفسیات کا شکار رہتا ہے۔ مگر عین اسی وقت وہی مرد اور عورت اپنے بیٹا اوراپنی بیٹی کے لیے ہمیشہ مثبت احساسات کا نمونہ بنے رہتے ہیں۔ حالاں کہ ہر مردو عورت کو اپنے اولاد سے بھی اسی طرح شکایات کے تجربے ہوتے ہیں جس طرح دوسروں سے ہوتے ہیں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ شکایتوں کے باوجود لوگ اپنی اولاد کے معاملہ میں ہمیشہ معتدل بنے رہتے ہیں۔ جب کہ یہی لوگ دوسروں کے بارہ میں معمولی شکایتوں کو لے کر اُس کے خلاف ہمیشہ کے لیے نفرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

اس فرق کا سبب یہ ہے کہ لوگ ان دونوں کے معاملہ میں دو الگ الگ انداز اختیارکرتے ہیں۔ اُن کو جب اپنی اولاد کی طرف سے شکایت کا تجربہ ہوتا ہے تو اُسی وقت وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کرکے اُس کو ختم کردیتے ہیں۔ اپنی اولاد کے خلاف شکایت کو وہ اپنے ذہن سے فوراً نکال دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب اُن کو دوسروں سے کوئی شکایت پیش آجائے تو وہ اُس کو اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں۔ وہ اُس کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں سے اس کا چرچا کرتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے ہر روز اُس کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں۔

اسی فرق کی بنا پر ایسا ہے کہ اپنی اولاد کے خلاف شکایتیں اُن کے وجود کا حصہ نہیں بنتیں، وہ پیدا ہوتے ہی فوراً ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کے خلاف شکایتیں ہمیشہ کے لیے ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں، وہ کسی طرح ختم نہیں ہوتیں۔

یہ ذاتی تجربہ ہر آدمی کو بتاتا ہے کہ اُس کو دوسروں کے معاملہ میں کیساہونا چاہئے۔ اُس کو ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے معاملہ میں ہے—جب بھی کسی کے خلاف کوئی منفی احساس پیدا ہو تو وہ فوراً ہی اس کو اپنے ذہن سے نکال دے۔ کسی بھی حال میں وہ اُس کو اپنے ذہن کا مستقل حصہ نہ بننے دے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom