اہل جنت کے درجات

قرآن میں جنت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ لوگو، دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف اور ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے۔ (الحدید ۲۱) دوسری جگہ اہل جنت کی زبان سے یہ خبر دی گئی ہے کہ—اوروہ کہیں گے کہ شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کواس زمین کا وارث بنادیا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا (الزمر ۷۴)

قرآن کے اس بیان سے اندازہ ہوتاہے کہ جنت ایک ایسی دنیا ہوگی جو تمام جنتیوں کے لیے کھلی ہوئی ہوگی۔ کوئی جنتی انسان اس وسیع دنیا میں جہاں چاہے گا اپنا مبوّأ (اقامت گاہ) بنا سکے گا۔ اقامت یا سکونت کے اعتبار سے ہرجنتی کو یکساں آزادی حاصل ہوگی۔

دوسری آیتوں اورحدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ جنت میں فرق مراتب ہوگا۔ کچھ جنتی افراد دوسرے جنتیوں کے مقابلہ میں زیادہ اونچی جنت کے مالک ہوں گے۔ مثلاً قرآن کے مطابق، اُن میں سے کچھ سابق ہوں گے اور کچھ مقتصد (فاطر ۳۲) اب سوال یہ ہے کہ یہ فرق مراتب کس اعتبار سے ہوگا۔ غور کرنے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ فرق استمتاع (enjoyment) کے اعتبار سے ہوگا۔ جنت اپنے ظواہر کے اعتبار سے غالباً ہر ایک کے لیے یکساں ہوگی مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کا جو معاملہ ہے، وہ ہر ایک کے لیے یکساں نہ ہوگا۔ کسی کو جنت کی نعمتوں سے زیادہ حظّ ملے گا اورکسی کو نسبتاً کم۔

محظوظیت کا یہ فرق معرفت یا شعور کے فرق کی بنیاد پر ہوگا۔ دنیا کی زندگی میں جو شخص شعور یا معرفت کے جس درجہ پر پہنچا ہوگا اُسی درجہ کے برابر وہ جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہوسکے گا۔ گویا مکانی اعتبار سے جنت کے تمام افراد یکساں طورپر اقامت میں شریک ہوں گے، مگر جو شخص شعوری اعتبار سے ارتقاء کے جس درجہ پر ہوگا اُسی نسبت سے وہ جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوسکے گا۔

اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجئے۔ محدث البیہقی نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: ان عبداللہ بن رواحۃ قال لصاحب لہ: تعال حتی نؤمن ساعۃً، قال: أو لسنا بمؤمنین؟ قال: بلیٰ ولکنا نذکر اللہ فنزداد ایماناً (حیاۃ الصحابۃ، الجزء الثالث، صفحہ ۱۳)۔ یعنی عبداللہ ابن رواحہ صحابی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ، ہم ایک ساعت کے لیے ایمان لائیں۔ ساتھی نے کہا کہ کیا ہم مومن نہیں ہیں ؟ ابن رواحہ نے کہا کہ ہاں، مگر جب ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ہم اپنے ایمان میں اضافہ کرتے ہیں۔

اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک انسان وہ ہے جو کلمۂ توحید کا اقرار کرنے کے بعد یہ سمجھے کہ وہ صاحب ایمان ہوگیا، جو ایمان اُس کو ملنا تھا وہ اُسے مل گیا۔ ایمان یا عقیدہ کے اعتبار سے اب اُسے کچھ اور پانا نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا انسان وہ ہے جو بار بار اللہ کو یاد کرے، وہ اللہ پر غور و فکر کرے۔ اور اس طرح وہ اپنی معرفت ایمانی کو بڑھاتا رہے۔ اُس کا ایمان مسلسل شعوری ترقی کرتا رہے۔

اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصحاب ایمان میں معرفت کے اعتبار سے درجات ہوتے ہیں۔ کوئی اعلیٰ معرفت کے درجہ پر ہوتا ہے اورکوئی اُس سے کم معرفت کے درجہ پر۔ معرفتِ حق کا یہ فرق جنت میں استمتاع کے اعتبار سے فرق پیدا کردے گا۔

ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میں الحمد للہ رب العٰلمین پڑھا تو اُس نے کسی شک اورتردد کے بغیر اس حقیقت کو مان لیا۔ اُس نے یقین (conviction) کے درجہ میں اُس کو قبول کرلیا۔ قرآن کا دوسرا قاری وہ ہے کہ جب اُس نے الحمد للہ رب العٰلمین پڑھا تو اس آیت میں تخلیق الٰہی کے ایسے گہرے معانی اُس کے ذہن میں تازہ ہوگئے کہ اُس کے اندر اہتزاز (thrill) کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ وہ حمد خداوندی کے جذبہ سے سرشار ہوگیا۔

اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو وہ اُس کو ایک سچائی مان کر اُس کو قبول کرلے۔ مثلاً چھینک آنے پرایک شخص اگر کہے کہ:الحمد للّٰہ، تو اُس کو سن کر اُس کی زبان پر یہ کلمہ آجائے کہ یرحمک اللہ۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی بڑھی ہوئی معرفت کی بنا پر اُس کا یہ حال ہوکہ اللہ کی عظمت کے احساس سے اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اللہ کی کبریائی کو سوچ کر اُس کا دل دہل اُٹھے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم (الانفال ۲)۔

اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میں یہ آیت پڑھی: والذی ہو یُطعِمنی ویَسقین (الشعراء ۷۹)۔ اُس نے اس آیت کو اُس کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے لیا اور اُس کی زبان پر شکر کے الفاظ آگئے۔ دوسرا مومن وہ ہے جو اس آیت کو پڑھے تو اُس کے ذہن میں حقائق کاایک دفتر کھل جائے۔ وہ سوچے کہ زمین وآسمان کے اندر بے شمار سرگرمیاں ظہور میں آئیں۔ اُس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ وہ چیز بن کر تیار ہوجس کو ہم کھانا اور پانی کہتے ہیں اور جو زندگی کی بقا کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ سوچ کر اُس کے سینے میں کمالاتِ خداوندی کے اعتراف کا ایک سمندر موجزن ہوجائے۔ حتیٰ کہ یہ احساس اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں بہہ پڑے۔

یہ دونوں ہی مومن حمد خدا وندی کے احساس کے حامل ہیں۔ مگر معرفت کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان اتنا زیادہ فرق پیدا ہوگیا ہے کہ اُس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ جو لوگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائیں، جن کی نیتیں درست ہوں۔ جو بقدر استطاعت اللہ کے احکام کی پابندی کریں وہ جنت میں جائیں گے۔ مگر یہ ایمان کا ابتدائی درجہ ہے۔ ایمان کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جو معرفت کے سفر کے ساتھ ترقی کرتا رہتا ہے۔ جو ربّانی سمندر میں فکری غوطہ لگانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دونوں قسم کے اصحابِ ایمان کے لیے جنت ہے۔ مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کے معاملہ میں ایک مومن اوردوسرے مومن کے درمیان وہی فرق ہوجائے گا جو دنیا میں معرفت حق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان پایا جاتا تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom