قرآن خدا کا کلام
ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی دنیا میں انسان صرف یہ جانتا تھا کہ زندہ اجسام، بال اور چمڑا اور ہڈی اور گوشت اور ناخن جیسی بظاہر ٹھوس چیزوں کا مجموعہ ہیں۔ ایسے زمانہ میں قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام زندہ چیزوں کا جسم پانی سے بنایا گیا ہے جو ایک انتہائی رقیق چیز ہے: وجعلنا من الماء کل شیئٍ حی (الانبیاء ۳۰) واللہ خلق کل دابۃ من مائٍ (النور ۴۵)
قرآن کے نزول کے وقت کسی انسان کو یہ معلوم نہ تھا کہ زندہ چیزوں کے جسم کا بیشتر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ چنانچہ اُس زمانہ میں کچھ لوگوں نے اس آیت کا مطلب یہ سمجھا کہ زندہ چیزوں کا غذائی انحصار پانی پر ہے۔ کچھ لوگوں نے وجعلنا من الماء سے ماء الصلب مراد لیا۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، الجزء الحادی عشر، صفحہ ۲۸۴)۔ایسی دنیا میں، تاریخ میں پہلی بار قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام زندہ اجسام کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے۔ ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک یہ آیت صرف عقیدہ کا حصہ بنی رہی۔ یہاں تک کہ جدید سائنسی دور اور خوردبین (microscope) ایجاد ہوئی۔
خورد بین نے تاریخ میں پہلی بار اس کو ممکن بنایا کہ انسانی جسم کا تجزیہ کرکے اُس کا مشاہدہ اُس کے آخری اجزاء کی حد تک کیا جاسکے۔ جدید تجزیاتی مشاہدہ نے بتایا کہ انسانی جسم آخر کار بہت چھوٹے چھوٹے بنیادی اجزاء یا خلیہ کا مجموعہ ہے جس کو علم حیاتیات میں سائیٹوپلازم (sytoplasm) کہاجاتا ہے۔ اب سائیٹو پلازم کے خوردبینی مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اُس کا اسّی فیصد سے زیادہ حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ سائیٹوپلازم اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اُس کو خالی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔
قدیم زمانہ کی تمام کتابوں کا یہ حال ہوا ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات نے ان کے بہت سے بیانات کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ صرف قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کے بیانات کی جدید سائنس نے استثنائی طورپر تصدیق کی۔ یہ حقیقت قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کا مذکورہ بیان ہے۔