خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۵

۱۔ کناڈا سے مسٹر آصف کا خط مورخہ ۱۴؍فروری ۲۰۰۴ موصول ہوا۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:

Last Sunday Feb. 8th. Noor Cultural Centre in Toronto had organized a lecture by Dr. Scott Kugle, a research scholar, Duke University, North Carolina. His Email address: [email protected]

His topic of the lecture was: Non-Violence in Qur’an. It was a very interesting and informative lecture. The audience throughly enjoyed it. From his lecture I assumed that Dr. Scott is a Muslim and has embraced Islam.

In his discourse he talked about the various personalities of India and Pakistan who preached the idea of non-violence in their struggles to remove British from India. He talked in detail about the lives and struggles of Maulana Abul Kalam Azad and Abdul Gaffar Khan.

Then to my pleasant surprise he said, "There is a present-day Muslim Scholar-Maulana Wahiduddin Khan-who is also in his books advocates non-violence. He said that Maulana Wahiduddin Khan has written many good books."

After the lecture I went to him and introduced myself. I said I teach Arabic once a week here at the Noor Cultural Centre and that we import books and sell them at cost price so that everyone can easily afford them. I said that we import from Goodword Books almost all the books written by Maulana Wahiduddin Khan and they are always available with us and at the prices which are so affordable to everyone.

He was quite surprised to learn this. He has taken my email address. He said that when he comes to Toronto next time Insha Allah he will visit the new NON-PROFIT BOOKSTORE. (Asif, Canada)

۲۔ ویکلی سہارا (نئی دہلی) کے سب ایڈیٹر محمد اصغرفریدی نے ۲ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر الیکشن اور مسلمان کے موضوع سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ الیکشن کے موقع پر کس پارٹی کو ووٹ دیا جائے اور کس پارٹی کو ووٹ نہ دیا جائے، اس کاتعلق عقیدہ یا مذہب سے نہیں ہے بلکہ ملّی مفادات سے ہے۔ یہ مفادات بھی ابدی نوعیت کے نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں احتجاجی سیاست بالکل بے معنٰی ہے:

Politics is an art of bargaining, rather than an art of protesting and complaining.

ایک بات یہ کہی گئی کہ جمہوری نظام میں کسی پارٹی کو سیاسی اچھوت بنانا کوئی مفید پالیسی نہیں۔ مزید یہ کہ الیکشن کے موقع پر لمبی مدّت کے لیے کسی ملّی مفاد کا حصول ممکن نہیں۔ ایسے موقع پر صرف محدود نوعیت کا کوئی مفاد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کی اس نوعیت کو لوگ اپنے ذاتی مفاد کے معاملہ میں خوب جانتے ہیں اور اس کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب معاملہ ملّی مفاد کا ہو تو ہر آدمی بڑی بڑی تقریر کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی تقریریں صرف مقرر کی غیر سنجیدگی کا ثبوت ہیں۔

۳۔ مسٹر عرفان احمد، ایم اے ایمسٹرڈم یونیورسٹی میں سوشل سائنس ریسرچ کے تحت ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین کے نظریات و افکار کا مطالعہ کررہے ہیں تاکہ اس کی روشنی میں اپنا مقالہ مرتب کریں۔ اس سلسلہ میں وہ ۲ مارچ ۲۰۰۴ کو نئی دہلی میں صدر اسلامی مرکز سے ملے اور موضوع سے متعلق اُن کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین مثبت طرزِ فکر کے حامل نہ تھے، اُن کا فکر وقت کے سیاسی حالات کے ردّ عمل میں بنا۔ اس لیے یہ لوگ اسلام کی مثبت ترجمانی میں کامیاب نہ ہوسکے۔ سیاسی حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ صحیح اسلامی تفکیر وہ ہے جو وقتی حالات سے متاثر ہوئے بغیر اسلام کی دوامی تعلیمات کی روشنی میں بنائی جائے۔ اپنے اسی منفی فکر کی بنا پر موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین اسلام کی کوئی مثبت خدمت نہ کرسکے۔

۴۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ جو مسلمان بندے ماترم میں شریک ہوں یا بی جے پی کا ساتھ دیں وہ خارج از اسلام ہیں۔اس کے جواب میں صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ اس قسم کا فتویٰ لا نکفر من اہل القبلہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں۔

۵۔ دہلی پریس پرکاشن لمیٹڈ (نئی دہلی) کی طرف سے ایک انگریزی میگزین اَلائیو (Alive) کے نام سے نکلتا ہے (اس کا سابقہ نام کارواں تھا) اس میگزین کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر رام بلاس کمار نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم پالیٹکس سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ برصغیر ہند میں بد قسمتی سے ۱۰۰ سال سے بھی زیادہ مدت سے ایسے رہنما اٹھے جو صرف حالات کے رد عمل کی پیداوار تھے۔ چنانچہ ان کی سوچ منفی سوچ تھی۔ وہ ملت کو کوئی مثبت ایجنڈا نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اب تک شکایت اور احتجاج کے احساس میں جیتے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر وہ ہمیشہ نگیٹیو ووٹنگ کرتے ہیں۔ یعنی کسی پارٹی کو اینٹی مسلم پارٹی فرض کرکے اس کے خلاف ووٹ دینا۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ لائیں۔ دوسروں کی شکایت کے بجائے خود تعمیری کا مزاج پیدا کریں۔

۶۔ ایران کلچر ہاؤس اور ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) کے تعاون سے ۱۲ مارچ ۲۰۰۴ کو قرآنی علوم (Qur'anic sciences) پر ایک سیمینار ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس میں ایک بات یہ بتائی کہ سائنسی تعلیم کی اہمیت صرف مادی ترقی کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ قرآن کو جدید تناظر میں سمجھنا اور جدید نسلوں کے لیے اسلام کو زیادہ قابل فہم بنانا، اس سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔

۷۔ انجمن امن دوست انسان دوست(نئی دہلی) کے تحت راشٹر شکتی فاؤنڈیشن کا سالانہ جلسہ ۱۴ مارچ ۲۰۰۴ کو میر درد روڈ (مہندیان) میں ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ اس جلسہ میں وہ بعض اسباب سے نہ جاسکے۔ البتہ انہوں نے ایک تحریری پیغام ان کے لیے بھیج دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ آج کے ماحول میں انسان دوستی اور امن دوستی کا پیغام بے حد اہم ہے۔ تعمیری سماج بنانے کے لیے یہ دو بنیادی نکتے ہیں۔

۸۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویوریکارڈ کیا۔ اُن کا خاص سوال یہ تھا کہ اخبارات (مثلاً ٹائمس آف انڈیا ۲۱ مارچ ۲۰۰۴) میں یہ خبر چھپی ہے کہ بی جے پی کے لیڈر مسٹر پرمود مہاجن کی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں پرائم منسٹر کے اسپیشل سکریٹری مسٹر کُلکرنی بھی موجود تھے۔ اس میں آپ نے شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ آپ کی اس شرکت کو بی جے پی کی حمایت کے معنٰی میں لیا جارہا ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ یہ شرکت کوئی نئی بات نہیں تھی۔ یہ الرسالہ مشن کا ایک حصہ تھا۔ الرسالہ کا مشن یہ ہے کہ ہندستان میں ہندو۔ مسلم اتحاد پیدا کیا جائے۔ مسلمانوں میں دو قومی نظریہ کا ذہن ختم کیا جائے اور اس سوچ کو ختم کیا جائے کہ ہندستان دارالکفر یا دار الحرب ہے۔ بلکہ لوگوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا جائے کہ ہندستان دار الانسان ہے۔ کسی کو اینٹی مسلم قرار دے کر اُس سے کٹنا داعی کے لیے جائز نہیں۔ داعی ہر ایک کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ ہر ملک کو دار الدعوہ سمجھتا ہے۔ یہی الرسالہ کا مشن ہے اور یہ مشن پچھلے تیس سال سے یہاں چلایا جارہا ہے۔

۹۔ بی بی سی انگریزی (اسکاٹ لینڈ) کی ٹیم ۲۳ مارچ ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز میں آئی۔ اس کی قیادت مارک رچرڈ (Mark Richards) کررہے تھے جو کہ بی بی سی میں سینئر پروڈیوسر فیچرس ہیں۔ انہوں نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈکیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر صوفی اسلام اور اس سے تعلق رکھنے والے موضوعات سے تھا۔ مثلاً اسلام میں روحانیت کا تصور۔ اسلام میں میوزک اور قوالی کا تصور وغیرہ۔ جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ روحانیت اسلام کی اصل اسپرٹ ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر روحانیت اور ربانیت پیدا کی جائے۔ جہاں تک میوزک اور قوالی کا تعلق ہے اس کو کچھ صوفیاء نے رواج دیا۔ اس سے صوفیاء کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو اس کے ذریعہ سے اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔ تاہم اس کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے وہ میوزک اور قوالی وغیرہ کو پسند نہیں کرتے۔ مگر صوفیاء اس کو روحانیت پیدا کرنے کے لیے ایک مددگار ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (Tel.: 0141-3382721)

۱۰۔ رائٹر نیوز ایجنسی کی نمائندہ مز ماریہ ابراہام نے بمبئی سے بذریعہ ٹیلی فون صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کی انتخابی پالیسی سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں میں اب بڑے پیمانہ پر نئی سوچ آئی ہے۔ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو زیادہ منصوبہ بند انداز میں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ انٹرویو ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو لیا گیا۔

۱۱۔ فکّی آڈیٹوریم (نئی دہلی) میں ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو ایک عمومی جلسہ ہوا۔ اس میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اس جلسہ کا موضوع یہ تھا کہ مسلمانوں کی الیکشن پالیسی کیا ہو۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ مسلمان اب تک زیادہ تر نگیٹیو ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ وہ پازیٹیو ووٹنگ کریں اور ملک میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں اور اپنے آپ کو تخلیقی اقلیت ثابت کریں۔

۱۲۔ ہندی روزنامہ دینک جاگرن (نئی دہلی) کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر راج کشور نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ مسلمانوں کی انتخابی پالیسی کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی انتخابی پالیسی اب کسی قدر بدلی ہے۔ مگر ابھی بہت زیادہ نہیں بدلی ہے۔ مسلمانوں کے اندر منفی سیاست کا رجحان ختم کرکے مثبت سیاست کا رجحان لانے کے لیے لمبے کام کی ضروت ہے۔

۱۳۔ انگر یزی میگزین ٹائم (Time) کے کرسپانڈنٹ مسٹر اروند ادیگا (Aravind Adiga) نے ۴ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر جدید دنیا اور مسلمان سے تھا، مثلاً اجتہاد اور ریفارم اور جہاداور مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات اور مغربی دنیا کے بارے میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر، وغیرہ۔ سوالات کے جواب میں انہیں بتایاگیا کہ بہت سی چیزیں جن کو مغربی میڈیا میں منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کو اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ در اصل مسلمانوں کا اپنا فعل ہے نہ کہ اسلام کی اصولی تعلیم۔ دوسری قوموں سے مسلمانوں کی نفرت سراسر غیر اسلامی ہے کیوں کہ اس قسم کی نفرت اسلام میں جائز ہی نہیں۔ آج کل جہاد کے نام پر جو تشدد کیا جارہا ہے وہ بھی غیر اسلامی ہے کیوں کہ اسلام میں مسلح جہاد صرف حکومت کا حق ہے نہ کہ عوام کا حق۔دوسرے ممالک ہمارے لیے دار الحرب یا دار الکفر نہیں ہیں بلکہ وہ دار الانسان ہیں۔

۱۴۔ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) کے ایک پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز نے اس کے ایک پینل ڈسکشن میں حصہ لیا۔ اس کا موضوع الیکشن کے حوالہ سے مسلمان اور پالیٹکس تھا۔ اس میں چار افراد نے حصہ لیا۔ یہ پروگرام ۱۶ اپریل ۲۰۰۴ کو ہوا۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایاگیاکہ مسلمانوں میں اب ایک نئی سیاسی سوچ اُبھررہی ہے۔ وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ نگیٹیو ووٹنگ کا طریقہ صحیح نہیں۔ نیز یہ بھی صحیح نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو مسلم دشمن اور مسلم نواز کے اعتبار سے بانٹا جائے۔الیکشن میں جمہوریت کی اسپرٹ کے تحت حصہ لینا چاہیے۔ اسی میں ملک کا بھی فائدہ ہے اور اسی میں مسلمانوں کا فائدہ بھی۔

۱۵۔ اچاریہ سوشیل کمار آشر م (نئی دہلی) میں ۱۸ اپریل ۲۰۰۴ کو ایک جلسہ ہوا۔ یہ مختلف مذاہب میں امن کے اشو پر تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور موضوع پر اظہار خیال کیا۔ ان اللّٰہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف کی روشنی میں بتایا کہ خدا کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں صرف امن کا طریقہ ہی موثر اور نتیجہ خیز ہے۔ تشدد کا طریقہ کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں پیدا کرسکتا۔

۱۶۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۴ اپریل ۲۰۰۴ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں کئی لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ مسلمان اور جدید میڈیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا سے شکایت کرنا بے فائدہ ہے۔ میڈیا ایک انڈسٹری ہے۔ اپنے انٹرسٹ کے تحت وہ سافٹ نیوز کو چھوڑتا ہے اور ہارڈ نیوز کو لیتا ہے۔ خود مسلمان ان مسلم افراد کی مذمت کریں جو اسلام کے نام سے تشدد کرتے ہیں اور میڈیا کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں۔

۱۷۔ ہندی روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے رپورٹر فضل غفران نے ۲۵ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمان اور الیکشن سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ سیاست کوئی عقیدہ کی چیز نہیں۔ وہ عملی زندگی کا ایک مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملی اور مذہبی مقاصد کو خود اپنے اداروں کے تحت حل کریں۔ سیاست میں انہیں نیشنل اسپرٹ کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔ ان کو چاہیے کہ وہ پولیٹکل پارٹی کو سپورٹ دیتے ہوئے پورے ملک کے مفاد کو سامنے رکھیں۔ ملک کے سیاسی اور اقتصادی مفاد ہی میں مسلمانوں کا سیاسی اور اقتصادی مفاد بھی ہے۔ کسی پولیٹکل پارٹی کو پرومسلم اور کسی پولیٹکل پارٹی کو اینٹی مسلم قرار دے کر اپنا سیاسی پروگرام بنانا جمہوریت میں قابل عمل نہیں۔

۱۸۔ نئی دہلی کے میگزین آؤٹ لک (ہندی ایڈیشن) کی نمائندہ مزگیتا شری نے ۲۷ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم سیاست سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا میں جو پولیٹکل پارٹیاں ہیں ان کو پرومسلم اور اینٹی مسلم میں بانٹنا درست نہیں۔ یہ جمہوری اسپرٹ کے خلاف ہے۔ ہر پارٹی کا اپنا سیاسی انٹرسٹ ہے۔ کوئی بھی پارٹی اینٹی مسلم پارٹی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ملک کے تمام لوگوں کو انسان سمجھیں۔ الیکشن کے موقع پر ووٹ دینے میں وہ ملک کے انٹرسٹ کو سامنے رکھ کر ووٹ دیں۔ نہ کہ اس نظریہ کے تحت کہ فلاں پارٹی اینٹی مسلم ہے اور اس کو ہمیں ہرانا ہے۔

۱۹۔ انڈیا ٹوڈے (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر منوج ورما نے ۲۷ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر انتخابی سیاست اور مسلمان سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے حالات کے اعتبار سے اس قسم کی سیاست کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ ایک پولیٹکل پارٹی کو پرومسلم اور دوسری پولیٹکل پارٹی کو اینٹی مسلم ڈکلیر کریں اوراس کے مطابق اپنی سیاست چلائیں۔ انہیں ہر پولیٹکل پارٹی کو انسان پارٹی کی حیثیت سے لینا ہے۔ انہیں منفی سوچ کو چھوڑ کر مثبت سوچ کے تحت اپنی پالیسی بنانا ہے۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ ان کی تعلیمی پس ماندگی ہے۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھایا جائے۔ اس کے بغیر ان کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا۔ بیلٹ باکس سے ان کی قسمت بر آمد نہیں ہوسکتی۔

۲۰۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکر کے نمائندہ مسٹر سنجے کمار ساہ (Sanjay Kumar) نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق عید میلاد النبی سے تھا۔ جواب میں بتایاگیا کہ عید میلاد النبی در اصل ہندوؤں کے تہوارجنم اسٹمی کی نقل ہے۔ اسلام میں صرف دو تہوار ہیں—عید الفطر اور عیدالاضحی۔ ان کے سوا جو اور تہوار مسلمان مناتے ہیں وہ ان کا اپنا رواج ہے۔ وہ اسلام کی تعلیم نہیں۔(Tel. 9899237833)

۲۱۔ ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمز کے نمائندہ مسٹر سنجے ورما نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر موجودہ الیکشن اور اس میں مسلمانوں کا حصہ کے بارے میں تھا۔ جوابات کے دوران بتایا گیا کہ آج کل بعض نام نہاد مسلم رہنما جو اپیل کررہے ہیں کہ مسلمان بی جے پی کوووٹ دیں اس کا کوئی اثر عملی طور پرہونے والا نہیں۔ اس لیے کہ یہ نام نہاد رہنما وہی ہیں جو اس سے پہلے برابر یہ کہتے رہے ہیں کہ بی جے پی مسلم دشمن پارٹی ہے اور مسلمانوں کو اسے ہرانا ہے۔ ایسی حالت میں ان کی یہ نئی بات اسی وقت موثر ہوسکتی ہے جب کہ وہ اپنی موجودہ اپیل سے پہلے یہ اعلان کریں کہ اس سے پہلے ہم نادانی میں مبتلا تھے، اب ہم کو سمجھ آئی ہے۔اپنی غلطی کا اعتراف کئے بغیر اس قسم کی اپیلوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ کوئی بھی مسلمان موجودہ حالت میں اس کو سنجیدگی سے نہیں لے سکتا۔ اپیل کرنے والا جب اپنی اپیل کی کوئی معقول وجہ نہ بتار ہا ہو تو اس کوسننے والے کیوں کر اسے اہمیت دے سکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے اندر منفی سیاست کا ذہن پیدا کیا ہے۔ اب اسی ذہن کو مثبت سیاست پر لانے کے لیے کوئی معقول وجہ بتانی پڑے گی۔ محض موجودہ قسم کی اپیل اس معاملہ میں موثر نہیں ہوسکتی۔

۲۲۔ نئی دہلی کے ای ٹی وی (Enadu TV) کی ٹیم نے ۲مئی ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع عید میلاد النبی تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ عید میلادالنبی کو ئی اسلامی تیوہار نہیں وہ مسلمانوں کا اپنا ایک رواج ہے۔ دورِ اول میں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ عرب ملکوں میں اب بھی اس قسم کا تیوہار نہیں منایا جاتا۔ یہ زیادہ تر ہندستان اور پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر جلوس وغیرہ کے جو ہنگامے کئے جاتے ہیں وہ تو درست نہیں البتہ اگر اس دن سیرت کے عنوان پر جلسہ کیا جائے اور پیغمبر اسلام کا أسوہ لوگوں کو بتایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

۲۳۔ بی بی سی لندن سے ۳ مئی ۲۰۰۴ کو ایک ریڈیائی ڈسکشن کا پروگرام تھا۔ ایک صاحب (وسعت اللہ خاں) لندن سے بول رہے تھے، ایک صاحب (سید منور حسین) کراچی سے بول رہے تھے۔ اور صدر اسلامی مرکز دہلی سے بول رہے تھے۔ موضوع تھا: دور جدید میں اجتہاد—تینوں ایک دوسرے کی آواز سن رہے تھے۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ اجتہاد ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس کو کسی بھی حال میں موقوف نہیں کیا جاسکتا۔

۲۴۔ نئی دہلی کے جین ٹی وی (Jain TV) کے اسٹوڈیو میں ۴ مئی ۲۰۰۴ کی شام کو ایک ڈسکشن کا پروگرام ہوا۔ا س میں اینکر(Anchor) کے علاوہ دو آدمی شریک تھے، صدر اسلامی مرکز اور کانگریس کے سینئر لیڈر سید جعفر شریف۔ اس کا موضوع انڈیا کے جنرل الیکشن مئی ۲۰۰۴ میں مسلمانوں کی انتخابی پالیسی تھا۔موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ میں کسی سیاسی پارٹی کا ایڈوکیٹ نہیں۔ میرا ایک روحانی مشن ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کس کو ووٹ دیں اور کس کو ووٹ نہ دیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان نگیٹیو ووٹنگ کو چھوڑ دیں اور پازیٹیو ووٹنگ کا طریقہ اختیار کریں۔ مسلم مسائل کو انتخابات کے ساتھ جوڑنا درست نہیں۔ الیکشن میں نیشنل انٹرسٹ کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ سید جعفر شریف نے اپنی تقریر میں صدر اسلامی مرکز کے نقطۂ نظر کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک بڑے عالم دین ہیں۔ہم سب لوگ ان کے قدر داں ہیں۔ ان کو کسی ایک سیاسی حلقے سے جوڑنا صحیح نہیں۔ وہ سارے ملک کے لیے قابل احترام بزرگ ہیں۔

۲۵۔ الہدیٰ انٹرنیشنل کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دبئی (عرب امارات) کا سفر کیا۔ یہ سفر ۵مئی کو شروع ہوا اور ۱۰ مئی ۲۰۰۴ کو ختم ہوا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔

۲۶۔ کشمیر نیوز سروس کے نمائندے مسٹر ماجد جہانگیر اور ان کے ساتھی ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز میں آئے اور ٹیپ ریکارڈر پر صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق ان موضوعات سے تھا:اسلام، مسلمان، کشمیر، تعلیم۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ تعلیم میں ان کی پسماندگی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دیں۔

۲۷۔ کشمیر نیوز سروس (سری نگر) کی ٹیم مسٹر ماجد جہانگیر کی قیادت میں ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو مرکز میں آئی۔ انہوں نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ مسلمانوں کا مسئلہ خارجی نہیں داخلی ہے۔مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ موجودہ زمانہ میں تعلیم میں پیچھے ہوگئے اسی سے ان کے تمام مسائل پیدا ہوئے۔ کشمیر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی آئیڈیلزم کے تحت طے نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملہ میں لوگوں کو حقیقت پسند بننا ہوگا اور اس معاملہ میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ جغرافی اعتبار سے اس کا جواسٹیٹس کو (status quo) بن گیا ہے اس کو مستقل حالت کے طورپر مان لیا جائے۔

۲۸۔ نئی دہلی کے میگزین لائف پوزیٹیو (Life Positive) کی خاتون ایڈیٹر مز سواتی چوپڑا (Swati Chopra) نے ۲۱ مئی ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع موت تھا۔ یعنی اسلام میں موت کا تصور۔ یہ انٹرویو وہ اپنے میگزین کے خصوصی شمارہ میں شائع کریں گی۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے مطابق موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ وہ عارضی زندگی سے نکل کر ابدی زندگی میں داخل ہونا ہے۔ اسلام کے مطابق موجودہ عارضی زندگی امتحان کے لیے ہے۔ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد آدمی کو موت دی جاتی ہے تاکہ وہ اگلی زندگی میں اپنے عمل کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل کیا جائے۔ مزید یہ بتایا گیا کہ موت کے ساتھ احتساب (accountability) کا تصور جڑا ہوا ہے۔ موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ اس کو صرف ایک محدود مدت تک کی آزادی ہے۔ اس کے بعد وہ خدا کی عدالت میں اپنے عمل کا حساب دینے کے لیے حاضر کردیا جائے گا۔ یہ تصور آدمی کے لیے برائی کے خلاف چیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ صحیح زندگی گزارے تاکہ وہ ابدی زندگی میں کامیابی سے محروم نہ ہو۔

۲۹۔ نوئڈا کے اسپورٹس اینڈ کلچرل کلب(Sports and Cultural Club) میں ۲۱ مئی ۲۰۰۴ کو ایک ڈسکورس کا پروگرام ہوا۔ اس میں ایک سو کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کا موضوع تھا: مذہب کے دس آفاقی اصول۔ ہر مقرر کو دس منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ سوامی گوکل آنند نے ہندوازم کے دس اصول بتائے۔ فادر ڈومینیک امینول نے مسیحیت کے دس اصول بتائے۔ صدر اسلامی مرکز نے اسلام کے دس اصول بتائے۔ یہ دس اسلامی اصول یہ تھے—انسانی اخوت، مذہبی ٹالرینس، صلح اور ایڈجسٹمنٹ، پڑوسی کو تکلیف نہ دینا، نرمی کا طریقہ، تواضع، لایعنی کام نہ کرنا، بڑے شر سے بچنے کے لیے چھوٹے شر کو گوارا کرنا، غصہ اور انتقام نہیں، پر امن طریقِ کار نہ کہ پرتشدد طریقِ کار۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں تھا۔ سامعین نے بہت زیادہ پسند کیا۔ سامعین میں ہر مذہب کے لوگ شریک تھے۔ تقریر کے بعد سوال و جواب ہوا۔ حاضرین کو اسلام کے موضوع پر چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی دی گئیں۔

۳۰۔ نئی دہلی کے منداکنی انکلیو کے علاقہ میں این آرآئی کامپلیکس (N. R. I. Complex) میں ۲۳مئی ۲۰۰۴ کو تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ایک اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں صدر اسلامی مرکز کو تقریر کے لیے یہ عنوان دیا گیا تھا:

How to strike a balance between materialism and spirituality.

انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مادی دنیا میں رہتے ہوئے روحانیت کو حاصل کیا جائے۔ اسلام میں روحانیت کا ذریعہ توسم ہے۔ یعنی مادی چیزوں سے روحانیت اور ربانیت کا سبق لینا۔ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرنا۔ توسم کی اس صلاحیت کے لیے آدمی کو اپنے آپ کو تیار کرنا پڑتا ہے۔

۳۱۔ مرکزی سیاسی لیڈر پرمود مہاجن کی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں زیادہ تر مسلم دانشور شریک ہوئے۔اس کو مسٹر سدھیندر کلکرنی کی طرف سے آرگنائز کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع الیکشن اور مسلمان تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستانی مسلمان عام طور پر الیکشن کے موقع پرنگیٹیو ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ وہ انڈیا کی سیاسی پارٹیوں کو پرومسلم اور اینٹی مسلم میں بانٹتے ہیں۔ یہ منفی سیاست مسلمانوں کے لیے تباہ کن ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر نظر ثانی کریں اور مثبت سیاست کا طریقہ اختیار کریں۔

۳۲۔ ۲۷جون ۲۰۰۴ سے ایک نیا پروگرام شروع کیاگیا ہے۔ ہر دوسرے اتوار (alternate Sunday) کو صدر اسلامی مرکز دہلی سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہیں جو امریکا (فلاڈلفیا کے ایک اجتماع میں سُنا جاتا ہے۔ یہ پروگرام تقریباً دوگھنٹہ کا ہوتا ہے۔ ایک امریکی سامع کا خط یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

Respected Maulanan Sahab,

Assalaamu alaykum

Our Spiritual Class every other Sunday with you over telephone is very spiritually elevating for us. We are all grateful to Allah (SWT) for making this happen so easily. We are exploring further how we can make this program accessible to many people all over the world. Make Du’a, it is surely poosible with Allah's help.

I think it is helpful to put this news in Al-Risala Urdu, and ask US subscribers to contact me at 215-240-4298.

۳۳۔ ستمبر ۲۰۰۴ کے پہلے ہفتہ میں صدر اسلامی مرکز نے مہاراشٹر کا سفر کیا۔ وہاں ناندیڑ اور پر بھنی میں چند روز قیام کیا اور وہاں کے مسلمانوں سے بڑے پیمانہ پر ملاقاتیں کیں اور ان سے خطاب کیا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں سفرنامہ کے تحت شائع کر دی جائے گی۔

 ۳۴۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ایک ٹیم نے ۹ ستمبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرو یوریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق اسلام میں فیملی پلاننگ سے تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ملک کی قومی پالیسی کا مسئلہ ہے۔ اس طرح کے معاملات میں قومی پالیسی ہی مسلمانوں کی بھی پالیسی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ تعلیم میں پچھڑاپن ہے۔ بقیہ مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔

۳۵۔ ستمبر ۲۰۰۴ کو دہلی میں وائس پریزیڈنٹ بھیروں سنگھ شیخاوت کی رہائش گاہ پر ایک خصوصی فنکشن ہوا۔ اس میں وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، وائس پریزیڈنٹ بھیروں سنگھ شیخاوت اور ہوم منسٹر شیوراج پاٹل وغیرہ شریک ہوئے۔ اس فنکشن میں تین آدمیوں کو کمیونل ہارمنی کا ایوارڈ دیا گیا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر سباراؤ تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موقع کی مناسبت سے کچھ کلمات کہے۔

۳۶۔ دینک بھاسکر (نئی دہلی) کے نمائندے مسٹر رجت کمار نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹر ویولیا۔ سوالات کا تعلق مسلم مسائل سے تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ تعلیم ہے۔ اگر مسلمانوں میں تعلیم پھیل جائے تو بقیہ تمام مسئلے اپنے آپ حل ہو جا ئیں گے۔ تعلیم سے سمجھ آتی ہے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضرورت سمجھداری کی ہے۔

۳۷۔ نئی دہلی کے زی نیوز (Zee News) کے اسٹوڈیو میں ۱۵ ستمبر ۲۰۰۴ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کے اینکر مسٹر یوسف انصاری تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع فیملی پلاننگ اور مسلمان تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ فیملی پلاننگ کا مسئلہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق ملکی حالات اور نیشنل پالیسی سے ہے۔ مسلمان حسب ضرورت اس کو اختیار کر سکتے ہیں۔

۳۸۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۱۵ ستمبر ۲۰۰۴ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کے اینکر مسٹر جاوید نقوی تھے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع برتھ کنٹرول اور مسلمان تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ قرآن اور حدیث میں برتھ کنٹرول کی کوئی ممانعت موجود نہیں۔ بلکہ صحیحالبخاری اور دوسری کتابوں میں یہ روایات آئی ہیں کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عزل کرتے تھے اور ہمیں اس سے روکا نہیں گیا۔ عزل برتھ کنٹرول کا قدیم فطری طریقہ ہے۔ ایسی حالت میں برتھ کنٹرول کو نا جائز بتانا ایک بے دلیل بات ہے۔ اسلام میں پوپ ڈم یا برہمن واد نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی طرف۔ سے کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دے۔

۳۹۔ انڈیائی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویور ریکارڈ کیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر کرشن موہن مشرا تھے۔ اس انٹرویو کا موضوع فیملی پلاننگ اور اسلام تھا۔ جوابات کے ذیل میں بتایا گیا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا عام رجحان یہ ہو گیا ہے کہ وہ ہر نئی چیز کے بارہ میں فوراً منفی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ چنانچہ شروع شروع میں جب لاؤڈ اسپیکر آیا تو اس کو نا جائز بتایا گیا۔ یہی معاملہ برتھ کنٹرول کے ساتھ پیش آیا۔ حالاں کہ سادہ مسئلہ یہ ہے کہ حمل شدہ بچہ کو مارنا تو بلاشبہ حرام ہے مگر مانع حمل تدبیر اختیار کرنا ہر گز حرام نہیں۔

۴۰۔ ہفت روزہ نئی دنیا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر جمشید عادل نے ۲۱ ستمبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر برتھ کنٹرول سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ قرآن کی بعض آیتوں کو لے کر لوگ برتھ کنٹرول کو نا جائز بتاتے ہیں۔ ان آیتوں کا کوئی تعلق برتھ کنٹرول کے مسئلہ سے نہیں۔ اسلام میں قتل اولا دیا اسقاط بلاشبہ جائز نہیں مگر منع حمل کی پیشگی تدبیر کے بارے میں کوئی کھلی ممانعت قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے۔

۴۱۔ سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ۲۲ ستمبر ۲۰۰۴ کو ایک اجتماع ہوا۔ اس میں انڈیا کے مختلف آرمی اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع کے مطابق انسانی اقدار (human values) پر اسلامی معلومات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔

۴۲۔ برٹش ہائی کمیشن (نئی دہلی) کی فرسٹ پولیٹکل سکریٹری جان کیلے (Joanne Caley) نے ۲۴ ستمبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی گورنمنٹ یہ جاننا چاہتی ہے کہ انڈیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اور اسی طرح باہر کے ملکوں میں مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان عناد (antagonism) کی جو فضا پائی جاتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے مولا نا صاحب کا مشن کیا کام کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں انہیں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا اور مطالعہ کے لیے دو کتا بیں دی گئیں :

1. True Jihad    2.  Indian Muslims

انہوں نے توجہ سے باتوں کو سنا اور ان کو کاغذ پر نوٹ کیا۔ انہوں نے کافی دلچسپی کا اظہار کیا اور آئندہ دوبارہ ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔

۴۳ ۔فری لانس جرنلسٹ مز ممتاز نے ۲۵ ستمبر ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹر ویولیا۔یہ انٹر ویونو بھارت ٹائمس نئی دہلی کے لیے تھا۔ سوالات کا تعلق فیملی کنٹرول اور خواتین کے معاملہ میں اسلامی تعلیمات سے تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلام کا موقف بتایا گیا۔

۴۴- ہندی روزنامه دینک جاگرن کے نمائندہ امیتاب اگنی ہوتری نے ۹ ستمبر ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ مذہب کی بنیاد پر مردم شماری کے بارے میں تھا۔ جوابات کا خلاصہ تھا کہ تمام مسئلوں کا مشترک حل یہ ہے کہ افزائش نسل یا برتھ کنٹرول کا اشو شریعت کا اشو نہیں ہے وہ نیشنل پلاننگ کا اشو ہے۔

۴۵۔ عارف، گڑیا اور توفیق کے مسئلہ پر ۲۱ ستمبر ۲۰۰۴ کوزی نیوز کے اسٹوڈیو میں ایک بڑا پروگرام ہوا۔اس میں متمول خاندانوں کے لوگ اور علماء بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے بھی اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں شریعت کے فیصلہ کو تمام لوگوں کو مان لینا چاہیے۔

۴۶۔

Dear Respected Maulana Wahiduddin Khan,

Assalamaliekam, Pranams.

Namaste. Greetings from Badarikashrama, San Leandro, California,

While organizing Mahatma Gandhi Peace Prayer Day I happened upon the Al-Risala site in an internet search on peace and non-violence and the first thing I read was your article on non-violence, it impressed me tremendously and I struck up an email contact with Kaleem. I also asked him if it would be possible for you to come to our function on October 2 as it appeared that you would be in America at that time. It also appeared that you might be busy then as well, nevertheless I asked for permission to reprint your article in a booklet we are preparing to pass out on that day, Kaleem has also said that he would be mailing me some books to distribute on that day, even though Kaleem has told me that it would be fine to reprint your article. I will also ask your permission as I just now saw your email and would like to convey to you my respect and admiration for the work you are doing since it seems so necessary in today's interesting world that we speak and work for peace.

I am an American woman who has become a sanyasa and have just spent seven years in our Ashrama in Karnataka outside of Bangalore. I will return in January. I hope, inshaallah, that we might meet sometime in Brahata Desha if I ever have the opportunity to go to New Delhi or if you happen to come to Karnataka, perhaps if it would be alright. I could call and speak to you when you are in Philadelphia.


Yours in service,


Swami Mangalananda
Badarikashrama
15602
 Maubert Avenue
San Leandro, CA 94578
Tel: 510-278-2444

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom