جہاد فی اللہ
قرآن کی سورہ العنکبوت میں ایک آیت آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے— جو لوگ اللہ میں جہادکریں گے، ان کو اللہ ضرور اپنے راستے دکھائے گا(29: 69)۔ قرآن کی اِس آیت میں ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ نہیں ہے، بلکہ ’’جہاد فی اللہ‘‘ ہے، یعنی یہاں اللہ کے راستے میں جہاد نہیں، بلکہ اللہ میں جہاد۔سورہ العنکبوت ہجرت حبشہ (5 نبوی) سے پہلے اتری۔ اِس لیے یہ واضح ہے کہ اِس آیت میں جہاد سے مراد قتال نہیں ہے۔ اِسی طرح اِس آیت میں جہاد سے مراد احکامِ الٰہی کی عملی اطاعت بھی مراد نہیں ہوسکتی، کیوں کہ ایسا کوئی لفظ یہاں موجود نہیں۔ اِس آیت میں جہاد فی اللہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی چیز کو ہدایت کہاگیا ہے، اِس لیے اِس آیت میں جہاد فی اللہ کا کوئی ایسا مطلب مراد ہوگا جس کا تعلق ہدایت سے ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں جہاد سے مراد جہادِ فکری ہے، یعنی اللہ کے بارے میں سوچنا، اللہ کے بارے میں تفکر اور تدبر کرنا، اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا، مسلسل مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے اپنے ایمان میں اضافہ کرتے رہنا، وغیرہ۔
دین کا آغاز معرفت سے ہوتا ہے۔ یعنی مخلوقات میں غور وفکر کے ذریعے خالق کو پہچاننے کی کوشش کرنا، کلام الٰہی کا مطالعہ کرکے اس سے مسلسل ذہنی غذا حاصل کرنا، اپنے روز مرہ کے تجربات کو ربانی بصیرت میں ڈھالنا، وغیرہ۔ اِس قسم کا غور وفکر کامل یکسوئی کے ذریعے ہوتا ہے، اور کامل یکسوئی (concentration) بلاشبہہ ایک عظیم جہاد ہے۔
’’ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھائیں گے‘‘ اِس سے مراد ہدایت کے راستے ہیں، یعنی ایسے لوگوں کا ذہن زیادہ سے زیادہ کھلے گا، ان کے ندر نئی سوچ جاگے گی، ان پر معرفتِ خداوندی کے نئے نئے پہلو واضح ہوں گے۔ جس طرح اللہ کی ذات لامحدود ہے، اسی طرح اس کی معرفت بھی لامحدود ہے۔ اِس لامحدود معرفت کی توفیق انھیں لوگوں کو ملتی ہے جو تفکر اور تدبر کے ذریعے اللہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔ اِسی فکری جہاد کو اِس آیت میں جہاد فی اللہ کہاگیا ہے۔