امت ِ مسلمہ کا المیہ
حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنما أخاف علی أمتی الأئمۃَ المُضَلِّین، وإذا وُضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (أبو داؤد والترمذی، بحوالہ: مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث :5394 ) یعنی میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ گم راہ کن لیڈروں سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت کے اندر تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اٹھائی نہ جائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امتِ محمدی کے اندر یہ تلوار حضرت عثمان کی خلافت کے زمانے میں داخل ہوئی۔ یہ معاملہ گمراہ کن لیڈروں کے ذریعہ پیش آیا اور عملاً وہ آج تک مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا اصل ماڈل دعوتی ماڈل ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں یہی ماڈل امت کے درمیان جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ اب امت کے اندر غیردعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔
دعوتی ماڈل پر امن مشن کا ماڈل ہے۔ اِس ماڈل میں مثبت سوچ ہوتی ہے، تعمیری سرگرمیاں ہوتی ہیں، تمام سرگرمیاں دعوت کے مرکزی تصور کے تحت تشکیل پاتی ہیں، ٹکراؤ کے بجائے مصالحت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اختلاف کوگفت وشنید (negotiation) کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، وغیرہ۔
غیر دعوتی ماڈل کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ اس میں نفرت اور تشدد اور ٹکراؤ جیسی چیزیں فروغ پاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد امت میں غیر دعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔ اس کے بعد امت کے اندر کوئی ایسی طاقت ور شخصیت نہیں ابھری جو غیر دعوتی ماڈل کو ختم کرے اور امت کے اندر دوبارہ دعوتی ماڈل کو رائج کرے۔ یہی امتِ مسلمہ کا اصل المیہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اِس المیہ کو دورکرکے امت کو دوبارہ دعوتی ماڈل پر لایاجائے۔ اِس کے بغیر امت کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔