اہلیہ کی وفات

۲۵دسمبر ۲۰۰۶ کی صبح کو میری اہلیہ سابعہ خاتون کا انتقال ہوگیا۔ بوقتِ انتقال ان کی عمر تقریباً ۸۰ سال تھی۔ ان کا پہلا نکاح میرے چچا زاد بھائی نظام الدین خاں سے ہوا تھا۔ ان سے ایک بچی بھی پیدا ہوئی تھی، مگر نظام الدین خاں اور بچی دونوں جلد ہی وفات پاگیے۔ ان سے میرا نکاح جولائی ۱۹۴۲ میں ہوا۔ وفات سے پہلے اور وفات کے بعد کئی لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ جنت کے باغوں میں ہیں۔

مرحومہ کی سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ ان کے اندر بے پناہ صبر و شکر تھا۔ میں اپنے مشن کی بنا پر ساری عمر دیوانے کی مانند رہا۔ یہاں تک کہ میرے خاندان کے لوگ مجھ کو مجنوں (mad) کہنے لگے۔ میری یہ حالت شروع سے آخر تک باقی رہی۔ مرحومہ نے کامل صبر کے ساتھ اس کو برداشت کیا۔ انھوں نے نہ کبھی مجھ سے شکایت کی اور نہ کسی اور سے۔ میرے مشن میں ان کا حصہ اتنا زیادہ ہے کہ شاید ان کے بغیر میرا مشن وجود ہی میں نہ آتا۔

اِس معاملے میں جب میں غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی اور مشن میں تین خواتین کا بے حد اہم حصہ ہے۔ میری ماں زیب النساء (وفات : ۱۹۸۵)،میری اہلیہ سابعہ خاتون اور میری لڑکی فریدہ خانم۔

میری بیوی اکثر یہ کہتی تھیں کہ— آپ کو لکھنے پڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ یہ بات بالکل لفظی طورپر درست ہے۔ میری اِس نااہلی کی تلافی مذکورہ تینوں خواتین نے کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی انتظام تھا کہ اُس نے اِن تین خواتین کے ذریعہ میری نااہلی کی تلافی کا انتظام فرمایا۔

انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ— ہر بڑی چیز کے آغاز میں ایک عورت ہوتی ہے:

There is a woman at the beginning of all great things.

میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی اور میرا مشن جو کچھ ہے، وہ اِنھیں تین خواتین کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر یہ تین فرشتہ صفت خواتین مجھ کو نہ دی ہوتیں تو میں کچھ بھی نہ ہوتا اور نہ میرا دعوتی مشن وجود میں آتا۔ میں نے اپنی کتاب ’’عورت: معمار انسانیت‘‘ میں لکھا ہے کہ عورت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے لیے بہترین ذہنی رفیق (intellectual partner) ہے۔ میرا احساس ہے کہ تاریخ میں غالباً میں پہلا شخص ہوں جس نے عورت کی اِس خصوصی اہمیت کو دریافت کیا۔ میری یہ دریافت خلا میں نہیں ہوسکتی تھی، اور نہ کتابوں کے ذریعہ، کیوں کہ کتابوں کے ذخیرے میں یہ تصور سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ یہ عظیم دریافت مذکورہ تین خواتین سے تعلق کے دوران میرے لیے ممکن ہوسکی۔

۲۵ دسمبر کو قبرستان پنج پیراں (نئی دہلی) کی مسجد میں مرحومہ کی نمازِ جنازہ ہوئی۔ مولانا محمد ہار ون صاحب (امام کلاں مسجد) نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ہم لوگ تدفین کے مقام پر پہنچے۔ قبر کھودی جاچکی تھی۔ جب مرحومہ کے کپڑے میں لپٹے ہوئے جسم کو قبر میں اتارا گیا تو مجھ پر عجیب احساس طاری ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ پوری انسانیت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ آخری طور پر موجودہ دنیا سے نکل کر آخرت کی دنیا میں جارہی ہے۔ میرا یہ احساس اُس وقت شدید ہوگیا جب کہ تدفین کے وقت میں نے حسب قاعدہ قبر میں تین مٹھی مٹی ڈالتے ہوئے کہا: منھاخلقناکم وفیہا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً اخریٰ (طٰہٰ : ۵۵)

مجھے یاد آیا کہ ۱۹۶۵ میں جب کہ میں لکھنؤ میں تھا، مرحومہ کی طبیعت کافی خراب ہوگئی۔ میں ان کے طبّی معاینے کے لیے انھیں ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے مطب (حضرت گنج) میں لے گیا۔ انھوں نے دیکھنے کے بعد فوراً کہا— آپ نے بہت دیر کردی:

You are too late.

عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کا انتقال ۱۹۷۴ میں ہوگیا۔ اور ان کے انتقال کے ۳۲ سال بعد مرحومہ کی وفات ہوئی۔ مرحومہ کی صحت بہت عرصے سے خراب رہتی تھی۔ مشن کے اعتبار سے میری زندگی کا جو طریقہ بنا، اس کی وجہ سے ان کو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ آخر میں ان کی صحت بہت زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان کی پوری زندگی ایک پُر مسئلہ زندگی بن کر رہ گئی۔

وہ ۶۳ سال تک میری زندگی کی رفیق بنی رہیں۔ اس کو سوچتے ہوئے میرے ذہن میں خیالات کا طوفان آگیا۔ میں نے سوچا کہ انسان ایک ایسی دنیا میں پیداہوتا ہے جو اعلیٰ معیار کی حد تک مکمل ہے، دنیا کی اِس معیاری صفت کو شعوری طورپر صرف انسان جانتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ خود انسان اپنی پسند کے خلاف غیر معیاری زندگی گذار کر مرجاتا ہے۔ انسان اور بقیہ کائنات کے درمیان یہ فرق کتنا عجیب ہے۔

۶۳ سالہ رفاقت کی داستان بہت لمبی ہے۔کسی وقت انشاء اللہ اس کو تحریر کروں گا۔ یہاں ایک واقعے کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ واقعہ میرے مشن میں ایک بنیادی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔

میں ۲۴ جون ۱۹۶۷ کو دہلی آیا۔ اُس وقت میں یہاں الجمعیۃویکلی سے وابستہ تھا۔ اس کے تحت مجھے جمعیۃ بلڈنگ (دہلی) میں دفتر کے طور پر ایک کمرہ دیا گیا تھا۔میں یہاں اِس طرح تھا کہ ہر دن یہ سوچتا تھا کہ مجھے دہلی سے واپس چلا جانا چاہیے۔ اچانک ایک دن میں نے دیکھا کہ میرے تین بچے اُمّ السلام اور فریدہ خانم اور ثانی اثنین میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم لوگ یہاں کیسے آئے۔ بچوں نے بتایا کہ والدہ کے ساتھ۔ اس کے بعد میری بیوی کمرے میں داخل ہوئیں۔ اُس وقت میرے پاس دہلی میں رہنے کے لیے ایک چھوٹے کمرے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ میں سخت پریشان ہوا۔

غصے کی حالت میں یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر چلا گیا کہ— اِس طرح کوئی ایسا شخص ہی آسکتا ہے جو یا تو پاگل ہو، یا جس کے پاس کوئی گھر نہ ہو۔ یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر چلا گیا اور شہر کی ایک مسجد میں گُم نام طورپر رہنے لگا۔ تین دن کے بعد مجھے احساس ہوا تو میں دوبارہ اپنے کمرے میں واپس آیا۔

اصل یہ ہے کہ میری بیوی کو یقین تھا کہ میں خودسے کبھی ان کو دہلی نہیں بلاؤں گا۔ اُس وقت وہ یوپی کے ایک گاؤں میں رہتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ وہاں بچوں کی تعلیم نہ ہوسکے گی۔ اِس لیے وہ یک طرفہ فیصلے کے تحت دہلی آگئیں۔ ان کا یہ خیال بالکل درست تھا۔ دہلی آنے کی وجہ ہی سے ایسا ہوا کہ میرے بچوں کی باقاعدہ تعلیم مکمل ہوسکی۔

اِسی کے ساتھ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کے دارالسلطنت میں الرسالہ مشن کی بنیاد پڑی۔ اگر وہ اِس طرح دہلی نہ آتیں اور دہلی کے قیام پر اصرار نہ کرتیں تو الرسالہ مشن کبھی شروع نہ ہوتا۔ اور دعوت کا وہ کام انجام نہ پاتا جو دہلی کے قیام کے دوران خدا کی خصوصی توفیق سے انجام پایا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom