۱۱ستمبر، اور امتِ مسلمہ
امریکا کے صنعتی شہر نیویارک میں مشہور ورلڈ ٹریڈ ٹاور بنایا گیا۔ یہ دو ٹاور پرمشتمل تھا۔ اس کی ایک سو دس منزلیں تھیں۔ وہ ۷۲ ـ۱۹۷۰ میں بن کر تیار ہوا۔ امریکا کے ایک سفر کے دوران میں نے اس کو دیکھا تھا، اور اس کے اوپر لفٹ کے ذریعے چڑھا تھا۔ یہ ٹوئن ٹاور (twin tower)گویا جدیدصنعتی دور کا ایک عجوبہ تھا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کو اچانک یہ خبر ملی کہ کچھ ہائی جیکرس نے اس سے ہوائی جہاز ٹکراکر اس کو توڑ دیا۔
اِس واقعے کے ایک ہفتہ بعد مجھ کو ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن جانا ہوا۔ اس کانفرنس کی روداد ماہ نامہ الرسالہ میں شائع ہوچکی ہے۔ اس روداد کا ایک حصہ یہ تھا:
“اِس کانفرنس کے اجلاس ۱۸ستمبر ۲۰۰۱ میں میری تقریر تھی۔ جب میں نے لندن میں یہ تقریر کی، اس سے صرف ایک ہفتہ پہلے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو نیویارک اور واشنگٹن کی اونچی عمارتوں پر حملے کا واقعہ ہوا تھا، جس میں تقریباً چار ہزار آدمی مر گیے۔ میں نے اپنی تقریر میں اِس واقعے کا ذکر کیا تو غم سے میرا دل بھر آیا، اور میری آنکھوں میں آنسو آگیے۔
اِس کانفرنس کے صدر مسٹر آندرے بائکوف تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں میرا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان آج ایک ایسا مسلمان بھی موجود ہے جو انسانیت کا درد رکھنے والا ہے، اور جو ۱۱ ستمبر کے واقعے پر اتنا زیادہ دُکھی ہے کہ وہ اس کے لیے روتا ہے۔
اِس انٹرنیشنل کانفرنس میں میرے سوا، ایک اور مسلمان تھے۔ وہ امریکا سے آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ صرف ایک مسلمان کی بات نہیں، بلکہ یہ سارے مسلمانوں کی بات ہے۔ دنیا بھر کے تمام مسلمان ۱۱ ستمبر کے واقعے پر رو رہے ہیں اور چلاّ رہے ہیں :
The whole Muslim world is weeping and crying.
اجلاس کے بعد کھانے کی میز پر مذکورہ امریکی مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں بھی اِسی مسلم دنیا میں رہتا ہوں، میں نے تو کسی مسلمان کو امریکا کے اس واقعے پر ’’روتے اور چلاتے ہوئے‘‘ نہیں دیکھا۔ آخر یہ آپ کس مسلم دنیا کی بات کررہے ہیں۔ انھوں نے مسکرا کر جواب دیاکہ— امریکا بہت چودھرائی کررہا تھا، اس کو سبق دینا تو ضروری تھا‘‘۔ (ماہ نامہ الرسالہ، ستمبر، ۲۰۰۲، صفحہ ۹)
۱۱ ستمبر کے واقعے پر مسلمانوں کا پہلا ردّ عمل یہی تھا۔ اس خبرکو سن کر عام طور پروہ خوش تھے۔ ان کے مفروضے کے مطابق، امریکا، اسلام کا دشمن نمبر ایک (عدوّ الاسلام رقم واحد)تھا، اس لیے ان کے لیے یہ ایک پُرمسرت خبر تھی کہ کچھ لوگوں نے خود امریکا کے ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرکے ان کو امریکا کے نشانِ فخر (ورلڈ ٹریڈ ٹاور) سے ٹکرادیا۔ اِس طرح انھوں نے ظالم امریکا کو ’’سبق سکھانے‘‘ کی کوشش کی۔
اس کے بعد مغربی ذرائع سے یہ خبریں آنے لگیں کہ نیویارک کے ٹاور کو جن لوگوں نے توڑا، وہ سب کے سب مسلمان تھے۔ اب مسلم دانش وروں نے عجیب و غریب طورپر یہ کہنا شروع کیا کہ خود امریکی انتظامیہ نے مسلمانوں کوبدنام کرنے کے لیے یہ واقعہ انجام دیا ہے۔ کچھ اور لوگوں نے انکشاف کیا کہ یہ واقعہ کچھ یہودیوں نے کیا ہے، مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ اسی قسم کی باتیں کرتا رہا۔ اِس درمیان میں امریکا کی انتظامیہ نے اس معاملے کا باقاعدہ ثبوت پیش کرتے ہوئے اُن مسلمانوں کے نام شائع کردیے جو اِس واقعے کے ذمّے دار تھے۔ لیکن مسلم دانش ور اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ اِس واقعے کے ذمے دار مسلمان ہیں۔
یہ بحث اسی طرح چلتی رہی۔ یہاں تک کہ آخر میں الجزیرہ ٹی وی نے اپنے پروگرام میں ایک ایسا ویڈیو ٹیپ دکھایاجو آخری طور پر ثابت کررہا ہے کہ ۱۱ستمبر کا واقعہ مسلمانوں نے کیا تھا، اور اس کی قیادت خود اسامہ بن لادن نے کی تھی۔ الجزیرہ ٹی وی، اب تک مسلمانوں کے درمیان معتبر ذریعے کے طور پر لیا جاتا رہاہے۔ الجزیرہ ٹی وی میں دکھایا ہوا یہ ویڈیوتمام میڈیا میں آچکا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا، ۹ ستمبر ۲۰۰۶ کے صفحہ ۸ پر یہ خبر اِس عنوان کے تحت چھپی ہے:
Al-Jazeera airs pre-9/11 tape of bin Laden
Shows Osama Meeting Planners of WTC Attacks, Greeting Hijackers.
۱۱ ستمبر کے اس واقعے کے بعد مسلمانوں کا ردّ عمل بلاشبہہ درست نہ تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ۱۱ ستمبر اور اِس طرح کے دوسرے واقعات، جدید میڈیا کے دور میں پیش آئے۔ جدید میڈیا کا مزاج یہ ہے کہ وہ سنسنی خیز واقعات کو بہت زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ اِس واقعے کے پیش آنے کے بعد، مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقے نے اپنی ساری توجہ صرف اِس سوال پر دی کہ اس کا کرنے والا کون تھا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ثانوی مسئلہ تھا۔ زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ اِس واقعے نے اسلام اور مسلمانوں کی تصویر بہت زیادہ بگاڑ دی۔ ساری دنیا میں اسلام کو اور مسلمانوں کو وحشت خیز نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اس لیے اصل ضرورت یہ تھی کہ اِس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ اسلام کی تصویر کو کس طرح دوبارہ درست کیا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو مسلمانوں کے اوپر فرض تھا کہ وہ اِس معاملے کو درستی ٔ تصویر (image building) کی حیثیت سے لیں، اور سارے ممکن ذرائع کو استعمال کرکے وہ اس بات کی کوشش کریں کہ اسلام اور مسلمانوں کی تصویر دوبارہ اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آسکے، مگر بدقسمتی سے یہ کام نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ اب ساری دنیا میں مسلمان اس کا سخت انجام بھگت رہے ہیں۔
مجھے ہندستان کے ایک مسلم مدرسے کا واقعہ معلوم ہے۔ یہ مدرسہ ایک ندی کے کنارے واقع ہے۔ اِس ندی کے دوسری طرف ایک گاؤں تھا۔ وہاں سے ہندو عورتیں نہانے اور کپڑا دھونے کے لیے اس ندی پر آیاکرتی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مدرسے کے ایک طالب علم نے ایک ہندو عورت کو چھیڑ دیا۔ یہ خبر جب گاؤں والوں کو پہنچی تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اِس مدرسے کو جلا کرختم کردیں گے۔
مدرسے کے ذمہ داروں کو جب اس کا علم ہوا تو انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ گاؤں والوں کو ذمے دار بتا کر وہ ان کے خلاف تقریریں کریں یا بیانات شائع کریں، بلکہ مدرسے کے ذمے دار،اُس لڑکے کو لے کر گاؤں میں گیے اور کہا کہ—اِس لڑکے نے بہت غلط کام کیا ہے۔ آپ جو سزا چاہیں اِس لڑکے کو دے سکتے ہیں۔ اِس اعترافِ خطا کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں کے ہندو نرم پڑ ِگیے۔ انھوں نے لڑکے کو معاف کردیا۔
اس کے بعدمدرسے والوں نے مسلسل کوشش کے ذریعے گاؤں والوں کو ٹھنڈا کیا۔ انھوں نے یک طرفہ حسنِ سلوک کے ذریعے گاؤں والوں کو اپنا دوست بنا لیا، یہاں تک کہ ناخوش گوار واقعہ ایک خوش گوار انجام پر ختم ہوگیا۔ میں خود اِس مدرسے میں گیا ہوں اور وہاں میں نے ذاتی طورپر اِس واقعے کی تحقیق کی ہے، اور گاؤں کے بعض افراد سے ملاقات بھی کی ہے۔
اِس طریقے کو آج کل کی زبان میں امیج بلڈنگ(image building)کہا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی مسئلے کو حل کرنے کے لیے عام طورپر لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ۱۱ ستمبر کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں امیج بلڈنگ کا یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا، حتی کہ مسلمانوں کے کسی عالم یا کسی دانش ور نے بطور تجویز بھی یہ بات پیش نہیں کی۔
اب مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی سابقہ روش کو ترک کرکے پوری سنجیدگی کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کریں۔ اگر ایک مسلم مدرسے کی تصویر بگڑنے کے بعد دوبارہ درست ہوسکتی ہے تو یقینی طورپر یہ بھی ممکن ہے کہ امتِ مسلمہ کی بگڑی ہوئی تصویر دوبارہ درست ہوجائے۔