ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب    السلام علیکم ورحمۃ اللہ

۱۴ مارچ ۲۰۰۲ ء کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ آپ نے ملّی اتحاد کے مسئلہ پر زور دیا۔ اس معاملہ پر غور کرنے کے بعد میری سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد نہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اتحاد کی بڑی بڑی کوششو ں کے باوجود مسلمان متحد نہ ہوسکے۔

مولانا محمد علی جوہر نے خلافت کے نام پر بظاہر سارے برّ صغیر ہند کے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کردیا تھا۔ مگر یہ اتحاد بہت جلد ریت کے ڈھیر کی طرح بکھر گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں بظاہر مسلمانوں کا بہت بڑا اتحاد قائم ہوا،مگر پاکستان بننے کے بعد ہی یہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کر منتشر ہوگیا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی صورت میں بظاہر پورے ملک کے مسلمانوں کا اتحاد قائم ہوگیا مگر اُس سے بھی جلسہ جلوس کے وقتی دھوم کے سوا مسلمانوں کو کچھ اور نہیں ملا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام سے بڑے بڑے اتحادی جلسے کئے گئے مگر ملّت ایک متحد گروہ نہ بن سکی۔ بابری مسجد کے نام پر بڑی تعداد میں اتحادی مظاہرے ہوئے مگر وہ غیر متّحد ملت کو متحد ملت نہ بنا سکے، وغیرہ۔

مذکورہ اتحادی کوششوں کے درمیان ہمارا ہر لیڈر بڑے بڑے الفاظ بولتا رہا۔ اس لحاظ سے جائزہ لیجئے تو یہ محسوس ہوگا کہ ہمارے لیڈروں کو شاید یہ خبرہی نہ تھی کہ اتحاد کیسے قائم ہوتا ہے اور اتحاد کیسے باقی رہتا ہے۔

مثلاً ہمارے لیڈر بظاہر اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ بھیڑ اور اتحاد میں فرق ہے۔ خطرہ کی گھنٹی بجاکر کوئی بھی شخص وقتی بھیڑ اکٹھا کر سکتا ہے مگر حقیقی اتحاد ایک مثبت واقعہ ہے جو صرف شعوری بیداری کے نتیجہ میں کسی قوم کے اندرپیدا ہوتا ہے۔ ان تمام لوگوں نے بھیڑ کو اتحاد سمجھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتحاد کو شعوری طورپر جانتے بھی نہ تھے۔ پھر جو لوگ اتحاد کی حقیقت سے بے خبرہوں، وہ کیوں کرعملی اتحاد قائم کریں گے۔

دوسری بات یہ کہ اکثر اتحاد اپنے رہنماؤں کے اختلاف کی بنا پر ختم ہوا۔ مثلاً آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے رہنماؤں کا باہمی اختلاف۔ یہ لوگ اس ابتدائی حقیقت سے بے خبر تھے کہ اتحاد ہمیشہ اختلاف کے باوجود قائم ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر۔ ایسے بے شعور لوگوں سے یہ اُمید کرنا ہی بے سود ہے کہ وہ ملت کو ایک متحد ملت بنائیں گے۔

میرے نزدیک اتحاد کا آغاز اتحاد کانفرنس سے نہیں ہو سکتا بلکہ وہ شعوری بیداری کے ذریعہ ہوتا ہے۔ موجودہ مسلمانوں میں سب سے پہلے شعوری بیداری پیدا کرنا ہے۔ اُن کے اندر وسیع پیمانہ پر ملّی صحافت وجود میں لانا ہے۔ اُن کے اندر تعمیری معنوں میں ایک قیادت برپا کرنا ہے۔ اُن کے اندر صبر اور تحمل کا مزاج پیدا کرنا ہے۔اُن کے اندر انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی سوچ لانا ہے۔ اس قسم کی ابتدائی کوششوں کے بغیر جو اتحادی کانفرنس ہوگی وہ نشستند و گفتند و برخاستند کے سوا کوئی اور مثال قائم نہیں کرسکتی۔

اس وقت ہندستان کے مسلمان ذہنی اعتبار سے جس مقام پر ہیں وہ یہ ہے کہ اُن کے پاس صرف منفی سوچ کا سرمایہ ہے، مثبت سوچ کا فکری سرمایہ اُن کے پاس موجود نہیں۔ وہ صرف اپنی ملّت کے سطحی مفاد کو جانتے ہیں۔ اُن کی موجودہ تمام سرگرمیاں کمیونٹی ایکٹوزم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وسیع تر انسانیت کے درد سے اُن کے سینے خالی ہیں۔ اعترافِ حقیقت کی اہم ترین انسانی قدر اُن کے اندر اتنی کم ہے کہ شاید اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ذاتی مفاد اور ذاتی مصالح سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی اہمیت نہ اُن کے اصاغر کو معلوم ہے اور نہ اُن کے اکابر کو۔ زمانہ کی تبدیلیوں سے اُن کے دانشور اور علماء دونوں اتنا زیادہ بے خبر ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم شاید اتنی زیادہ بے خبر نہیں ہوگی۔ اُن کا ذہنی ارتقاء اتنا کم ہوا ہے کہ اُن کے درمیان یا تو برکت اور فضیلت پر مبنی تحریکیں مقبول ہوتی ہیں یا جذباتی سیاست پر مبنی تحریکیں۔ ایسی حالت میں اتحاد ملت عمومی معنوں میں ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں۔

۱۵ مارچ ۲۰۰۲ء           دعا گو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom