بسم اللہ الرحمن الرحیم

تقدیر انسانی

(Human Destiny)

ایک انسان جس نے سیارۂ زمین کو نہ دیکھا ہو، وہ کسی تیز رفتار خلائی جہاز کے ذریعے پوری کائنات کا سفر کرے اور اس کے بعد وہ پہلی بار زمین پر اُترے تو وہ زمین کو دیکھ کر اچانک مبہوت ہوجائے گا۔ کیوں کہ انتہائی وسیع کائنات میں سیارۂ زمین اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک واحد استثنا ہے۔ وسیع کائنات میں یا تو ستارے ہیں، جہاں بھڑکتی ہوئی آگ کے سوا اور کچھ نہیں، یا سیارے (planets) ہیں، جو خشک چٹان کی مانند خلا میں گھوم رہے  ہیں۔ یہ صرف سیارۂ زمین ہے، جہاں استثنائی طورپر انسان جیسی مخلوق کے لیے تمام زندگی بخش چیزیں موجود ہیں۔ یعنی وہ تمام موافقِ حیات اسباب جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔

ہر انسان اِسی سیارۂ زمین پر پیدا ہوتا ہے اور اپنی پوری زندگی وہ اِسی کے اوپر گزارتا ہے، لیکن اُس کو زمین کی اِس استثنائی نوعیت کا تحیُّرخیز احساس نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ بچپن سے  روزانہ زمین کو دیکھتے دیکھتے، اس کا عادی (used to) ہوجاتا ہے۔ زمین کا استثنائی انوکھا پن اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہر صبح کو جب وہ زمین کو دیکھے تو وہ پکار اٹھے— اوہ، کتنی حسین اور کتنی مکمل زمین:

Oh, what a beautiful earth, what a perfect world!

سیارۂ زمین کی یہ حیات بخش حیثیت ہمیشہ سے تھی، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس کی دریافتوں نے اُس کی انوکھی نوعیت کو ہزاروں گنا زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے ایک معلوم واقعہ بنا دیا ہے۔ زمین میں لائف سپورٹ سسٹم کے انوکھے نظام کو آج کا انسان جتنا زیادہ جانتا ہے، اتنا زیادہ اِس سے پہلے کبھی اس کو کسی انسان نے نہیں جانا تھا۔

لائف سپورٹ سسٹم کیا ہے۔ وہ ایک انعام (gift) ہے۔ وہ کسی دینے والے (giver) کے ذریعے انسان کو ملا ہے۔ایسی حالت میں ضروری تھا کہ انسان اِس انعام میں اس کے مُنعِم کو پہچانے، وہ اِس انعام پر اس کے دینے والے کا اعتراف کرے، وہ اُس کے سامنے پورے دل و دماغ کے ساتھ جھُک جائے۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ دینے والے نے یہ انوکھا تحفہ اس کو کیوں دیا ہے، اور پھر دینے والے کی منشا کے مطابق، وہ اس کو استعمال کرے، وہ اس کی منشا کو جان کر اُس کے مطابق یہاں زندگی گزارے۔

مگر ایسا نہ ہوسکا۔ انسان اِس زمین پر زندگی گزارتا ہے۔ وہ یہاں اپنے لیے ایک تہذیب کی تشکیل کرتا ہے۔وہ یہاں اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے شان دار مستقبل بنانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کو کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ اِس بات کو جاننے کی کوشش کرے کہ لائف سپورٹ سسٹم کا یہ انوکھا نظام کس نے بنایا ہے، اور یہ بنانے والا اِس کے بدلے میں انسان سے کیا چاہتا ہے۔

اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں— اُس کا درست استعمال، اور اس کا نادرست استعمال۔ مثلاً پیدا کرنے والے نے زمین میں لوہا پیدا کیا۔ لوہے کا ایک استعمال یہ ہے کہ اس کے ذیعے مفید مشین بنائی جائے۔اور لوہے کا دوسرا استعمال یہ ہے کہ اس کے ذریعے تباہ کُن ہتھیار بنایا جائے۔ مشین بنانا، لوہے کا درست استعمال ہے، اور ہتھیار بنانا، لوہے کا نادرست استعمال ۔

یہی معاملہ لائف سپورٹ سسٹم کا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اُس کو صحیح زاویہ(right angle) سے دیکھا جائے، اور دوسرے یہ کہ اُس کو غلط زاویہ (wrong angle) سے دیکھا جائے۔ صحیح زاویے سے دیکھنے والا آدمی لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں اپنے صحیح اور مطلوب رویّے کو جان لے گا، اور جو شخص لائف سپورٹ سسٹم کو غلط زاویے سے دیکھے، اس کے بارے میں اس کا رویّہ بھی ہر اعتبار سے غلط رویّہ ہوجائے گا۔

لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں صحیح زاویے اور غلط زاویے کا تعیّن کیسے ہو۔ اِس کے تعین کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ خالق (Creator) کا اپنا مقرر کیا ہوا تخلیقی پلان (creation plan) کیا ہے۔ اِس تخلیقی پلان ہی کے ذریعے یہ معلوم ہوگا کہ زندگی، یا لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں ہمارا کون سا رویّہ درست تھا اور کون سا رویّہ نا درست۔

پیغمبروں کے ذریعے خالق نے زندگی کے بارے میں اپنا جو تخلیقی پلان بتایا ہے، وہ یہ ہے کہ پیدا کرنے والے نے انسان کو ایک ابدی مخلوق کے طورپر پیدا کیا۔ پھر اُس کی عمر کے ایک مختصر حصے کو قبل از موت مرحلۂ حیات (pre-death period) میں رکھا اور اس کی عمر کے بقیہ طویل حصے کو بعد از موت مرحلہ ٔ حیات (post-death period)  میں رکھ دیا۔ قبل از موت مرحلۂ حیات، ٹسٹ (test)  کا مرحلہ ہے اور بعد از موت مرحلۂ  حیات، ٹسٹ کے مطابق بدلہ پانے کا مرحلہ۔ جب انسانی تاریخ کا خاتمہ ہو گا، اُس وقت وسیع پیمانے پر ایک روزِ جزا (day of judgement) واقع ہوگا۔ اُس وقت انسانوں کا خالق ظاہر ہوکر تمام لوگوں کو اُن کی زندگی کے موجودہ ریکارڈ کے مطابق، ان کو انعام یا سزا دے گا۔ انعام پانے والوں کے لیے ابدی جنت ہے اور سزا پانے والوں کے لیے ابدی جہنم ۔

خدا کے اِس تخلیقی پلان کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ زندگی، یا لائف سپورٹ سسٹم کے معاملے میں انسان کا رویّہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے۔ لائف سپورٹ سسٹم کے معاملے کو صحیح زاویے سے دیکھنا یہ ہے کہ اس کو خالق کی نظر سے دیکھا جائے، اور اس کو غلط زاویے سے دیکھنا یہ ہے کہ اس کو انسان کے اپنے ذاتی زاویے سے دیکھا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو اِس دنیا میں انسان کے رویّے کو یا تو درست بناتی ہے، یا وہ اس کو غلط بنا کر رکھ دیتی ہے۔

اِس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو زندگی اور لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں دو مختلف رویّے بنتے ہیں۔ خالق کے پلان کے مطابق جو رویہ بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ اِس نظام کو ٹسٹ سپورٹ سسٹم  (test support system) سمجھا جائے۔ اِس کے برعکس، انسان کے ذہن سے دیکھنے کی صورت میں وہ صرف ایک انجوائے سپورٹ سسٹم (enjoy support-system) بن کر رہ جاتا ہے۔ پہلی صورت میں زندگی ایک ذمّے داری (responsibility) کا معاملہ قرار پاتی ہے، اور دوسری صورت میں زندگی کا مقصد گھٹ کر صرف اِس حیوانی سطح پر آجاتا ہے کہ کھاؤ، پیو اور خوش رہو، اور اِسی حال میں مر جاؤ۔

موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات کے ذریعے انسانی زندگی اور لائف سپورٹ سسٹم کی معنویت ہمیشہ سے زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت ہوئی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مقصدِ حیات کے بارے میں انسان اور زیادہ سنجیدہ ہوجائے، وہ انعام کو استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ سے زیادہ مُنعم کا اعتراف کرنے والا بن جائے، لیکن نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔انسان اِس حقیقت کو بھول گیا کہ لائف سپورٹ سسٹم دراصل ٹسٹ سپورٹ سسٹم ہے۔ اِس کے بجائے یہ ہوا کہ انسان نے لائف سپورٹ سسٹم کو صرف اِنجوائے سپورٹ سسٹم کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔ اور زندگی کا مقصد صرف یہ بن گیا کہ چیزوں کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حاصل کرو، تاکہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ  پُرمسرت بنا سکو۔

یہاں مجھے اپنا ایک سبق آموز تجربہ یاد آتا ہے۔ یہ تجربہ موجودہ صورتِ حال کے لیے ایک نہایت عمدہ توضیحی مثال (illustration)کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالباً 1972 میں، میں راجستھان کے ایک علاقے میں گیا۔ اِس سفر میں میرے ساتھ مفتی محمد جمال الدین قاسمی اور دوسرے کچھ لوگ تھے۔ یہاں ایک غیر آباد پہاڑ تھا۔ وہاں اوپر جانے کے لیے سڑک بنی ہوئی تھی۔ ہم لوگ اِس پہاڑ کے اوپر چڑھے۔ یہ سفر جیپ کے ذریعے طے ہوا تھا۔ جب ہم لوگ پہاڑ کے اوپر پہنچے تو وہاں ناقابلِ قیاس طورپر ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ یہاں غیر آباد علاقے میں ایک ہال نُما بڑی بلڈنگ بنی ہوئی تھی۔ غالباً کسی راجہ نے یہ بلڈنگ بنائی تھی۔ یہ بلڈنگ ابھی تک بالکل درست حالت میں تھی، مگر وہاں ہم کو کوئی انسان نظر نہیں آیا۔اس کے برعکس، ہم نے دیکھا کہ اُس بلڈنگ کے اندر اور اس کے باہر ہر طرف ہزاروں کی تعداد میں بندر موجودہیں۔ وہ شور کررہے تھے اور ہر طرف بے معنیٰ اچھل کود کررہے تھے۔ بندر کی یہ انوکھی صفت ہے کہ وہ ایک غیر مستحق مقام پر قبضہ کرکے، وہاں بے معنیٰ قسم کی اچھل کود کرنے لگے۔اِس صورتِ حال کی بنا پر ہم لوگ بلڈنگ کے اندر نہ جاسکے، اُس کو صرف باہر سے دیکھ کر لوٹ آئے۔

میں وہاں کھڑا ہوا دیر تک اِس منظر کو دیکھتا رہا۔ میںنے سوچا کہ اِن قابض بندروں کو اِس کا کوئی دھیان نہیں کہ یہ بلڈنگ کس نے بنائی ہے اور کس کام کے لیے بنائی ہے، اور یہ کہ یہ بندر جو وہاں بے معنیٰ اچھل کود کررہے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے ہیں، اِس کا کوئی تعلق بنانے والے کی منشا سے ہے یا نہیں۔ اِن سوالات سے مکمل طورپر بے خبر رہ کر وہ وہاں ایسے کام کررہے ہیں جو اِس بلڈنگ کا صرف ایک مجرمانہ استعمال ہے، وہ اِس بلڈنگ کا درست استعمال نہیں۔

پھر میں نے سوچا کہ کہ کیا بلڈنگ کا یہ مجرمانہ استعمال اِسی طرح ہمیشہ جاری رہے گا، یا بلڈنگ کا معمار ظاہر ہو کر اِن ’’بندروں‘‘ کو اُن کی اِس مجرمانہ روش کی سزا دے گا، اور پھر وہ اِس خوب صورت بلڈنگ کو ایسے لوگوں کے حوالے کردے گا جن کے لیے وہ بنائی گئی تھی۔اِس مثال پر غور کیجیے۔ بنانے والے نے یہ بلڈنگ کسی خاص مقصد کے تحت بنائی تھی۔ اِس بلڈنگ کا صحیح مَصرف یہ تھا کہ اُس کو اس کے مقصدِ تعمیر کے مطابق استعمال کیا جائے، لیکن اِس کے بجائے یہ ہواکہ اُس پر وحشی بندروں نے قبضہ کرلیا اور اِس عمارت کو وہ اپنی بے معنیٰ اچھل کود کے لیے استعمال کرنے لگے۔

یہ مثال زیادہ بڑے پیمانے پر آج کی پوری انسانی دنیا پر صادق آرہی ہے۔ موجودہ سیارۂ زمین گویا کہ زیادہ وسیع پیمانے پر مذکورہ بلڈنگ کے مانند ہوگئی ہے۔ تمام دنیا میں یہ حال ہے کہ عورتیں اور مرد انتہائی غیر ذمّے دارانہ انداز میں زمین کے اوپر پھیل گئے ہیں۔ وہ زمین کو صرف اِس نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ یہاں اپنی خواہشیں کس طرح پوری کریں۔ وہ اِس حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے کہ یہ زمین کس نے بنائی ہے اور کس مقصد کے لیے بنائی ہے۔

ایسا کیوں ہوا۔ موجودہ زمانے میں جب سائنس نے لائف سپورٹ سسٹم کو زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت کیا تو عین اُسی وقت ایک اور واقعہ پیش آیا، وہ یہ کہ مختلف اسباب سے دنیا میں عالمی سطح پر ایک نیا کلچر وجود میں آگیا، جس کو انجوائے منٹ کلچر (enjoyment culture) کہاجاتاہے۔ اِس انجوائے منٹ کلچر کے ماحول میں لوگوں نے بطورِخود یہ سمجھ لیا کہ یہاںجو کچھ ہے، وہ سب اِس لیے ہے تاکہ انسان اُس سے انجوائے کرسکے۔ اِس طرح یہ ہوا کہ موجودہ ماحول کے اثر سے، نہ کہ کسی عقلی سبب سے، لائف سپورٹ سسٹم نے عملی طور پر انجوائے سپورٹ سسٹم کی حیثیت اختیار کرلی۔اور پھر ایسا ہوا کہ انسانی سماج، حیوانی سماج بن کر رہ گیا۔

انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ حیوان صرف اپنے ذاتی انٹرسٹ کو جانتا ہے۔ اور انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی انٹرسٹ کے ساتھ اپنی ذمّے داری کو بھی جانتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ مگر آج کی دنیا میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرق مٹ گیا ہے۔آج کا انسانی کلچر بھی وہی ہے جو حیوانی کلچر ہے۔ ظاہری فرق کے سوا، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ واضح طور پر فطرت کے راستے سے ہٹنے کے ہم معنیٰ ہے۔ اور فطرت کے راستے سے ہٹنا ہمیشہ دُگنا محرومی کا سبب بنتا ہے— قبل از موت مرحلۂ حیات میں بھی محرومی اور بعد ازموت مرحلۂ حیات میں بھی محرومی۔ انسان اِس دنیامیں اپنی آزادی کاغلط استعمال کرتے ہوئے، فطرت کے راستے سے انحراف تو کرسکتا ہے، لیکن وہ اِس پر قادر نہیں کہ وہ اِس انحراف کے مہلِک انجام سے اپنے آپ کو بچا سکے۔ یہی وہ سب سے بڑا خطرہ ہے جس سے آج کا انسان دو چار ہے۔

موت سے پہلے کے مرحلۂ حیا ت میں محروم ہوجانا کیا ہے، اِس کو ہر آدمی خود اپنے ذاتی تجربے سے جان سکتا ہے۔ ہر انسان کے سامنے اپنے لیے ایک خوش نما منزل ہوتی ہے، جہاں وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے سارے وقت اور ساری توانائی کو اِس مقصد کے حصول میں لگا دیتاہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آخر میں ہر ایک کے حصے میں صرف مایوسی آرہی ہے۔ اِس دنیا میں ہر انسان، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، جب اپنی عمر پوری کرکے مرتاہے تو ہر شخص مایوسی (despair) میں مرتا ہے، اس میں کسی بھی مرد یا عورت کا کوئی استثنا نہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی جس منزل کو پانا چاہتا ہے، اس کے اسباب اِس دنیا میں سرے سے موجود ہی نہیں۔چنانچہ یہ ہوتا ہے کہ ساری کوششیں صَرف کرنے کے بعد ہر آدمی کا خاتمہ صرف ایک انجام پر ہوتا ہے، وہ یہ کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی مطلوب منزل تک نہ پہنچ سکا۔وہ اپنے مقصود کو پانے میں ناکام رہا۔

انسان کے جسم میں خصوصی طورپرپانچ ممتاز صلاحیتیں (five faculties) پائی جاتی ہیں۔اِن صلاحیتوں کو حواسِ خمسہ (five senses)کہاجاتا ہے۔ وہ پانچ ممتاز صلاحیتیں یہ ہیں— دیکھنا، چھونا، چکھنا ، سونگھنا اور سُننا:

sight, touch, taste, smell and hearing

یہ پانچ حواس، در اصل پانچ مقاماتِ لذت ہیں۔ اِن میں سے ہر ایک صلاحیت کے اندر خالق نے بے پناہ لذت رکھی ہے۔ انسان کے لیے دیکھنا بھی ایک انتہائی لذیذ تجربہ ہے، چھونا بھی ایک لذیذ تجربہ ہے، چکھنا بھی ایک لذیذ تجربہ ہے، سونگھنا بھی ایک لذیذ تجربہ ہے اور سننا بھی ایک لذیذ تجربہ۔ اِس کائنات میں کسی بھی دوسری مخلوق کے اندر، بہ شُمول حیوانات، اِن لذتوں سے انجوائے کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہ صرف انسان کی استثنائی صفت ہے کہ وہ کسی چیزسے انتہائی لطیف قسم کی محظوظیت (pleasure) حاصل کرسکتا ہے۔

اِسی کے ساتھ انسان کے اندر چھٹی حس (sixth sense) بھی موجود ہے۔ یہ چھٹی حس سوچنے کی صلاحیت (thinking capacity) ہے۔ یہ چھٹی حس، انسان کے لیے سب سے زیادہ اعلیٰ لذت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سوچنا، انسان کی ایک انوکھی صفت ہے۔ سوچنا، انسان کے لیے اتھاہ لذت کا خزانہ ہے۔ سوچنے کا فعل بظاہر دِکھائی نہیں دیتا، مگر وہ انسان کو ایسی سُپر لذت دیتا ہے جس کا حصول کسی بھی دوسری چیز کے ذریعے ممکن نہیں۔

اِسی کے ساتھ یہ ایک واقعہ ہے کہ انسان اِن لذتوں کو محسوس تو کرتا ہے ، لیکن وہ موجودہ دنیامیں اِن لذتوں کی تسکین کا سامان نہیں پاتا۔ ہر آدمی بے پناہ لذتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور پھر تھوڑی مدت کے بعد ہر عورت اور ہر مرد غیر تکمیل شدہ خواہشات (unfulfilled desires)کے ساتھ مرجاتے ہیں۔

اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں آدمی کے پاس خواہشیں ہیں، لیکن یہاں اُس کے لیے خواہشات کی تکمیل کا سامان موجود نہیں۔ یہ حقیقت اِس بات کا حتمی اشارہ ہے کہ خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، اِن خواہشات کی تکمیل کا سامان، قبل از موت مرحلۂ حیات میں نہیں رکھا گیا، بلکہ وہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں رکھا گیا ہے۔ یہ خواہشیں انسان کو اِس لیے دی گئی ہیں کہ وہ حقیقتِ حیات کو سمجھے اور اُس کے مطابق، وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔

اِسی کے ساتھ اِس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ انسان کے اندر استثنائی طورپر کَل (tomorrow)  کا تصورپایا جاتا ہے۔حیوانات بظاہر زندہ مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن کسی بھی حیوان کے اندر ’کَل‘ کا تصور نہیں پایا جاتا۔ حیوانات کا محدود مائنڈ صرف حاضر (present)کو جانتا ہے، وہ مستقبل (future) کے تصور سے آشنا نہیں، جب کہ انسان کے اندرکل یا مستقبل کا تصور نہایت طاقت ور صورت میں موجود ہے۔ مگر  ہر انسان کا عملی تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں یہ مطلوب مستقبل اُس کے لیے سرے سے قابلِ حصول نہیں۔

اس حقیقت کے اندر ایک اشارہ (clue) چھپا ہوا ہے۔ یہ اشارہ آدمی کو بتاتا ہے کہ وہ جس مطلوب مستقبل کو چاہتا ہے، وہ مطلوب مستقبل اس کی محدودیت کی بنا پر اس کے لیے موجودہ دنیا میں مقدر نہیں۔ اِس مطلوب مستقبل کو پانے کے لیے اُسے موجودہ دنیا میں ضروری تیاری کرنا چاہیے، تاکہ وہ موت کے بعد آنے والے مرحلۂ حیات میں وہ اپنے اِس مطلوب مستقبل کو پاسکے۔

موجودہ دنیا کا معاملہ ایک امتحان ہال جیسا ہے۔ امتحان ہال میں اسٹوڈنٹ کی ناگُزیرضرورتوں کا محدود انتظام تو ہوتا ہے، لیکن اس کی تمام خواہشوں کی تکمیل کا سامان وہاں نہیںہوتا۔اِس لیے جو اسٹوڈنٹ، امتحان ہال کو صرف امتحان ہال سمجھے، وہ مایوسی میں مبتلا نہیں ہوگا۔لیکن جو اسٹوڈنٹ، امتحان ہال کو اپنی خواہشوں کی تکمیل کا مقام سمجھ لے، اُس کو وہاں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔

خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، موجودہ دنیا ٹسٹ کے لیے بنی ہے۔ یہاں جو لائف سپورٹ سسٹم ہے، وہ صرف اتنا ہی ہے جتنا کہ ٹسٹ (امتحان) کے مقصد کے لیے ضروری ہے۔ اب جو لوگ اِس دنیا کو ٹسٹنگ گراؤنڈ (testing ground)سمجھیں اور اس کے مطابق زندگی گزاریں، ان کے اندرکبھی مایوسی کی نفسیات پیدا نہیں ہوگی۔لیکن جو لوگ موجودہ دنیا کو اپنی خواہشوں کی تکمیل کا مقام سمجھ لیں، اُن کو سخت مایوسی کا تجربہ ہوگا۔ کیوں کہ جو کچھ وہ چاہتے تھے، اس کی تکمیل کا انتظام خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، یہاںکیا ہی نہیں گیا تھا۔

موجودہ سیارۂ زمین پر زندگی کا درست اور کامیاب طریقہ یہ ہے کہ آدمی، خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، اِس دنیا کو عیش کا مقام نہ سمجھے، بلکہ وہ اس کو ٹسٹ (امتحان) کا مقام سمجھے۔ ایسا آدمی، خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق یہاں زندگی گزارے گا اور اس کے نتیجے میں وہ ابدی کامیابی حاصل کرے گا۔

ٹسٹ کے مزاج کے تحت کسی انسان کی جو زندگی بنتی ہے، وہ اُس سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو انجوائے منٹ کے مزاج کے تحت بنتی ہے۔ دونوں کا نقشہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ یہاں ہم د ونوں قسم کی کچھ مثالیں درج کریں گے جس سے دونوں کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔

اِس معاملے میں بنیادی فرق سوچ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ ٹسٹ (امتحان) کا مزاج رکھنے والے انسان کے اندر، خالق رُخی سوچ (Creator-oriented thinking) پیدا ہوتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ خالق کے نقشے کے مطابق، اُس کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والے انسان کے اندر، خود رُخی سوچ (self-oriented thinking) پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو صرف اپنی مرضی کا پابند سمجھنے لگتا ہے، نہ کہ اپنے سوا کسی برتر ہستی کی مرضی کا پابند۔

ٹسٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی موت کے بعد کی دنیا کو بہتر بنانے کی فکر میں رہتا ہے، اور انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی صرف آج کی دنیا کو بہتر بنانے کی فکر میں لگا رہتاہے۔ مثلاً ٹسٹ کا مزاج رکھنے والے آدمی کے اندر دولت کے بارے میں قناعت کا مزاج ہوگا، وہ اِس معاملے میں بقدر ضرورت پر اکتفا کرنا پسند کرے گا۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی ہمیشہ اِس فکر میں رہے گا کہ زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹا کرے، اِس معاملے میں اس کی حرص کبھی ختم نہ ہوگی۔ٹسٹ کا مزاج رکھنے والے آدمی کے پاس ایک چھوٹی کار ہے۔ ایک شخص اُس سے کہتا ہے کہ تم بڑی کار خرید لو، تو وہ جواب دے گا کہ مجھے اپنا مواخذہ اور بڑھانا نہیں ہے۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی اِس کوشش میں رہے گا کہ اُس کے پاس نہ صرف ایک بڑی کار ہو، بلکہ اس کے پاس کئی اور کاریں ہوجائیں۔

ٹسٹ کامزاج رکھنے والا آدمی بے فائدہ تفریحات سے اپنے آپ کو دور رکھے گا، کیوں کہ وہ اس کو اپنے لیے ڈسٹریکشن (distraction) سمجھے گا۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی تفریحی چیزوں میں کود پڑے گا، خواہ اس میں اس کا وقت اور پیسہ کتنا ہی زیادہ برباد ہوجائے۔ ٹسٹ کا ذہن رکھنے والا آدمی ہر چیز میں اِسراف(waste) سے اپنے آپ کو بچائے گا۔ مثلاً خرچ میں اسراف، پانی میں اسراف، بولنے میں اسراف، وغیرہ۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی اِسراف کو سِرے سے کوئی اہمیت ہی نہ دے گا۔ٹسٹ کا ذہن رکھنے والا آدمی ہر معاملے میں اپنے آپ کو اخلاقی قدروں کا پابند سمجھے گا۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والے آدمی کے لیے ساری اہمیت اپنے ذاتی انٹرسٹ کی ہوگی، نہ کہ کسی برتر اخلاقی معیار کی۔

خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، اِس معاملے میں ساری اہمیت اِس بات کی ہے کہ مختلف اَحوال کے درمیان آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پرورش پارہی ہے— ربّانی شخصیت، یا غیر ربّانی شخصیت۔ موجودہ دنیا میںآدمی جس طرح اپنے جسمانی وجود کے لیے مادی غذا حاصل کرتا ہے، اِسی طرح اپنے روحانی وجود کے لیے بھی اس کو مسلسل روحانی غذا (spiritual food) درکار ہوتی ہے۔ یہی روحانی غذا اس کے اندر ربّانی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔

روحانی غذا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کے سامنے جب سچائی آئے تو اس کا انکار کرنے کے بجائے وہ اس کا اعتراف کرے، خواہ سچائی کا پیش کرنے والا اُس کا اپنا آدمی ہو ، یا وہ اُس کا غیر ہو۔وہ حالات کے زیر اثر نہ سوچے، بلکہ حالات سے اوپر اُٹھ کر غیر متاثّر ذہن کے تحت اپنی رائے بنائے۔ اس کی زندگی شکر اور اعتراف کی زندگی ہو، نہ کہ ناشکری اور بے اعترافی کی زندگی۔ وہ منفی تجربے کا بھی مثبت انداز میں جواب دے، وہ اپنی ملی ہوئی آزادی کو خود عائد کردہ ڈسپلن کے تحت استعمال کرے۔ وہ ہر حال میں انصاف کی بات کہے، خواہ انصاف کی بات خود اُس کے اپنے خلاف کیوں نہ ہو۔ وہ دنیاکے وقتی فائدے کے بجائے، آخرت کے ابدی فائدے کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے۔ اُس کی سرگرمیوں کا نشانہ، آخرت کی ابدی کامیابی کا حصول ہو، نہ کہ صرف دنیا کی وقتی کامیابی کا حصول۔

جو لوگ موجودہ دنیا کو اپنے لیے ٹسٹنگ گراؤنڈ سمجھیں اور اُس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کریں، وہ آخرت میں خالق کے پڑوس میںابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔ اِس کے برعکس، جو لوگ دنیا کو صرف انجوائے منٹ کی جگہ سمجھیں، وہ آخر کار اِس بھیانک نتیجے سے دوچار ہوں گے کہ اُن کے لیے آخرت کی ابدی دنیا میں محرومی اور حسرت کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہ ہوگا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom