جنت اور انسان

غالباً 1998 کی بات ہے، ڈاکٹر مہیش چندر شرما نے مجھے دہلی کے ایک سینئر اسکالر سے ملایا۔ یہ پروفیسر نونہال سنگھ (پیدائش 1923) تھے۔ امریکا سے رٹائر ہو کر آنے کے بعد انڈیا میں ان کو راجیہ سبھا کا ممبر (1992-1998)بنادیا گیا تھا۔ اُن کا گھر ایک کتب خانہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس میں ہر طرف لکھنے پڑھنے کا ماحول تھا۔ وہ پورے معنوں میں ایک اسکالر دکھائی دیتے تھے۔

ملاقات کے وقت انھوں نے بتایا کہ پولٹکل سائنس میں انھوں نے ایم اے کیا تھا۔ اِس کے بعد انھوں نے انٹرنیشنل رلیشنس (international relations) کے سبجیکٹ پر ڈاکٹریٹ کیا۔ اُس زمانے میں امریکا کی ایک یونی ورسٹی کو اپنے لیے اِس موضوع پر ایک پروفیسر کی ضرورت تھی۔ اُس کا اشتہار دیکھ کر پروفیسر سنگھ نے اس کے لیے اپنی درخواست بھیج دی۔ جلد ہی انھیں یونی ورسٹی کی طرف سے ایک لیٹر ملا، اِس میں انھیں انٹرویو کے لیے امریکا بلایا گیا تھا۔

وہ امریکا پہنچے تو ائر پورٹ پر ایک صاحب اُن سے ملے۔ اُنھوں نے کہا کہ میں یونی ورسٹی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، تاکہ یہاں میں آپ کو گائڈ کروں۔ اِس کے بعد اُس آدمی نے پروفیسر سنگھ کو اپنی گاڑی پر بٹھایا اور اُن کو لے کر یونی ورسٹی پہنچا۔ یونی ورسٹی میں پروفیسر سنگھ کو وہاں کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھیرایا گیا۔

اِس کے بعد وہ آدمی روزانہ پروفیسر سنگھ کے پاس آتا اور ان کو لے کر صبح سے شام تک یونی ورسٹی کے وسیع کیمپس میں گھماتا رہتا۔ اِس طرح وہ آدمی پروفیسر سنگھ کو یونی ورسٹی کے ہر شعبے میں لے گیا اور وہاں کی ہر سرگرمی میںانھیں شامل کیا۔ مثلاً لائبریری، ڈائننگ ہال، کلاس روم ، ٹیچرس کلب، اسٹوڈنٹس میٹنگ، یونی ورسٹی ورکرس، وغیرہ۔

اِس طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔ پروفیسر سنگھ کو تشویش ہوئی۔ انھوں نے اپنے ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین سے کہا کہ میں ایک ہفتے سے یہاں ہوں۔ مجھے انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن اب تک میرا انٹرویو نہیں ہوا۔ چیئر مین نے کہا کہ آپ کا انٹرویو ہوچکا ہے۔ ہم نے آپ کا سلیکشن کرلیا ہے، اور اب آپ کل سے ہمارے یہاں جوائن کرلیجیے۔ اِس کے بعد چیئر مین نے بتایا کہ ائر پورٹ پر ہمارا جو آدمی آپ سے ملا تھا، وہ یہاں کا سینئر پروفیسر تھا، اور وہی آپ کا انٹرویور بھی تھا۔

چیئرمین نے کہا کہ آپ کے بھیجے ہوئے کاغذات کو دیکھنے کے بعد ہم نے جان لیا تھا کہ جہاں تک تعلیمی لیاقت کا تعلق ہے، آپ اس کے پوری طرح اہل ہیں۔ اب ہم کو یہ جاننا تھا کہ آپ ہمارے یونی ورسٹی کلچر کے معیار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ آپ کا مذکورہ انٹرویور یہی کام کررہا تھا۔ وہ آپ کو یونی ورسٹی کے ہر شعبے میں لے گیا۔ اس نے یہاں کی تمام ایکٹوٹیز (activities)سے آپ کو متعارف کرایا۔ اس نے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرس دونوں کے ساتھ آپ کے سلوک کو دیکھا۔ اِس دوران وہ آپ کی ہر بات کا دقّتِ نظر کے ساتھ معائنہ کرتا رہا۔ انٹرویور کی رپورٹ آپ کے بارے میں پوری طرح مثبت ہے۔ چنانچہ آپ کے ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد ہم نے آپ کا انتخاب کرلیا ہے۔ آپ کل سے یہاں اپنا کام شروع کردیں۔

یہ واقعہ ایک حقیقی مثال کی صورت میں، جنت اور انسان کے معاملے کو بتاتا ہے۔ خدا نے ایک وسیع دنیا بنائی، جنت کی دنیا۔ یہ دنیا پورے معنوں میںایک کامل دنیا تھی۔ یہاں ہر چیز اعلیٰ معیار کے مطابق تھی۔ خدا نے چاہا کہ اِس کامل دنیا میں وہ ایسے لوگوں کو بسائے جو اپنے کردار کے اعتبار سے اُس کے لیے پوری طرح اہل ہوں، جو اِس معیاری دنیا میں معیاری انسان کی حیثیت سے رہ سکیں۔

اب خدا نے اِس دنیا کے تعارفی نمونے کے طورپر موجودہ زمینی سیّارہ بنایا۔ یہاں وہ ساری چیزیں پائی جاتی ہیں جو جنتی دنیا کے اندر موجود ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جنتی دنیا، معیاری دنیا (perfect world) ہے اور موجودہ زمینی دنیا، غیر معیاری دنیا (imperfect world)۔ جنتی دنیا کامل ہے اور موجودہ زمینی دنیا غیر کامل۔ جنتی دنیا ابدی ہے اور موجودہ زمینی دنیا غیر ابدی۔ جنتی دنیا ہر قسم کے خوف اور حُزن سے خالی ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ خوف اور حزن سے بھری ہوئی ہے۔ جنتی دنیا انعام(reward) کی دنیا ہے اور موجودہ دنیا آزمائش (test)کی دنیا۔

اِس منصوبے کے تحت، خدا نے انسان کو پیدا کرکے اس کو موجودہ زمینی دنیا میں بسایا۔ خدا نے انسان کو کامل آزادی دے دی۔ اُس نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ یہاں کسی پابندی کے بغیر رہے۔ اُس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی آزادی کو چاہے تو غلط طور پر استعمال کرے اور چاہے تو درست طورپر استعمال کرے۔ ہر انسان جو زمین پر پیدا ہوتا ہے، اُس کے ساتھ خدا کے دو غیر مَرئی (invisible) فرشتے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ وہ انسان کے ہر قول اور عمل کا مکمل ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔اِسی ریکارڈ کی بنیاد پر اس کے لیے اگلی دنیا میں جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔

جنتی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میںاپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔ موجودہ دنیا میں بھی وہ سارے حالات پائے جاتے ہیں جو جنتی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون انسان ہے جس نے ہر قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے جنتی کیریکٹر کا ثبوت دیا۔ اُسی انسان کا انتخاب کرکے اس کو جنتی دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جائے گا۔

ہر انسان کے ساتھ خدا کے غیر مرئی فرشتے لگے ہوئے ہیں اور وہ ہر لمحہ اس کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔ یہی انسان کا ٹسٹ ہے، اور اِسی ٹسٹ کے نتیجے کی بنیاد پر ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ وہ ٹسٹ یہ ہے کہ آدمی ہر موقع پر خدائی کی بڑائی کا اعتراف کرے، یعنی آدمی کے ضمیر نے جب اس کو ٹوکا تو اس نے ضمیر کی آواز کو مانا، یا اس کو نظر انداز کردیا۔ جب اس کے سامنے دلیل کے ساتھ ایک سچائی آئی تو وہ اس کے آگے جھک گیا، یا اس نے اس کے خلاف سرکشی دکھائی۔ جب اپنی انا اور سچائی کا مقابلہ ہوا تووہ اپنی انا کے پیچھے چلا، یا اُس نے سچائی کا اعتراف کیا۔

اِسی طرح لوگوں سے معاملہ کرتے ہوئے وہ انصاف پر قائم رہا، یا اپنے انٹرسٹ کی خاطر بے انصافی کرنے لگا۔ وہ صرف لوگوں کے سامنے اچھا بنا رہا، یا اپنی پرائیویٹ زندگی میں بھی وہ اچھائی پر قائم رہا۔ اس نے حق کو اپنا سپریم کنسرن بنایا، یا حق کے سوا کسی اور چیز کو وہ اپنا کنسرن بنائے رہا۔ اسی طرح یہ کہ جب اس کو اقتدار ملا تو وہ بگاڑ کا شکار ہوگیا،یا اقتدار کے باوجود اس نے اپنے آپ کو انصاف پر قائم رکھا۔ جب اس کو دولت حاصل ہوئی یا اس کو غریبی کا تجربہ ہوا تو دونوں حالتوں میں یکساں طورپر اس نے اعتدال کا ثبوت دیا، یا وہ اعتدال کے راستے سے ہٹ گیا۔ سماجی زندگی میں جب اس کو آگے کی سیٹ ملی، اس وقت وہ کیسا تھا، اور جب اس کو پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنا پڑا تب اس کا رویہ کیا تھا۔ اس نے اپنے جذبات اور اپنی خواہشوں کو اصول کا پابند رکھا، یا اصول سے ہٹ کر وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنے لگا۔اِسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہر عورت اور مرد کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

موجودہ زمینی دنیا ایک محدود مدت کے لیے بنائی گئی ہے۔ اِس مدت کے پورا ہونے کے بعد یہاں پیدا ہونے والے تمام انسان، خدا کے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔ خدا، فرشتوں کے تیار کیے ہوئے ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ جس عورت یا مرد کا ریکارڈ بتائے گا کہ وہ زمینی دنیا میں جنتی کردار کے ساتھ رہا، اُس نے اپنی آزادی کو خدا کے مقرر کیے ہوئے دائرے کے اندر استعمال کیا، اور اِس طرح یہ ثابت کیا کہ وہ جنتی دنیا کے ماحول میں بسائے جانے کے قابل ہے، ایسے لوگوں کو جنت کے باغوں میں رہنے کے لیے منتخب کرلیا جائے گا۔ اور وہ تمام لوگ جو جنتی کردار کا ثبوت نہ دے سکے، اُن کو رد کر کے کائنات کے ابدی کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے گا، تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے مایوسی اور حسرت کی زندگی گزارتے رہیں اور کبھی اُس سے چھٹکارا نہ پاسکیں۔

انسان ایک ابدی مخلوق ہے، لیکن اُس کی زندگی دو دَوروں میں بٹی ہوئی ہے— موت سے پہلے کا دورِ حیات، اور موت کے بعد کا دورِ حیات۔ موت سے پہلے کا دور، تیاری کا دور (preparatory period) ہے، اور موت کے بعد کا دور، تیاری کے مطابق، اُس کا انجام پانے کا دور۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اِس حقیقت کو سمجھے، کیوں کہ اِسی کے اوپر اُس کے ابدی مستقبل کا انحصار ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom