امریکا کا سفر
اسلامک سوسائٹی آف آرنج کاؤ نٹی(کیلیفورنیا)امریکاکاایک مشہوراسلامک سینٹرہے۔۲۳۔۲۴نومبر۲۰۰۰کواس کے تحت ایک انٹرنیشنل سیرت کانفرنس ہوئی۔اس کاموضوع یہ تھا:
The Example of Prophet Muhammad: The Guidance for Humanity
اس کانفرنس میں مجھ کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔مگر میں اپنی بعض مصروفیات کی بناپر اس سفر کے لیے تیار نہ تھا۔حتیٰ کہ میں اس کاجواب بھی نہ بھیج سکا۔ایک مہینہ کے بعد،جب کہ بہت کم وقت باقی رہ گیاتھا،کیلیفورنیا سے ٹیلی فون آیا۔سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی نے بتایاکہ یہاں کئی لوگوں کا اصرار ہے کہ آپ ضرور اس میں شرکت کریں۔چناں چہ بالکل آخر وقت میں مجھے سفر کا فیصلہ کرناپڑا۔یہاں تک کہ تاخیر سے پہنچنے کی بناپر کانفرنس کی صرف آخری تاریخ کو میری باقاعدہ شرکت ہوسکی۔
۲۳ نومبر۲۰۰۰کی صبح کو لفتھانزاکی فلائٹ کے ذریعہ دہلی سے روانگی ہوئی۔ائرپورٹ پر پہنچاتومعلوم ہواکہ ہمارے دفتر کی طرف سے کتابوں کے چاربڑے بڑے بنڈل میرے ساتھ کردیے گئے ہیں۔ مجھے اس کا علم صرف آخر وقت میں ہوسکااس لیے اپنے ذوق کے خلاف مجھے ان کو لے کر ائر پورٹ کے اند رداخل ہوناپڑا۔لفتھانزاکے کاؤ نٹرپر پہنچاتووہاں کے آدمی نے کتاب کے ان چارپیکٹوں کو دیکھ کر کہاکہ اس کاوزن تو بہت زیادہ ہے۔اس کا علاحدہ چارج اداکیے بغیر آپ اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔میں نے کہاکہ پھر آپ فاضل بنڈل ہمیں واپس کردیں۔کاؤ نٹر پر بیٹھے ہوئے ہندونوجوان نے کچھ دیر سوچاپھر کہاکہ آپ توہم کو فرنٹیرگاندھی دکھائی دیتے ہیں پھر آپ کا سامان ہم کیسے واپس کریں۔میں نے کہاکہ آپ اپنے اصول کے مطابق معاملہ کریں اورہمیں فاضل بنڈل واپس کردیں۔مگر مذکورہ نوجوان نے کہا کہ جب مزید چارج کے بغیر ہم اس کو بک کرنے کے لیے تیار ہیں تو آپ کیوں اس کو واپس مانگ رہے ہیں۔چناں چہ یہ چاروں بھاری بنڈل دہلی سے روانہ ہوکر مجھے لاس اینجلیز کے ائر پورٹ پر مل گئے۔
میں نے سوچاکہ کسی گروہ کی امیج اس کے بڑے لوگ بناتے ہیں۔فرنٹیرگاندھی صرف ایک شخص کانام تھا۔مگر قوم کے ایک بڑے شخص نے اپنے عمل سے ہندستانیوں کے اندر اپنی اچھی تصویر بنائی تواس کا فائدہ اس کی قوم کے تمام افراد کو مل گیا۔
دہلی سے روانگی کے بعد ہماری پہلی منز ل فرینکفرٹ تھی۔یہ تقریباً آٹھ گھنٹے کاسفر تھا۔راستے میں لفتھانزا میگزین کا شمارہ نومبر۲۰۰۰دیکھا۔اس میں ایک مفصل مضمون فنِ تعمیرات (Architecture)کے بارے میں تھا۔اس میں بتایاگیاتھاکہ جاپان کے ماہرتعمیرات (Architect)ٹاڈاؤ اینڈو(Tadao Ando)کے پاس کوئی باقاعدہ تعلیمی ڈگری نہیں ہے۔ان کے بارے میں میگزین میں یہ درج تھا کہ وہ دنیاکے انتہائی بڑے ماہرِتعمیرات میں سے ایک ہیں۔حالاں کہ وہ اپنی کالی فیکیشن کے اعتبار سے اپنے ملک جاپان میں خالص فّنی مفہوم میں آرکیٹکٹ کا درجہ نہیں رکھتے۔
One of the world's greatest contemporary architects has never got his degree and is therefore not qualified to call himself an architect in his home country of Japan. (p.16)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ دنیامیں ترقی کے لیے اصل اہمیت ڈگری کی نہیں بلکہ لیاقت کی ہے۔اوراگر آدمی کے اندر واقعی جذبہ ہوتووہ اپنی ذاتی محنت اورلگن سے وہ چیز حاصل کرلیتاہے جو ڈگری یافتہ لوگوں میں بھی بہت کم افراد کو ملتی ہے۔
جہاز کے مسافروں کو تازہ کرنے کارومال(refreshment towel)دیاجاتا۔وہ گرم پانی میں پکایاہواہوتاہے۔اس کو دیتے ہوئے ائرہاسٹس نے کہاکہ یہ گرم ہے،ا س کو احتیاط سے پکڑیے:
It's hot, be careful.
میں نے سوچاکہ یہ ایک تولیہ کا معاملہ نہیں،بلکہ وہ ساری زندگی کا معاملہ ہے۔ہر لمحہ آدمی کو احتیاط کے ساتھ رہناہے۔اسی احتیاط کانام تقویٰ ہے۔
تقریباً آٹھ گھنٹہ کی پرواز کے بعد ہماراجہاز فرینکفرٹ پہنچا۔فرینکفرٹ جر منی کاصنعتی شہر ہے،یہاں ایر پورٹ پر کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔پنجاب کے ایک ہندستانی جواب امریکامیں رہتے ہیں اوروہاں کے شہری بن چکے ہیں،ان سے میں نے پوچھاکہ ہندستان اورامریکامیں کیافرق ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے لکھاہے کہ میکسکواورامریکاکے درمیان آپ کھڑے ہوں تو آپ کے ایک طرف جنت ہوگی اوردوسری طرف دوذخ۔یہی فرق کسی قدر کمی کے ساتھ ہندستان اورامریکامیں ہے۔
مجھے یاد آیاکہ چند دن پہلے دہلی میں ایک ہندستانی نوجوان سے ملاقات ہوئی۔وہ تعلیم کے تحت دوسال سے امریکارہ رہے ہیں۔ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان فرق کو بتاتے ہوئے کہاکہ امریکامیں کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہاں چوڑی چوڑی سڑکیں ہیں۔میں نے کہاکہ وہ لوگ بھی کتنے عجیب ہیں جو اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں صرف اس لیے جاتے ہیں کہ وہاں کی سڑکیں چوڑی ہیں۔
فرینکفرٹ سے لاس اینجلیز کا سفر تقریباًآٹھ گھنٹہ کاتھا۔یہ ایک طویل تھکادینے والاسفر تھا۔لیکن راستے میں گہری نیند آگئی جس کی وجہ سے یہ سفر آسانی کے ساتھ طے ہوگیا۔
میرے ساتھ کتابوں کے چار بڑے بنڈل تھے جن کو میں خود اٹھانہیں سکتاتھا۔لاس اینجلیز میں کنویربلٹ (Conveyer Belt)سے ان کو اتارنابھی میرے لیے سخت مشکل تھا۔چناں چہ مجھے قلی کرناپڑا۔اس تجربے سے معلوم ہواکہ امریکاجس طرح ہندستان سے مختلف ہے اسی طرح یہاں کے قلی بھی ہندستان سے بہت مختلف ہیں۔اس نے نہایت مہارت کے ساتھ ان سب کو ایک ٹرالی پر رکھ دیاجب کہ میراخیال تھاکہ ان چار بڑے بڑے بنڈلوں کے لیے دوٹرالی کی ضرورت ہوگی۔
لاس اینجلیز ائر پورٹ پر جناب شارق ضیاء(۳۰سال)اپنی اہلیہ کے ہمراہ موجود تھے۔ان کے ساتھ ایر پورٹ سے ہوٹل کے لیے روانہ ہوا۔جناب شارق صاحب کمپیوٹر انجینئرہیں۔انہوں نے بتایاکہ ان کی کمپنی میں ایک ٹکنیکل پرابلم تھاجس کے متعلق خیا ل تھا کہ ا س کوحل کرنے میں ایک مہینہ سے زیادہ مدت لگ جائے گی۔میں نے رات دن محنت کرکے اس کو ایک ہفتہ میں حل کردیا۔اس سے کمپنی والے بہت خوش ہوئے اورمجھے ایک بڑی ترقی دے دی۔
انہوں نے بتایاکہ میرایہ مزاج میرے والد صاحب کی تربیت سے بناہے۔میرے والد آگرہ کے رہنے والے تھے۔والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ کبھی نہ کہوکہ فلاں کام نہیں ہوسکتا:
Never say no.
یہاں اس طرح کے اورکئی نوجوان ملے جنہوں نے بتایاکہ ان کی ترقی میں ان کے والد کی تربیت کا بڑاحصہ ہے۔مگر یہی بات امریکا کی نئی نسل سے سننے میں نہیں آتی۔امریکاکی نئی نسل اپنے والدین سے اثر لینے کے بجائے اپنے ماحول سے اثر لیتی ہے۔ایک تعلیم یافتہ مسلمان جو ۳۰سال پہلے امریکاآئے تھے۔انہوں نے کہا کہ اب میں سوچتاہوں کہ میں نے امریکاآنے میں غلطی کی۔انہوں نے کہاکہ ہماری اولاد ہمارے قبضے میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہی یہاں کے تمام والدین کا حال ہے،اگرچہ وہ اپنی زبان سے ایساکہناپسند نہ کریں گے۔کیوں کہ ایساکہنے میں اپنے ماضی کے فیصلے کو غلط ماننا ہے۔
قدیم زمانے میں خاندان کا مرکز اس کے بزرگ ہواکرتے تھے۔اس طرح نئی نسل کو یہ موقع تھاکہ وہ اپنے تجربہ کار سرپرستوں سے سیکھے اوران سے تربیت حاصل کرے۔جدید ماحول میں یہ نظم ٹوٹ گیاہے۔ آج کی نئی دنیامیں وہ دورآگیاہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں ان الفاظ میں کی گئی تھی: وَبَرَّ صَدِيقَهُ، وَجَفَا أَبَاهُ (وہ اپنے دوست کی اطاعت کرے گااوراپنے باپ کی نافرمانی کر ے گا)ترمذی، 2210(
چناں چہ آج کی نئی نسل اپنے دوستوں کے طریقہ پر چلتی ہے۔اس کے اندراپنے والدین سے سیکھنے کا مزاج نہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ پختہ اورتجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کا مزاج نہیں۔پختہ اورتجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کا سلسلہ جونسل درنسل جاری تھاوہ اب ختم ہوگیاہے اورنئی نسل کے لوگ غیرپختہ اورغیر تجربہ کار لوگوں سے زندگی کی تربیت لے رہے ہیں۔یہ بلاشبہہ جدید سماج کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
۲۳نومبرکی سہ پہر کو ہم شارق ضیاء صاحب کے ساتھ لاس اینجلیز کے ہوٹل ہالیڈے اِن (Holiday Inn)پہنچے۔یہاں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ایک اورصاحب آئے جو مجھ کو اس کمیونٹی سنٹر میں لے گئے جہاں کانفرنس کی کارروائی ہورہی تھی۔میں نے شام کے اجلاس میں شرکت کی۔اس میں کئی لوگوں کی تقریریں ہوئیں۔عام طورپر لوگوں نے یاتوروایتی تقریریں کیں یاجوشیلی تقریریں۔البتہ ایک عرب عالم ڈاکٹرحسن حتحوت صاحب کی تقریر مجھ کو پسند آئی۔ان کی تقریر کا پورااندازحقیقت پسندانہ اورعلمی تھا۔ان کی تقریرکاخلاصہ یہ تھاکہ ہم جن مسائل سے دوچار ہیں اس کی وجہ ہم خود ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمار ا عمل ہمارے جذبات کے تحت ہوتاہے نہ کہ سنجیدہ پلاننگ کے تحت:
Our actions are governed by emotions and not by calculations.
ان کی کتاب انڈراسٹینڈنگ دی مسلم مائنڈ(Understanding the Muslim Mind)قابلِ مطالعہ ہے۔
شام کا کھانا کمیونٹی ہال میں لوگوں کے ساتھ کھایاگیا۔اس کے بعد میں ہوٹل ہالی ڈے ان واپس آگیااوررات یہاں گزاری۔
۲۴نومبر کو صبح کے سیشن میں میری تقریرتھی۔یہ تقریر انگریزی میں کرناتھاکیوں کہ حاضرین میں زیادہ تعداد انگریزی دانوں کی تھی۔چناں چہ میں نے سیرت کے ایک پہلوکو لے آدھ گھنٹہ تقریر کی جس کا عنوان یہ تھا:
Positive Action in the Light of Seerah.
میری تقریر کے موقع پر جلسہ گاہ میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی موجود تھے۔یہ سب تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ہر ایک نے میری تقریر کو پسند کیا۔
کچھ مسلم نوجوانوں نے کہا کہ ہم نے بہت سے مسلمانوں کی تقریریں سنی ہیں،مگر وہ ہمارے نزدیک صرف ایک قسم کا انٹرٹینمنٹ ہوتی تھیں۔آج ہم نے پہلی بار کسی مسلم عالم کی زبان سے ایک ایسی تقریر سنی جو واقعۃًتقریرتھی اورجس میں غوروفکرکا مواد دیاگیاتھا۔
اس کانفرنس کے موقع پر ایک انوکھاتجربہ ہواجس کا مجھے پہلے قطعاً کوئی اندازہ نہ تھا۔جیساکہ ذکر کیاگیا،دہلی سے دفتروالوں نے ہمیں چار بڑے بڑے بنڈل کتابوں کے دے دیے تھے۔میں اپنے ذوق کے خلاف ان کولگیج کے طور پر بک کرکے لے آیا۔مجھ کو یہ بتایاگیاتھا کہ نیویارک سے فلاں صاحب لاس اینجلیز آئیں گے اوروہ ایر پورٹ سے کتابیں لے لیں گے اورکانفرنس میں اس کااسٹال لگائیں گے۔مگر مذکورہ صاحب کسی وجہ سے نہ آسکے۔مجھے سخت وحشت ہوئی کہ میں ان کتابوں کاکیاکروں،تاہم بادلِ ناخواستہ ان کو لے جاکراپنے ہوٹل کے کمرے میں رکھوادیا۔اگلی صبح تک کتابیں وہیں پڑی رہیں۔
۲۴نومبر کو دن کے تین بجے یہاں کے ڈاکٹر حبیب اللہ خاں صاحب سے ملاقات ہوئی جن کو میں اس سے پہلے بالکل نہ جانتاتھا۔مگر تجربہ سے معلوم ہواکہ وہ ایک انوکھے انسان ہیں۔وہ کتابوں کے مطالعے کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔ان کاقول ہے کہ:
Spending on books is the best investment.
۲۴نومبر کو دوپہر بعد کانفرنس کا آخر ی سشن تھا۔ڈاکٹر حبیب اللہ خاں صاحب کو اتفاقی طورپر ایک اورصاحب کے ذریعہ معلوم ہواکہ ہمارے ساتھ دہلی سے کتابوں کے چار بڑے بڑے بنڈل آئے ہیں مگر کانفرنس میں ان کا اسٹال نہ لگایاجاسکااوروہ ہوٹل کے کمرے میں پڑے ہوئے ہیں۔خود سے پیش کش کرکے وہ کتابوں کو ہوٹل کے کمرے سے لے آئے اورکانفرنس میں ان کتابوں کا اسٹال لگادیا۔وہ،ان کی اہلیہ اوران کی لڑکیاں سب اس کام میں لگ گئیں۔وہ اگرچہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں مگر انہوں نے اوران کی فیملی نے اتنی مہارت کے ساتھ کتابوں کوفروخت کرناشروع کیاجیسے کہ وہ سیلس مین شپ کی کوئی اعلیٰ ڈگری لیے ہوئے ہوں۔کانفرنس کے موقع پر کتابوں کے کئی اسٹال پہلے سے لگے ہوئے تھے۔مگر ڈاکٹر حبیب اللہ خاں صاحب کی مہارت کا یہ کرشمہ تھا کہ سب سے زیادہ بھیڑ ہماری کتابوں کے اسٹال پر جمع ہوگئی۔تقریباً۶گھنٹہ میں انہوں نے بیشتر کتابیں فروخت کردیں۔تھوڑی سی کتابیں بچ گئی تھیں جس کو دوبارہ حبیب اللہ خاں صاحب ہی نے جمعہ کے موقع پر اسٹال لگاکر فروخت کردیا۔
۲۵نومبر کی صبح کو ہم نے ہوٹل چھوڑدیااورجناب صغیراسلم صاحب کے ساتھ ان کے گھر پر آگئے۔اس کے بعد ۵دسمبرتک انہی کے گھر پر قیام رہا۔مختلف جگہوں سے لوگوں کے تقاضے تھے مگرمیں رمضان کی وجہ سے اِدھراُدھرنہ جاسکا۔بعد کے تمام دن صغیراسلم صاحب کے ساتھ گزرے۔چناں چہ اس زمانۂ قیام کے تجربات زیادہ ترصغیر اسلم صاحب یا ان کے آس پاس کے ماحول سے متعلق ہیں۔
امریکامیں کئی افراد اورگروپ ہیں جو ہندستان اورپاکستان اوربنگلہ دیش کے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے کافی کام کررہے ہیں۔چناں چہ ان کی مدد سے ان ملکوں میں ہزاروں مسلم نوجوانوں کو پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل رہاہے۔کئی ادارے مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔یہاں ان امریکی مسلمانوں سے میری ملاقات ہوئی۔میں نے کہاکہ آپ لوگ مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کے لیے جوکام کررہے ہیں وہ بجائے خود بہت اہم ہے مگر بہر حال وہ ایک ثانوی کام ہے۔اصل کام جس کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ مسلمانوں کو اسلامی قیادت دیناہے۔میں نے کہاکہ چند سو سال پہلے ہمارے مدارس یہ کام کررہے تھے۔مدارس کے ذریعے نہ صرف دینی تعلیم زندہ تھی بلکہ یہی مدارس وہ افراد بھی پیداکررہے تھے جومسلمانوں کو اسلامی قیادت فراہم کرسکیں۔مگر اب یہ کام عملاً ختم ہوگیاہے۔یہ مدارس اس اعتبار سے اپنی عمر ختم کرچکے ہیں۔ان کاموجودہ نظام دورِ جدید کی قیادت فراہم کرنے کے لیے اسی طرح ناکافی ہے جس طرح ہندی کاکورس انگریزی انشاپر داز پیداکرنے کے لیے۔
ہمارے موجودہ مدرسے قدیم شرحیں پڑھاتے ہیں جب کہ آج جدید شرحوں کی ضرورت ہے۔ان مدرسوں کے نصاب میں جوکتابیں ہیں ان میں مناظر ہ کاموضوع ہے مگر ڈائیلاگ کا موضوع نہیں۔ان میں جہاد کے ابواب ہیں مگر پُر امن دعوت کے ابواب نہیں،ان میں غیر تنقیدی ذہن کی تشکیل کی جاتی ہے جب کہ آج دنیامیں تنقیدی ذہن کادور آچکاہے۔ان مدارس کی تعلیم اسی قدیم نہج پر ہوتی ہے۔گویاکہ تاریخ کا سفر ان کے مفروضہ اکابرپر ختم ہوگیاہے جب کہ ان کے باہر کی دنیامیں تاریخ کاسفر ان کے اپنے اکابر کے دور سے بہت زیادہ آگے جاچکاہے،وغیرہ۔
۵نومبر۲۰۰۰کی شام کومیں جناب صغیر اسلم صاحب کے مکان پر تھا۔وہاں ان کے داماد جناب عمران صاحب آگئے۔وہ ایک کمپیوٹر کمپنی میں ہیں جہاں ہندستان اورپاکستان کے کئی مسلمان کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جن مسلمانوں سے میری ملاقات ہوئی وہ اکثر آپ کے بارے میں منفی رائے کااظہار کرتے ہیں۔میں نے کہاکہ ان لوگوں کی شکایتیں جھوٹی شکایتیں ہیں،ان کاسچائی سے کوئی تعلق نہیں۔ پھرمیں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے میں نے جوسچائی دریافت کی ہے وہ اتنی زیادہ عظیم ہے کہ ا س کے بعد کوئی بھی محرومی میرے لیے محرومی نہیں۔یہ گفتگورات کے ۹بجے ہورہی تھی۔میں نے کہاکہ اس وقت میں صغیر اسلم صاحب کے گھر پر ہوں۔اگروہ اپنے گھر سے نکال دیں اورکہیں کہ تم میرے گھر میں کیسے گھس آئے ہو،فوراًباہر جاؤ تومیں کسی شکایت کے بغیرنہایت خاموشی اورسکون کے ساتھ باہرچلاجاؤ ں گا۔اس لیے کہ صغیر اسلم صاحب مجھ سے اپناگھر چھین سکتے ہیں،مگر وہ مجھ سے خدائے برتر کو نہیں چھین سکتے۔وہ کائنات کو مجھ سے نہیں چھین سکتے۔وہ میری معرفت ِ حق کومجھ سے نہیں چھین سکتے۔
صغیر اسلم صاحب کے گھر سے محرومی کے بعد بھی ایمان باللہ کازیادہ بڑاسرمایہ مجھے حاصل رہے گاجس پرمیں اعتماد کرسکوں۔مجھ کوایک زمین ملی ہوئی ہوگی جس کے اوپر میں چلوں پھروں۔اس کے باوجود میرے گردوپیش ہواہوگی جس سے میں سانس لے سکوں،درخت ہوں گے جس کی سرسبزی میں میں خداکی ربوبیت کاجلوہ دیکھوں۔حقیقت یہ ہے کہ صغیر اسلم صاحب کے گھرسے محرومی کے بعد بھی مجھے اس سے بہت زیادہ بڑی چیز حاصل رہے گی۔پھر میرے لیے شکایت اوراحساس محرومی کی کوئی ضرورت نہیں۔جولوگ محرومی میں جیتے ہوں اُن کے پاس ہمیشہ شکایت کے الفاظ ہوتے ہیں۔مگر میں اللہ کے فضل سے یافت میں جیتاہوں۔اس لیے میری زبان وقلم سے شکایت کے الفاظ بھی نہیں نکلتے۔
آرنج کاؤ نٹی میں ایک ادارہ ہے جس کومیں نے ۲۹نومبر۲۰۰۰کودیکھا۔یہ ادارہ ۱۹۹۰میں قائم ہوا۔اس کے فاؤ نڈنگ ڈائرکٹرشبیرمنصوری صاحب (پیدائش ۱۹۴۵)ہیں۔اس ادارہ کانام یہ ہے:
Council on Islamic Education
یہ ادارہ اُسی مقصد کے لیے قائم ہے جس کوہندستانی مسلمانوں کی زبان میں اصلاحِ نصاب کہاجاتاہے۔یعنی اسکول میں پڑھائی جانے والی کتابوں کی تاریخی غلطیوں کودرست کرنا۔مگر ہندستانی مسلمانوں کی اصلاحِ نصاب کمیٹی کے مقابلے میں وہ زیادہ سائنٹفک ہے اوراسی کے ساتھ زیادہ مؤ ثر بھی۔
ان لوگوں نے یہ کیاکہ ایک طرف اسکول میں پڑھائی جانے والی کتابوں کامطالعہ کرکے یہ معلوم کیاکہ ان کتابوں میں مسلم نقطۂ نظر سے کیاغلطیاں ہیں۔مثال کے طور پر ایک نصابی کتاب جس کا نام صدیوں کے درمیان (Across the Centuries)ہے،اس میں ۵۰صفحہ کاایک باب اسلامی تاریخ پر ہے جس کاعنوان یہ تھا:
A Moment in Time: A Caravan Camel.
اس کے آغاز (صفحہ ۵۴)پر اونٹ کی تصویربنی ہوئی تھی۔اس ادارہ نے اس کوبدلوایا۔کتاب کے نئے ایڈیشن میں اونٹ کی تصویرنکال دی گئی ہے اوراس کانیاعنوان ان الفاظ میں قائم کیاگیاہے:
Desert Bloom---Carvan Cities
اس ادارہ نے اسکولی نصاب کی کتابوں میں اس قسم کی بہت سی اصلاحات کرائی ہیں،مگر اس کاطریقہ جوانہوں نے اختیار کیاوہ ہندستان سے بہت زیادہ مختلف تھا۔انہوں نے اس کام کومسلم کاز کے طورپر نہیں اٹھایابلکہ جدید ذہن کوسامنے رکھتے ہوئے اس کاسائنٹفک طریقہ اختیار کیا۔
اس معاملہ میں مغربی ذہن کے دو دور ہیں۔ایک وہ جولمبی صلیبی جنگوں (Crusades)کے بعد شروع ہوا۔اس دور میں مغربی علماء کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کی تصویرکوبگاڑ کرپیش کریں۔ٹامس کارلائل نے انیسویں صدی میں اس ذہن کوبدلنے کی کوشش کی۔دوسری عالمی جنگ تک یہ ذہن تقریباً پوری طرح بدل گیا۔اب مغربی علماء کاذہن یہ ہے کہ دوسرے شعبوں کی طرح،اسلام اورمسلمانوں کی تصویرکوعین مطابقِ واقعہ (as it is)پیش کریں۔
اسی عمومی ذہن کاایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ امریکامیں نصابی کتابوں کی تیاری کاجوادارہ ہے وہ کسی کتاب کی تیاری سے پہلے اس سے متعلق مختلف گروہوں کے علماء سے معلومات حاصل کرتاہے تاکہ ان کی کتاب میں ہر گروہ کی ٹھیک ٹھیک نمائندگی ہوسکے۔مذکورہ ادارہ نے اس امکان کواستعمال کیااورپروفیسروں کی ایک ٹیم تیار کی جونصابی موضوعات پر قابلِ اعتماد علمی رائے دے سکے۔اس کے بعد انہوں نے ان امریکی اداروں سے روابط قائم کیے جوتعلیمی کتابیں تیار کرتے ہیں اورچھاپتے ہیں۔انہوں نے ان امریکی اداروں کویقین دلایاکہ وہ انہیں نصابی موضوعات پرقابل اعتماد معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔اس طرح دونوں کے درمیان سلسلہ شروع ہوا۔
سی آئی ای نے یہ کام مسلم دفاع کے طور پر نہیں شروع کیابلکہ خالص علمی انداز میں شروع کیا۔چناں چہ وہ جومعلومات فراہم کرتے ہیں وہ صرف اسلام کے بارے میں نہیں ہوتیں بلکہ ہرمذہب اورکلچرکے بارے میں ہوتی ہیں۔ان کے اس اندازکی بناپر امریکی تعلیمی اداروں میں ان کوپسندکیاگیا۔یہاں تک کہ کنسلٹنٹس اورریو یورس کی فہرست میں ان کانام بھی شامل ہوگیا۔ایسے مددگاروں کی تعداد تقریباً تیس ہے۔
۲۹نومبرکوجب کہ میں سی آئی ای کے دفتر میں بیٹھاہواتھااسی دوران ورجینیاسے انٹرنیشنل نیوز روم (News Room)کاٹیلی فون آیا۔وہ کونسل کے ڈائرکٹر شبیر منصوری صاحب سے ٹیلی فون پرانٹرویولے رہے تھے۔انہوں نے ان سے چندسوالات کیے۔ان میں سے ایک یہ تھاکہ ہم پبلک اسکولوں میں مذہب کی تعلیم کیوں دیں۔تقریباً ۱۵منٹ کے بعد جب انٹرویوختم ہواتونیوز روم کی نمائندہ اسٹیسی میٹنگلی (Stacy Mattingly)نے کہاکہ آپ سے اوردوسرے مسلمانوں سے ہم نے یہ سمجھاہے کہ مسلمانوں میں جوکھلاپن
(openness)ہے وہ ان کے اپنے مذہب کی تعلیمات کی بناپر ہے:
Stacy indicated that the approach of CIE to contribute rather than confront is very much based on universal aspect of Islam. She also stated many Muslim organizations that she spoke to also had similar broad thinking.
سی آئی ای کے اس کام پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے کہاکہ میرے نزدیک یہ براہ ِراست معنوں میں دعوت کاکام تونہیں ہے،البتہ وہ اس دعوہ پراسس کا ایک جزء ہے جواس وقت ساری دنیامیں جاری ہے۔موجودہ زمانے کاایک نیاظاہرہ یہ ہے کہ اسلام میں مختلف اعتبار سے ایسے عمومی پہلوپیداکردیے گئے ہیں جنہوں نے اس کوعالمی مطالعےکا موضوع بنادیاہے۔چناں چہ ریڈیواورٹی وی پر اسلامی پروگرام آتے ہیں۔اسی طرح سے میک ملن اورپنگوئن جیسے ادارے اسلام پر کتابیں چھاپ رہے ہیں۔اس طرح مختلف ذرائع سے اسلام کاتعارف ہورہاہے۔اس کومیں دعوہ پراسس کہتاہوں۔سی آئی ای کے موجودہ کام کوبھی اس عالمی دعوہ پراسس کاایک جز ء کہاجاسکتاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ دعوت اگربراہِ راست اسلامی تبلیغ کانام ہے توسی آئی ای جیسے اداروں کاکام گویابالواسطہ تبلیغ۔
امریکاکے سفر میں ۲۴نومبر۲۰۰۰کوایری زوناکے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے بتایاکہ و ہ میری تحریر یں پڑھتے رہے ہیں اورانہوں نے اس سے بہت فائدہ حاصل کیاہے۔انہوں نے کہاکہ میں اسلام کے بارے میں کنزرویٹیوتھا۔آپ کی کتابیں پڑھ کرمجھے شرح صدر ہوگیا۔ان کانام یہ ہے:
Muhammad A Subhan M.D.
امریکاکے سفر میں اس قسم کے بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔اکثر لوگوں نے یہی کہاکہ دوسری کتابیں پڑھ کریادوسروں کی تقریریں سن کرہمارا ایک خاص ذہن بن گیاتھا۔اورہم اسی کواختیار کیے ہوئے تھے۔مگرآپ کی تحریر یں پڑھنے کے بعد معلوم ہواکہ ہمارا یہ ذہن اسلام کے مطابق نہ تھا۔چناں چہ اب اللہ کے فضل سے ہم صحیح اسلامی نظریے کے مطابق سوچنے لگے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں جومحرّرین اورمقررین اُبھرے وہ سب ردِّ عمل کی پیداوار تھے۔حالات کے ردِّعمل کے تحت ان کی جوسوچ بنی ا س کوانہوں نے اسلام کی اصطلاحوں میں بیان کرناشروع کردیا۔موجودہ زمانے میں اس قسم کی منفی تقریروں اورتحریروں کاایک جنگل ہے جس میں مسلمانوں کی جدید نسل اپنے آپ کو گھراہواپاتی ہے۔یہ ایک قسم کی ذہنی کہرآلودگی (befogging of mind)کامسئلہ ہے۔الرسالہ مشن اللہ کے فضل سے اس ذہنی کہرکودور کررہاہے۔وہ لوگوں کو اس قابل بنارہاہے کہ وہ کھلے ذہن کے تحت اسلام کی سچی تصویر کو دیکھ سکیں۔
ایک واقعاتی مثال
۲۷اگست۱۹۵۷کو ایک مسلم نوجوان پاکستان سے امریکاآیا۔اس وقت اس کی عمر اکیس سال تھی۔اس نے پاکستان میں B.Aکاکورس کیاتھااوراب وہ امریکامیں مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر امریکا (Sacramento)پہنچنے کے بعد معلوم ہواکہ اس کیB.A کی سند یہاں قابلِ قبول نہیں۔چناں چہ اس کو دوبارہ پہلے سیکرامنٹو(Sacramento)کے اسٹیٹ کالج میں ۲سال رہ کرB.Aکی ڈگری حاصل کرنی پڑی۔اس کے بعد مسئلہ روزگار کاتھا۔مگرمختلف کمپنیوں میں کوشش کرنے کے باوجود اسے روزگار نہیں ملا۔مشکل سے ۱۹۶۱میں ایک کمپنی براڈوے ہیل(Broadway Hale)میں ایک معمولی ملازمت ملی جس کوامریکاکی اصطلاح میں اسٹاک بوائے (Stock Boy)کہاجاتاہے۔
اس واقعے کے تقریباً دس سال بعد ۱۹۷۰میں تاریخ دوسرامنظر دیکھتی ہے۔امریکاکی ایک بڑی کمپنی (Wanahmakers in Philadelphia)اور(Marshal Field in Chicago) کو اپنی کمپنی میں خرید وفروخت کے لیے ایک بائر (buyer)کی ضرورت تھی، ایک ایسابائر جوممتاز طورپر لائق اوردیانت دار ہو۔یہ کمپنی کی بے حد اہم پوسٹ تھی جس کے ہاتھ میں ۲۰ملین ڈالر سالانہ سے زیادہ کاکاروبار ہوتاتھا۔امریکی طریقے کے مطابق، ایک ایگزیکیٹیوریکروٹر(Executive Recruiter)کمپنی کویہ ٹھیکہ دیاگیاکہ وہ اس کے لیے ایک مطلوب بایرتلاش کرکے بتائے۔
اس کمپنی نے اپنے ذرائع کے مطابق، پورے امریکاکاسروے کیاجس میں چند مہینے لگے۔ا س کے بعد اس نے مذکورہ کمپنی کوبذریعہ خط مطلع کیاکہ پورے امریکامیں سب سے زیادہ موزوں نوجوان جو اس کام کے لیے ملاہے وہ صرف ایک ہے اوریہ نوجوان وہی تھا جس کااوپر ذکر کیاگیا۔
یہ جناب صغیر احمداسلم (پیدائش ۱۹۳۶)تھے جواب لاس اینجلیز (Los Angeles)میں رہتے ہیں۔ان کومذکورہ کمپنی کی طرف سے بایر کے اس عہدہ کی پیش کش کی گئی جس کووہ منظور نہ کرسکے۔کیوں کہ اب وہ خود اپنے کاروبار میں اتنامشغول ہوچکے تھے کہ انہیں اورکسی کمپنی میں ملازمت کی ضرورت نہ تھی۔وہ امریکامیں آباد مسلمانوں کے درمیان ان محدود افراد میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے زیروکے مقام سے آغاز کرکے یہاں ایسی ترقی حاصل کی جو بہت سے لوگوں کے لیے قابلِ رشک ہے۔ترقی کا یہ سفر انہوں نے کیسے طے کیااس کاخلاصہ دولفظ میں یہ ہے---محنت اوردیانت داری۔
ان کی یہ داستان بہت لمبی ہے۔انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہرآدمی بڑی سے بڑی ترقی کرسکتاہے۔شرط یہ ہے کہ وہ اس ترقی کی مطلوب قیمت اداکرنے کے لیے تیار ہو۔
مثلاً ۱۹۶۱میں انہوں نے مختلف دفتروں اورکمپنیوں میں کام حاصل کرنے کی کوشش کی مگرکوئی انہیں کا م دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔اس کاسبب غالباً وہی چیز تھی جس کوعام طور پر تعصب کہاجاتاہے۔کمپنی والوں کوپاکستان وغیرہ کے لوگ بیرون امریکی (Foreigner)دکھائی دیتے تھے جب کہ ان کاخیال تھا کہ کوئی امریکی آدمی ان کے لیے زیادہ مفید ہوسکتاہے،نہ کہ غیر امریکی آدمی۔
صغیر اسلم صاحب نے اپنی محنت اوردیانت داری کے ذریعہ یہ ثابت کردیاکہ وہ کمپنی کے لیے ایک نہایت مفید کارکن ہیں۔چناں چہ ان کے کام پرایک ہفتہ گزراتھاکہ کمپنی والوں نے اُن کی باقاعدہ تنخواہ مقرر کردی۔صغیر اسلم صاحب اس کمپنی میں ۱۱؍سال (۱۹۶۱۔۱۹۷۲)رہے۔کمپنی والوں نے ان کے ساتھ نہایت عزت کا سلوک کیا۔ہرسال ان کی تنخواہ بڑھاتے رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے خود اپنی مرضی سے ان کے کام کوچھوڑاتوانہیں کمپنی سے ملنے والی ماہانہ رقم پہلے سال کے مقابلے میں پچیس گنازیادہ ہوچکی تھی۔
صغیر اسلم صاحب نے اس کمپنی میں اپنے عمل سے کتنازیادہ اعتماد پیداکرلیاتھااس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہوتاہے۔ایک بار ایساہواکہ کمپنی کے مالک(Boss)سے ان کاسخت اختلاف ہوگیا۔یہ باس جیب اسٹورٹ مارمڈر (Jeb Stuart Magrmder)ان سے ایک ایساکام کراناچاہتاتھاجوصغیر اسلم صاحب کے نزدیک اصول کے خلاف تھا۔چناں چہ انہوں نے صاف انکار کردیا۔جب بحث بڑھی تووہ یہ کہہ کر اس کے پاس سے اٹھ گئے کہ میں آج ہی اپنااستعفیٰ (Resign)کمپنی کودے دوں گا۔جس کام کو میں اصول کے خلاف سمجھتاہوں،اس کوکرنامیرے لیے ممکن نہیں۔یہ کہہ کروہ آفس سے اٹھ گئے۔ ابھی وہ آفس کے بیرون دروازے پر پہنچے تھے کہ باس اپنی کرسی سے اُٹھ کرآیااوراصرار کرکے ان کوواپس لے گیااوران سے کہاکہ آپ ہماری کمپنی کوہرگز نہ چھوڑیں:
Company needs you. We can not afford to lose you.
آپ آزادی کے ساتھ اپناکام کریں۔آج کے بعد میں کبھی آپ کے کسی کام میں مداخلت نہ کروں گا۔
صغیر اسلم صاحب کامزاج اورطریق کار عام لوگوں سے بہت مختلف ہے۔چناں چہ کئی لوگ ان کو ایک منفرد انسان (man with a difference)کہتے ہیں۔خود وہ اپنے بارے میں مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ خدانے مجھ کو پیداکیااورپھر اس سانچے کوپھینک دیا:
God Almighty made me and threw the mould away.
میں نے صغیر اسلم صاحب کو بہت قریب سے دیکھاہے۔میرااحساس یہ ہے کہ وہ اس ہندی مقولے کے مصداق ہیں کہ سادھاڑن گُنوں سے اَسادھاڑن منُش بنتے ہیں۔
مجھے ذاتی طورپر اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کسی آدمی کے اندرطلسماتی صفات ہوں یاوہ کراماتی شعبدے دکھاتاہو۔اسی طرح مجھے اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ کوئی آدمی شاندار گفتگوکرناجانتاہو۔وہ ہائی پروفائل (High Profile)میں کلام کرے اوربڑے بڑے اقدامات کاکارنامہ دکھائے۔مجھے اس سے بھی دلچسپی نہیں کہ کوئی شخص حکمرانوں کوللکارے اورچیلنج (challenge)کی زبان بولے۔یہ چیز بھی مجھے متاثر نہیں کرتی کہ کوئی شخص ایسے کام کرنے کاماہر ہوجومیڈیامیں نمایاں ہواورعوام کی بھیڑاس کے گرد اکھٹاہوجائے۔اس قسم کی تمام چیزوں کو میں سطحیت سمجھتاہوں،اورسطحیت سے مجھے اس قدر بیزاری ہے کہ ایسی چیزوں کاتذکرہ کرناہی مجھے پسندنہیں۔
صغیر اسلم صاحب کی شخصیت جس بناپر مجھے قابلِ تذکرہ نظر آئی وہ یہ کہ ان کی زندگی میں ہر انسان کے لیے سبق ہے۔ان کی زندگی فطرت کے سادہ اصولوں پر عمل کرکے بنی ہے۔ان کی زندگی کے اصول اتنے زیادہ سادہ ہیں کہ کوئی بھی شخص ان پر عمل کرسکتاہے۔جس طرح خود انہوں نے ان پر عمل کیااورپھر ترقی حاصل کی۔
مثا ل کے طور پر ان کی زندگی کا ایک سادہ فارمولاوہ ہے جس کو میں پازیٹیوایڈ جسٹمنٹ (Positive adjustment)کہتاہوں۔ ان کاحال یہ ہے کہ وہ کسی سے کوئی معاملہ کررہے ہوں گے اورپھر درمیان میں وہ آدمی ایک مختلف بات کہہ دے گا۔ایسی حالت میں صغیر اسلم صاحب اس آدمی سے الجھنے کے بجائے یہ کہیں گے کہ چلو،یہ بھی ٹھیک ہے اورپھر ایک لمحے میں بات ختم ہوجائے گی۔مثلاًاگر میں کسی دن صبح کے وقت ان کے گھر پہنچوں اوروہ میرے لیے اگلے ویک انڈ (weekend)کا پروگرام بنانے لگیں،پھر میں کہوں کہ مجھے آج ہی شام کو واپس جاناہے تووہ فوراً کہیں گے،چلویہ بھی ٹھیک ہے۔اس کے برعکس اگر میں ان کے گھر جاؤ ں اوران سے کہوں کہ مجھے آپ کے ہاں ایک ہفتہ رہناہے،تب بھی وہ صرف یہ کہہ دیں گے،چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔
’’چلو یہ بھی ٹھیک ہے ‘‘کایہ فارمولاان کے لیے بے حد مفید ہے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اس ذہنی ٹینشن سے پوری طرح بچے رہتے ہیں جس میں بیشتر لوگ مبتلانظر آتے ہیں۔اپنے اس فارمولے کی بناپر غصہ اورجھنجھلاہٹ،مایوسی اوربُز دلی جیسی منفی چیزیں ان کے دل میں جگہ نہیں پاتیں۔ان کو وہ نعمت پوری طرح حاصل ہے جس کو ذہنی سکون (mental peace)کہاجاتاہے۔مثلاً شعبان کی آخری تاریخ کی شام کو میں ان کے یہاں بیٹھا ہواتھا۔ہم لوگ کسی موضوع پر گفتگوکررہے تھے۔درمیان میں انہوں نے کہاکہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں تھوڑی نیند لے لوں۔اس کے بعد وہ گئے اورتھوڑی دیر سو کر ٹھیک مقرر وقت پر واپس آگئے۔اپنے ذہن کوغیر ضروری باتوں سے خالی رکھنے کا یہ فائدہ ہے کہ وہ رات کوسکون کی نیند سوتے ہیں۔
ان کاہاضمہ ٹھیک کام کرتاہے۔وہ اعصابی تناؤ سے بالکل محفوظ ہیں۔۶۵سال کی عمر ہونے کے باوجود وہ جوانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔اوریہ سب اس سادہ فارمولے کا نتیجہ ہے کہ ---چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔
اسی طرح ان کا ایک خیال یہ ہے کہ مخالفانہ باتوں کو برداشت کرنے سے آدمی کے گناہ کم ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ تم میرے خلاف جتنی زیادہ باتیں کرو گے اتنے زیادہ میرے گناہ معاف ہوں گے۔ چناں چہ وہ اپنے مخالفین کے بارے میں اطمینان سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ تم میرے خلاف باتیں کرکے میر ے گناہوں پر جھاڑولگاتے رہو۔ اس فارمولے کافائدہ ان کو یہ ملاہے کہ اُن کوکسی شخص کے خلاف نفرت نہیں ہوتی،خواہ وہ شخص ان کے خلاف کتنی ہی زیادہ نفرت کی باتیں کرنے میں لگاہواہو۔
صغیر اسلم صاحب کے ساتھ وہی مسئلہ ہے جوہر اس آدمی کے ساتھ ہوتاہے جوزیاد ہ ترقی کرجائے۔چناں چہ بہت سے لوگ جوترقی کی دوڑ میں صغیر اسلم صاحب سے پیچھے رہ گئے وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اُن کے خلاف حسد میں مبتلارہتے ہیں۔ اس کا اظہا ر باربار مختلف شکلوں میں ہوتارہتاہے۔
یہ حاسدین اپنے مخالفانہ پر وپیگنڈے میں مصروف تھے۔مگر صغیر اسلم صاحب نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ایک دن ان کے پاس ایک شخص آیااوراُن سے کہاکہ فلاں آدمی آپ کے خلاف ایسی ایسی باتیں کہہ رہاہے،اورآپ اس کے جواب میں کچھ نہیں کرتے۔صغیر اسلم صاحب نے کسی شکایت کے بغیر معتدل انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا’’یہ ان کاپرابلم ہے،میراپرابلم تونہیں۔‘‘
اسی قسم کے سادہ اورفطری اصول ہیں جن کے ذریعہ صغیر اسلم صاحب نے اپنی کامیاب زندگی کی تعمیر کی ہے۔میں سمجھتاہوں کہ کامیاب زندگی کا اصلی اورحقیقی فارمولایہی ہے۔جوبڑی بڑی باتیں کرتاہے اورشاندار اسٹیج پردکھائی دیتاہے وہ صرف ایک لیڈری ہے۔اس قسم کی لیڈری سے کچھ افراد کو شہرت اورعظمت توضرورمل جاتی ہے،مگریہ کچھ افراد کی ذاتی کامیابی ہے جو انہیں اس قیمت پر ملتی ہے کہ قوم تباہی اوربربادی کا شکار ہوکررہ جائے۔
میرے نزدیک صغیر اسلم صاحب جیسے غیر لیڈر افراد ہی اس قابل ہیں کہ انہیں حقیقی لیڈری کا کریڈٹ دیاجائے۔صغیر اسلم صاحب نے اپنی زندگی کی تعمیر کرکے دوسروں کو تعمیر کا راستہ دکھایا۔اس کے برعکس جولوگ شہرت اورعظمت کے آسمان پرنظر آتے ہیں،وہ صرف تخریب کا انعام پانے کے مستحق ہیں،کیوں کہ باعتبارنتیجہ انہوں نے اس کے سواکوئی اورکارنامہ انجام ہی نہیں دیا۔
اوربلاشبہ زندگی کی کامیابی کا ایک راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خارجی حالات کاشکار نہ ہونے دے،وہ خود اپنے اصولوں کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔صغیر اسلم صاحب کے اندریہ امتیازی صفت ہے کہ وہ وقتی حالات کا اثر قبول نہیں کرتے۔وہ خود اپنے سوچے سمجھے اصولوں کی بنیاد پر اپنی زندگی کا نقشہ بناتے ہیں۔
امریکامیں رہنے والے مسلمان عام طورپر یہاں کے کلچرکے مطابق، کوٹ پتلون کالباس اختیار کرلیتے ہیں۔مگرصغیر اسلم صاحب یہاں بھی زیادہ ترکرتہ اورشلوار پہنتے ہیں۔یہاں اکثر ہندستان اورپاکستان کے لوگوں کی طرف سے انٹرٹینمنٹ کے پروگرام ہوتے ہیں جن میں قوالی،مشاعرہ،رقص وسرودجیسے تفریحی آئٹم ہوتے ہیں۔لوگ مہنگے ٹکٹ لے کر بڑی تعداد میں ان پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔ مگرصغیر اسلم صاحب ایسے پروگرام میں شرکت نہیں کرتے۔حتیٰ کہ اگرکوئی شخص اپنی طرف سے ٹکٹ لاکراُنہیں دے دے تب بھی وہ وہاں نہیں جاتے۔میں سمجھتاہوں کہ یہ طریقہ اپنی بااصول شخصیت کومحفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔مگریہاں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس بے اصولی سے بچے ہوئے ہوں۔
اسی طرح شادیوں کی دھوم جوہندستان اورپاکستان میں ہوتی ہے وہ مزید اضافہ کے ساتھ امریکامیں بھی موجود ہے۔مگرصغیر اسلم صاحب اس معاملہ میں بھی اپنی انفرادیت کوباقی رکھے ہوئے ہیں۔یہاں کے عام مسلمان اپنی شادیوں کی تقریبات بڑے بڑے ہوٹلوں یاکمیونٹی سینٹرمیں نہایت مسرفانہ انداز میں کرتے ہیں۔مگرصغیر اسلم صاحب نے اپنی بڑی لڑکی کی شادی خود اپنے گھر پر کی اورسادہ انداز میں اُس کو انجام دیا۔
شادیوں کی دھوم کے معاملہ میں ہندستان اورپاکستان کے مسلمان اگربدعت میں مبتلاہیں توامریکاکے مسلمان بھی اس معاملہ میں سُپربدعت کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔یہاں اس معاملہ میں تین رسمیں یکساں شان وشوکت کے ساتھ منائی جاتی ہیں۔سب سے پہلے منگنی، جس میں پوری دھوم کے ساتھ ہونے والے شوہر اوربیوی ایک دوسرے کوانگوٹھی پہناتے ہیں۔اس کے کچھ عرصہ بعد نکاح کی تقریب ہوتی ہے جس میں دوبارہ تمام رسمیں اداکی جاتی ہیں۔اس کے کچھ عرصہ بعد رخصتی کی رسم اداکی جاتی ہے جس کی مسرفانہ دھوم کودیکھناکسی صاحب ِذوق آدمی کے لیے ایک سزاسے کم نہیں۔
عجیب بات ہے کہ اسی امریکامیں یہاں کے عیسائیوں کی اکثریت نہایت سادگی کے ساتھ اپنی شادی کی تقریب اداکرتی ہے۔مگراسی ملک میں مسلمانوں کامعاملہ بالکل برعکس ہے۔برصغیر ہند کے مسلمان ہندستان کے ہندوؤ ں سے نفرت کرتے ہیں۔مگریہی مسلمان ہندستان اورپاکستان میں اوراسی طرح باہر کے ملکوں میں شادی کے معاملے میں ہندوؤ ں کی رسموں کو مزید اضافہ کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں۔
۲نومبر۲۰۰۰کومیں امریکامیں تھا۔مجھ کوبتایاگیاکہ آج فلاں مسلمان کے لڑکے کی منگنی کی رسم ایک کمیونٹی سینٹرمیں ہورہی ہے۔لوگوں کے کہنے کی بناپر میں بھی وہاں چلاگیا۔میرامقصد اس کودیکھناتھانہ کہ شرکت کرنا۔وہاں یہ معلوم کرکے روحانی تکلیف ہوئی کہ عام قسم کی مسرفانہ دھوم کے علاوہ وہاں رقص وسرود بھی ہورہاتھا۔حتیٰ کہ ہونے والے شوہر اوربیوی نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنائی۔مزید یہ کہ یہ رمضان کے مہینہ کی پہلی رات تھی۔میں نے کہاکہ رمضان کے استقبال کا کیساانوکھاطریقہ ہے جس کویہاں کے مسلمانوں نے اختیار کیا ہے۔
صغیر اسلم صاحب اس طرح کی فضول رسموں سے بڑی حد تک بچے ہوئے ہیں۔اس کافائدہ یہ ہے کہ وہ اپنی بااصول شخصیت کومحفوظ رکھنے میں کامیاب ہیں۔
۱۹۸۷کی بات ہے،صغیر اسلم صاحب کی بڑی صاحبزادی صائمہ پروین اسلم امریکن نرسری اسکول سے پڑھ کرآئی۔گھرواپس آکربچی کی زبان سے ایک لفظ نکلا۔یہ ایک گندالفظ تھا جس کو اس نے اسکول میں سناتھا۔صغیر اسلم صاحب نے جونہی بچی کی زبان سے یہ لفظ سناتوفوراًان کو احساس ہواکہ ہماری قوم کے چھوٹے بچے جو سیکولراسکولوں میں پڑھ رہے ہیں وہ وہاں نہایت غلط تربیت پارہے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیاکہ ہم کو ایک ابتدائی اسکول کھولناہے جہاں ہمارے بچے بھی پڑھیں اوردوسرے مسلمانوں کے بھی۔
اسلامک سوسائٹی آف آرنج کاؤ نٹی اُس وقت صرف ایک مسجد پر مشتمل تھی۔پہلے یہاں ایک مسیحی چرچ تھا۔اس کوخرید کرمسجد کی صورت دے دی گئی۔صغیر اسلم صاحب سوسائٹی کے ذمہ داروں سے ملے اورکہاکہ ہمیں یہاں اپنے بچوں کے لیے ایک اسکول کھولناہے۔اس وقت لوگوں نے اس کوایک خیالی بات سمجھا۔کیوں کہ ظاہری حالات کے اعتبار سے سوسائٹی اس پوزیشن میں نہ تھی کہ وہ ایک اسکول کھول سکے۔
صغیر اسلم صاحب نے کہاکہ یہ مسئلہ وسائل کانہیں ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لیے یہاں دوسراکوئی انتخاب ہی نہیں:
We do not have any other choice, we must have a school.
صغیر اسلم صاحب کئی ہفتے تک سوسائٹی کے ذمہ داروں کے پاس جاتے رہے اوروہ لوگ ہرمیٹنگ میں اسکول کے مسئلہ کوٹالتے رہے یہاں تک کہ ایک ماہ سے زیادہ کاعرصہ گذرگیا۔آخرکار جب انہوں نے دیکھاکہ صغیر اسلم صاحب اپنااصرار جاری رکھے ہوئے ہیں:
He will not give up. He is persistent
انہوں نے کہاکہ اچھااگلے ماہ ہم اسکول کھول دیں گے۔اس کے بعد صغیر اسلم صاحب نے کہاکہ آپ میں سے کتنے لوگ گارنٹی دیتے ہیں کہ آپ اگلے ماہ تک زندہ رہیں گے۔یہ سن کر تمام لوگ چپ ہوگئے۔اورپھر کہاکہ ہم اسکول کھولنے کے لیے تیار ہیں مگرہمارے پاس نہ زمین ہے اورنہ بلڈنگ اورنہ ہی استاذ۔صغیر اسلم صاحب نے کہاکہ ہمارے پاس جومحدودجگہ ہے اسی پرہم اپنااسکول شروع کردیں گے۔ اورجہاں تک ٹیچرکاسوال ہے تومیں اورمیری بیوی رضاکارانہ طورپر ٹیچربننے کے لیے تیار ہیں۔
اس کے بعد ۱۹۸۸میں مسجد کے ساتھ ہی ایک کمرے میں اسکول کاآغاز کردیاگیا۔صغیر اسلم صاحب نے نہ صرف خود بلکہ اپنے احباب کے ذریعہ مسلسل اس اسکول کے لیے ہرقسم کاتعاون فراہم کیا۔یہاں تک کہ آج وہ ایک معیاری اسکول کی صورت اختیار کرچکاہے۔ اس کی اپنی مستقل بڑی عمارت ہے۔آٹھویں کلاس تک کی تعلیم ہوتی ہے۔اس میں ۶۰۰سے زیادہ اسٹوڈنٹ ہیں اور۲۱ٹیچرکام کررہے ہیں۔ اب صغیر اسلم صاحب کااگلاخواب یہ ہے کہ وہ اس ادارہ کوایک معیاری اسلامک یونیورسٹی بنادیں۔اورحالات جس طرح ترقی کررہے ہیں،بظاہر ایساہوناکوئی بعیداز قیاس بات نہیں۔
۲۹نومبر۲۰۰۰کومجھے یہ کہانی معلوم ہوئی تومجھے ایک عرب شیخ کاقول یا دآیاجس نے کہاتھا: رَجُلٌ ذُو هِمَّةٍ، يُحْيِي أُمَّةً (ایک باہمت آدمی پوری قوم کو زندہ کردیتاہے)حقیقت یہ ہے کہ کوئی بڑاکام ہمیشہ ایک ہی آدمی کرتاہے۔ بڑاکام کرنے کی شرط یہ ہے کہ انسان کے دل میں اس کی آگ لگ جائے۔اس قسم کی آتشیں تڑپ کسی ایک فرد ہی میں پیداہوتی ہے نہ کہ انسانوں کے کسی مجموعے میں۔تڑپ اورلگن والے ایک انسان کاوجود میں آنااس بات کی ضمانت ہے کہ افراد اوروسائل اس کے گرد جمع ہوجائیں اوروہ ان کو لے کر ہیروانہ انداز میں اپنے خواب کو واقعہ بناسکے۔
۱۹۹۲کا واقعہ ہے۔اسلامک سوسائٹی آف آرنج کاؤ نٹی میں عید کااجتماع تھا۔تقریباً تین ہزار مسلمان موجود تھے۔صغیر اسلم صاحب نے سوسائٹی کے چیر مین کی حیثیت سے تقریر کی۔اپنی تقریر کے درمیان انہوں نے کہاکہ امریکاہم کو اپنے دین کے کام کے لیے ایسے مواقع دیتاہے جو اس وقت کسی دوسرے ملک میں نہیں،حتیٰ کہ مسلم ملکوں میں بھی موجود نہیں۔اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک امریکی مسلمان ہوں۔
I am proud to be an American Muslim.
اس تقریر کے بعد کچھ حاضرین صغیر اسلم صاحب سے سخت ناراض ہوئے۔کچھ نے کہاکہ آپ امریکاکے پٹھوہیں۔آپ ایک نان مسلم ملک کی تعریف کررہے ہیں۔آپ اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے صغیر اسلم صاحب کوپکڑ کران کاگلاگھونٹ دیناچاہااورکہاکہ تم سوسائٹی کے چیر مین بننے کے قابل نہیں ہو۔
یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کاعام مزاج ہے۔میں نے انڈیامیں ایسے بہت سے مسلمان دیکھے ہیں جوامریکاسے نفرت کی باتیں کرتے تھے۔ان کے نزدیک امریکاہرقسم کی برائیوں کااڈہ ہونے کے علاوہ اسلامی ملکوں کادشمن بھی تھا۔اس کے باوجود ان کاحال یہ ہواکہ پہلاموقع ملتے ہی انہوں نے اپنے بیٹے یابیٹی کو امریکابھیج دیا۔میں حیران ہوں کہ یہ کردار کی کون سی قسم ہے۔لوگوں کو یاتوامریکاکی برائی نہیں کرناچاہیے یااگروہ اس کو برابتاتے ہیں تو اپنے بچوں کے مستقبل کی تعمیر امریکامیں نہیں کرناچاہیے۔
صغیر اسلم صاحب کامکان مسجد سے قریب ہے۔۲رمضان کی شام کوہم لوگ مسجد گئے۔وہاں عشاء کی نماز اورتراویح کی نماز پڑھی گئی۔
یہاں کی تراویح ہندستان کی تراویح سے بہت مختلف تھی۔لوگ اپنے آپ نظم کے ساتھ صفوں میں کھڑے ہوگئے۔قاری نے ترتیل کے ساتھ قرآن کے ایک حصہ کی تلاوت کی۔داخلی لاؤ ڈاسپیکرکاانتظام بہت اچھاتھا۔نماز کے بعد مجھ سے درس کے لیے کہاگیا۔میں نے نماز کے بعد مختصر درس دیا۔
میں نے کہاکہ تراویح دراصل تہجد کی جماعتی صورت ہے جس کولوگوں کی سہولت کی خاطر مقدم کرکے عشاء کے بعد رکھ دیاگیاہے۔تہجد کی نماز کوقرآن میں نافلہ کہاگیاہے۔یعنی مزید نماز۔یہی تراویح کی حیثیت بھی ہے۔تراویح کااصل مقصد یہ ہے کہ عبادت کی حالت میں قرآن کوسننا،تا کہ وہ زیادہ موثر ہوسکے۔
میں نے دیکھاکہ آٹھ رکعت پوری ہونے کے بعد تقریباً نصف نمازی مسجد سے چلے گئے۔میں نے کہاکہ تراویح میں اصل چیز رکعت نہیں بلکہ قرآن کوسننا ہے۔میں ذاتی طورپر ۲۰رکعت کے بجائے آٹھ رکعت کوزیادہ پسند کرتاہوں۔مگرایساکرنادرست نہیں کہ ایک مسجد جہاں ۲۰رکعت کی تراویح ہورہی ہوآٹھ رکعت پڑھ کرآپ وہاں سے چلے جائیں۔ایساکرنے کامطلب یہ ہے کہ قرآن کے بقیہ حصہ کوآپ نے نہیں سنا۔جولوگ آٹھ رکعت کی صورت میں تراویح پڑھناچاہتے ہوں انہیں اس کاعلاحدہ انتظام کرناچاہیے اورآٹھ رکعت کی شکل میں پورے قرآن کوسننا چاہیے۔اس معاملے میں جوانتخاب ہے وہ صرف آٹھ رکعت یابیس رکعت میں نہیں ہے،بلکہ اس میں ہے کہ آپ یاتوآٹھ رکعت میں پوراقرآن سنیں یابیس رکعت میں پوراقرآن سنیں۔اس معاملے میں کوئی تیسری صورت نہیں۔
صغیر اسلم صاحب نے بتایاکہ پچھلے تقریباً۴۵سال کے دوران مسلسل ان کی ڈیلنگ یہاں کے سفید فام اوردوسرے لوگوں کے ساتھ رہی ہے۔اس دوران انہیں سفید فام لوگوں کوبہت قریب سے جاننے کاموقع ملا۔انہوں نے کہاکہ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ یہاں کے سفید فام لوگ بہت دیانتدار (honest people)ہیں۔وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔وہ اپنی ڈیوٹی پوری طرح انجام دیتے ہیں۔وہ کسی کودھوکہ نہیں دیتے۔وہ اپنی غلطی کوفوراً مان لیتے ہیں۔اگر کسی معاملے میں ان کی رائے پوچھی جائے تووہ ہمیشہ سنجیدگی کے ساتھ بات سنیں گے اورسنجید گی کے ساتھ اُس کاجواب دیں گے۔
میں نے اب تک امریکاکے ۱۲سفر کیے ہیں اورمیں نے اپنے تجربہ کے دائرے میں صرف چند ایسے مسلمان پائے ہیں جن کوامریکیوں سے نفرت نہ ہو بلکہ وہ ان کو پسندکرتے ہوں۔ان میں سے ایک صغیر اسلم صاحب ہیں۔وہ امریکاکواپناملک سمجھتے ہیں اورامریکیوں کواپنی قوم۔اس لیے ان کے دل میں امریکیوں کے لیے عزت واحترام کے جذبات ہیں نہ کہ نفرت اورانتقام کے جذبات،جیساکہ دوسرے اکثر لوگوں کاحال ہے۔
امریکامیں آج کل ایک ہزار سے زیادہ اسلامک سنٹر ہیں۔ان میں سے کئی سنٹر میں نے خود دیکھے ہیں اوربہت سے سنٹروں کے بارے میں دوسروں سے معلومات حاصل ہوئی ہیں۔میں نے صغیر اسلم صاحب سے کہاکہ یہ تمام سنٹراپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام کے سنٹرنہیں ہیں بلکہ وہ سوشلائیزیشن کے سنٹرہیں۔دوسرے ملکوں سے آنے والے مسلمان یہاں کی سوسائٹی میں شامل نہیں ہوپاتے۔چناں چہ وہ سماجی علاحدگی کے احساس کاشکار رہتے ہیں۔اس سماجی کمی کوپوراکرنے کے لیے وہ سنٹربناتے ہیں۔یہاں چھٹی کے دنوں میں مرد،عورت اوربچے بڑی تعداد میں اکٹھاہوتے ہیں۔ صغیر اسلم صاحب نے میری اس رائے سے اتفاق کیا۔انہوں نے کہاکہ میں خود بھی مسلمان مردوں اورعورتوں سے یہ بات کہاکرتاہوں کہ آپ لوگ ان سنٹروں میں سوشلائیزکرنے کے لیے آتے ہیں نہ کہ واقعی معنوں میں اسلام کے لیے۔
پھر میں نے کہاکہ اس طبقے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بظاہر نہایت سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں،مگران کامعاملہ بھی یہ ہے کہ وہ شعوری یاغیر شعوری طورپر اسلام کوایک کلچرکے روپ میں دیکھتے ہیں اورمسلمانوں کی کلچرل پہچان (cultural identity)کو باقی رکھنے کے لیے وہ اس قسم کے ادارے بناتے ہیں۔
اس قسم کے تصوردین میں بیک وقت دونقصانات ہیں۔ایک یہ کہ وہ اسلام کے نام پر ظاہر ی دھوم برپاکرنے کے باوجود حقیقی اسلام سے محروم رہتے ہیں۔انہیں کبھی اصلی اسلام کاتجربہ نہیں ہوتا۔
اس کادوسرانہایت سنگین نقصان یہ ہے کہ ایسے مسلمانوں کے اندراپنی دعوتی ذمہ داری کا احساس بالکل ختم ہوجاتاہے۔وہ نفسیاتی طورپر غیر مسلموں سے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ان کی ساری سرگرمیاں صرف اپنے لوگوں کے اندر رہتی ہیں۔ان کے سارے پروگرام اپنے لوگوں کے ساتھ بنتے ہیں۔غیر مسلموں سے ان کی ملاقات زیادہ سے زیادہ سروس اوربزنس کی نسبت سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سارے روابط اورتعلقات ہمیشہ اپنوں کے درمیان قائم ہوتے ہیں۔غیر مسلم سرے سے ان کاکنسرن (concern)ہی نہیں ہوتے۔ایسی حالت میں غیر مسلموں میں اسلام کاپیغام پہنچانے کاجذبہ پیداہونے کاکوئی سوال ہی نہیں۔
۲۸نومبر۲۰۰۰کو صغیر اسلم صاحب کے مکان پریہاں کے مختلف تعلیم یافتہ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔مثلاً ڈاکٹر حبیب اللہ خاں،صفی قریشی صاحب،ظفراقبال خاں صاحب،وغیرہ۔ان لوگوں سے تفصیلی باتیں ہوئیں۔بعد کو میں نے صغیر اسلم صاحب سے لوگوں کاتاثر پوچھا۔
انہوں نے کہاکہ میرے نزدیک سب سے زیادہ خاص بات یہ تھی کہ آج آپ کی گفتگوسے یہ معلوم ہواکہ اسلام نام ہے ----اللہ تعالیٰ کوڈسکور(discover)کرنا،اس کے لیے سب سے زیادہ محبت ہونا،اللہ کواپناسب سے بڑاکنسرن (concern)بنانا۔
انہوں نے کہاکہ ہرایک اصولی طورپر اس سے متفق تھا۔تاہم ہرایک کے سامنے یہ سوال تھاکہ اس مقصد کوکس طرح حاصل کیاجائے۔ میں سمجھتاہوں کہ اس کاموقع بروقت ہی آدمی کوحاصل ہے۔ہرآدمی کے دل میں فطری طورپر یہ جذبہ ہے کہ وہ کسی کواپناسب سے زیادہ محبوب بنائے۔لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اس فطری جذبہ کامرکز اللہ کے سواکسی اورکوبنالیتے ہیں۔اب ان کو یہ کرناہے کہ وہ دوسری چیزوں کوچھوڑ کر صرف اللہ کواپنامرکزتوجہ بنائیں۔ایک سوال یہ کیاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوپیداہی کیوں کیا۔اس کی کیاضرورت تھی کہ انسان جیسی ایک مخلوق دنیامیں آئے۔وہ امتحانی حالات میں زندگی گزارے۔اورپھر تھوڑے سے لوگ امتحان پاس کرکے جنت کے حق داربن جائیں اوربہت سے لوگ ناکام ہوکرجہنم میں ڈال دیے جائیں۔
میں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہواکہ وہ ایک ایسی دنیابنائے جواللہ کی اپنی ذات کوچھوڑ کر ہردوسری چیز سے بہتر ہو،یعنی جنت،اورپھرکچھ لوگوں کو یہ موقع دے کہ وہ جنت کی اس معیاری دنیامیں خوشیوں اورراحتوں کی ابدی زندگی گذارسکے۔اس جنت میں بسانے کے لیے اس نے وہ بہتر ین نقشہ بنایاجس سے بہتر نقشہ اورکوئی نہیں ہوسکتاتھا۔یعنی انسان کوپیداکرکے اُسے مکمل آزادی دی جائے اورپھر جوافراد اس اعلیٰ صلاحیت کاثبوت دیں کہ وہ آزادی کے باوجود اللہ کے پابندبن کررہیں۔یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بے اعترافی کااختیار رکھتے ہوئے اعتراف کاثبوت دیا۔کسی جبرکے بغیرانہوں نے خود اپنافیصلہ لے کر صحیح اورمطلوب زندگی گذاری توایسے لوگوں کو جنت میں قیام کے لیے منتخب کیاجائے۔
یہاں کاانگریزی روزنامہ لاس اینجلیزٹائمس کاشمارہ (۲۹نومبر۲۰۰۰)دیکھا۔صفحہ اول پر اس میں ایک رپورٹ انسانی دماغ (Brain)پرتھی۔اس ریسرچ میں برین اسکیننگ کی جدید ٹکنیک (FMRI)استعمال کی گئی تھی۔اس کامقصد یہ جاننا تھا کہ جب ان کو کچھ بتایاجائے یاپڑھ کرسنایاجائے تو ان کے دماغ میں کس قسم کی اعصابی حرکات ہوتی ہیں۔
Using a brain scanning technique called Functional Magnetic Resonance Imaging (FMRI) the work does highlight the differences in natural activity between men and women listening to something read aloud.
اس ریسرچ کے ذریعے یہ معلوم ہواہے کہ مرد اپنے دماغ کے صرف ایک جانب سے سنتے ہیں جب کہ عورتیں اپنے دماغ کے دونوں سمت کو استعمال کرتی ہیں۔
Research released Tuesday shows that men listen with one side of their brains, while women use both sides.
اس ریسرچ میں ۱۰؍تندرست مرد اور۱۰؍عورتوں پر تجربات کیے گئے۔اس ریسرچ سے معلوم ہواکہ مرد اورعورت کے دماغ یقینی طورپر یکساں نہیں ہیں:
They are definitely not the same---in size, sense or sensibilities.
۲۹نومبرکی شام کو صغیر اسلم صاحب کے ساتھ ڈاکٹر مزمل صدیقی کے گھر گیا۔انہوں نے افطارپربلایاتھا۔وہاں ان کے بیٹے اورداماد موجود تھے جواعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ان لوگوں سے دیر تک مفید گفتگوہوتی رہی۔ڈاکٹرصدیقی نے کہاکہ موجودہ حالات میں آپ کے نزدیک مسلمانوں کوکیاکرناچاہیے۔میں نے کہاکہ مسلمان اگرصرف یہ کریں کہ وہ کچھ نہ کریں تویقینی طورپر وہ کامیاب رہیں گے۔اسلام کی اصل طاقت اس کی آئیڈیالوجی(ideology)ہے۔یہ آئیڈیالوجی فطرت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ہرانسان کواپیل کرتی ہے۔مگرموجودہ زمانے کے مسلمان ہرجگہ یاتونفرت کی باتیں کرتے ہیں یاتشددکوپھیلاتے ہیں۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ غیر مسلم لوگ معتدل انداز میں اسلام پر غورنہیں کرپاتے۔
ایک صاحب نے کہاکہ نفرت کی فضاپیداکرنے والاموجودہ میڈیاہے۔میں نے کہاکہ مجھے اس سے اتفاق نہیں۔میڈیاہاٹ نیوز(Hot News)کورپورٹ کرنے کی انڈسٹری ہے۔اس کو سافٹ نیوز سے کوئی دلچسپی نہیں۔چناں چہ اپنے اس مزاج کی بناپر وہ لوگ مسلمانوں کی نفرت اورتشددکی باتوں کونمایاں کرتے ہیں۔اس کاحل یہ نہیں ہے کہ آپ میڈیاکوبُراکہیں۔اس کاحل صرف یہ ہے کہ آپ ہرحال میں پُرامن انداز کاطریقہ اختیار کریں تاکہ میڈیاکویہ موقع ہی نہ ملے کہ وہ آپ کی متشدّدانہ خبروں کو لے کر دنیامیں آپ کی تصویر کوبگاڑ ے۔
ایک اورسوال کے جواب میں میں نے کہاکہ فلسطین اورکشمیر جیسے مقامات پر مسلمانوں کے لیے ایک ہی ممکن حل ہے اوروہ یہ ہے کہ وہاں صورت ِموجودہ (statusquo)کوقبول کرلیاجائے۔ ان مقامات کے مسلمانوں کے لیے جوانتخاب ہے وہ صورتِ موجودہ اورتباہی کے درمیان ہے نہ کہ صورتِ موجودہ یاکسی نئی صورت کے درمیان۔
اس مجلس میں امریکاکے مقبول مقررین،سراج وہّاج اورحمزہ یوسف وغیرہ کابھی تذکرہ ہوا۔لوگوں نے ان کی تقریر کی تعریف کی۔ایک نوجوان حمزہ یوسف کوبہت پسندکرتے تھے۔ایک اورنوجوان سراج وہّاج کی بہت تعریف کررہے تھے۔
میں نے دونوں سے پوچھاکہ آپ لوگ اچھی طرح انگریزی جانتے ہیں اوران کی بہت سی تقریریں سنی ہیں،آپ بتائیے کہ ان کی تقریر کامغز (substance)کیاہوتاہے۔یایہ کہ ان کی تقریروں سے آپ کوکیامسیج ملاہے۔دونوں نوجوانوں میں سے کوئی بھی اس کاجواب نہ دے سکا۔
پھر میں نے کہاکہ میں نے ان لوگوں کی تقریریں سُنی ہیں یاتوبراہِ راست یاریڈیوپر۔میں سمجھتاہوں کہ ان لوگوں کی تقریریں ایک قسم کی ذہنی تفریح(intellectual entertainment)ہوتی ہیں۔ آپ اگر ان کوپسندکرتے ہیں توپسند کیجیے مگر ان کوداعی نہ کہیے۔کیوں کہ داعی وہ ہے جوسننے والوں کوکوئی واضح پیغام دے نہ کہ انہیں وقتی طورپر خوش کرے۔
ڈاکٹرصدیقی صاحب کے ہاں سے ہم واپس آئے تو صغیر اسلم صاحب کی صاحبزادی عائشہ پروین اسلم (عمر۱۶سال)نے کچھ سوالات کیے۔میں نے کہاکہ سوال کرنابہت اچھی عادت ہے۔
پھر میں نے کہاکہ لوگ عام طورپر صرف یہ جانتے ہیں کہ چیزوں میں صرف دوتقسیم ہے ---یاتووہ حلال ہوں گی یاحرام۔مگر یہاں ایک اورتقسیم ہے جواس سے زیادہ اہم ہے اوروہ ہے سطحیت اورغیر سطحیت۔
میں نے کہاکہ بہت سی چیزیں ہیں جوشرعی اعتبار سے حرام نہیں مگر ان سے صرف سستی تفریح حاصل ہوتی ہے۔جوآدمی کسی بلند مقصد کے لیے جیناچاہتاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی چیزوں کوچھوڑ دے۔حرام چیز اگراللہ کی نافرمانی ہے توسستی تفریح یاسستی لذت کی تفریح اپنے وقت کاضیاع۔
۱۹۷۲کی بات ہے، صغیر اسلم صاحب ایک سفر کے دوران لاس اینجلیز ایرپورٹ پر تھے۔ان کوسان فرانسسکوجاناتھا۔کہر(fog)کی وجہ سے جہاز لیٹ ہوگیا۔ائرپورٹ پر جہاں وہ بیٹھے تھے،پاس کی کرسی پر ایک اورمسافر بیٹھاہواتھا۔تعارف کے دوران اس نے بتایاکہ وہ ڈیرل لیمونکا(Daryl Lamonica)ہے جوکہ کوارٹربیک فارآکلینڈرائڈرس(Quarter Back For Oakland Raiders)ہے۔وہ امریکن فٹ بال کی دنیاکابہت بڑااورمشہور کھلاڑی ہے۔ائرپورٹ اوربعد میں ہوائی جہاز کے اندرلوگ اس کے پاس آتے رہے اورجھک کر اُس سے ملتے رہے۔ان کودیکھ کرایسامعلوم ہوتاتھاکہ وہ اپنے آپ کواتناخوش قسمت سمجھتے تھے کہ وہ ایک بڑے مشہور فٹ بال کھلاڑی سے مل رہے ہیں۔
مگر صغیر اسلم صاحب اُس سے ایک عام انسان کی حیثیت میں ملے۔اس نے صغیر اسلم صاحب سے کہاکہ آپ میری زندگی میں پہلے انسان ہیں جواس طرح مجھ سے مل رہے ہیں جیسے کہ ایک عام آدمی سے مل رہے ہوں۔ورنہ میں جہاں بھی جاتاہوں لوگ مجھے ہیروکے انداز میں دیکھتے ہیں اورمیراوالہانہ استقبال کرتے ہیں۔ صغیر اسلم صاحب اورڈیریل لیمونکاکاجہاز جب سان فرانسسکوپہنچاتوڈیرل لیمونکانے صغیر اسلم صاحب سے کہاکہ یہ میرابزنس کارڈ ہے اورگھر کافون نمبراس پر لکھ دیاہے۔بڑے لوگ عام طوپر گھر کانمبرکسی کونہیں دیتے اورکہاکہ جب بھی آپ سان فرانسسکوآئیں تومیرے یہاں ضرورآئیں۔ میں آپ کوفُٹ بال گیم دیکھنے کے لیے پہلی صف میں سیٹ لے کردوں گا۔ صغیر اسلم صاحب نے کہاکہ مجھے فُٹ بال کے گیم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
وہ صغیر اسلم صاحب کی شخصیت سے اتنازیادہ متاثر ہواکہ اس نے اپنی کارپربیٹھاکران کوایرپورٹ سے ان کے ہوٹل تک پہنچایااورپھر وہ اپنے گھرگیا۔آخرمیں رخصت ہوتے ہوئے اس نے دوبارہ کہاکہ اگرآپ کو فٹ بال سے انٹرسٹ نہیں ہے تب بھی آپ میرے گھرپرآئیں اورکم سے کم ایک وقت کاکھاناہمارے ساتھ کھائیں۔
اس طرح کے واقعات صغیر اسلم صاحب کے ساتھ باربار پیش آئے ہیں۔یہاں سوال یہ ہے کہ اس کی کیاوجہ ہے کہ ایک بڑاآدمی ان لوگوں کو اہمیت نہیں دیتاجواس کی بڑائی کااعتراف کرکے اس کوزبردست عزت دیتے ہیں۔اس کے برعکس صغیر اسلم صاحب جیساآدمی جوسرے سے اس کی بڑائی کا اعتراف ہی نہیں کرتااس کووہ اتنازیادہ قابل ِتوجہ سمجھتاہے اوراس کے ساتھ استثنائی طورپر خلوص کامعاملہ کرتاہے۔اس میں وہ اپنے آپ کوبڑااوردوسروں کوچھوٹاسمجھ رہاتھا۔مگر صغیر اسلم صاحب نے اس سے جومعاملہ کیااس میں اس کوخود اپناوجود چھوٹاہوتاہوانظرآیا۔اس کوشعوری یاغیرشعوری طورپرمحسوس ہواکہ دنیامیں کوئی ایساشخص بھی ہے جومیری عظمت کورد کررہاہے گویاکہ وہ مجھ سے بھی زیادہ بڑاہے۔
لوگ صرف یہ جانتے ہیں کہ بڑے آدمی کی بڑائی کااعتراف کرو تووہ تمہاراہوجائے گا۔مگرکسی بڑے آدمی کوجیتنے کازیادہ کارگرطریقہ یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے بالکل بے غرض بن جائیں اوراس سے ایسامعاملہ کریں جیسے کہ وہ آپ کی نظر میں صرف ایک معمولی انسان ہے نہ کہ کوئی بڑاانسان۔بشرطیکہ آپ نے سرکشی کی بناپر ایسانہ کیاہو۔
امریکاکے سفر میں مجھے ایک صاحب کے گھر جاناپڑا۔کھانے کی میز پر انہوں نے کہاکہ میری بیوی بہت اچھاکھاناپکاتی ہے،وہ ہم کوروزانہ لذیذ کھانے کھلاتی ہے۔میں نے کہاکہ یہ کسی بیوی کی کوئی اچھی تعریف نہیں۔بیوی کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ آپ کی زندگی کی ساتھی ہے نہ کہ صرف ایک عمدہ باورچی۔
پھرمیں نے بتایاکہ انڈیامیں ایک بار میں ایک صاحب کے ہاں گیا۔انہوں نے بھی آپ ہی کی طرح اپنی بیوی کی تعریف کی۔انہوں نے بتایاکہ ایک بار میں ایک پارٹی میں گیا۔واپس آیاتومیں نے اپنی بیوی سے پارٹی کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ وہاں کھانے کاہرآئٹم موجود تھا،مگروہاں آئس کریم نہیں تھی۔اس وقت رات کے گیارہ بج چکے تھے۔بیوی فوراًکھڑی ہوگئی۔انہوں نے کہاکہ آپ صرف چند منٹ ٹھہریے میں آپ کو ابھی آئس کریم بناکرکھلاتی ہوں۔چند منٹ بعد میز پر تازہ آئس کریم کی پلیٹ رکھی ہوئی تھی۔
میں نے کہاکہ آپ لوگ صرف کھانے کی لذّت کوجانتے ہیں۔مگر اس سے بھی بڑی ایک لذت ہے اوروہ ذہنی تبادلہ ٔخیال (intellectual exchange)کی لذت ہے۔اس لذت کوپانے کا سب سے بڑاذریعہ آدمی کی بیوی ہوتی ہے جو اُس کی سب سے زیادہ قریبی ساتھی ہے اورہر وقت اس کے لیے قابلِ حصول ہے۔
میں نے کہاکہ میں اس کوبھی ایک پیغمبرانہ سنت سمجھتاہوں۔آپ حدیث کی کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ کے اقوال پڑھیں توحیرت ہوتی ہے کہ ایک خاتون نے اتنی گہری باتوں کو کیسے جان لیا۔اس سے میں نے یہ سمجھاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عائشہ کے درمیان وہی چیز بار بار پیش آتی تھی جس کو میں انٹلیکچلول ایکسچینج کہہ رہاہوں۔چناں چہ ایک روایت کے مطابق، حضرت عائشہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے باتیں کرتے تھے۔(کان یحدّثنی)اس کامزید فائدہ یہ ہے کہ اس سے خیالات زیادہ واضح ہوتے ہیں۔نئی نئی باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔آدمی کے دماغ میں فکری عمل (thinking process)برابرجاری رہتاہے جومسلسل ذہنی ارتقاء کاذریعہ بنتاہے۔میں نے کہاکہ یہ انٹلیکچلول ایکسچینج ہرلذیذ ڈش سے زیادہ لذیذ ہے ----ولکن اکثر الناس لایعلمون (مگراکثر لوگ اس کو نہیں جانتے)۔
۶نومبر۲۰۰۰کوامریکاکاصدارتی الیکشن ہوا۔ایک طرف جارج ڈبلیوبش تھے،دوسری طرف الگورتھے۔جارج بش کے ووٹ صرف چند سوزیادہ تھے۔اس کے بعد دونوں کے درمیان وہی سیاسی جنگ شروع ہوگئی جوانڈیااورپاکستان جیسے ملکوں میں نظر آتی ہے۔دونوں میں سے کوئی بھی اپنی ہارماننے کے لیے تیار نہ تھا۔
ٹھیک یہی معاملہ یہاں ۱۹۵۹میں پیش آیاتھا۔اس وقت رچرڈنکسن (Richard Nixon)اورجان کینڈی (John Kennedy)کے درمیان مقابلہ تھا۔نکسن کو چند سوووٹ کم ملے تھے۔نکسن کو یہ موقع تھا کہ وہ اپنی ہار نہ مانے۔وہ قانونی نکتے نکال کراپنے آپ کوفاتح ظاہر کرنے کی کوشش کرے۔مگرنکسن نے یہ اعلان کردیاکہ میں اپنے ملک کے مفاد اوراپنی پارٹی کے نام کے لیے ہار تسلیم کرتاہوں:
I concede it for the sake of my country and my party.
کسی سیاسی نظام کی طاقت کاراز یہ ہے کہ اس کے لیڈر اپنی ہار ماننے کے لیے تیار ہوں۔جہاں ایساہوکہ ہرلیڈرصرف اپنی جیت کاجھنڈابلند کرناچاہے وہاں کبھی مضبوط سیاسی نظام نہیں بن سکتا۔
امریکامیں سوسال سے ایک ادارہ قائم ہے۔یہ ادارہ عیسائیوں اوریہودیوں نے قائم کیاتھاچناں چہ پہلے اس کانام یہ تھا:
National Conference for Christians & jews
اس ادارے کامقصد مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان میل ملاپ قائم کرناہے۔اس کاموٹویہ ہے:
We Open Minds.
بعد کواس کے بانیوں کو خیال ہواکہ اس ادارے میں مسلمانوں کوبھی شامل کرناچاہیے۔چناں چہ اس کانام بدل دیاگیا۔اس کاموجودہ نام یہ ہے:
The National Conference for Community & Justice
اس تنظیم کی طرف سے ہرسال منتخب افراد کوایوارڈ دیاجاتاہے۔اس کوخدمت انسانیت ایوارڈ (Humanitarian of the Year)کہاجاتاہے۔ اس ادارے کی طرف سے پچھلے سال ڈاکٹرمزمل حسین صدیقی کوایوارڈ دیاگیاتھا۔اس سال جناب صفی قریشی صاحب کو یہ ایوارڈ دیاگیاہے۔
۳۰نومبر۲۰۰۰کوحیات ریجنسی (اِروین،کیلی فورنیا)میں اس کی تقریب منعقد کی گئی۔یہاں شام کوڈنر تھاجس میں ہر ایک کو ۲۰۰ڈالر کا ٹکٹ لیناتھااوراس کے بعد انعام دینے کا پروگرام تھا۔صغیر اسلم صاحب وغیر ہ کے ساتھ میں بھی اس فنکشن میں شریک ہوا۔وہاں امریکی معیار کے مطابق،اعلیٰ درجہ کا تعیّشاتی ماحول تھا۔لوگ وہاں کے رنگارنگ پروگرام میں خوب دلچسپی لے رہے تھے۔قہقہے اورتالیوں کی گونج میں ساراپروگرام انجام پایا۔مگرمیں انتہائی بد دلی کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھاہواتھا۔کھانابھی میں نے بہت کم کھایا۔اپنے احساسات کاذکر کرتے ہوئے میں نے صغیر اسلم صاحب سے کہا:
For me it is a jungle of luxuries. I cannot enjoy it.
یہاں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ایک صاحب نے انڈیاکے بعض لیڈروں کا ذکر کیااورکہاکہ وہ مجھے حیوانِ سیاسی (political animal)دکھائی دیتے ہیں۔میں نے کہاکہ آپ کی بات درست ہے،مگرامریکامیں جومسلمان آباد ہیں ان میں سے تقریباً ہرشخص مجھے حیوان ِکاسِب (earning animal)دکھائی دیتاہے۔ ان لوگوں کاواحد مقصد ڈالرکماناہے اوراپنے بچوں کامستقبل بناناہے۔ میں ذاتی طورپر اس کو زندگی کاکوئی مقصد نہیں سمجھتا۔
اس فنکشن میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک تھیں۔ایک خاتون کے شوہرنے مجھے ان سے ملایا۔امریکاکے پچھلے سفر میں ان صاحب کے گھر پر مجھے کھانے کے لیے بلایاگیاتھا۔وہاں ان کی بیگم نے بھی مجھ سے ملاقات کی تھی اورکچھ مسائل دریافت کیے تھے۔میں نے خاتون سے کہاکہ اس سے پہلے آپ کے گھر پر آپ سے میری ملاقات ہوچکی ہے۔انہوں نے کہاکہ مجھے یاد نہیں۔میرے بارے میں انہیں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔مجھے یہ واقعہ بہت عجیب معلوم ہوا۔اس واقعہ سے میں نے اندازہ کیاکہ ان مسلمانوں کے گھروں میں صرف دنیوی باتوں کاماحول ہے۔وہاں دین کاکوئی چرچانہیں۔
ایک دینی عالم خواہ کسی بھی ملک سے آئے اورلوگوں کواس کی بات سننے کاموقع ملے تواس کے بعد گھروں میں اس کاچرچاہوناچاہیے۔ اس کی باتوں پرڈسکشن ہوناچاہیے۔مگریہاں کے گھروں میں اس قسم کا کوئی ماحول نہیں۔یہاں کے گھروں میں سوشلائیزیشن (Socialization)کے چرچے ہیں۔پارٹیاں کرنااورپارٹیوں میں جاناان کی دلچسپیوں کا موضوع بنارہتاہے۔وہ ٹی وی اورمووی (movie)کی باتیں کرتے ہیں۔وہ فلمی ہیروؤ ں اورگیم کے کھلاڑیوں پر تبصرہ کرتے ہیں۔کوئی دینی عالم ان کے نزدیک اس قابل نہیں کہ وہ ان کے گھر میں چرچےکاموضوع بنے۔
ہوٹل کے اس فنکشن میں اردن کے ایک اسکالر جناب ہیثم احمد بندقجی سے ملاقات ہوئی۔گفتگوکے دوران ان سے میں نے پوچھاکہ کہاجاتاہے کہ مصر کے صدرجمال عبدالناصر نے اپنی ایک تقریر میں اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھا:نحن ابناء الفراعنۃ سنرمیکم فی البحر(ہم فرعونوں کی اولاد ہیں،ہم تم کوسمندرمیں پھینک دیں گے)کیایہ صحیح ہے۔
انہوں نے کہاکہ میں اپنے ذاتی علم کی بناپر کہتاہوں کہ یہ بالکل غلط ہے۔انہوں نے بتایاکہ جمال عبدالناصر سے ایک امریکی صحافی نے پوچھاکہ کیاآپ نے ایساکہاہے۔اس سوال کے جواب میں جمال عبدالناصر نے کہاکہ میں نے ایسی کوئی بات مطلق نہیں کہی۔اگراس قسم کی کوئی بات ثابت ہوجائے تواس کے بعد آ پ جوبھی کہیں میں اس کوکرنے کے لیے تیار ہوں۔ہیثم احمد بندقجی نے مزید کہاکہ میں نے خود بھی جمال عبدالناصر سے اس کی بابت پوچھاتھااورخداگواہ ہے کہ میں خود بھی اپنے سوال کے جواب میں اُن سے یہ بات سنی ہے۔
امریکامیں دوسری قوم کے جولوگ مثلاً ہندویہاں آکر آباد ہوئے ہیں ان میں بہت سے لوگ ہیں جواپنی قوم کی خدمت کے لیے طرح طرح کے کام کرتے رہتے ہیں۔یہی حال مسلمانوں کابھی ہے۔ یہاں کے مسلمانوں میں بہت سے لوگ ہیں جومختلف قسم کے مسلم کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔مثلاً اسکول اوراسلامک سنٹر بنانا۔سوشلائزیشن کاانتظام کرنا۔قومی بہبود کی اسکیمیں چلانا۔ہندستان، پاکستان اوربنگلہ دیش جیسے ملکوں کے مسلمانوں کی مالی مدد کرنا۔قومی مصیبت کے مواقع پر ریلیف کاانتظام،کریکولم میں یامیڈیامیں مسلمانوں کے خلاف باتوں کو دریافت کرکے صحیح معلومات فراہم کرنا،وغیر ہ۔
اس قسم کے کام کوکچھ لوگ اسلامی دعوت کہتے ہیں اورایسے افراد کواسلام کاداعی،مگریہ درست نہیں۔مذکورہ قسم کے کام بجائے خود مفید کام ہیں مگران کااسلامی دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔ایسے افراد کے لیے میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ کمیونٹی ایکٹی وسٹ (community activist)ہیں۔اس سے زیادہ اورکچھ نہیں۔
میں نے کہاکہ اصل یہ ہے کہ دوسرے تمام سماجوں کی طرح امریکی سماج میں بہت سی خرابیاں ہیں۔مثلاً نسلی تعصب،معاشی نابرابری،یہودی اکسپلائیٹیشن،خارجہ پالیسی میں دہراپن،وغیرہ۔بہت سے لوگ ان چیزوں کی وجہ سے امریکی نظام کے خلاف منفی جذبات اپنے سینے میں لیے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ افراد جب اسلام قبول کرتے ہیں تواسلام کے اسٹیج کواپنے جذبات ِنفرت کے اظہار کاذریعہ بنالیتے ہیں۔مسلمان چوں کہ خود بھی اسی قسم کے منفی جذبات میں مبتلاہیں اس لیے وہ ان نومسلموں کی اصلاح نہیں کرپاتے۔بلکہ وہ اپنی منفی باتوں سے ان کو اسلامی اورنظریاتی بنادیتے ہیں۔اس طرح ان نومسلم افراد کوفوراً ہی اپنے چھپے ہوئے خیالات کے اظہار کا ایک اسٹیج مل جاتاہے۔ امریکامیں یادوسرے مغربی ملکوں میں یہ جوصورت ِحال ہے وہ میرے نزدیک بیک وقت دوبرائیوں کا سبب بن رہی ہے۔ایک یہ کہ نومسلم افراد کی صحیح ذہنی تربیت نہیں ہوپاتی۔اوردوسرے یہ کہ یہ لوگ اسلام کے صحیح مبلّغ نہیں بن پاتے۔حالانکہ نومسلم لوگ ہی ہردورمیں اسلام کے سب سے بڑے مبلّغ ثابت ہوئے ہیں۔
ایک صاحب نے بتایاکہ میں نے آپ کی اکثر کتابیں پڑھی ہیں اورزبانی طورپر آپ سے مجھے سننے کاموقع ملاہے۔میں نے پوچھاکہ پھر ہمارے مشن کے بارے میں آپ کاتاثر کیاہے۔انہوں نے کہاں کہ میرا تاثر آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہی سوال ایک اورشخص نے مجھ سے کیاتومیں نے ان کو یہ جواب دیا:
Maulana Sahab is an Islamic scholar who can interpret things in a modern way without slightest deviation from the Qur'an and Sunnah.
موجودہ زمانے کاایک عجیب ظاہرہ یہ ہے کہ بہت سے مسلمان ایسے کام کرتے ہیں جواپنی نوعیت کے اعتبار سے ملّی کا م ہوتے ہیں مگروہ اُس کودعوہ کانام دیے رہتے ہیں۔کوئی مسلمانوں کو نماز روزہ سکھاتاہے اوراس کو دعوت کاکام بتاتاہے۔کوئی مسلمانوں کی اقتصادی یاتعلیمی ترقی کے لیے کام کرتاہے اوراس کو دعوت کاعنوان دیے ہوئے ہے۔کوئی عوامی رابطے کے لیے کچھ سرگرمیاں جاری کرتاہے اوراس کودعوت کانام دے دیتاہے۔کوئی مسلمانوں کے ملّی تشخص کومحفوظ کرنے کے لیے تقریر وتحریرکاہنگامہ برپاکرتاہے اوراس کو دعوت قرار دینے لگتاہے۔
اس قسم کے کام بجائے خود مفید ہوسکتے ہیں لیکن وہ ہرگز وہ کام نہیں جس کوقرآن میں دعوہ کہاگیاہے۔دعوت دراصل غیر مسلموں میں اسلام کاپیغام پہنچانے کا نام ہے۔اس کام کی پہلی شرط یہ ہے کہ غیر مسلموں کے خلاف نفرت کے جذبات کومکمل طورپر ختم کردیاجائے۔پھر اس کام کوملّی کام سے بالکل الگ ایک کام کی حیثیت سے چلایاجائے۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کونظام کی دعوت کے طورپر نہیں بلکہ آخرت کی دعوت کے طورپر انجام دیاجائے۔
ایک برطانی نومسلم حامد الگرنے کہاکہ بہت سے لوگ دعوت کے نام پر یہاں ایسے لڑیچرتقسیم کرتے ہیں جن میں اسلام کوبہتر سیاسی اوراقتصادی نظام کے طورپر پیش کیاجاتاہے۔یہ انداز سراسرغیر مؤثر ہے۔ امریکاکا انسان تویہ سمجھتاہے کہ اس کے پاس جواقتصادی اورسیاسی نظام ہے وہ مسلمانوں کے نظام سے بہت زیادہ بہتر ہے پھر اس قسم کااندازان کو کس طرح متاثر کرسکتاہے۔
البتہ ایک اورمقام ہے جہاں مغربی انسان اپنے اندرکمی پاتاہے۔یہ روحانی خلا(spiritual vacuum)ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں اسلام کی دعوت اس پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔اسلام کے داعیوں کوچاہیے کہ وہ اسلام کو روحانی انداز میں پیش کریں۔
میں نے کہاکہ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔موجودہ زمانے میں جولوگ اس طرح اسلامی دعوہ کاکام کررہے ہیں وہ خود ہی روحانی اسلام سے خالی ہیں۔وہ سیاسی باتوں کے سواکسی اوربات کوجانتے ہی نہیں۔ روحانی انداز میں اسلام کوپیش کرنے کاکام وہی شخص کرسکتاہے جس کوخود روحانیت کارزق ملاہو۔روحانیت سے محروم لوگ اس کام کوکرنے کے اہل ہی نہیں۔
یہاں میں صغیر اسلم صاحب کے مکان پر مقیم تھا۔میں اپنے ساتھ سفر میں ہمیشہ پیلوکی مسواک رکھتاہوں۔میں نے باتھ روم میں مسواک کی اورواش بیسن پراس کورکھ دیا۔حالانکہ عام طورپر میں مسواک اپنی جیب میں رکھتاہوں۔صفائی کرنے والی خاتون آئی تواس نے مسواک کوبے فائدہ قسم کا لکڑی کاٹکڑاسمجھ کراس کوکوڑے میں ڈال دیا۔شام کو جب میں نے مسواک کرناچاہاتوباتھ روم میں مسواک موجود نہ تھی۔
مسواک کوپھینکنامیرے لیے ایک پریشانی کی بات تھی۔کیوں کہ یہاں عام طورپر برش کا رواج ہے اورمیں برش نہیں کرپاتا۔جوچیز میرے لیے نعمت تھی وہ صفائی کرنے والی خاتون کوکوڑانظرآئی۔ یہ چھوٹاسا واقعہ بتاتاہے کہ کس طرح ناواقفیت ایک صحیح کو غلط اورایک درست کونادرست سمجھ لیتی ہے۔
یکم دسمبر۲۰۰۰کو جمعہ کادن تھا۔جمعہ کی نماز اسلامک سوسائٹی آف آرنج کاؤ نٹی کی مسجد میں پڑھی۔یہ مسجد ایک چرچ کوخرید کربنائی گئی ہے۔ مسلمان کبھی اپنی مسجد کوفروخت نہیں کرسکتے۔خواہ کسی دوسرے مذہب کے عبادت خانے کے لیے ہویاکسی اورکام کے لیے۔مگرعیسائی لوگ اپنے غیر آبادچرچ کونہایت آسانی سے فروخت کردیتے ہیں۔اس کاسبب یہ نہیں ہے کہ عیسائی لوگوں میں مذہبی اسپرٹ کی کمی ہے بلکہ یہ عبادت خانہ کے معاملہ میں تصور کا فرق ہے۔مسیحی تصور کے مطابق زمین یابلڈنگ کانام چر چ نہیں ہے بلکہ اس تنظیم کانام چرچ ہے جوعبادت کے لیے بنائی گئی ہو:
A body of Christians organized for worship and religious work.
اس تصور کے مطابق،کوئی چرچ اسی وقت تک چرچ ہے جب تک اس میں عبادتی تنظیم موجود ہو۔جب وہاں عبادتی تنظیم باقی نہ رہے تووہ بلڈنگ چرچ کی حیثیت کھودیتی ہے۔اس کے بعد وہ ایک عام بلڈنگ بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیر آباد چرچ کوعیسائی لوگ نہایت آسانی سے فروخت کردیتے ہیں۔
جمعہ کی اذان یہاں کے قاعدے کے مطابق،مسجد کے اندرہوئی۔مسجد کی چھت کے اوپر لاؤ ڈاسپیکرلگے ہوئے نہ تھے جواذان کی آواز کو دورتک پہنچائیں۔یہ ایک علامت ہے کہ کس طرح موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے دوقسم کا اسلام دریافت کررکھاہے۔ہندستان اورپاکستان میں اگرمسجدوں کے اوپر سے لاؤ ڈاسپیکراتاردیے جائیں تواسلام خطرے میں پڑجائے گامگر امریکامیں کسی مسجد کے اوپر کوئی لاؤ ڈاسپیکرنہیں۔اس کے باوجود یہاں اسلام اتنازیادہ محفوظ ہے کہ ہندستان اورپاکستان اوردوسرے ملکوں کے مسلمان اس کے منتظر رہتے ہیں کہ کب انہیں موقع ملے اوربھاگ کرامریکاپہنچ جائیں۔
امریکامیں مقیم پاکستانی لوگ کئی اردواخبار نکالتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہفت روزہ اردوٹائمز ہے جونیویارک سے چھپتاہے۔اس کاشمارہ ۲۹نومبر۲۰۰۰دیکھا۔اس کے صفحہ ۲پر دومضامین چھپے تھے۔ ایک مضمون کاعنوان تھا۔بھارت اپنارویہ کبھی تبدیل نہیں کرے گا۔دوسرے مضمون کاعنوان تھا:امت ِمسلمہ کودرپیش مسائل۔میں نے اس کوپڑھاتومیرے دل نے کہاکہ امت ِمسلمہ کاسب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہر مسئلہ کے لیے کسی نہ کسی ’’بھارت‘‘کودریافت کیے ہوئے ہے۔ امت کے خود ساختہ نمائندے اپنی تحریر وتقریر سے امت کو مسلسل یہ یقین دلارہے ہیں کہ تمہارے تمام مسائل کا سبب فلاں فلاں خارجی لوگ ہیں اوروہ اتنے ہٹ دھرم ہیں کہ وہ اپنارویہ بدلنے کے لیے تیار نہیں۔
یہی منفی رہنمائی امت کے تمام مسائل کی جڑہے۔پوری امت کاذہن یہ بنادیاگیاہے کہ تمہارے مسائل کاسبب تمہارے اندرنہیں ہے بلکہ تمہارے باہر ہے۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندربیک وقت دوتباہ کن نفسیات پیداہوگئی ہے----اپنے بارے میں معصومانہ حد تک بے قصور ہونے کا احساس،اوردوسروں کے بارے میں مجرمانہ حدتک قصور وار ہونے کااحساس۔اس نفسیات کایہ مہلک نتیجہ ہواہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں حقیقت پسند ی اورخود تعمیری کامزاج ختم ہوگیا۔جب کہ اسباب کی موجودہ دنیامیں حقیقت پسندی اورخود تعمیر ی کامیابی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔
ایک امریکی پبلشنگ ہاؤ س برجسٹون بکس(Bridge stone Books)نے ۲۴صفحہ کی ایک کتاب ۱۹۹۶میں چھاپی تھی جس کانام مسلم ہولی ڈیز(Muslim Holidays)ہے۔اس کے مصنف کا نام فیتھ ونچسٹر(Faith Winchester)ہے۔
اس کتاب میں ان تمام ’’تیوہاروں ‘‘کاذکر ہے جوموجودہ مسلم سماج میں رواجی طورپر منائے جاتے ہیں۔حالانکہ واقعی معنوں میں اسلامی تیوہارصرف دوہیں۔عیدالفطراورعیدالاضحی۔
اس کتاب میں ایک پورے صفحہ پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خود ساختہ تصویر چھاپی گئی تھی۔اس تصویر میں آپ کاجوچہرہ دکھایاگیاہے وہ روحانی چہرہ کے بجائے جنگجوآدمی کاچہرہ نظرآتاہے۔اورآپ کے ہاتھ میں قرآن کے بجائے تلواردکھائی دے رہی ہے۔اس تصویر پر کونسل آن اسلامک ایجوکیشن نے اعتراض کیا۔انہوں نے اس پرپبلشنگ ہاؤ س سے خط وکتابت کی۔آخر کارپبلشنگ ہاؤ س اس صفحہ کو بدلنے پرراضی ہوگیا۔چناں چہ کتاب کے اگلے ایڈیشن ۱۹۹۹میں کتاب کے مذکورہ صفحہ پرتصویرکے بجائے جلی حرفوں میں صرف ’’محمدرسول اللہ‘‘لکھاہواہے۔
یکم دسمبرکی شام کو صغیر اسلم صاحب کے گھرپر اجتماعی افطار کاپروگرام تھا۔اس میں کافی لوگ شریک ہوئے۔افطار اورنماز کے بعد مجھ سے تقریر کے لیے کہاگیا۔میں نے کہاکہ روزہ کے متعلق عام طورپریہ سمجھاجاتاہے کہ صبح سے شام تک نہ کھایاجائے۔مگرحقیقت یہ ہے کہ روزہ کامقصد یہ ہے کہ اورزیادہ کھایاجائے۔یعنی مادی غذاکو کم کیاجائے تاکہ روحانی غذازیادہ حاصل ہوسکے۔
قرآن میں دوچیزوں کو روزہ کامقصد بتایاگیاہے---تقویٰ اورشکر۔روزہ رکھنے سے تقویٰ کی کیفیت پیداہوتی ہے اوربھوک پیاس کے بعد شام کو جب آدمی کھاتااورپیتاہے تواس کے اندرشکر کاجذبہ ابھرتاہے۔عام حالات میں آدمی جلد جلد کھاتارہتاہے۔اس لیے اس کونہ سچی بھوک کاتجربہ ہوتاہے اورنہ اس بات کاتجربہ کہ کھاناکیسی عجیب نعمت ہے۔میں نے بتایاکہ تاتاریوں نے جب عباسی سلطنت کوختم کیاتوآخری سلطان کوایک کمرہ میں قید کردیا۔مسلسل کئی وقت اس کوکھانانہیں ملااوروہ بھوک سے تڑپنے لگاتواس نے تاتاری سردارکے پاس پیغام بھیجاکہ میں بہت بھوکاہوں،مجھے کھانے کے لیے کچھ بھیج دو۔تاتاری سردار نے حکم دیاکہ محل کے تہہ خانے میں جوہیرے اورجواہرات ملے ہیں ان کو ایک طشت میں سجاکرسلطان کے پاس لے جاؤ۔سلطان نے جب طشت کودیکھاتووہ روپڑا۔اس نے روتے ہوئے کہاکہ:ان الجواھرلاتو کل (ہیرے جواہرکھائے نہیں جاتے)۔
روزہ میں وقتی طورپر کھانااورپینابندکرکے آدمی کے اندراس کیفیت کو بیدار کیاجاتاہے کہ غذاکیسی عجیب نعمت ہے۔دولت کی بڑی سے بڑی مقدارآدمی کے لیے غذاکا بدل نہیں بن سکتی۔
امریکاکے موجودہ سفر میں میراقیام زیادہ ترصغیر اسلم صاحب کے گھر پر رہا۔ان کی باتیں اوران کے کام مجھے عام لوگوں کے مقابلے میں بہت مختلف نظر آئے۔ان میں ایک انوکھی صفت میں نے یہ پائی کہ ان کے خلاف اگر کوئی سخت بات کہی جائے یاان پر تنقید کی جائے تووہ اس پر ناراض نہیں ہوتے بلکہ نہایت معتدل انداز سے سنتے ہیں۔ان کے اس مختلف مزاج کا راز کیاہے،اس کا اندازہ مجھے ان کے ایک واقعہ سے ہوا۔
امریکی ریستوران میں یہ رواج ہے کہ ان کے ہاں ایک ڈاگی بیگ(Doggy Bag)ہوتاہے۔یعنی کتے کا پیکٹ۔جولوگ ریسٹورینٹ میں کھانے کے لیے آتے ہیں، جب ان کا کھانابچ جاتاہے تو ان کو یہ بیگ دیاجاتاہے کہ اپناکھانااس میں رکھ لیں اورگھر جاکر اپنے کتے،بلی کودے دیں تاکہ کھاناضائع نہ ہو۔
تقریباً ۲۰سال پہلے کا واقعہ ہے،صغیراسلم صاحب نے نیویارک کے ایک ریسٹورینٹ میں کھاناکھایا۔کھانابچ گیاتوحسب قاعدہ ہوٹل کے ویٹر نے انہیں ایک خالی ڈاگی بیگ دیااورکہاکہ اپنابچاہواکھانااس میں رکھ لیجیے اورواپس جاکراپنے کتے کوکھلادیجیے۔صغیراسلم صاحب نے کہاکہ یہ میرے لیے انسانی بیگ ہے نہ کہ ڈاگی بیگ۔میں جاکراس کوخود ہی کھاؤ ں گا۔
Please give me people bag, not doggy bag.
یہ واقعہ میں نے سناتوفوراً میری زبان سے نکلاکہ آپ بلاشبہ ایک بہادر آدمی ہیں۔ایک بہادرآدمی ہی اس قسم کی بات کہہ سکتاہے۔اس کے بعد میری سمجھ میں آگیاکہ صغیراسلم صاحب کے اندر جو غیر معمولی صفات ہیں ان کاراز کیاہے۔ان کاراز یہ ہے کہ وہ ایک بہادرانسان ہیں۔بزدل انسان بے برداشت انسان ہوتاہے۔وہ ہربات کو اپنی عزت کاسوال بنالیتاہے۔اس کے برعکس بہادر انسان برداشت والاانسان ہوتاہے۔وہ عزت اوربے عزتی کی اصطلاح میں نہیں سوچتا۔وہ صرف یہ دیکھتاہے کہ کوئی بات ازروئے واقعہ کیاہے،نہ یہ کہ اس کی شخصیت سے اس کاکیاتعلق ہے۔
۲دسمبرکوڈاکٹرحبیب اللہ صاحب مجھ کو اپنے مکان پر لے گئے۔وہاں میں نے چند گھنٹے گزارے۔ان کے رشتہ داراوران کے خاندان کے لوگ سوسے زیادہ کی تعداد میں یہاں قریب قریب رہتے ہیں۔ چناں چہ بہت سے لوگ ڈاکٹرحبیب اللہ صاحب کے مکان پر آگئے۔ یہاں اجتماعی انداز میں لوگوں سے گفتگوہوئی۔ایک مسئلہ کی وضاحت کے دوران میں نے کہاکہ فریڈم بہت اچھی چیز ہے لیکن جب فریڈم انار کی کی حد تک پہنچ جائے تووہ اتنی ہی زیادہ بُری چیز بن جاتی ہے۔
ظہر کی نماز ڈاکٹرحبیب اللہ صاحب کے مکان پر جماعت کی صورت میں پڑھی۔نماز کے بعد میں نے انگریزی میں ایک مختصر تقریر کی جس میں نماز کی حقیقت بتائی۔میں نے بتایاکہ نماز مسلمانوں کے لیے ایک مکمل تربیتی کورس ہے۔
۲دسمبرکی شام کواسلامک سوسائٹی کی مسجد میں افطار کا انتظام تھا۔یہاں افطار سے پہلے ۱۵منٹ کی ایک تقریر کی۔اس تقریر میں روزہ کی حقیقت کے بارے میں میں نے کہاکہ حدیث میں رمضان کے مہینہ کوصبر کامہینہ کہاگیاہے۔اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ روزہ کی اصل حقیقت صبر ہے۔روزہ اس بات کی تربیت ہے کہ آدمی تحمل اوربرداشت کے ساتھ زندگی گزارے۔وہ اخلاقی ڈسپلن کے ساتھ دنیامیں رہ سکے۔
یکم دسمبرکی شام کو صغیراسلم صاحب کے گھر پر ایک اجتماع ہوا۔اس اجتماع میں میں نے روزہ کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔میں نے کہاکہ آج کل لوگوں کایہ حال ہے کہ وہ بالقصد سحری میں اتنازیادہ کھاتے ہیں کہ شام تک انہیں بھوک نہ لگے۔مگریہ طریقہ روزہ کی اسپرٹ کے سراسرخلاف ہے۔روزہ کامقصد قرآن میں تقویٰ اورشکربتایاگیاہے۔
روزہ کے ضمن میں تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ صبح سے شام تک نہ کھانے کی وجہ سے آدمی کوبھوک کاتجربہ ہواورپھروہ احساس عجز کے ساتھ اللہ کی طرف تضرع کرے۔وہ کھانے کی اہمیت کا تجربہ کرکے اللہ سے ڈرے کہ اگر وہ مجھ سے کھانااورپیناچھین لے تومیراکیاانجام ہوگا۔شکر کامطلب یہ ہے کہ شام کے وقت آدمی جب افطار کرے اورحدیث کے الفاظ میں اس کی رگیں پانی سے ترہوجائیں تواس کے اندر شکرکاجذبہ پیداہواوروہ سوچے کہ یہ اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ اس نے میرے لیے رزق کا انتظام کیا۔یہ بتاتے ہوئے میں نے کہاکہ لوگوں کوچاہیے کہ شام کے وقت پوراکھاناکھائیں مگرصبح کے وقت سحری میں ناشتہ کی مانند کم کھائیں تاکہ دن میں آپ کو بھوک کاتجربہ ہو۔
اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے کسی قدر شدت کے ساتھ کہاکہ یہ بات درست نہیں۔سحری میں اگرکم کھایاجائے گا تو دن میں آدمی کام کیسے کرسکے گا۔میں ابھی خاموش تھاکہ حاضرین میں سے زیادہ عمر کے ایک صاحب نے کہاکہ میں لمبی مدت سے امریکامیں رہتاہوں اورمیں جانتاہوں کہ روزہ رکھنے والے مسلمان روزہ میں اتنازیادہ کھاتے ہیں کہ ان کا وزن بڑھ جاتاہے۔انہوں نے کہاکہ میں آپ میں سے ہر شخص سے کہتاہوں کہ وہ آج اپنے کوتول کر اپناوزن لکھ لے اورپھر روزہ کے بعد وہ دوبارہ اپنے آپ کوتولے مجھے یقین ہے کہ وہ پائے گا کہ ا س کا وزن روزہ کے بعد بڑھ گیاہے۔
میں نے کہاکہ زیادہ کھانا(over eating)عام حالات میں بھی بری ہے۔اورروزہ کے زمانے میں زیادہ کھاناتواوربھی زیادہ براہے۔روزہ میں زیادہ کھانااس مصلحت کوختم کردیتاہے جس کے لیے رمضان کاروزہ فرض کیاگیاہے۔میں نے کہاکہ روزہ کے بارے میں اسی قسم کی صورت ِحال تھی جس کے خلاف فارسی شاعرنے اس طرح احتجاج کیاتھا کہ روزہ کی ریاضت نے لوگوں کی تن پروری کو اورزیادہ بڑھادیاہے۔چناں چہ رمضان کامہینہ سحری اورافطار کی دھوم کامہینہ بن گیاہے۔
تن پروری ٔ خلق فزوں شدزریاضت جزگرمی ٔ افطارنداردرمضان ہیچ
جناب صغیراسلم صاحب کے ساتھ کئی دنوں تک رہنے کے بعد میں نے اندازہ کیاکہ وہ غیر معمولی صفات کے آدمی ہیں۔ان کواللہ تعالیٰ نے عام انسانوں سے مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیداکیاہے۔ ۴دسمبر۲۰۰۰کی صبح کومیں نے ان سے کہا:
God Almighty created you with special qualities. But He is still waiting for you to play a role which is equal to that special creation.
تاریخ بتاتی ہے کہ ہردور میں اللہ تعالیٰ نے کچھ بہت غیر معمولی صلاحیت والے انسان پیداکیے۔مگران میں بہت کم ایسے انسان تھے جنہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں کسی اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کیا۔تاریخ کے بیشتراعلیٰ افراد اپنی صلاحیتوں کا صرف کم تراستعمال کرتے رہے،یہاں تک کہ وہ مرکراس دنیاسے چلے گئے۔
صغیراسلم صاحب کی اہلیہ بشریٰ سلطانہ (عمر۴۵سال)پاکستان میں پیداہوئیں اور۱۹۷۲سے امریکامیں رہ رہی ہیں۔میں یہاں کئی بار آیاہوں اوران کے گھر پر کئی کئی دن تک ٹھہراہوں۔وہ ایک خوش حال فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔اوراچھی انگریزی بولتی ہیں اورامریکاکی شہری بن چکی ہیں۔مگر میں ان کے اندرذرابھی امریکی پن کاتجربہ نہیں کیا۔ان کے اندرچار صفتیں نہایت عجیب ہیں ---خالص دینی مزاج،خدمت ِخلق کا گہراجذبہ،انتہائی سادگی،نوپرابلم خاتون بن کررہنا۔
ان کی والدہ مرحومہ نے ان کو ایک نصیحت کی تھی،وہ یہ کہ کسی کو تم سے شکایت ہوتوتم کبھی اپنی طرف سے صفائی مت پیش کرنا،تم نے غلطی نہ کی ہوتب بھی کہناکہ مجھے معاف کیجیے۔
میں سمجھتاہوں کہ یہ نصیحت ایک کلیدی نصیحت ہے۔اورہرعورت اورہرمرد کے لیے یکساں طورپر مفید ہے۔خاندانی یاسماجی زندگی میں بیشترمسئلے اسی لیے پیداہوتے ہیں کہ لوگ شکایت کے موقع پر صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حالا ں کہ صفائی پیش کرناعملی طورپر بالکل بے فائدہ ہے۔اجتماعی زندگی کا واحد کامیاب فارمولایہ ہے کہ اگرآپ نے کوئی غلطی کی ہے توجب آپ کو غلطی کی طرف متوجہ کیاجائے توآپ فوراًاپنی غلطی مان کر اس کی اصلاح کرلیں اوراگرآپ نے غلطی نہیں کی ہے تب بھی یہی کہیں کہ میری غلطی کے لیے مجھ کو معاف کیجیے۔ آپ کا اعتماد اس پر ہوناچاہیے کہ میں غلطی سے بری ہوں نہ کہ اس پر کہ میں نے اعتراض کرنے والے کے اعتراض کا جواب دے دیاہے۔
جناب عمران احمد چودھری (پیدائش ۱۹۷۷)ایک کمپیوٹرانجینئرہیں۔وہ ۱۹۹۶میں پاکستان سے امریکاآئے۔ان سے میں نے پوچھاکہ آپ اپنی زندگی کا کوئی تجربہ بتائیے۔ انہوں نے کہاکہ اگرآپ اپنے ماحول میں کسی وجہ سے غیر آسودہ(uncomfortable)ہیں تواس کو اپنے لیے کوئی برائی نہ سمجھیے۔اگر آپ غیر آسودگی کے ساتھ رہناسیکھ لیں توغیرآسودگی آپ کے لیے نعمت (boon)بن جائے گی۔
انہوں نے کہاکہ میں یہاں ایک کمپیوٹرکمپنی میں ٹکنیشین کے طورپر کام کررہاتھا۔میراکام چھوٹے کمپیوٹر(Lap Top)کو ریپیئرکرنااوربیچناتھا۔میرامینیجرجو ایک وہائٹ امریکن تھا،کسی وجہ سے اس کو مجھ سے ضد ہوگئی۔وہ میری سخت نگرانی کرنے لگا۔حتی کہ وہ یہ بھی دیکھنے لگاکہ میں باتھ روم میں کتنے منٹ صرف کرتاہوں۔جب کہ اسی آفس میں جودوسرے ٹکینشین تھے ان کے ساتھ اس کارویہ رعایت کاتھا۔
انہوں نے کہاکہ اب ایک صورت یہ تھی کہ میں مینیجرکے متعصبانہ سلوک پر غصہ کروں اوراپنے دل میں اس شکایت کی پرورش کروں کہ وہ میرے ساتھ ایک سلوک کرتاہے اوردوسروں کے ساتھ کچھ اورسلوک تواس کاانجام یہ ہوتا کہ یاتو میں لڑتاجھگڑتارہتایاکمپنی کوچھوڑ کرچلاجاتا۔دونوں حالتوں میں میراہی نقصان تھا۔اس کے برعکس میں نے یہ کیاکہ مینیجرکے ناز یباسلوک کو نظرانداز کرتے ہوئے میں اپنے کام میں لگارہا۔مینیجرکی سخت گیری کوگواراکرنے کا مزید فائدہ یہ ہواکہ میں اپنے کام میں اورزیادہ چوکس ہوگیاتاکہ اس کومیرے خلاف شکایت کاموقع نہ ملے۔
انہوں نے بتایاکہ ا س کا نتیجہ یہ ہواکہ دوسرے لوگ جس کام کوتقریباً۲سال میں سیکھتے ہیں اس کو میں نے صرف چھ ماہ میں سیکھ لیا۔اوراب میں دوسری کمپنی میں زیادہ بہتر جاب کررہاہوں۔
۴دسمبرکو جناب رفیع صاحب کے ہمراہ یہاں کی مختلف چیزیں دیکھیں۔ان میں سے ایک وہ عالی شان چرچ تھاجسے کرسٹل کیتھیڈرل کہاجاتاہے۔وہ ایک عبادت خانے کے طورپر بنایاگیاہے مگروہ اپنی وسعت اورچمک دمک کے اعتبار سے ایک بہت بڑاشوپیس دکھائی دیتاہے۔عبادت خانے کایہ نمائشی تصوربڑاعجیب معلوم ہوتاہے۔مگرعیسائی حضرات کے یہاں صدیوں سے یہ چلاآرہاہے کہ چرچ کواتناعالی شان بناؤ کہ اس کی عمارت کو دیکھ کرلوگ ہمارے مذہب کی عظمت کومحسوس کریں۔امریکاکایہ کرسٹل کیتھیڈرل اس تصورکی ایک انوکھی مثال ہے۔اس کیتھیڈرل میں آنے والاشخص انسانی کاریگری کی وقتی عظمت سے اتنازیادہ مسحورہوتاہے کہ اس کوخداکی حقیقی اورابدی عظمت کا سرے سے خیال ہی نہیں آتا۔
چرچ کے وسیع احاطہ میں پختہ راستے (path ways)بنے ہوئے ہیں۔ان پربائبل کے اقتباسات قیمتی پتھروں پر کندہ کرکے راستے میں نصب کیے گئے ہیں۔ان میں سے اکثراقتباسات میں خدا(God)کالفظ بھی شامل تھا۔مثال کے طورپر:
I will dwell in the House of the Lord forever.
God has spoken to us by His son.
ان پتھروں پر لوگ جوتاپہنے ہوئے اطمینان کے ساتھ چل رہے تھے۔یہ بھی عیسائیت کا انوکھامزاج ہے۔
ڈاکٹرحبیب اللہ خاں صاحب کی بیگم،شمیم حبیب اللہ نے اپنے مکان پر ایک اجتماع کیاجس میں ان کے وسیع خاندان کے عورت اورمرد شریک ہوئے۔۴دسمبرکومیں نے اس میں شرکت کی۔سوال وجواب کی صورت میں دیر تک اسلام کے مختلف پہلوؤ ں پربات ہوتی رہی۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہاکہ عورت اورمرد کے درمیان اسلام میں کوئی فرق نہیں کیاگیاہے۔چناں چہ حدیث میں عورت اورمرد دونوں کو ایک دوسرے کاشقیقہ کہاگیاہے،یعنی ایک کُل کے دوبرابرنصف حصے۔مگربرابری کے ساتھ زندگی میں ایڈجسٹمنٹ کرناپڑتاہے۔یہ ایڈجسٹمنٹ عورت اورمرد کے درمیان ہی نہیں بلکہ عورت اورعورت،مرد اورمرد کے درمیان بھی ضروری ہے۔ اگرایڈجسٹمنٹ نہ کیاجائے توزندگی گزارناہی ممکن نہ رہے گا۔
ایک مجلس میں کچھ تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان یہ گفتگوہوئی کہ صاحب ِبصیرت انسان (man of vision)کون ہے۔میں نے کہاکہ صاحب ِبصیرت انسان وہ ہے جس کی بصیرت کی مستقبل تصدیق کرے۔جس کی بصیرت کی مستقبل کے حالات تصدیق نہ کریں وہ ایک خواب دیکھنے والا(dreamer)تھانہ کہ حقیقی معنوں میں صاحب ِبصیرت انسان۔
میں نے کہاکہ بدقسمتی سے موجودہ زمانے میں برصغیرکے اکثرمقبول لیڈرصرف ڈریمرثابت ہوئے ہیں۔پاکستان کے اقبال اورجناح اورہندستان کے گاندھی اورنہرو سب اس کی مثالیں ہیں۔
پاکستان سے آئے ہوئے ایک مسلمان نے بتایاکہ چالیس سال پہلے وہ امریکامیں آئے۔اس وقت وہ نوجوان تھے۔ایک دن وہ اپنے مقامی ساتھی کے ہمراہ ایک سڑک سے گزرے۔ایک مقام پر اس سڑک کے کنارے ایک خوبصورت عمارت تھی۔اس کے سامنے بہت بڑاسرسبزاورخوب صورت لان تھا۔اس میں ہرے بھرے درخت اورپھولوں کے دلکش مناظر تھے۔انہوں نے اپنے ساتھی سے کہاکہ جب میں پیسہ کمالوں گاتوامریکامیں اسی قسم کاایک مکان اپنے لیے خریدوں گا۔ان کے ساتھی نے کہاکہ اس کو تمہیں خریدنانہیں پڑے گا۔وہ توتم کو خرید ے بغیرہی مل جائے گا۔انہوں نے پوچھاکہ وہ کیسے۔ ساتھی نے کہاکہ یہ تو یہاں کاقبرستان ہے۔اس قبرستان کانام روزگارڈن ہے۔
۳دسمبر۲۰۰۰کو مجھے بھی یہاں کا ایک قبرستان دیکھنے کااتفاق ہوا۔اس قبرستان کانام ملروز ابے (Melrose Abbey)تھا۔میں جب وہاں پہنچاتویہ میرے لیے ایک نیامشاہدہ تھا۔یہ ایک نہایت وسیع پارک کی مانند تھا۔اس کے اندرعمدہ سڑکیں بنی ہوئی تھیں۔ایک کنارے ایک شاندارعمارت کھڑی ہوئی تھی۔مگروہ کوئی محل نہ تھابلکہ وہ عمودی (vertical)قبرستان تھا۔یہ قبرستان دیکھنے میں ایک اعلیٰ درجہ کی تفریح گاہ معلوم ہوتاتھا۔اتوار کادن تھا۔چناں چہ کئی لوگ کاروں پر سفرکر کے یہاں آئے تھے تاکہ مرے ہوئے عزیزوں کی یاد تازہ کرسکیں۔یہاں موت کے سناٹے کے بجائے زندگی کی تازگی دکھائی دے رہی تھی۔
میں نے سوچاکہ پہلے قبرستان کا تصوریہ تھاکہ وہاں کے ماحول میں موت اوردنیاکی ناپائداری یاد آتی تھی۔مگرامریکاکے قبرستان میں توقبرستان بھی ایک راحت کدہ بن گیاہے۔لکھنؤ میں قبرستان کانام عیش باغ ہے۔مگرحقیقت میں یہ امریکاہے جہاں قبرستان کو عیش باغ کی صورت دے دی گئی ہے۔
ایک مجلس میں میں نے کہاکہ کام کی دوقسمیں ہیں۔کمیونٹی ورک اوردعوہ ورک۔کمیونٹی ورک وہ ہے جوکمیونٹی کی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لیے وجود میں آئے۔اوردعوہ ورک وہ ہے جوخالص اللہ کی مرضی کوپوراکرنے کے لیے شروع کیاگیاہو۔دونوں کے فرق کو ایک مثال سے سمجھاجاسکتاہے۔قدیم مکہ میں دعوہ ورک توپوری طرح ممکن تھا چناں چہ دورِاول کے صحابہ رات دن اس میں مصروف رہتے تھے مگروہاں کمیونٹی ورک کاکوئی امکان نہ تھا۔کیوں کہ کمیونٹی ابھی وجود ہی میں نہ آئی تھی۔
موجودہ زمانے میں کمیونٹی ورک نہایت اعلیٰ پیمانہ پرکرناممکن ہوگیاہے۔آج مسلمان ایک بلین سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ان کے پاس ہر قسم کے وسائل وافرمقدارمیں موجود ہیں۔وہ دنیاکے تقریباًہرملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔اس صورت حال نے مسلمانوں کو ایک عظیم انسانی مارکیٹ بنادیاہے۔آج ان کے درمیان جوکام بھی کیاجائے ا س میں شہرت،لیڈری،مادی منافع اورعوامی مقبولیت فوراًمل جائے گی۔ اس بناپر آج یہ ممکن ہوگیاہے کہ اس عظیم مسلم ملت کے درمیان جو بھی کمیونٹی ورک کیاجائے وہ کامیابی کا زینہ بن جائے گا۔
میں نے کہاکہ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جوبے شمار کام ہورہے ہیں وہ زیادہ ترکمیونٹی ورک ہیں نہ کہ دعوہ ورک۔
کمیونٹی ورک اوردعوہ ورک کا فرق بے حد بنیادی فرق ہے۔اس فرق کوخود اسلام کی تاریخ سے سمجھاجاسکتاہے۔قدیم مکہ میں نبوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک مقیم رہے۔اس وقت دعوہ ور ک اپنی کا مل تربیتی صورت میں جاری تھا۔اسی دعوہ ورک کے نتیجہ میں اکثربڑے بڑے صحابہ حاصل ہوئے۔مگراس وقت کے مکہ میں کمیونٹی ورک سرے سے موجود ہی نہ تھا۔جب کہ موجودہ دورکے مسلمانوں میں کمیونٹی ورک بہت بڑے پیمانہ پر جاری ہے۔بلکہ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جوکام مسلمانوں کے درمیان ہورہے ہیں وہ تقریباً سب کے سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے کمیونٹی ورک ہیں۔
اس سے معلوم ہواکہ دعوہ ورک توہر حال میں ہوتاہے۔حتی کہ اس وقت بھی جب کہ ساری دنیامیں صرف ایک مسلمان موجود ہو۔مگرکمیونٹی ورک اس وقت ہوتاہے جب کہ خود کمیونٹی وجود میں آچکی ہو۔جتنی بڑی کمیونٹی اتناہی بڑاکمیونٹی ورک۔
موجودہ زمانے میں ایک بلین سے زیادہ مسلمان ہیں۔ان کے پاس ہر قسم کے اقتصادی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔قدیم مکہ میں کوئی مسجد یامدرسہ بناناہی ناممکن تھا۔آج جب ایک شخص مسجد اورمدرسہ بنانے کی مہم چلاتاہے تواس کو ملین اوربلین ڈالر کاتعاون حاصل ہوجاتاہے۔
ا س فرق سے مزید یہ معلوم ہواکہ دعوہ ورک صرف اللہ کی رضا ہی کے لیے کرناممکن ہوتاہے۔جب کہ کمیونٹی ورک ایک ایساکام ہے جس میں ہرقسم کے دنیوی اورمادی فائدے اعلیٰ پیمانہ پر شامل ہوجاتے ہیں۔ اس میں لیڈری بھی شامل ہے اورمقبولیت بھی اوراقتصادی فائدے بھی۔
کمیونٹی ورک عام حالات میں صرف قومی ورک ہوتاہے،اس کو لوگ قوم کے عنوان سے کرنے کے بجائے اسلام کے نام پر اس لیے کرتے ہیں کہ لوگوں کاتعاون زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔
۵دسمبر۲۰۰۰کوواپسی تھی۔ساڑھے چاربجے دن میں جناب صغیر اسلم صاحب کے ساتھ روانہ ہوکرلاس اینجلیز ایرپورٹ پہنچا۔یہاں کی معمول کی کارروائی میں کچھ وقت گزرا۔میرے ٹکٹ پر مسلم میل لکھوادیاگیاتھاجوعام طورپر یہوی ذبیحہ کوشر (kosher)پرمشتمل ہوتاہے جومیرے ذوق کے مطابق نہیں۔میں نے اسے بدلواکرایشین وجیٹیرین لکھوایا۔میرایہ سفرجرمن ایرلائن لفتھانزاکے ذریعہ ہوا۔میرے تجربہ کے مطابق جرمن لوگ کسی قدرغیرنرم ہوتے ہیں۔اس کے مقابلے میں سوئس ایر کے لوگ مجھے زیادہ نرم اورمتواضع دکھائی دیے۔
لاس اینجلیز سے لفتھانزاکی فلائٹ سے فرینک فرٹ کے لیے روانگی ہوئی۔یہ تقریباًساڑھے دس گھنٹے کانان اسٹاپ سفر تھا۔مگرراستہ میں نیند آگئی جس نے سفر کو آسان کردیا۔نیند ایک عجیب نعمت ہے جوطویل مدت کو مختصرکردیتی ہے۔
فرینک فرٹ میں تقریباًڈیڑھ گھنٹے انتظار کرنے کے بعد دہلی کے لیے روانگی ہوئی۔اب ۶دسمبرکی صبح کاوقت ہوچکاتھا۔فرینک فرٹ سے دہلی کا سفردوبارہ لفتھانزاکے جہاز سے ہوا۔یہ سفر تقریباً آٹھ گھنٹے کا تھا۔دوبارہ یہ سفر بھی زیادہ ترنیندکی حالت میں ہوا۔اس پورے سفر میں کھانے اورنماز کے علاوہ زیادہ تروقت سوتے ہوئے گزرا۔جہاز اپنے وقت پردہلی پہنچ گیا۔یہ شمسی کیلنڈرکے لحاظ سے ۷دسمبرکو صبح ڈیڑھ بجے کاوقت تھا،یعنی ۶دسمبرکادن گزارکررات کوڈیڑھ بجے۔ہندستان سے امریکاجاتے ہوئے تاریخ دیر میں بدلتی ہے اورواپسی میں تیزی سے بدل جاتی ہے۔
دہلی ائرپورٹ پر چلتے ہوئے وہاں پہنچاجہاں پاسپورٹ کی چکنگ ہوتی ہے۔میراپاسپورٹ میرے ساتھی کے ہاتھ میں تھا۔چیک کرنے والے شخص نے ان سے میراپاسپورٹ لیااوراس کو کھول کردیکھنے کے بعد کہا:کیایہ وہی مولاناصاحب ہیں جولیکھ لکھتے ہیں۔میرے ساتھی نے کہاکہ ہاں۔پھر اس نے کہاکہ اچھاجائیے اورہم بلاروک ٹوک چلتے ہوئے باہر آگئے۔