سوال وجواب

سوال

آج مسلمانوں میں ایسی جماعتیں اور گروہ موجودہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اسلام میں توحید پر زور دیا گیا ہے۔ لہٰذا جماعت اور تنظیم توحید کے اتفاقی مسئلے پر اٹھانی چاہئے اور یہ تنظیمیں اور جماعتیں اپنے زعم کے مطابق توحید کے اتفاقی مسئلے پر کام کررہی ہیں۔

یہ لوگ قرآن کی تمام توحید والی آیتوں کو عوام کے سامنے پیش کرکے کہتے ہیں کہ اے لوگو، توحید کو اختیار کرو اور شرک کو چھوڑو۔ اس کائنات میں کوئی داتا، دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا اور غوث اعظم وغیرہ نہیں،سوائے مالکِ کائنات کے۔

اس طرح یہ لوگ قرآن کی تمام اُن آیتوں کو جن میں شرک کی مذمّت بیان ہوئی ہے، پیش کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ یہ کلمہ پڑھنے والے شرک کرتے ہیں اور شرک کی موجودگی میں نیک اعمال قبول نہیں ہوتے۔ لہٰذا ہم موحد لوگ ان قبر پرستوں (بریلویوں اور شیعوں، وغیرہ) کے پیچھے نہ نماز پڑھیں گے اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔

مسلمانوں کے اس طرح کے دعووں کو سامنے رکھتے ہوئے چند سوالات پیش خدمت ہیں۔ امید ہے آپ تسلی بخش جواب دیں گے۔

۱۔ کلمہ پڑھنے کے بعد اگر شرک ہوتا رہے تو کیا ایسے شخص پر مشرک کا اطلاق ہوگا۔

۲۔ مسلم اور مشرک کی تعریف کیا ہے۔ کیا مسلمان مشرک ہوسکتاہے۔

۳۔ مسلمانوں میں جو لوگ واضح شرک کرتے ہیں اُن کی اقتداء میں صلوٰۃ پڑھنے کی کیا دلیل ہے جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرک کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔

۴۔ جب مشرک امام کی اپنی صلوٰۃ نہیں ہوتی تو موحّد مقتدی کی نماز کیسے ہوگی۔

۵۔ امتِ مسلمہ کے بہت سے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ سورہ یوسف کی آیت ۱۰۶ کی روشنی میں کلمہ پڑھنے والے بھی مشرک ہوسکتے ہیں لہٰذا ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔

۶۔ جب شراب کا پینے والا شرابی کہلائے گا تو شرک کرنے والا مشرک کیوں نہیں کہلایا جائے گا۔

۷۔ کلمہ پڑھنے کے بعد اگر ایک ہندو مندر جاتا ہے تو یہ کام اس کے مسلمان ہونے میں رکاوٹ ہوگا اور اُسے بدستور ہندو سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر دوسرا شخص کلمہ کا اقرار کرنے کے بعد قبر کا طواف کرتا رہے تویہ عمل اس کے اسلام میں رکاوٹ کیوں نہیں بنے گا اور ایسا شخص مشرک کیوں نہیں ہوگا۔

۸۔ آپ کے لٹریچر اور کتابوں میں میں نے قبر پرستی اور شرک کے پہلوؤں پر اتنا زیادہ زور نہیں دیکھا جتنا زور توحیدی ٹائپ کے لوگ لگاتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ کیا ہے، جب کہ آپ بھی شرک کے مخالف ہیں، بلکہ سخت ترین مخالف۔ (عبد اللطیف،کراچی، ۲۵ دسمبر ۲۰۰۲)

جواب

اختلاف کی برائی جو موجودہ مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اُس کا سبب یہ نہیں ہے کہ مسلم جماعتیں توحید کے بجائے کسی اور عنوان پر کام کر رہی ہیں۔ اختلاف کا اصل سبب صرف ایک ہے، اور وہ انتہاپسندی (extremism) ہے۔ موجودہ زمانہ کی مسلم جماعتیں کسی نہ کسی پہلو سے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کوئی اعتقادی انتہا پسندی کا شکار ہے، کوئی سیاسی انتہا پسندی کا، کوئی مسائلی انتہا پسندی کا، کوئی گروہی انتہا پسندی کا، کوئی کسی اور انتہا پسندی کا۔ یہی انتہا پسندی موجودہ نزاعات کااصل سبب ہے۔ انتہا پسندی کو قرآن اور حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ایاکم والغلو فی الدین فانما ہلک من کان قبلکم بالغلو فی الدین(النسائی، ابن ماجہ، مسند احمد) یعنی تم غلو سے بچو، کیوں کہ پچھلی امتیں غلو ہی کے سبب سے ہلاک ہوئیں۔

غلو یا انتہا پسندی کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی بات کو اُس کی آخری منطقی حد (logical extreme)تک لے جایا جائے۔ اور پھر اُس کی بنیاد پر انتہائی احکام صادر کیے جائیں۔اُس کی ایک مثال خود آپ کی زیر نظر تحریر میں موجود ہے۔ توحید پر زور دینا بہت اچھا ہے۔ مگریہ کہنا اتنا ہی غلط ہے کہ ’’یہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان چونکہ شرک کرتے ہیں اور شرک کی موجودگی میں نیک اعمال قبول نہیں ہوتے۔ لہذا ہم موحّد لوگ ان قبر پرستوں (بریلویوں اور شیعوں وغیرہ) کے پیچھے نہ نماز پڑھیں گے اور نہ اُن کی نماز جنازہ میں شریک ہوں گے‘‘۔

اسی آخری بات کو حدیث میں غلو کہا گیا ہے اور غلو خود ایک ہلاکت خیز عمل ہے۔ ایک شخص کو علم دین حاصل ہو اور علم دین کی روشنی میں اُس نے یہ جانا ہو کہ توحید اسلام میں بنیادی عقیدہ کی حیثیت رکھتی ہے تو ایسے شخص کو حق ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت لوگوں کو توحید کی طرف بلائے۔ لیکن اس اصلاحی دعوت کے ساتھ اگر وہ یہ حکم لگانے لگے کہ فلاں لوگ چونکہ اُس کے نزدیک مشرکانہ اعمال میں مبتلا ہیں اس لیے اُن کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اُن کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی تو ایسا شخص خود اسلام کی نظر میں غلط کار قرار پائے گا۔ کیوں کہ وہ غلو کررہا ہے اور غلو کی اسلام میں گنجائش نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اصلاح کا کام ایک بے حد نازک کام ہے۔ اُس کی ناگزیر شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مصلح ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانے۔ اُس کو یہ جاننا چاہئے کہ اُس کی ذمہ داری صرف پُر امن دعوت ہے۔ یہ اُس کی سرے سے ذمہ داری ہی نہیں کہ وہ متعین طورپر لوگوں کے بارہ میں یہ حکم لگائے کہ فلاں شخص مشرک ہے۔ مصلح کو چاہئے کہ وہ مشرک ہونے کے معاملہ کو خدا کے حوالہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صرف خیر خواہانہ نصیحت تک محدود رکھے۔ جن لوگوں کے اندر فرق کرنے کی یہ صلاحیت نہ ہو، اُن کا اصلاح کے میدان میں آنا بذات خود ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے سوالات کا نمبر وار جواب حسب ذیل ہے:

۱۔ کسی مصلح کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ سنجیدگی اور خیر خواہی کے ساتھ شرک کے مسئلہ کو بتائے۔ کسی مصلح کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی متعین شخص کو مشرک قرار دے اور اُس کے اوپرشرک کے احکام نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ پہلا کام یقینی طورپر جائز ہے مگر دوسرا کام یقینی طورپر جائز نہیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہ مفسد ہیں، نہ کہ مصلح۔

۲۔ مشرک کسی قوم یا نسل کانام نہیں۔ کسی بھی شخص سے شرک کا فعل سرزد ہوسکتا ہے۔ مگر تعین کے ساتھ کسی کو مشرک قرار دینے کا حق صرف خدا کو ہے، انسان کو نہیں۔

۳۔ کوئی مقتدی امام کی نماز نہیں پڑھتا۔ ہر مقتدی خود اپنی نماز پڑھتا ہے۔ امام کے سبب سے کسی مقتدی کی نماز نہ مقبول ہوتی ہے اور نہ غیر مقبول۔ قبولیت کا تعلق تمام تر ہر آدمی کی اپنی نیت سے ہے۔ باجماعت نماز کا مقصد صرف اجتماعیت ہے۔ جس امام کے پیچھے بھی اجتماعیت کا یہ مقصد حاصل ہو جائے وہ درست قرار پائے گا۔ یہ بات حدیث میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم، برّا کان او فاجراً و ان عمل الکبائر (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب امامۃ البرّ والفاجر)یعنی فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے، خواہ وہ نیک ہو یا بد اور خواہ اُس نے کبیرہ گناہ کیا ہو۔

یہاں اگر کوئی یہ نکتہ نکالے کہ حدیث میں فاجر یا مرتکب کبائر کا لفظ ہے، اُس میں مشرک کا لفظ نہیں تو یہ بھی اُسی غلو کی ایک صورت ہوگی جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ اس قسم کے غلو کرنے والوں پر فرض ہے کہ وہ چُپ رہیں، نہ کہ اس قسم کے فتنہ انگیز الفاظ بول کر امت میں نزاع پیدا کریں۔

۴۔ کس مصلی کی نماز ہوئی اور کس مصلّی کی نماز نہیں ہوئی، اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار تمام تر اللہ تعالیٰ کو ہے۔ جو لوگ کسی مصلّی کی نماز پر ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگائیں وہ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں اور حد سے تجاوز کرنا بلا شبہہ سخت گناہ ہے۔

۵۔ کلمہ پڑھنا صرف اسلام میں داخلہ کا اعلان ہے۔ کلمہ کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی شرک کے ارتکاب سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ فتنہ کی اس دنیا میں کوئی بھی شخص شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ مصلح کا کام مشرک کی نشاندہی کرنا اور اُس پر حکم لگانا نہیں ہے بلکہ عمومی انداز میں شرک کا مسئلہ بتانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ کو جب اصلاحی خطاب کرنا ہوتا تو آپ فرماتے: ما بال اقوام یفعلون کذا وکذا۔ (لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا اور ایسا کرتے ہیں )۔

۶۔ ایک شخص اگر شراب پیتا ہو تو مصلح کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اُس کے شرابی ہونے کا اعلان کرے اور اُس کو کوڑا مارنے کا فتویٰ دے۔ مصلح کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کامل خیر خواہی کے ساتھ شرابی کو نصیحت کرے اور برابر نصیحت کرتا رہے۔ اسی طرح اگرکوئی شخص بظاہر شرک میں مبتلا ہے تو مصلح کو چاہیے کہ وہ خیر خواہانہ انداز میں اُس کو سمجھائے۔ مصلح کو اس کا حق نہیں کہ وہ برسرِ عام تعین کے ساتھ کسی کے مشرک ہونے کا اعلان کرے اور اُس کے خلاف فتویٰ جاری کرے۔ یہ سب دینی اصطلاح میں غلو کے کام ہیں اور اسلام میں غلو کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔

۷۔ اس معاملہ میں مسلم اور نو مسلم دونوں کا حکم ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ اصلاح کی ہمدردانہ کوشش دونوں کے ساتھ کی جائے گی۔ مگر تعین کے ساتھ شرعی حکم لگانے کا کام کسی کے خلاف بھی نہیں کیا جائے گا۔

۸۔ پیغمبر کا طریقہ یہ ہے کہ سارا زور روح دین کو زندہ کرنے پر لگایا جائے۔ خارجی اعمال ہمیشہ داخلی روح کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ خارجی اعمال سے اپنے آپ داخلی روح پیدا ہوجائے۔

تکفیر و تفسیق کا موجودہ طریقہ جو مسلمانوں میں ایک عرصہ سے رائج ہے وہ سراسر باطل ہے، شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ مذموم طریقہ عباسی سلطنت کے زمانہ میں رائج ہوا اور ’’فرق ضالّہ‘‘ کے نام پر وہ کئی سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہ نوبت آگئی کہ ان فتووں کے مطابق، امت مسلمہ میں کوئی بھی شخص مومن و مسلم کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔ آخر کار علماء نے اتفاقِ عام کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ تکفیر وتفسیق کے اس کام کو بند کردیا جائے۔ علماء نے اتفاق رائے کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ: لا نکفراحداً من اہل القبلۃ (ہم کسی ایسے شخص کو کافر نہیں کہیں گے جو قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے)۔

یہی اس معاملہ میں صحیح مسلک ہے۔ قرون مشہود لہا بالخیر میں اس قسم کا تکفیری مشغلہ نہیں ملتا۔ یہ تکفیری مشغلہ عباسی دور میں قدیم عراق میں متکلمین نے پیدا کیا۔ مگر بعد کو علماء راسخین نے اُس کو رد کردیا اور یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی حال میں اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔

اہل قبلہ کی شرط اُسی قسم کی ایک چیز ہے جس کوتعلیق بالمحال کہا جاتاہے۔ کوئی بھی فرقہ کبھی ایسا نہیں کرے گا کہ وہ کعبہ کے بجائے کسی مندر یا چرچ کی طرف نماز پڑھے۔ پچھلے ہزار سال کے دوران کبھی کسی فرقہ نے ایسا نہیں کیا۔ ایسی حالت میں لا نکفر احداً من اہل القبلۃ کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ کوئی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہے ہم بھی اُس کومسلمان کہیں گے۔ ہم اپنی طرف سے کسی کو کافر نہیں بتائیں گے۔

تکفیر و تفسیق کی ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برائی کے معاملہ میں لوگوں کو بے عمل یا غیرجانبدار بنا دیا جائے۔ اس کا مطلب عمل کے صحیح رُخ کو بتانا ہے۔ اور وہ یہ کہ برائی کے معاملہ میں ہمارا طریقہ خیر خواہانہ نصیحت کا ہونا چاہئے۔ بقیہ چیزوں کو اللہ کے اوپر چھوڑ دینا چاہئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے۔ اللہ نے میری یہ دعا قبول کر لی۔ اور میں نے دعا کی کہ وہ میری امت پر کسی خارجی دشمن کو مسلط نہ کرے۔ اللہ نے میری یہ دعا قبول کرلی۔ اور میں نے یہ دعا کی کہ وہ اُن کو گروہوں میں نہ بانٹے کہ اُن کا ایک گروہ اُن کے دوسرے گروہ کو اپنی طاقت کا مزہ چکھائے۔ اللہ نے اس کوقبول نہیں کیا۔ (مسند احمد، الجزء ۵، صفحہ ۲۴۸)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی تحریک کے غیر مطلوب ہو نے کی پہچان کیا ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ کیا اس تحریک کے ذریعہ مسلمان دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ جب بھی کسی تحریک کا یہ نتیجہ نکلے کہ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں تو یقینی طورپر ایسی تحریک ایک غیر مطلوب تحریک ہے۔ اُس کو خدا کی مددحاصل نہیں۔ ایسی تحریک کااگر پھیلاؤ ہو تو یقینی طورپر یہ پھیلاؤ شیطان کی مدد سے ہوگا، نہ کہ اللہ کی مدد سے۔

دوگروہوں میں بٹنے کا یہ معاملہ سیاسی عنوان سے بھی ہوسکتا ہے اور مذہبی عنوان سے بھی یا کسی اور عنوان سے بھی۔ کسی مسلم تحریک کے مطلوب ہونے کی اصل پہچان یہ نہیں ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے نام پر اُٹھائی گئی ہے۔ بلکہ اصل پہچان یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندر اتحاد فروغ پا رہا ہے یا اختلاف۔ جس تحریک کے ذریعہ مسلمانوں میں اتحاد فروغ پائے وہ خدا کی مطلوب تحریک ہے اور جس تحریک کے ذریعہ مسلمانوں میں تفریق و اختلاف فروغ پائے وہ خدا کے نزدیک غیر مطلوب تحریک ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom