ایک خط

برادر محترم شمشاد محمد خاں صاحب     السلام علیکم ورحمۃ اللہ

محترمہ مریم صاحبہ نے اپنا خط مورخہ ۱۶جنوری ۲۰۰۲ آپ کے نام لکھا تھا جس کو آپ نے بذریعہ فیکس میرے پاس بھیج دیا ہے۔ یہ انگریزی خط انہوں نے میرے کچھ مضامین کے خلاف سخت ردّعمل کے طورپر لکھا ہے۔ مگر ان کا یہ منفی ردّعمل تمام تر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ان کا یہ پورا خط اس قدیم عربی مقولہ کے مصداق ہے کہ : الناس أعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن ہو جاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہوں)۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوفہ نے میرے صرف کچھ مضامین کو سرسری طورپر پڑھا ہے۔ اگر وہ میری تمام تحریروں کو پڑھتیں تو ہر گز وہ ایسا بے بنیاد خط نہ لکھتیں۔

۱۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان مختلف مقامات پر جہاد کے نام سے جو مسلح جنگ کررہے ہیں، اس کی بابت راقم الحروف کا کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اسلامی جہاد نہیں۔ جہاد بلا شبہہ اسلام کی ایک تعلیم ہے مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا جہاد اسلامی جہاد نہیں۔ اس پر وہ اپنے خط میں فرماتی ہیں کہ یہ نظریہ قرآن اور سنت سے مکمل انکار کے ہم معنیٰ ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کے حق میں انہوں نے قرآن کی ایک آیت کو بطور حوالہ پیش کیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم نے بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا موسیٰ کے بعد، جب کہ انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں لڑیں۔ نبی نے جواب دیا: ایسا نہ ہو کہ تم کو لڑائی کا حکم دیاجائے تب تم نہ لڑو۔ انہوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم نہ لڑیں اللہ کی راہ میں۔ حالاں کہ ہم کواپنے گھروں سے نکالا گیا ہے اور اپنے بچوں سے جدا کیا گیا ہے۔ پھر جب ان کو لڑائی کا حکم ہوا تو تھوڑے لوگوں کے سوا سب پھر گئے۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔(البقرہ ۲۴۶)

قرآن کی اس آیت سے عین وہی بات ثابت ہوتی ہے جس کا میں اظہار کرتا رہا ہوں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال یا مسلّح جہاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک باضابطہ حاکم کے تحت ہو۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں کا آزادانہ طورپر مسلح جہاد کرنا جائز نہیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان مختلف مقامات پر جو مسلح جہاد چھیڑے ہوئے ہیں وہ سب کا سب غیر حکومتی تنظیموں کے تحت ہورہا ہے، اس لئے ان میں سے کوئی بھی اسلامی جہاد نہیں۔ کشمیر کی جنگ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اس میں شریک ہے۔ مگر پاکستانی حکومت کی یہ شرکت درپردہ اور بلا اعلان ہے، اور قرآن سے ثابت ہے کہ بلا اعلان جنگ اسلام میں نہیں (الانفال ۵۸)۔

۲۔ موصوفہ نے اپنے خط میں تحریر فرمایا ہے کہ جہاد کے بارے میں میرے خیالات شاید حکومت ہند کے صیہونی مشیروں کے زیر اثر بنے ہیں۔ یا یہ کہ رائٹر (راقم الحروف) رسول اللہ کا پیرو نہیں ہے بلکہ وہ مہاتما گاندھی کا پیرو ہے۔ یا یہ کہ راقم الحروف کا میڈیا نے برین واش کردیا ہے۔

موصوفہ کی یہ بات عجیب و غریب غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب با ت یہ ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا الزام میرے اوپر کسی حوالہ کے بغیر عائد کردیا ہے۔ جن لوگوں نے میری تحریریں پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے میں ایک انتہائی غیر مرعوب انسان ہوں۔ کوئی صیہونی مشیر یا کوئی میڈیا مجھے متاثر نہیں کرسکتا۔ میرا تو حال یہ ہے کہ میں انڈیا میں رہتے ہوئے یہاں کی انتہائی اعلیٰ شخصیتوں پر کھُلی تنقید کرتا ہوں۔ مثال کے طورپر مہاتما گاندھی کے بارے میں میر ی ایک مفصل تنقید نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ دی پانیر (۲۶ جنوری ۱۹۹۷) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ میری اس تنقید کا ایک حصہ امریکی روزنامہ نیو یارک ٹائمس (۳۱ جنوری ۱۹۹۷) میں بھی نقل کیا گیا تھا۔

۳۔ موصوفہ نے ایک عجیب و غریب بات یہ لکھی ہے کہ وہ میرے مضمون کا ایک ایک پیراگراف لے کر اس کی مکمل تنقید لکھنا چاہتی تھیں۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اور صرف ایک مختصر خط لکھنے پر اکتفا کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مفصل تنقید سے میں اس لئے رُک گئی کہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ شیطان ہے جو یہ چاہتا ہے کہ میں اس میں اپنا اتنا زیادہ وقت ضائع کروں :

I realized that only Satan would want me to waste so much time.

اس سلسلہ میں میں کہوں گا کہ موصوفہ کے لئے اس معاملہ میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) تھا۔ وہ یہ کہ وہ یا تو کتاب وسنت کے حوالوں کے ذریعہ میرے نقطۂ نظر کی مدلّل تردید کریں یاوہ اس معاملہ میں بالکل خاموش رہیں۔ مگر انہوں نے ناقابلِ فہم طورپر یہ تیسرا طریقہ اختیار کیا کہ انہوں نے الزام کی زبان کو میری تردید کے لئے کافی سمجھا۔ یہ تیسری پوزیشن یقینی طورپر نہ عقل کے مطابق ہے اور نہ شریعت کے مطابق۔

۴۔ محترمہ مریم صاحبہ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ میرا مضمون ’’اسلامک فنڈامنٹلزم‘‘ بتاتا ہے کہ میں اس کی حقیقت سے بالکل بے خبر ہوں۔ وہ لکھتی ہیں کہ فنڈامنٹلزم کی اصطلاح مغرب میں وضع ہوئی‘ نہ کہ مسلم دنیا میں۔ اور یہ کہ اسلامک فنڈامنٹلزم یا مسلم فنڈامنٹلزم کا لفظ غیر مسلموں کا دیا ہوا لفظ ہے‘ وہ خود مسلمانوں کا اپنا لفظ نہیں۔ مگر یہ عین وہی بات ہے جو خود میں نے اپنے مضمون میں لکھی ہے۔ عجیب بات ہے کہ موصوفہ خود میری لکھی ہوئی بات سے مجھ کو بے خبر بتا رہی ہیں۔ اس معاملہ کی وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی انگریزی کتاب ’’اسلام ری ڈسکورڈ ‘‘کا بارہواں باب: اسلامک فنڈامنٹلزم‘ صفحہ ۱۳۱۔

۵۔ موصوفہ نے لکھا ہے کہ اسلام میں کوئی فنڈامنٹلزم نہیں۔ اس سلسلہ میں میرا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی وہ روش جس کو اہل مغرب اسلامک فنڈامنٹلزم کہتے ہیں‘وہ بطور واقعہ موجودہ مسلمانوں کے اندر یقینا پائی جاتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن وحدیث میں غلو کہا گیا ہے اور اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں یہ غلو بلا شبہہ پایا جاتا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ خود محترمہ مریم صاحبہ بھی شعوری یا غیر شعوری طورپر غلو کی اس نفسیات میں مبتلا ہیں ‘ اوراس کا ایک ثبوت خود ان کا موجودہ غلو آمیز تبصرہ ہے۔

۲۲ جنوری ۲۰۰۲

دعا گو

وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom