پلاننگ، ری پلاننگ
پلاننگ(planning) کا مطلب ہے منصوبہ بند انداز میں کام کرنا۔ محنت کے ساتھ جب تنظیم (organization) کو شامل کیا جائے تو اسی کا نام منصوبہ بندی ہے۔ قدیم تصور یہ تھا کہ کامیابی کے لیے محنت (hard work) سب سے اہم ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی کی ترقی نے اس میں ایک مزید پہلو کا اضافہ کیا ہے، اور وہ تنظیم ہے۔ اس تصور کے مطابق پلاننگ کا مطلب ہے منظم انداز میں کسی کام کے لیے اپنی محنت صرف کرنا۔
ری پلاننگ (re-planning) گویا پلاننگ پلس (planning plus) کا دوسرا نام ہے۔ ری پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے منصوبہ میں تجربات کا اضافہ کرنا، اور نئی معلومات کی روشنی میں از سر نو اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔ اس طریق کار کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ پہلے منصوبہ میں جو مقصد حاصل نہ ہوا ہو، اس مقصد کو دوبارہ بہتر انداز میں منظم کرکے از سر نو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ری پلاننگ کا طریقہ ہر معاملے میں قابل انطباق (applicable)ہے۔ اسی طرح اسلامی عمل کے معاملے میں بھی یہ طریقہ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہارون الرشید عباسی سلطنت کا پانچواں خلیفہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار وہ بغداد میں اپنے محل کے اوپر اپنی ملکہ زبیدہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ فضا میں بادل کا ایک ٹکڑا ا ڑتا ہوا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر اس نے کہا:امطری حیث شئت، فسیاتینی خراجک۔ جہاں چاہے جاکر برس، تیرا خراج میرے پاس ہی آئے گا۔
ہارون الرشید کی یہ بات قدیم زمانے میں ایک بامعنیٰ بات ہوسکتی تھی، مگر آج اس کی معنویت ختم ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس سلسلے میں کئی نئی باتیں وجود میں آچکی ہیں۔ مثلاً قدیم زمانہ مبنی بر زمین زراعت (land-based agriculture) کا زمانہ تھا، اب مبنی بر ٹکنالوجی صنعت کا زمانہ ہے۔ قدیم زمانے کی سیاست شخصی اقتدارپر مبنی ہوا کرتی تھی، اب سیاست جمہوریت پر مبنی ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میں صرف اقتدار کے محدود دائرے سے خراج لینا ممکن ہوتا تھا۔ اب مکمل آزادی کا زمانہ ہے، اب آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا سے ’’خراج‘‘ لینا ممکن ہوگیا ہے۔
اس فرق کی بنا پر اب ممکن ہوگیا ہے کہ کسی مقصد کا منصوبہ عالمی سطح پر بنایا جائے بغیر اس کے کہ عالمی سطح پر سیاسی اقتدار حاصل ہو۔اس فرق نے مشن کے تصور میں بنیادی بھی فرق پیدا کردیا ہے۔اگر آپ ایک عالمی مشن چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے ماڈرن ٹکنالوجی پر مبنی پر امن تنظیم۔مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعوتی مکتوب ایران کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھیجا۔ اس مکتوب کو لے کر کسریٰ کے پاس جانے والے ایک صحابی تھے، جن کا نام عبد اللہ بن حذافہ تھا۔ اس مکتوب کا متن یہ تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ من محمد رسول اللہ إلى کسرى عظیم فارس، سلام على من اتبع الہدى، وآمَنَ باللہ ورسولہ وشَہِد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأن محمد اعبدہ ورسولہ، وأدعوک بدُعاء اللہ، فإنی أنا رسول اللہ إلى الناس کافة لأنذر من کان حیا ویحق القول على الکافرین۔ فإن تُسلم تَسلَم وإن أبیت فإن إثم المجوس علیک (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، 4/306)۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایران کے قدیم بادشاہ کو جب یہ مکتوب دیا گیا تو وہ غصہ میں آگیا، اور اس کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ یہ واقعہ قدیم زمانے کے مروجہ کلچر کی بنا پر ہوا۔ آج اگر کسی تحریک کا سربراہ اس قسم کا خط کسی حکمراں کو بھیجے تو وہ سربراہ جواب میں اس کا اکنولجمنٹ (acknowledgement) بھیجے گا، اور متعلقہ مکتوب اس کے دفتر میں محفوظ کردیا جائے گا۔
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلامی مشن کی ری پلاننگ کی جائے۔ جدید حقائق کی روشنی میں اس کا منصوبہ بنایا جائے۔ اب کسی صاحب مشن کو نہ کسی شکایت کی ضرورت ہے، نہ کسی پروٹسٹ کی۔ اب صرف یہ ضرورت ہے کہ آدمی زمانے کی تبدیلی کو سمجھے، اور اس کی رعایت کرتے ہوئے، اسلامی مشن کی پر امن ری پلاننگ کرے۔ اسی تبدیل شدہ لائحہ عمل کا نام ری پلاننگ ہے۔