تمہید
۱۹۹۱ میں عراق کے صدر صدّام حسین نے کویت میں اپنی فوجیں داخل کرکے اُس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد امیر کویت کی درخواست پر امریکا نے عراق پر حملہ کردیا اور کویت کو آزاد کرایا۔ اس واقعہ پر میں نے تاریخ وار ڈائری لکھی تھی جو ماہنامہ الرسالہ کے شمارہ مئی ۱۹۹۱ میں چھپی۔ بعد کو یہ مجموعہ پمفلٹ کی صورت میں اُردو میں خلیج ڈائری اور عربی میں یومیّات حرب الخلیج کے نام سے شائع ہوا۔
عراق تیل کی دولت کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ عراقی صدر نے تیل کی اس دولت کا بہت بڑا حصہ فوجی تیاری میں خرچ کردیا۔ یہاں تک کہ ایک اندازہ کے مطابق، عراق دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوجی طاقت بن گیا۔ یہ فوجی طاقت عراق کے کچھ کام نہ آئی۔ پہلے اقوام متحدہ کے دباؤ کے تحت عراق کو مجبوراً اپنے ہتھیار وں کے ذخیرہ کو خود ہی تباہ کرنا پڑا۔ یہ گویا وہی معاملہ تھا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : یخربون بیوتہم بایدیہم (الحشر ۲)
عراقی صدر کی انتہا پسندانہ سیاست مغربی قوتوں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہوئی۔ امریکا نے پہلے صدر صدام حسین کو یہ الٹی میٹم دیا کہ وہ عراق کو چھوڑ کر ملک کے باہر چلے جائیں۔ راقم الحروف نے ۱۵ فروری ۲۰۰۳ کوایک اخباری مضمون لکھا تھا۔ اس میں صدر صدام حسین کو یہ مشورہ دیاگیا تھا کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اہون البلیتین کے فقہی اُصول پر عمل کرتے ہوئے اقتدار چھوڑ کر عراق کے باہر چلے جائیں۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:
Option for Saddam Husain
کئی عرب ملکوں نے صدام حسین کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنے ملک میں اُن کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔ مگر صدّام حسین بغداد کے اقتدار پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ امریکا نے عراق پر حملہ کرکے صدر صدّام حسین کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ میں نے دوبارہ اس جنگ کی ڈائری لکھنا شروع کیا تھا۔ اس ڈائری کو ماہنامہ الرسالہ میں ایک خصوصی شمارہ کے طورپر شائع کیاجارہا ہے۔ اس ڈائری کے لکھنے میں حسبِ معمول میرا رہنما اصول وہی رہا ہے جس کو شیخ سعدی نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے—ہر ایک غیر کے خلاف فریاد کرتا ہے۔ مگر سعدی کو خود اپنے آپ سے شکایت ہے:
ہر کس از دستِ غیر نالہ کُند سعدی از دستِ خویشتن فریاد
قرآن کی سورہ نمبر ۱۷ کی ابتدائی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اُس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اُس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کار سازنہ بناؤ۔ تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ ایک شکر گزار بندہ تھا۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتادیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین (شام) میں فساد برپا کروگے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ پھر جب اُن میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے، نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھس پڑے اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری اُن پر لوٹا دی اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کام کروگے تو تم اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم برا کام کروگے تب بھی تم اپنے لیے برا کروگے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اور بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد میں گھس جائیں جس طرح وہ اس میں پہلی بار گھسے تھے اورجس چیز پر اُن کا زور چلے اُس کو وہ برباد کردیں۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہارے اوپر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر وہی کروگے تو ہم بھی وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کو منکرین کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے (بنی اسرائیل ۱۔۸)
قرآن کے اس حصہ میں مکہ کی مسجد حرام سے یروشلم کی مسجد اقصیٰ تک پیغمبرانہ سفر کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے غالباً ۶۲۱ء میں پیش آیا۔ یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کو اس میں یروشلم کی جو نشانی دکھائی گئی وہ کون سی نشانی تھی۔ نشانی (آیت) کا لفظ قرآن میں تاریخی کھنڈروں کے لیے استعمال ہوا ہے (الحجر ۷۵)۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی نشانی سے مراد مسجدِ اقصیٰ تھی جو اس سفر کے وقت ایک کھنڈر کی حالت میں تھی۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، مسجداقصیٰ کو دوسری بار ٹائٹس (Titus) رومی نے ۷۰ء میں مکمل طورپر ڈھا دیا ـتھا۔ پیغمبر اسلام کے سفر کے وقت مسجد اقصیٰ اسی کھنڈر کی حالت میں تھی۔ مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت بعد کو بنو امیہ کی خلافت کے زمانہ میں بنائی گئی۔
یروشلم کی نشانی کو دکھانے کے اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد فوراً بنی اسرائیل کی تاریخ بتائی گئی جو مسجد اقصیٰ کے کھنڈر سے جڑی ہوئی تھی۔ وہ تاریخ یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو خدا نے پیغمبروں کے ذریعہ اپنا ہدایت نامہ دیا تاکہ وہ اس پر عمل کریں اور دوسری قوموں کو اس سے آگاہ کریں مگر بنی اسرائیل کی بعد کی نسلوں میں بگاڑاورسرکشی آگئی۔ اس کے بعد ان پر خدا کی مختلف تنبیہات آئیں۔ ان تنبیہات کا انتہائی ظہور ۵۸۶ ق م میں ہوا جب کہ بابل کے حکمراں بخت نصر(Neouchadnezzar) نے مرکزِیہود یروشلم پر حملہ کرکے مسجدِ اقصیٰ (ہیکل سلیمانی) کو تباہ کردیا۔
مذکورہ قرآنی بیان کے مطابق، اس صدمہ کے بعد یہود کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے توبہ واصلاح کی۔ اس کے بعد خدا نے ان کی مددکی اور ان کو دوبارہ ایک ترقی یافتہ قوم بنا دیا۔ چند نسلیں گزرنے کے بعد بنی اسرائیل میں پھر بگاڑ شروع ہوا۔ دوبارہ اُن کو مختلف تنبیہات بھیجی گئیں۔ مگر ان کا بگاڑ جاری رہا۔آخر کار دوبارہ ۷۰ ء میں رومی حکمراں نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی (مسجد اقصیٰ) کو تباہ کردیا جو کہ یہودیوں کے لیے عزت اور سرفرازی کی علامت کی حیثیت رکھتا تھا۔ قرآنی بیان کے مطابق، اس کے بعد دوبارہ یہود کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے اپنی اصلاح کی اور پھر دوبارہ وہ خدا کی رحمت کے مستحق قرار پائے۔
یہود کی تاریخ میں اس طرح زوال کے بعد تنبیہات کا آنا اور پھر تباہی سے دوچار ہونے کے بعد ان کا دوبارہ ترقی کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو یہود کی تاریخ میں واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ یہ تباہی یہود کی تاریخ اور ان کے ادب میں ایک تاریخ ساز واقعہ بن ِگئی:
The disaster became the great epoc-making event in Jewish history and literature. (13/48)
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قرآنی بیان میں لنریہ من آیاتنا (بنی اسرائیل ۱) میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ قدیم اہل کتاب (بنی اسرائیل) کی تاریخ میں جس طرح دوبار تنبیہی حادثہ کا واقعہ پیش آیااسی طرح امت مسلمہ میں بھی دو بار تنبیہی حادثہ کا واقعہ پیش آئے گا۔جب ایسا ہوتو امت مسلمہ کے لیے بھی ضروری ہوگا کہ اس کے اندر احتساب اور اصلاح کی تحریکیں اٹھیں۔ اسی احتساب اور اصلاح کے ذریعہ ممکن ہوگا کہ امت مسلمہ دوبارہ خدا کی رحمت کی مستحق بنے جس طرح قدیم اہل کتاب ایسے ہی عمل کے ذریعہ مستحق بنے تھے۔
قدیم اہل کتاب (یہود) پر دوبار جو تنبیہی عذاب آیا وہ اُن کے مرکزی مقام یروشلم میں آیا۔ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کے ساتھ اسی طرح دوبار جو تنبیہی واقعہ پیش آنے والا ہے وہ بھی امت مسلمہ کے تاریخی مرکز بغداد میں پیش آئے گا۔ پہلی بار مرکزِ اقتدار کے طورپر، اور دوسری بار مرکزِدولت کے طور پر۔یہ تنبیہی واقعہ امت کے استیصال کے لیے نہیں ہوگابلکہ یہ دھماکہ خیز واقعہ امت کو جگانے کے لیے اور اس کو دوبارہ زندہ امت بنانے کے لیے ہوگا۔ واضح ہو کہ ایسا واقعہ حجاز کے علاقہ میں نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ حدیث کی صراحت کے مطابق، حجاز کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے محفوظ علاقہ قرار دے دیا ہے۔(مشکاۃ المصابیح ۱؍۴۰)
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ طولِ امد (الحدید ۱۶) سے لوگوں میں قساوت آتی ہے، یعنی قوم کی بعد کی نسلوں میں بگاڑ آجاتاہے۔ یہ بگاڑ بڑھتے بڑھتے جب اپنی آخری حد پر پہنچ جاتا ہے تو خدا کی طرف سے وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو قرآن میں بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باسٍ شدید (بنی اسرائیل ۵) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ امت مسلمہ میں یہ واقعہ پہلی بار تیرہویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امت مسلمہ سے حقیقی دینی اسپرٹ نکل چکی تھی اور وہ ایک بے روح ڈھانچہ بن گئی تھی۔ اس وقت چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کی قیادت میں وحشی تاتاریوں کی فوج اٹھی اور اُس نے اس وقت کی عباسی سلطنت کو تباہ کردیا جس کا مرکز بغداد تھا۔
اس تباہی کے بعد مسلمانوں میں احتساب کا جذبہ جاگا۔ انہوں نے اپنی دینی اصلاح کی۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت دوبارہ متوجہ ہوئی اور تاتاریوں کی قوم کو اسلام کی توفیق دی گئی۔ اس کے بعد اسلام کی عظمت کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی جو نو آبادیاتی دور کے آغاز تک قائم رہی۔
اب پچھلے دو سو سال سے دوبارہ مسلمان زوال کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اسلام کی اصل روح بے حد کمزور ہو گئی ہے۔ بظاہر مسلمانوں میں دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں مگر تقریباً سب کی سب اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہیں۔ وہ آج کل کی اصطلاح میں کمیونٹی ورک کی حیثیت رکھتی ہیں وہ حقیقی معنوں میں اسلامی ورک یا دینی عمل کی حیثیت نہیں رکھتیں۔
پچھلے دو سوسال میں جب سے مسلمانوں میں یہ بگاڑ آیا اُن پر خداکی طرف سے چھوٹی چھوٹی تنبیہات نازل ہوتی رہیں۔ نو آبادیاتی دور میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے ذریعہ،فلسطین میں یہود کے ذریعہ،پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میں ہندوؤں کے ذریعہ، افغانستان میں امریکا کے ذریعہ، وسط مسلم ایشیا میں روس کے ذریعہ، وغیرہ۔ مگر یہ تنبیہات مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کافی نہ ہوسکیں۔ آخرکار مارچ ۲۰۰۳ میں یہ ہوا کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے ذریعہ مسلمانوں پر سخت حملہ شروع کردیا گیا۔ دوبارہ اس حملہ کا مرکز بغداد تھا۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تمام دفاعی قوت بھی عاجز ہوگئی۔
عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کا جو واقعہ پیش آیا وہ بہت غیر معمولی تھا۔ اس جنگ کے آغاز سے پہلے لمبے عرصہ تک امریکا یہ مانگ کرتا رہا کہ صدر صدام حسین اگر عراق کو چھوڑ دیں اور کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں تو اُن کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ کئی عرب ملکوں نے پیش کش کی کہ وہ صدام حسین کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔ مگر صدام حسین نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ حالانکہ قریبی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب کہ مسلم حکمراں نے جلاوطنی کو قبول کرلیا اور باہر کے ملک میں جاکر آرام سے رہنے لگے۔ مثلاً افغانستان کے ظاہر شاہ، مصر کے شاہ فاروق، پاکستان کے نواز شریف، وغیرہ۔ صدام حسین جو فوجی انقلاب کے ذریعہ عراق پر قابض ہوئے تھے وہ بھی ایسا ہی کرسکتے تھے۔ مگر اس معاملہ میں اُن کا دل اتنا سخت ہوگیا کہ وہ اس پیش کش کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ امریکا نے عراق پر حملہ کردیا۔
دوسری طرف صدر امریکا جارج بش کا معاملہ بھی تقریباً یہی ہے۔ دنیا کے بیشتر مدبرین اور بہت سے لوگوں نے عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کی مخالفت کی۔ خود راقم الحروف نے اس معاملہ میں امریکا کو اس اقدام کے خلاف کھلے طور پر متنبہ کیا تھا۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱کو نیویارک کے ورلڈٹریڈ ٹاور کے حادثہ کے صرف ایک ہفتہ بعد میں نے ایک اخباری انٹرویو دیا تھا جو نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ The Times of India کے شمارہ ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱ میں چھپا تھا۔ اس میں میں نے واضح طورپر کہا تھا کہ امریکا کو پر امن ذرائع سے اپنا عمل کرنا چاہئے۔ اگر اس نے فوجی کارروائی کی تو اس کا نتیجہ آخر کار الٹا نکلے گا۔
US aggression would be counter-productive
مگر امریکی صدر جارج بُش نے کسی کے مشورہ کو نہیں مانا اور عراق پر حملہ کردیا۔
ان غیر موافق اسباب کے باوجود عراق کی ہولناک جنگ شروع ہوئی۔ اس جنگ کی ایک امتیازی صفت یہ تھی کہ اس کو ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے T.V.Set پر شروع سے آخر تک دیکھا۔ چونکہ دنیا بھر کے مسلمان اس معاملہ میں صدام حسین کے حامی تھے اور اپنے آپ کو پوری طرح صدام حسین اور عراق کے ساتھ وابستہ کئے ہوئے تھے اس لیے یہ حملہ عملاً ساری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف حملہ بن گیا۔ ہر مسلمان مرد اور عورت نے اس کی زد کو اپنے اوپر محسوس کیا۔
یہ مسلمانوں کی تاریخ میں غالباً پہلا موقع تھا کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی آبادی بیک وقت اپنے اوپر تباہی کو ٹوٹتا ہوا دیکھے مگر وہ اُس کے خلاف کچھ نہ کرسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہ دراصل ایک قسم کا شاک ٹریٹمنٹ(shock treatment) ہے جو خدائی فیصلہ کے تحت پیش آیا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو جگانا اور اُن کے اندر نظر ثانی کی تحریک چلا کر انہیں دوبارہ صحت مند حالت کی طرف لے جانا ہے۔
شاک ٹریٹمنٹ ہی فطرت کا واحد اصلاحی طریقہ ہے۔ فطرت کا اس طرح کے معاملات میں یہ ابدی اصول ہے کہ تعمیر سے پہلے تخریب کی جائے۔ نیا ڈھانچہ بنانے سے پہلے پر انے بے روح ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مولاناروم نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ جب کسی تعمیر کو دوبارہ بنانا ہوتا ہے تو پہلے پرانی تعمیر کو ڈھا دیا جاتا ہے:
چوں بنائے کہنہ آباداں کنند اولاً تعمیر را ویراں کنند
تیرہویں صدی میں بغداد پر تاتاری حملہ کی صورت میں جو تنبیہی واقعہ پیش آیا وہ ایک اعتبار سے امتِ مسلمہ کے لیے خدائی تازیانہ تھا۔ دوسرے اعتبار سے اس واقعہ میں یہ سبق بھی موجود ہے کہ اس تازیانہ کے بعد اُمت کی سرگرمیوں کا رُخ کس سمت میں ہوناچاہئے۔
عام مسلم تاریخوں میں اگرچہ یہ پہلو تقریباً غیر مذکور ہے۔ مگر انگریز مستشرق ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے غیر معمولی تحقیق کے بعداس کو نمایاں کیا ہے۔ اُن کی یہ تحقیق اُن کی کتاب دعوتِ اسلام (The Preaching of Islam) میں تفصیل کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ تاریخ بتاتی ہے کہ اُس زمانہ کے مسلمانوں کے لیے جب سیاسی اور فوجی راستے عملاً بند ہوگئے تو اُنہوں نے دعوتی رُخ پر اپنی جدوجہد شروع کردی۔ مسلم مردوں اور مسلم عورتوں نے بڑے پیمانہ پر اور خاموش طورپر اسلام کی دعوت کا کام شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ جلد ہی مثبت انداز میں نکلنے لگا۔ یہاں تک کہ صرف پچاس سال کے اندر یہ انقلابی واقعہ پیش آیا کہ تاتاریوں کی اکثریت نے خدا کے دین کو اپنا دین بنا لیا۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مسلمانوں کے سب سے بڑے دوست بن گئے۔
مجھے یقین ہے کہ جس طرح تیرہویں صدی میں تاتاری حملہ کے بعد اسلام کی تاریخ کا ایک نیا دور آگیا تھا اُسی طرح اکیسویں صدی میں دوسری بار امریکی حملہ کے بعد یقینی طور پر اسلام کی نئی زندہ تاریخ شروع ہوگی، وہ تاریخ جس کاپوری انسانیت کو انتظار ہے۔
نئی دہلی، ۷ مئی ۲۰۰۳ وحید الدین