خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۶
۱۔ زی نیوز (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۲۲ ستمبر ۲۰۰۴کو ایک خصوصی پروگرام ہوا۔چار سال پہلے ایسا ہوا کہ عارف نامی ایک فوجی نے کارگل کی لڑائی میں حصہ لیا۔ پھر وہ غائب ہوگیا۔ لڑائی پر جانے سے صرف چند مہینہ پہلے عارف کی شادی ایک مسلم خاتون سے ہوئی جس کا نام گڑیا تھا۔ تین سال سے زیادہ مدت گذرنے کے بعد عارف کو مفقود الخبر قرار دے دیا گیا اور گڑیا کا دوسرا نکاح توفیق نامی ایک شخص سے کردیا گیا۔ مگر عارف زندہ تھا اور وہ پاکستان کی جیل میں تھا۔ چار سال بعد وہ چھوٹ کر آیا۔ اُس وقت تک گڑیا دوسرے شوہر کے ذریعہ حاملہ ہوچکی تھی۔ اب یہ سوال تھا کہ گڑیا کا معاملہ کس طرح طے کیا جائے۔ ۲۲ ستمبر کو گاؤں کے لوگ، نیز متعدد علماء زی ٹی وی کے اسٹوڈیو میں اکھٹا ہوئے اور یہاں ایک گھنٹہ سے زیادہ بحث کے بعد فقہی مسئلہ کے مطابق، اس کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں بطور ایک اکسپرٹ کے شرکت کی اور معاملہ کو حل کرنے میں مدد کی۔ خدا کے فضل سے معاملہ خوش اُسلوبی کے ساتھ طے ہوگیا۔
۲۔ ٹی وی نیٹ ورک آج تک (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳۰ ستمبر ۲۰۰۴ کی شام کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویوریکارڈ کیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر محمد انس زبیر اور کیمرہ مین دھیرج ہیلان تھے۔ انٹرویو کا موضوع شب برأت تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ قرآن کی سورہ نمبر ۴۴ (الدخان) میں ایک آیت ہے جس میں ایک بابرکت رات کا ذکر ہے۔ اس رات کو اہم خدائی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ رات کس تاریخ کو ہوتی ہے۔ البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۱۵ شعبان کی رات ہے۔ اس رات کو تلاوت اور عبادت اور دعا کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ عبادت کا ثواب یا دعا کی مقبولیت پر اسرار طورپر نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق اخلاص اور دل کی نیت سے ہے۔
۳۔ نروندنا کی ٹیم نے ۳۰ ستمبر ۲۰۰۴ کو دور درشن کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کے سوالات زیادہ تر دو موضوع سے متعلق تھے۔ ایک یہ کہ اسلام میں قومی اتحاد کا تصور کیا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ ایک خالق اور ایک انسان کا تصور قومی ایکتا اور انسانی اتحاد پیدا کرتا ہے۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ ہندستان کی ندیوں کا رول اس سلسلہ میں کیا ہے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ندی یا پہاڑ یا سورج یا چاند کوئی چیز اسلام میں مقدس نہیں ہے۔ البتہ نیچر کو اسلام میں اخلاقی ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً دریا اور پیڑ انسان کو کسی معاوضہ کے بغیر بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو فائدہ بخش بن کر دنیا میں رہنا چاہیے۔
۴۔ گاندھی درشن سمیتی (نئی دہلی) میں یکم اکتوبر ۲۰۰۴ کو ایک نیشنل سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار مشہور کانگریسی لیڈر نِرمل دیش پانڈے کی صدارت میں ہوا۔ اس میں کئی ممتاز شخصیتیں شریک ہوئیں۔ یہ سیمینار گاندھی اور گنگا کے موضوع پر ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ گاندھی اور گنگا کو ملک کی پہچان بتایا جاتا ہے۔مگر آزادی کے بعد ملک میں گاندھی اور گنگا کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ گاندھی اور گنگا کے نام پر اربوں روپئے خرچ کیے جاچکے۔ اصل یہ ہے کہ انڈیا میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن کی وجہ سے یہاں کے ہر کام بگڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں انڈیا میں کسی بھی اصلاحی اور تعمیری کام کا آغاز کرپشن کے خاتمہ کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ موجودہ کرپشن کی صورت میں کوئی تعمیری کام ہونے والا نہیں۔
۵۔ جین مہا سبھا کی طرف سے دہلی میں ۲ اکتوبر ۲۰۰۴ کو ایک سرودھرم سمبھاؤ سماروہ منعقد ہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اظہار خیال کیا۔ اس کا افتتاح دہلی کی چیف منسٹر شیلا دکشت نے کیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ان کو تقریر کا جو موضوع دیا گیا تھاوہ یہ تھا:
Universal Friendship and Forgiveness
انہوں نے بتایا کہ ہر مذہب میں اور اسی طرح اسلام میں ان دونوں باتوں پر کافی زور دیا گیا ہے۔ ایک طرف اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مذہبی یا کلچرل فرق کے باوجود تمام لوگوں کو انسان کے روپ میں دیکھا جائے۔دوسری طرف سچے مومن کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو معاف کرنے والا ہوتا ہے (والعافین عن الناس) لوگوں کے اندر عفو و درگذر کا مزاج بہت ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تمام انسانوں سے دوستانہ تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔
۶۔ منسٹری آف ہوم افئرس کے تحت قائم شدہ ادارہ نیشنل فاؤنڈیشن فار کمیونل ہارمنی کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ (۲۲ ستمبر ۲۰۰۴) موصول ہوا۔ اس میں دعوت دی گئی تھی کہ وہ ادارہ کی گورننگ باڈی کے ممبر کی حیثیت سے ۵ اکتوبر کو ہونے والی میٹنگ میں شرکت کریں۔ یہ میٹنگ ہوم منسٹر شیوراج پاٹل کی صدارت میں ہوئی۔ اس کا موضوع ملک میں کمیونل ہارمنی کے مسئلہ پر غور کرنا تھا۔ مگر صدر اسلامی مرکز بعض وجوہ سے اس میں شرکت نہ کرسکے۔ البتہ کمیونل ہارمنی اور پیس کے موضوع پر ان کی تازہ مطبوعہ کتاب امن عالم (صفحات ۲۰۸) بھیج دی گئی جو ہوم منسٹر مسٹر شیوراج پاٹل کو دستی طورپر پہنچائی گئی۔
۷۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) میں ۹ اکتوبر ۲۰۰۴ کی شام کو خبروں کی بلیٹن میں ’’ماڈل نکاح نامہ‘‘ کی خبر نشر ہوئی جو کچھ لوگوں کی طرف سے بنایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پروگرام کے دوران اکسپرٹ کے طورپر صدر اسلامی مرکز کی رائے بلیٹن میں شامل کرکے نشر کی گئی۔ اس کی صورت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آفس سے ٹیلی فون پر اپنی رائے بتائی اور وہ بلیٹن کے ساتھ ان کے لائیو ٹیلی کاسٹ میں شامل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ماڈل نکاح نامہ موجودہ حالات میں عملاً چلنے والا نہیں۔ اس سے پہلے اسی مسلم تنظیم نے شاہ بانو کے مسئلہ پر ماڈل ایکٹ بنوایا تھا مگر وہ عملاً رائج نہ ہوسکا۔ خود مسلمان اس کے خلاف عدالتوں سے فیصلے لیتے رہے۔ اس معاملہ میں اصل مسئلہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنا ہے نہ کہ کوئی دستاویز جاری کرنا۔
۸۔ آج تک ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر محمدانس زبیر تھے۔ اس کا موضوع ارکان خمسہ تھا۔ اس کے تحت بتایا گیا کہ یہ پانچ ارکان گویا اسلام کے چار بنیادی اقدار (basic values) ہیں۔ اول توحید، توحید کا مطلب ہے خدا رخی زندگی اختیار کرنا۔ دوم نماز، نماز اس بات کی تربیت ہے کہ آدمی دنیا میں تواضع کے ساتھ رہے، وہ تکبر اور سرکشی سے بچے۔ سوم روزہ، روزہ کا مقصد سلف کنٹرول کی تربیت ہے۔ چہارم زکوٰۃ، زکوٰۃ کی حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان کے اندر انسانی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ پنجم حج، حج عالمی اتحاد کا سبق ہے۔ حج کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر رہنا سیکھیں۔
۹۔ ہندی روزنامہ سہارا سمے (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر سنیل کمار نے ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع ’’ہندستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ‘‘ تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فرقہ وارانہ اختلاف ختم نہیں کیاجاسکتا۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کو اتنا زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور بنا دیا جائے کہ وہ بھڑکانے والوں کے شکار نہ بنیں۔ سماج میں ہمیشہ اختلاف بھی ہوتا ہے اور اختلاف کو بھڑکانے والے بھی۔ اس کا علاج سماج کو با شعور بنانا ہے نہ کہ اختلاف کو یا بھڑکانے والوں کو مٹانا۔
۱۰۔ ہفت روزہ نئی دنیا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر جمشید عادل نے ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو نئی دنیا کے قرآن نمبر کے لیے تھا۔اظہار خیال کے دوران بتایا گیا کہ قرآن ایک ابدی کتاب ہے اور وہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ قرآن اب بھی اسی اصل حالت میں محفوظ ہے جیسا کہ وہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں اُترا تھا۔
۱۱۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر محمد قاسم انصاری تھے۔ سوالات کا تعلق رمضان اور روزہ سے تھا۔ اس سلسلہ میں جو کچھ بتایا گیا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ روزہ در اصل صبر کی تربیت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: ہو شہر الصبر۔ زندگی میں صبر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صبر کے بغیر آدمی نہ دین پر قائم رہ سکتا اور نہ دنیا میں ترقی حاصل کرسکتا۔ اسی لیے سال کے ایک مہینہ کو صبر کی تربیت کے لیے شریعت میں خاص کیاگیا۔
۱۲۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۴ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب پر اظہار خیا ل کیا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور ہیومن ویلوز اِن اسلام کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ پروگرام ایک گھنٹہ کا تھا۔ اس موقع پر اسلامی مرکز کی انگریزی کتابیں بھی لوگوں میں تقسیم کی گئیں۔
۱۳۔ نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انیکسی) میں ۲ نومبر ۲۰۰۴ کو دوروزہ سیمینار ہوا۔ اس میں ملک اور بیرون ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کا انتظام جس ادارہ کی طرف سے کیا گیا تھا اس کا نام یہ ہے:
Foundation for Universal Responsibility of the Dalai Lama.
اس سیمینار کا موضوع Understanding Death تھا۔ مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی دعوت دی گئی کہ ۲ نومبر کے اجلاس میں خطاب کریں۔ ان کو حسب ذیل موضوع دیاگیا تھا:
Islam and the Day of Judgement.
انہوں نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر تقریر کی۔ اس سیمینار کی پوری کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی۔ کچھ انگریزی کتابیں بھی لوگوں کے درمیان تقسیم کی گئیں۔
۱۴۔ سری گرو گوبند سنگھ کالج آف کامرس (نئی دہلی) میں ۴۔۵ نومبر ۲۰۰۴ کو ایک سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی تالیف (compilation) پر چار سو سال پورا ہونے پر کیا گیا۔ اس میں بہت سے اسکالر اور ممتاز افراد شریک ہوئے۔ مثلاً سابق پرائم منسٹر اندر کمار گجرال، گاندھیائی لیڈر نرمل دیش پانڈے، ساؤتھ افریقہ کے سابق سفیر ڈاکٹر جسپال سنگھ، جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے سینیر پروفیسر اختر الواسع صاحب، وغیرہ۔اس سیمینار کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے ۴ نومبر کے افتتاحی اجلاس میں مقرر موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں اقبال کے دو شعر کو بنیاد بنایا گیا۔ اقبال نے گرو نانک کے بارے میں کہا تھا:
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اس موقع پر اسلامک سنٹر کی انگریزی کتابیں بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ خاص طورپر چھوٹی کتابوں کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔
۱۵۔ ٹیلی فون کے ذریعہ دور کے مقامات پر دہلی سے دعوتی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ ۵ نومبر ۲۰۰۴ کو سویڈن (اسٹاک ہوم) کے ایک اجتماع کو ٹیلی فون کے ذریعہ خطاب کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا: قرآن کا پیغام۔یہ سویڈن کے لیے پانچواں ٹیلی فونی خطاب تھا۔ اسی طرح ۷ نومبر ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر دہلی سے فلوریڈا (امریکا) کی ایک مجلس کو خطاب کیاگیا۔ اس کا موضوع اسلامی عبادت تھا۔ یہ امریکا کے لیے اس قسم کا دسواں ٹیلی فونی خطاب تھا۔
۱۶۔ حسب ذیل نئی کتابیں چھپ کر آگئی ہیں—سیرت رسول، عورت معمارِ انسانیت، امن عالم۔ ان کے علاوہ کچھ اور کتابیں تیار ہوئی ہیں جو انشاء اللہ جلد ہی چھپیں گی۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں: حکمتِ اسلام، کامیابی کا راز، وغیرہ۔
۱۷۔
I am Azra. I live in Sharjah, UAE. Your articles are wonderful. Most of the books seem to be boring after reading for some time, but the books written by you are never boring and in fact I feel that your book should never finish. I don't understand why some people criticise you, though your work is excellent and based on truth. I am lucky that I managed to find Al-Risala of 1980, 1986 and so on, and I am astonished to find that what you wrote at that time is proved true even in today's state of the world. (Oct. 3, 2004)
۱۸۔
Thanks be to Allah Subhanahu wa Ta'ala for the guidance through you. I have successfully set up the Al Falah Study Centre which consists of a classroom, library and a book store of Goodword Publications. I have also taken agency of Urdu Al-Risala. A brochure explaining the nature of work at the study centre is enclosed, the books are priced at a very low profit margin.
Maulana Saheb, Allah knows best, my intention is to spread the Goodword and I beseech Allah (SWT) for His special favour and blessing in the form of my two sons (now 11 and 9 years old) doing dawah work when they grow up Inshaallah.
I conduct classes thrice a week. On Tuesdays I teach in Urdu, on Thursdays in English, 15 to 20 ladies attend the classes and I teach children on Saturdays. Right now I am teaching from your book Qalallah wa Qalar Rasool and for the month of Ramazan we have discussed the articles from Saum-e-Ramazan.
The safarnama in Al-Risala are very very enlightening. I read each one several times. I am doing Islahi work regularly and Dawah work as and when the opportunity arises within the known circle of non-Muslims.
Maulana, I try my best to balance between my home and the work at the study centre and have become more time conscious. I keep asking Allah in my own words to help me manage all my work efficiently. I would like to know if there is a specific dua for this purpose.
My father is conveying his most respectful regards. We all pray daily for your well-being and a long life. I feel especially blessed to be a small part of your method of spreading the word of Allah. Goodword publications are the best books in every way from the message to the style and quality. (Fatima Sara, Banglore)