اہلِ بیت
قرآن کی سورہ نمبر 33 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کی نسبت سے یہ آیت آئی ہے: إنّما یرید اللہ لیذہب عنکم الرِّجس أہل البیت، ویطہّرکم تطہیراً (الأحزاب: 33) یعنی اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے آلودگی کو دور کرے اور تم کو پوری طرح پاک کردے۔اِس آیت میں بظاہر اہلِ بیتِ رسول سے خطاب کیا گیا ہے۔ اہل بیتِ رسول تمام اہلِ ایمان کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں، اِس لیے اِس آیت کا تعلق تمام اہلِ ایمان سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں بالواسطہ طورپر مسلم معاشرے کے ہر گھر سے خطاب کیاگیا ہے۔ ہر مسلم خاندان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُسی تعمیری کورس کو اختیار کرے جس کا حکم اہلِ بیتِ رسول کے لیے دیا گیا تھا۔
ہر گھر سماج کا ایک یونٹ ہوتا ہے۔ بہت سے گھروں سے مل کر ایک سماج بنتا ہے۔ اگر سماج کا ہر یونٹ درست ہوجائے تو پورا سماج درست ہوجائے گا، اور اگر سماج کے یونٹ بگڑ ے ر ہیں تو سماج بھی ایک بگڑا ہوا سماج بن جائے گا۔اِس اعتبار سے ہر مسلم خاندان کی وہی حیثیت ہے جو قرآن کے الفاظ میں ’’اہلِ بیت‘‘ کی تھی۔ ہر مسلم خاندان کو اپنے افراد کی تطہیر اور تزکیہ کا کام کرنا ہے۔ وہ اپنے افراد کے اندر سے برائی کو نکالے اور اُن کے اندر بھلائی کو فروغ دے۔ ہر گھر کے مَردوں اور عورتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کو صالح خاندان بنائیں، تاکہ اُن کے مجموعے سے صالح معاشرہ وجود میں آسکے۔
اِس معاملے میں عورت اور مرد دونوں کی ذمے داری یکساں ہے۔ تعمیر کے اِس کام میں مرد کی حیثیت اگر ناظم کی ہے تو عورت کی حیثیت معاون کی۔ دونوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو سمجھیں اور اپنے اپنے دائرے میں خاندان کی صحت مند تعمیر کا کام انجام دیں۔ یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمے داری ہے۔ عورت اور مرد اگر اِس ذمے داری کو درست طورپر انجام دیں تو اُن کے لیے خدا کے یہاں بہت بڑا انعام ہے۔ اور اگر وہ اِس ذمے داری کو ادا کرنے میں کوتاہ ثابت ہوں تو وہ خدا کے یہاں پکڑے جائیں گے، اور خدا کی پکڑ بلا شبہہ نہایت سخت ہے۔