By
Maulana Wahiduddin Khan
ذريعه: الرساله، جون 2014

ہر زمانے کے اہلِ فکر ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد (purpose of creation) کیا ہے- معلوم تاریخ کےمطابق، تقریباً 5 ہزار سال سے انسان اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے- مگر اکیسویں صدی عیسوی کے ربع اول تک اِس کا کوئی متفق علیہ جواب انسان دریافت نہ کرسکا-

مشہور برٹش سائنس داں سر جیمز جینز (وفات: 1946) نے اپنی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں لکھاہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی تھی:

It seems that man has strayed in a world that was not made for him.

اِس موضوع پر سوچنے والے لوگوں نے عام طورپر مایوسی کی باتیں کی ہیں - ایک روسی مصنف نے لکھا ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز حسین (beautiful) ہے، صرف ایک چیز ہے جو حسین نہیں، اور وہ انسان ہے-

ڈاکٹر الکسس کیرل نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے- اِس موضوع کی پیچیدگیوں کی بناپر انھوں نے اِس کا نام انسانِ نامعلوم (Man the Unknown)رکھ دیا ہے- برطانی مصنف ایڈورڈ گبن نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ جرائم کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے-

فرانس کے مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے انسان کی ہستی پر غور کیا- اس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں (I think, therefore, I exist)- ڈیکارٹ کے اِس قول سے صرف انسان کے وجود کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ انسان کے وجود کا مقصد (purpose of existence) کیا ہے-

مشہور یونانی فلسفی ارسطو (وفات: 322 ق م) نے اِس مسئلے پر غور کیا- انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ — صرف قانونی نظام یہ کرسکتاہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے وحشیانہ سلوک سے بچائے:

The legal system alone saves people from their own savagery.

ارسطو کو معلمِ اول کہاجاتا ہے- چناں چہ یہی سوچ بعد کی تاریخ میں رائج ہوگئی- ارسطو کی سوچ کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو اعلی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، لیکن یہ اوصاف ابتدائی طورپر بالقوہ حالت میں ہوتے ہیں - اِس بالقوہ کو بالفعل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک موافق سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system) موجود ہو- اُس وقت کا یونانی بادشاہ سکندر اعظم (وفات: 323 ق م) ارسطو کا شاگرد تھا- ارسطو نے چاہا کہ بادشاہ کے تعاون سے وہ یونان میں مطلوب سیاسی اور سماجی نظام بنا سکے، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا- چناں چہ ارسطو مایوسی(despair) کی حالت میں صرف 62 سال کی عمر میں مرگیا-

ارسطو کے نزدیک انسانی فلاح صرف صالح اجتماعی نظام کے ذریعے ممکن ہوسکتی تھی- ارسطو نے اپنے اس تصور کو فلسفہ کی زبان میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس نے اپنے اِس تصور کو فلاسفائز (philosophise)کیا- اِس کے ایک عرصہ بعد جرمنی میں کارل مارکس(وفات: 1883) کا دور آیا- کارل مارکس نے اِس تصور کو اقتصادی اصطلاحوں میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ مارکس نے اِس تصور کو سیکولر ائز (secularise)کیا- مگر کارل مارکس، عالمی کمیونسٹ پارٹی اور اِس تصور پر بننے والی سوویت ریاست (USSR) سب کی سب، اپنے اجتماعی نشانے کے حصول میں مکمل طورپر ناکام ہوگئے-

اِس کے بعد یہ فکری منہج مسلمانوں کے درمیان رائج ہوا- عرب دنیا میں سید قطب (وفات: 1966) اور برصغیر ہند میں سید ابو الاعلی مودودی(وفات: 1979) پیدا ہوئے- اِن لوگوں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر اِس فکری منہج کو اسلام میں داخل کردیا- انھوں نے اسلام کی سیاسی تفسیر بیان کی- انھوں نے اسلامی زندگی کے لیے اس کے مطابق، سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system)کے قیام کو ضروری قرار دیا — ارسطو نے اِس تصور (concept) کا فلسفیانہ ایڈیشن تیار کیا تھا- کارل مارکس نے اِس تصور کا سیکولر ایڈیشن بنایا اور سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی نے اِس تصور کا اسلامی ایڈیشن تیار کردیا-

تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے ڈھائی ہزار سال کے دوران یہ نظریہ کبھی بھی واقعہ نہ بن سکا- کبھی کسی ملک میں ایسا نہیں ہوا کہ مصلح کے بیان کردہ نشانے کے مطابق، کوئی اجتماعی نظام یاکوئی سماجی نظام قائم ہوا- تاریخ بتاتی ہے کہ اِس نظریے کے تمام علم بردار آخر کار مایوسی کی حالت میں مرے، وہ دنیا کواپنے تصور کے مطابق، مطلوب نظام نہ دے سکے-

اِس سے بھی زیادہ تلخ بات یہ ہے کہ اِس قسم کے تمام نام نہاد مصلحین کا انجام یہ ہوا کہ وہ تعمیر کے نام پر اٹھے اور دنیا کو عملاً تخریب کا تحفہ دے کر چلے گئے- ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم نے ساری دنیا کے خلاف جنگ چھیڑ دی- کارل مارکس کے ماننے والوں نے اپنا مفروضہ نظام قائم کرنے کے نام پر روس میں 25 ملین انسانوں کو ہلاک کردیا- سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی کی تحریک کے نتیجے میں مختلف ملکوں میں اپنے مطلوب نظام کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد (armed struggle) شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو مزید تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا-

اجتماعی اصلاح کی اِن تحریکوں کا یہ منفی انجام کیوں ہوا- اِس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی نظام کا تعلق براہِ راست سیاسی اقتدار سے ہے- جب بھی آپ کسی ملک میں اپنی پسند کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے لیے اٹھیں گے تو وہاں لازماً اُن لوگوں سے آپ کا ٹکراؤپیش آئے گا جو بروقت سیاسی اقتدار پر قابض ہیں - اِس طرح اجتماعی نظام کا نظریہ اول دن سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتاہے-

سیاسی ٹکراؤ کوئی سادہ بات نہیں - سیاسی ٹکراؤ کا طریقہ عین اپنے نتیجے کے طور پر انسان کو دو طبقوں میں تقسیم کردیتاہے- اسلام کے پولٹکل مفسرین کے الفاظ میں، ایک، ’’طاغوت‘‘ اور دوسرے، مخالفِ طاغوت- مخالفِ طاغوت گروہ اپنی تحریک کو پہلے قائم شدہ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کے طورپر شروع کرتا ہے-آغاز میں یہ کام بظاہر پُرامن طورپر شروع ہوتا ہے، لیکن جب پُرامن ذریعہ ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد دھیرے دھیرے قائم شدہ حکومت کے خلاف تشدد شروع ہوجاتا ہے، پھر جب تشدد سے بھی مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو اس کے بعد آخری چارۂ کار کے طورپر خود کش بم باری شروع کردی جاتی ہے- اجتماعی انقلاب کا نتیجہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر صرف اجتماعی ہلاکت بن کر رہ جاتا ہے-اِس معاملے میں تباہ کن ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی انقلاب کا نظریہ اپنے آپ میں ایک غیرفطری نظریہ ہے- وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں کوئی ایسا نظریہ کبھی مثبت نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا جو خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہو-

خالق کا نقشۂ تخلیق

خالق کا نقشہ تخلیق(creation plan) کیا ہے- اس کو جاننے کا واحد مستند ذریعہ صرف قرآن ہے- قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے انسان کو جس نقشے کے مطابق، پیدا کیا ہے، وہ کسی مفروضہ اجتماعی نظام پر مبنی نہیں ہے، وہ تمام تر انفرادی اصلاح کے تصور پر مبنی ہے- خالق نے دنیا میں اپنی اسکیم کو برروئے کار لانے کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے- اِن تمام پیغمبروں کا نشانۂ دعوت ہمیشہ فرد (individual) ہوا کرتا تھا، نہ کہ کسی قسم کا سوشیو پولٹکل سسٹم (socio-political system) خالق کا اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، اصل کنسرن (concern) یہ نہیں ہے کہ دنیا میں اجتماعی سطح پر کوئی آئڈیل نظام بنایا جائے- خالق کا نشانہ فرد سازی ہے، مجتمع سازی نہیں، کیوں کہ تخلیقی نقشے کے مطابق، مجتمع سازی آئڈیل معنوں میں ممکن ہی نہیں - آئڈیل نظام یا آئڈیل سماج صرف جنت میں قائم ہوسکتا ہے- موجودہ دنیا کی حیثیت انتخابی میدان (selection ground) کی ہے- خالق کی منشا یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ایسے اعلی افراد چنے جائیں جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے مستحق ہوں -اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی سورہ البقرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیتوں کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں ۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں ۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھادئے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان لوگوں کے نام بتائو‘‘۔ (2:30-31)

اللہ تعالی نے جب انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ زمین کو اِس آزاد مخلوق کے چارج میں دے دے، اُس وقت فرشتوں نے یہ شبہہ ظاہر کیا کہ آزادی پاکر انسان زمین پر فساد کرے گا اور خون بہائے گا- فرشتوں کا یہ شبہہ بے بنیاد نہ تھا- خود قرآن کے بیان سے ثابت ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا- ساتویں صدی کے ربع او ل میں جب قرآن اترا تو اللہ تعالی نے اس میں یہ آیت شامل فرمائی: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (30:41) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے-

یہاں یہ سوال ہے کہ جب بطور واقعہ وہی ہوا جس کا شبہہ فرشتوں نے ظاہر کیا تھا، تو پھر اللہ نے اولادِ آدم کو کیوں پیدا کیا اور کیوں اُن کو زمین پر بسنے کا موقع دیا-

جیسا کہ معلوم ہے، آدم کی پیدائش سے لے کر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول تک جب کہ قرآن نازل ہوا، ہر قوم اور ہر بستی میں مسلسل طورپر اللہ کی طرف سے نذیر (بتانے والے) آتے رہے، اس کے باوجود آدم کی بعد کی نسلوں میں پیدا ہونے والے لوگوں کی اکثریت مفسد ثابت ہوئی، حتی کہ پوری تاریخ فساد سے بھری ہوئی تاریخ بن گئی- ایسی حالت میں یہ سوال ہےکہ اللہ تعالی نے انسان کو کیوں پیدا کیا- اِس سوال کا جواب قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے-

قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے آدم کو اُن کی اولاد کے نام (أسماء) بتائے- یہاں علمِ اسماء سے مراد علمِ مسمَّیات ہے- یہاں اسم سے مراد افراد کے نام (names)نہیں، بلکہ یہاں اسم سے مراد مُسمّیٰ (named) ہے، یعنی نام سے موسوم افراد-دوسری بات یہ کہ اُس وقت آدم کے سامنے اللہ نے اُن کی اولاد کے جن لوگوں کو پیش کیا، وہ پوری ذریتِ آدم یا پورا مجموعۂ انسانی نہ تھا- کیوں کہ اگر تمام پیدا ہونے والے انسان اُن کے سامنے پیش کیے جاتے تو فرشتوں کا شبہہ رفع نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ اِس قسم کے مظاہرے سے فرشتوں کے شبہہ کی تصدیق ہوجاتی- کیوں کہ خود قرآن کی تصدیق کے مطابق، پیدا ہونے والے انسانوں کی عظیم اکثریت عملاً مفسدثابت ہوئی-

اِس پہلو پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نےاُس وقت پوری اولادِ آدم کو نہیں بلکہ صرف اولادِ آدم کے منتخب افراد کو پیش کیا تھا- یہ منتخب افراد وہی تھے جن کو قرآن میں دوسرے مقام پر نبی اور صدیق اور شہید اور صالح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے (4:69)- یہ مظاہرہ اللہ تعالی نے صرف فرشتوں کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ بالواسطہ طورپر اُس کا مخاطب وہ انسان بھی تھے جو اللہ کے مقصد تخلیق کو سمجھنا چاہتے ہوں -

اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی سورہ الملک کی ایک آیت سے معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)- اِس آیت سے اور قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق سے اللہ تعالی کا مقصود احسن العمل افراد ہیں، پورے مجموعۂ انسانی میں عدل اور فلاح کا نظام قائم کرنا منصوبہ الہی کا نشانہ نہیں –

اِس کا سبب یہ ہے کہ خالق نے جس نقشے کے تحت انسان کو پیدا کیا، اس میں ایسا ہونا ممکن ہی نہ تھا- کیوں کہ اِس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی تھی- ہر انسان کے لیے کامل معنوں میں آزادانہ انتخاب (freedom of choice) کا موقع کھلا ہوا تھا- ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات تھی کہ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں اور اِس طرح اکثر لوگ عملاً مفسد بن جائیں -اِس بنا پر اللہ تعالی نے ایک قابلِ عمل نشانے کا انتخاب کیا، یعنی اپنے منصوبہ تخلیق کو مبنی بر فرد کے اصول پر قائم کرنا، نہ کہ مبنی بر مجموعہ کے اصول پر-

اللہ تعالی کے مقرر کردہ نقشہ تخلیق کے مطابق، اب جو ہورہاہے، وہ یہ کہ زمین پر کامل معنوں میں آزادی کا ماحول ہے- لوگ ایک کے بعد ایک پیدا ہورہے ہیں - اُن میں سے کوئی فرد اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کوئی غلط استعمال- عین اُسی وقت ایک غیبی نظام کے تحت فرشتے ہرایک کا پورا ریکارڈ تیار کررہے ہیں - یہ ریکارڈ قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہوگا- اُس وقت جو ہوگا، اس کو قرآن میں پیشگی طورپر مختلف الفاظ میں بیان کردیا گیاہے- مثلاً کہاگیا ہے: فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (42:7) یعنی ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں-

تخلیق کے اِس تصور کے مطابق، آخرت میں یہ ہوگا کہ پوری نسلِ انسانی سے صالح افراد چنے جائیں گے، یعنی وہ لوگ جنھوں نے یہ ثبوت دیا تھا کہ آزادی کے باوجود انھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کیا- آزادی کے باوجود وہ کامل معنوں میں با اصول زندگی کے پابند رہے، آزادی کے باوجود انھوں نے اپنے آپ کو پوری طرح بے راہ روی سے بچایا- اِس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ جنت کے آئڈیل معاشرے میں بسائے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں - آخرت میں پوری تاریخ بشری کے اِن منتخب افراد کو جنت کے معیاری معاشرے میں بسادیا جائے گا، اور بقیہ لوگ جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرنے میں ناکام رہے، اُن کو دوسرے انسانوں سے الگ کرکے کائناتی کوڑا خانہ (universal litterbin) میں ڈال دیا جائےگا، جس کا دوسرا نام جہنم ہے-

Category/Sub category

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom