By
Maulana Wahiduddin Khan
ذريعه: الرساله، فروري 2017

قرآن فہمی کےبارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔

قرآن کی اس آیت میں عقل والے سے مراد ڈگری والے(degree holders) نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کو صرف وہی لوگ سمجھیں گے جو معروف معنوں میں اسکالر ہوں یا جنھوں نے تعلیمی اداروں سے ڈگری حاصل کی ہو۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن کو اس کے گہرے مفہوم کے اعتبار سے صرف وہ لوگ سمجھتے ہیں جو سنجیدہ ہوں، جو قرآن کی آیتوں پر غور کریں، اور جو اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہی لوگ ہیں جو قرآن کے گہرے معانی تک پہنچیں گے، اور قرآن کے پیغام کو سمجھ کر اس سے نصیحت حاصل کریں گے۔

قرآن فطرت کی زبان میں ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ (29:49) ۔یعنی بلکہ یہ کھلی ہوئی آیتیں ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم عطا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر سنجیدہ ہو، وہ اپنی عقلِ فطرت کو زندہ رکھے، وہ تعصب سے پاک ہو کر قرآن کی آیتوں پر غور کرے،اس کے اندر قبولیت (acceptance) کا مزاج ہو تو یقینا وہ قرآن کی روح تک پہنچ جائے گا، وہ قرآنی آیتوں کے گہرے معانی کو دریافت کرلے گا۔قرآن کی ایک اور آیت میں تقویٰ کو علم کا ذریعہ (البقرۃ 282:)بتایا گیا ہے۔ یہاں متقی سے مراد وہ انسان ہےجو حقیقی معنوں میں سچائی کا متلاشی (seeker) ہو۔ جس کے ایمان نے اس کو نفسیاتی پیچیدگی سے پاک روح (complex-free soul) بنادیا ہو۔ جس کے لیے سچائی، اس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا ہوا ہو۔

Category/Sub category

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom