روزہ اور اخلاق (Roza aur Akhlaq)

By
Maulana Wahiduddin Khan

روزہ اور اخلاق

(Leaflet)

مولانا وحید الدین خاں

 

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:إذا کان یومُ صومِ أحدکم فلا یرفُث، ولا یَصخَب، فإن سابَّہ أحدٌ أوقاتلہ فلیقل:إنّي امرئٌ صائم )صحیح البخاری ،رقم الحدیث (1805۔یعنی جب تم میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو تو وہ بے ہودہ گوئی نہ کرے اورنہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے، یا اُس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میںایک روزے دار آدمی ہوں۔

اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی بُرے اخلاق کوچھوڑ دے، وہ کسی معاملے میں شور و غل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ یہاں تک کہ اگر دوسرا شخص اُس کو اشتعال دلائے، تب بھی وہ ایسا نہ کرے کہ وہ مشتعل ہو کر خود بھی وہی کرنے لگے جو دوسرا شخص اس کے خلاف کررہا ہے۔

اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزہ صرف ایک رسمی عمل کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا مقصد آدمی کے اندر گہری اسپرٹ پیدا کرنا ہے، ایسی اسپرٹ جو اس کی سوچ کو بدل دے، جو اس کے مزاج میں تبدیلی پیداکردے، جو اس کے کردار میںانقلاب برپاکردے ۔ سچاروزے دار وہ ہے جس کا روزہ اس کی پوری شخصیت کو ربانی شخصیت بنادے۔

سچا روزہ انسان کو آخری حد تک ایک سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ اس کی زندگی کے ہر پہلو میں سنجیدگی کا رنگ غالب آجاتاہے۔ اس کا یہ مزاج اتنا گہرا ہوتا ہے کہ دوسروں کا اشتعال انگیز رویّہ بھی اس کو سنجیدگی کے راستے سے نہیں ہٹاتا۔ وہ سماج کا ایک پُر سکون ممبر (peaceful member)ہوتا ہے، وہ سماج میں لوگوں کے لیے کسی طرح کا کوئی پرابلم کھڑا کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ سچا روزے دار ایک متواضع (modest) انسان ہوتا ہے، نہ کہ سرکش انسان۔سچا روزے دار اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کو تو چھوڑے، لیکن وہ بُرے اخلاق کو نہ چھوڑے۔ وہ کھانے پینے کے معاملے میں اپنے معمول کو بدلے، لیکن وہ اپنی زندگی کی روش میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

حلال سے روزہ، حرام سے افطار

حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ دو عورتوں نے روزہ رکھا اور دونوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر دوسروں کی غیبت اور برائی بیان کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے بارے میں معلوم ہوا، تو آپ نے فرمایا:إنّہما لم یصوما، وکیف صام مَن ظلَّ ہذا الیوم یأکل لُحومَ الناس)کنز العُمّال، رقم الحدیث (8016یعنی اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا۔ بھلااُس کاروزہ کیسے ہوگا جو روزہ رکھے اور غیبت کرکے لوگوں کا گوشت کھائے۔ ایک اور روایت میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:إنّ ہاتَین صامتا عمّا أحلّ اللہ لہما وأفطرَتا علی ما حرَّم اللّٰہ علیہما )مجمع الزّوائد،رقم الحدیث(5008یعنی انھوں نے اُس چیز سے روزہ رکھا جو اللہ نے اُن کے لیے حلال کیا تھا، اور پھر انھوں نے اُس چیز سے افطار کرلیا جواللہ نے اُن کے لیے حرام کیا تھا۔

اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے میں صرف یہ حرام نہیں ہے کہ آدمی دن کے اوقات میں کھانا کھالے اور پانی پی لے، اِس کے سوا بھی کچھ چیزیں حرام ہیں اور وہ روزے کو باطل کرنے والی ہیں۔ مثلاً دوسروں کی برائی بیان کرنا۔جو آدمی روزہ رکھے اور کھانے پینے کی چیزوں سے بچا رہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کی برائی بیان کرے، تو اُس کا روزہ مطلوب روزہ نہ ہوگا، اُس کا روزہ صرف بھوکا اور پیاسا رہنے کے ہم معنی ہوگا۔

روزہ توڑنے کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھتے ہوئے جان بوجھ کر مادّی ممنوعات پر عمل کرنے کا ارتکاب کرے، مثلاً وہ کھانا کھالے، یا پانی پی لے۔ اِسی طرح، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ ممنوعات ہیں، مثلاً دوسروں کی بُرائی اور غیبت کرنا۔ اگر آدمی روزہ رکھ کر روحانی اور اخلاقی ممنوعات کا ارتکاب کرے، تو ایسے ارتکاب سے بھی اس کا روزہ باطل ہوجائے گا، بظاہر روزہ رکھ کر بھی وہ روزے کے ثواب سے محروم رہے گا۔روزہ غذائی پرہیزگاری کا نام بھی ہے اور اخلاقی پرہیزگاری کا نام بھی۔ روزے میں اخلاقی پرہیزبھی اُسی طرح ضروری ہے، جس طرح غذائی پرہیز۔