دور دعوت (Daur-e-Dawat)

By
Maulana Wahiduddin Khan

دورِ دعوت

عصر حاضر میں مسلمانوں کی دعوتی ذمہ داری

 

مولانا وحيد الدين خاں

 

فہرست

دیباچہ   

اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ    

تاریخ کا مطالعہ    

خلیفہ کا مطلب    

انبیاء کا نمونہ     

خلافت ، ملوکیت  

تھیسس، انٹی تھیسس

اسلام اور سلطان  

اسلام کا تاریخی رول

ربانی انسائکلوپیڈیا  

توحید ایمپائر      

دین کا ضروری ڈھانچہ      

نئے دور کا آغاز    

اسلام کی تاریخ    

عہد شباب       

امن ایک اقدام   

حضرت نوح کا پیغمبرانہ رول    

قرآن کا بیان      

بائبل کا بیان     

تبصرہ   

کشتیٔ نوح کا معاملہ  

کشتی اور طوفان کا طریقہ     

حضرت نوح کی کہانی

بائبل اور قرآن کا فرق       

کشتیٔ نوح

حضرت نوح کی تاریخی کشتی   

خدائی منصوبے کی تاریخی شہادت      

ارضیاتی شواہد     

تاریخی سبق      

سبق کا پہلو       

کشتیٔ نوح یا دابہ   

دابہ کی تحقیق     

کشتی کا انتخاب کیوں

پیغمبرانہ یادگاریں  

دابہ کا نکلنا

قرآن اور بائبل کے بیان کا فرق

کشتیٔ نوح اور ترکی  

عالمی دعوت کی پیشین گوئی  

امتِ محمدی کا مشن 

حضرت نوح کی اہمیت       

آخرت کا اعلان    

محاسبۂ آخرت کا اعلان

خلاصۂ کلام       

ختم نبوت   

حفاظتِ قرآن     

رسول کی بعثت کا مقصد     

پیغمبرانہ ہدایت کی ابدیت    

دلیلِ نبوت      

رسول اور خاتم الانبیا

دعوائے نبوت    

ہندو گروؤں کی مثال       

پیغمبر ایک تاریخی استثنا      

نبوت محمدی کا ثبوت

مستقبل کی تصدیق 

توحید کی صداقت  

علم قلیل

دنیائے فانی کا نظریہ

غیر معمولی کامیابی 

نظریۂ امن      

امن کا فارمولا    

ایک غلط فہمی     

تحریکوں کی تاریخ  

ہیروؤں کی جماعت

مستقبل کی دنیا    

پیغمبر انقلاب     

خاتم النبیین     

دعوت اور حجت   

فطرت کی تسخیر   

دعوت کا نیا دور   

اسلام دورِ جدید میں   

دورِ اول کی مثال  

چند تاریخی حوالے 

ہمیں کیا کرنا ہے  

گلیلیو اور سائنس  

روحانی تسکین     

اقدار کامسئلہ      

اعلیٰ ذریعۂ علم     

داخلی شہادت    

دورِ تائید   

تخلیق کی منزل   

تخلیق کے ادوار   

صراطِ مستقیم       

مادي تهذيب      

مخلوقِ کامل       

روحانی سماج      

دعوت اکیسویں صدی میں   

فائنل رول      

اصحاب رسول کا رول       

اصحاب رسول، اخوانِ رسول  

ماکان وما یکون     

دورِ تائید

دورِ تائیدکا آغاز

قتال ،جہاد       

معاونِ اسلام تہذیب

تائید کا معاملہ      

قرآن اور عصر جدید 

سیاسی اقتدار کی نوعیت

عہد اسلام

انسانیت انتظار میں 

مسلمان اور دورِ حاضر       

اجتہاد کا فقدان    

حکمت کی آفاقیت  

دعوتِ عام کی ذمہ داری

اسلامی طرزِ فکر    

ایک انٹرویو کا خلاصہ

ری پلاننگ   

ایمرجنس آف اسلام

پلاننگ، ری پلاننگ

قرآن کی رہنمائی   

انسانِ اول کی مثال 

ڈیزرٹ تھِرَپی    

ہجرتِ مدینہ     

حدیبیہ کا منصوبہ   

متعلق اور غیر متعلق میں فرق کرنا

عملی تقاضا

تاتاری حملے کا واقعہ 

بابری مسجد کا سبق 

دعوت کی ری پلاننگ

دانش مندی کی ضرورت

دورِ جدید

صلیبی جنگیں     

ویٹیکن ماڈل      

اسپین کا تجربہ     

نو آبادیاتی نظام    

برطانیہ کی مثال   

جرمنی کی مثال    

جاپان کی مثال    

خالصہ تحریک کا تجربہ

غلط تقابل

خلاصۂ کلام       

ترکی کی دریافت

ترکی سے میرا تعلق

ایک علامتی مثال  

ترکی کا نیا رول     

دورِ شمشیر کا خاتمہ 

ترکی کا پلس پوائنٹ 

ایک حدیثِ رسول 

سیاسی ماڈل کا نقصان

فقہی ماڈل کا نقصان

ترکی کا رول      

کمال ازم کی حقیقت

ترکی کی جدید تصویر 

ریڈیکل تبدیلی    

دعوہ ایمپائر      

نیا دور، نئے امکانات

ترکی کی اسلامی تاریخ

ترکی کا نیا رول     

پیغمبر کا مشن      

اخوانِ رسول     

اجتہادی رول     

کشتیٔ نوح

کشتیٔ نوح اور ترکی  

ترکی کا انتخاب    

مدعو داعی کے دروازے پر   

گلوبل دعوت     

دعوت امت مسلمہ کا مشن     

شہادت کا تصور   

امت وسط

 دعوت قولِ بلیغ کی زبان میں 

دعوت دورِ تعقل میں       

شہادتِ اعظم    

شہادت کے تصور میں تبدیلی 

سنت یہود کی پیروی

خود کش حملہ     

بے فائدہ جنگ    

مسئلہ کا حل

پیغمبر اسلام کی آخری وصیت   

امت کے لیے کرنے کا کام   

امت مسلمہ کا فائنل رول

مواقع كو پهچاننے ميں ناكامي   

ویسٹوفوبیا

امتِ مسلمہ کی ذمے داری   

مادی تہذیب     

سائنس کی شہادت

اہل اسلام کا کنٹری بیوشن     

حق کیا ہے       

اکیسویں صدی    

اہل علم کی شہادت

سائنس اور عقیدۂ خدا       

الہامی علم کی ضرورت      

جنت انسان کا اصلی ہیبیٹاٹ

سائنس کا نظریاتی کنٹری بیوشن

اہل ایمان، اہل تائید

مغربی اقوام، دوست اقوام   

ملتِ مسلمہ کی غفلت

ايك واقعه

امت کا انقلابی رول

شہادتِ اعظم    

اعلاءِ كلمة الاسلام  

دعوت ایک سنگین ذمہ داری 

مستقبل کی پلاننگ  

 

دیباچہ

خدائی پیغام رسانی کا کام، انسانیت کے آغاز سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک، پیغمبروں کے ذریعے ہوا ہے۔ نبوت کی سطح پر اس کام کی انجام دہی کا یہ فائدہ تھا کہ اس کو معجزاتی تائید کی قوت حاصل رہتی تھی۔ نبی اپنی مدعوقوم کے سامنے دعوت پیش کرتا، تو اس کے ساتھ خدا اس كو معجزاتي تائيد بھي ديتا هے، جو اس کی دعوت کی صداقت کے لیے غیر معمولی برہان کی حیثیت رکھتے ہوں۔

ختمِ نبوت کے بعد یہ صورتِ حال ہوگئی کہ دعوت کی ذمے داری تو بدستور پوری شدت کے ساتھ باقی ہے، مگر دعوت کے حق میں پيغمبروں كي سطح پر ملنے والي معجزاتی تائید باقی نہیں رہی۔ ایک حکومت جب کسی کو فارسٹ افسر مقرر کرتی ہے، تو اسی کے ساتھ اس کو ضروری ساز و سامان بھی دیتی ہے، تاکہ جنگل میں وہ اپنی ذمے داری کو ادا کر سکے۔ ایسی حالت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہستی جو ساری رحمتوں کا خزانہ ہے، وہ اس پہلو کو بھول جائے، وہ ہم کوذمے داری دے، مگر ہماری ضرورتوں کا انتظام نہ کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ بعد کو آنے والے داعیوں کے لیے اللہ نے ایسا انتظام کیا، جو پچھلے تمام انتظامات سے بھی زیادہ بڑا تھا۔ اللہ نے اس مقصد کے لیے خود انسانی تاریخ کے رخ کو موڑ دیا، تاکہ دعوتی مشن کے حق میں وہ تائید ہم کو معمول کے حالات میں مل جائے، جس کو پچھلے لوگ صرف غیر معمولی حالات میں پانے کی امید کرسکتے تھے۔ اگرچہ موجودہ دور میں ہم اس راز کو سمجھ نہ سکے، اور اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔

 زیر نظر کتاب کا مقصد یہ ہے کہ ملّت مسلمہ کو یہ بتایا جائے کہ دور جدید میں دعوتی کام کے لیے ہر اعتبار سے بھر پور مواقع حاصل ہیں، جو کہ پچھلے ادوار میں صرف مخصوص افراد كو حاصل ہوتے تھے۔ لهذا آپ كے ليے بھي يه موقع هے كه آپ آگے بڑھ كر اس دعوتي مشن كا حصه بنيں۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں میں جذبۂ دعوت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے، اور اس دعوت کے نتیجے میں اقوام عالم پر خدا کی رحمت کے دروازے کھل جائیں، جو موجودہ زمانے میں بند پڑے ہوئے ہیں۔

وحید الدین خاں

7 اکتوبر 2019، نئی دہلی

اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ

Interpretation of Islamic History

دعوتِ اسلام كي يه امتيازي صفت هے كه اس كے پاس خدا كا كلام بے آميز حالت ميں موجود هے۔ اسلام كا پيغام عين انساني فطرت كے مطابق هے۔ وه آدمي كو مجبور كرتاهے كه وه اس كي صداقت كا اعتراف كرے۔ مگر اس كو بروئے كار لانے كے ليے ضروري هے كه اسلام اور اس كے مخاطب سے تمام نفسياتي ركاوٹيں دور كردي گئي هوں۔

 

اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ

Interpretation of Islamic History

اسلام کانظام صرف تیس سال قائم رہا، اس کے بعد عملاًمسلمانوں کے درمیان ملوکیت کا نظام قائم ہوگیا—  اسلام کے بارے میں تعلیم یافتہ لوگوں کا یہ عام تصور ہے۔ لیکن یہ تصور پوری طرح غلط فہمی پر مبنی ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام اپنی پوری چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلسل طور پر اپنی اصل حالت پر قائم رہا ہے اور آج بھی قائم ہے۔تاریخ میں بظاہر جو تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں، وہ اسلام کے اضافی حصہ (relative part)میںہیں، نہ کہ اسلام کے اصل حصہ (real part) میں۔

 اس بات کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ(58:21) ۔یعنی  اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ بے شک اللہ قوت والا، زبردست ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہےکہ جس طرح انسانی تاریخ پراللہ کا غلبہ مسلسل طور پر قائم ہے، اسی طرح پیغمبروں کا مشن دعوت الي الله بھی انسانی تاریخ پر ہمیشہ اور ہر حال میں غالب رہے گا۔ یہ با ت ایک حدیث رسول میں حسب روایت ابن عباس اس طرح بیان ہوئی ہے: الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ (شرح معانی الآثار، حدیث نمبر5267) یعنی اسلام ہمیشہ غالب رہے گا، وہ کبھی مغلوب نہ ہوگا۔

قرآن اور حدیث کے ان بیانات کے مطابق ، اسلامی تاریخ کی وہی تعبیر صحیح ہے، جس میں مساوی طور پر تسلسل پایا جائے۔ جو تعبیر اسلامی تاریخ کو خلافت اور ملوکیت کے دو غیر مساوی ادوار میں تقسیم کریں، وہ بداہۃً قابل رد ہیں۔

Prima facie it stands rejected.

انسانی تاریخ کا سفر اجرامِ سماوی (astronomical body) کے سفر کی مانند نہیں ہے۔ اجرامِ سماوی کا سفر ہمیشہ یکساں رفتار (uniform speed) کے ساتھ چلتا ہے۔ لیکن انسانی تاریخ کا سفر ہمیشہ غیر ہموار رفتار سے جاری ہوتا ہے۔ ایسا فطرت کے قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ کے بارے میں یہی درست ہے کہ وہ غیر ہموار انداز میں سفر کرے۔ اگر انسانی تاریخ اجرامِ سماوی کی مانند ہموار انداز میں سفر کرنے لگے تو انسانوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking)کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، یہ کوئی مطلوب حالت نہیں۔

تاریخ خواہ بظاہر غیرہموار انداز میں سفر کرے، لیکن خدا تاریخ کو مسلسل طور پر مینج (manage) کر رہاہے۔ اس خدائی انتظام کی بنا پر تاریخ میں ہمیشہ یہ صورتِ حال قائم رہتی ہے کہ متغیر حالات کے درمیان ہمیشہ ایک غیر متغیر حکمت مسلسل طور پر موجود رہتی ہے۔ متغیرحالات کے درمیان اس غیر متغیر حکمت کو دریافت کرنے کا ہی دوسرا نام اسلامی تاریخ کی توجیہہ (interpretation)ہے۔

زیر نظر کتاب کا مقصد یہی ہے۔ یعنی اسلامي تاریخ کی حکیمانہ توجیہہ دریافت کرنا ۔ اس دریافت میں اہل ایمان کے لیے یقین کا سرمایہ ہے، اور اس ميں عام اہل علم کے ليے اسلامی تاریخ کے مطالعے کی صحیح بنیاد ہے۔

وحیدالدین

نئی دہلی،  16 دسمبر 2015

 

تاریخ کا مطالعہ

قرآن کے بیان (الانبیاء،21:30) نیز سائنسی دریافت کے مطابق، کائنات کی تخلیق کا آغاز غالباً تیرہ بلین سال پہلے بگ بینگ سے ہوا۔اس کے بعد مختلف ادوار پیش آئے۔معلوم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے مادی دنیا بنی، یعنی وہ دنیا جہاں ایک وسیع خلا کے اندر بے شمار عظیم کہکشائیں موجود ہیں۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ شمسی نظام (solar system) بنا، اور پھر ایک تدریجی عمل کے بعد زمین وجود میں آئی، جہاں انسان کے لئے وہ تمام موافق انسانی اسباب موجود ہیں، جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد وہ وقت آیا جب کہ انسان کی تخلیق ہوئی، اور اس کو زمین پرآباد کیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ بننےلگی۔پھر خدائی منصوبے کے مطابق پیغمبر آنا شروع ہوئے۔انھوں نے کوشش کی کہ انسانی تاریخ توحید کے رخ پر سفر کرے۔مگر عملاً یہ ہوا کہ صرف کچھ مستثنیٰ افراد نے پیغمبروں کی دعوت کو مانا۔ انسانی نسلوں کا قافلہ بڑی تعداد میں آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں، غیر موحّدانہ راستے پر چل پڑا۔اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ انسانی زندگی میںعملاً ملوکیت کا نظام قائم ہوگیا۔ملوکیت اور شرک، دونوں نے مل کرساری دنیا میں جبریت (religious persecution)کا نظام قائم کردیا۔اس طرح یہ ناممکن ہو گیا کہ توحید کے مشن کو پر امن طور پر چلایا جاسکے۔

اس کے بعد تقریباًچار ہزار سال پہلےپیغمبر ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ زیرِ عمل لایا گیا۔ اس منصوبے کو ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy)کہا جاسکتا ہے۔اس عمل کے ذریعے عرب کے صحرائی ماحول میںدوہزار سال سے زیادہ مدت کے دوران ایک نئی نسل تیار کی گئی، جو آج کل کی زبان میںکنڈیشننگ سے محفوظ قوم تھی۔یہ وہی نسل ہے جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں پیغمبرِ اسلام کا ظہور ہوا۔ انھوں نے اس نسل کے منتخب افراد کے ذریعے ایک جاندار ٹیم تیار کی۔ اس ٹیم نے ایک انقلابی کام انجام دیا۔اس نے ایک عظیم جد و جہد کے ذریعے ایک ایسا انقلاب پیدا کیا، جس سے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔اس دور میں ایک نیا تاریخی پراسس (process)جاری ہوا، جس کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ دور تھا،جو بیسویں صدی میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔اس دور کو سائنسی تہذیب کا دور کہا جاتا ہے۔

یہ سائنسی تہذیب عملاً ایک مادی تہذیب بن گئی۔ مغربی قومیں اس تہذیب کی چمپئن تھیں۔اس تہذیب کے دوران مادی کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ مغربی قومیں، غالب قومیں بن گئیں۔ سیکولر طرزِ فکر، علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے سائنسی تہذیب تھی، لیکن اپنی عمومی تصویر کے اعتبار سے وہ مغربی تہذیب کہی جانے لگی۔

اس طرح بیسویں صدی میں عالمی سطح پر ایک ایسا دور وجود میں آیا، جو گویا مادی افکار کا ایک جنگل تھا۔یہ جنگل بظاہر پوری طرح ایک مادی جنگل تھا۔اس جنگل میں، اوّل تا آخر، سب کچھ مادیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔بظاہر اس کاکوئی تعلق نہ توحید سے تھا، اور نہ ربّانیت سے۔

تاہم تہذیب کے اس مادی جنگل میں ایک عظیم ربّانی عنصر موجود تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح درختوں کے جنگل میں شہدجیسی قیمتی چیز مخفی نکٹر (nectar) کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔یعنی مادی تہذیب کے جنگل میں معرفت کا نکٹر۔ اب ضرورت اس بات كي ہے کہ مادی تہذیب کے جنگل سے معرفت کے اس نکٹر کو اکسٹریکٹ (extract) کیا جائے، اور پھر اس کی تدوین اور تنظیم کر کےخدا کے دین کا وہ فکری اظہار کیا جائے، جس کو قرآن میں اتمامِ نور (التوبہ، 9:32؛ الصف، 61:8) کہا گیا ہے۔

دینِ خداوندی کے اعتبار سےاکیسویں صدی میں کرنے کا سب سےزیادہ مطلوب کام یہی ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ اس کو حدیث میں تاریخ کی عظیم ترین شہادت (گواہی) کہا گیا ہے— هذا أعظم الناس شهادةً عند رب العالمين (صحیح مسلم، حديث نمبر 2938)۔

شہد کی مکھی جنگل کے اندر موجود نکٹر کنٹنٹ (nectar content) سے بے خبر ہو تو جنگل اس کو صرف جنگل کی صورت میں دکھائی دے گا۔ لیکن شہد کی مکھی جب جنگل میں موجود نکٹر کنٹنٹ کو جان لے تو جنگل اس کے لئے ایک نعمت کی دنیا بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ جدید مادی تہذیب کا ہے۔ آپ اگر تہذیب کے اس مادی جنگل میں موجود معرفت کے اس نکٹرکنٹنٹ سے بے خبر ہوں، تو جدید تہذیب آپ کو صرف مادیت کاایک جنگل دکھائی دے گی۔ لیکن اگر آپ اس تہذیب کے اندر موجود معرفت کنٹنٹ (content)سے باخبر ہوجائیں، تو جدید تہذیب آپ کےلئے ربانی معرفت کاایک عظیم باغ بن جائے گی۔

اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ جدید سائنس کی ترقی ، چرچ اور سائنسی تحقیق کی علاحدگی سے شروع ہوئی۔ اس بنا پر مغربی دنیا میں یہ تصور قائم ہوگیا کہ فریڈم، خیر مطلق (summum bonum) ہے۔یہ تسلیم کرلیا گیا کہ اختلافِ رائے (dissent) انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق (right) ہے۔یہ ایک بے حد اہم فیصلہ تھا۔ اس کی بنا پر پہلی بار تاریخ میں ایسا ہوا کہ آزادیٔ رائے (freedom of expression) ایک مسلمہ انسانی حق قرار پایا۔

مذہب کے اعتبار سے یہ ایک بے حد اہم تبدیلی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار مذہبی آزادی (religious freedom) انسان کا ایک مسلّمه حق قرار پائی۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے معاملے میں ہر قسم کی رکاوٹ یا مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ ہوجائے۔ اس انقلاب نے پہلی بار انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ آزادانہ طور پر جس مذہب کو چاہے  اختیار کرے، اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ جو کچھ کرے، پرامن (peaceful) انداز میں کرے۔

مگر دورِ جدید کی یہ نعمت ایک مخفی نِکٹر کی صورت میں پائی جاتی تھی، کیوں کہ آزادی جب انسانی حقوق (human rights) میں سے ایک حق قرار پایا تو یہ حق ہر ایک کے لئے تھا، وہ صرف اہلِ مذہب کے لئے نہیں تھا۔چنانچہ اس کے بعد یہ ہوا کہ ہر آدمی اپنی مرضی کے مطابق اپنی آزادی کا کھلااستعمال کرنے لگا۔ اس طرح عملاً یہ ہوا کہ آزادی کا ایک عظیم جنگل اُگ آیا، جس میں برہنگی (nudity) سے لے کرمذہب کی بے حرمتی (blasphemy) تک ہر منفی چیز موجود تھی۔ مگر اس جنگل کے اندر مذہبی آزادی کا نِکٹر بھی موجود ہے۔ اب ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر شہد کی مکھی والی حکمت موجود ہو،یعنی ناموافق جنگل کو نظر انداز کرتے ہوئےموافق نِکٹر دریافت کرکے اس کو استعمال کرنا۔

خلیفہ کا مطلب

قرآن کی سورہ البقرۃ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب آدم کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو کہا: إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (2:30)۔ یعنی میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ خلیفہ کا مطلب ہے بعد کو آنے والا(successor)۔ قرآن میں کئی جگہ یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے،مثلا: ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ (10:14) ۔یعنی پھر ہم نے ان کے بعد تم کو ملک میں جانشین بنایا۔

قرآن کی مذکورہ آیت (البقرۃ،2:30)کو قرآن کی ایک اور آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے پہلے جنوں کو پیدا کیا (الحجر،15:27)۔ لیکن جنوں نے زمین میں فساد برپا کیا۔ اس کے بعد اللہ نے ایک اور مخلوق انسان کی صورت میں پیدا کی۔ اس وقت فرشتوں نے یہ شبہ ظاہر کیا: أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (2:30)يعني کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے یہ بات جنوں کے تجربہ کی بنیاد پر کہی تھی۔ یعنی جنوں کو آزادی دی گئی ، اس کے بعد انھوں نے فساد برپاکیا۔ اب اگر انسان کو آزاد مخلوق کی حیثیت دی جائے تو وہ بھی آزادی کا غلط استعمال کریں گے، اور فساد برپا کریں گے۔

قرآن میں یہ حوالہ گویا بطور انتباہ (warning)ہے۔ یعنی اس طرح انسان کو متنبہ کیا گیا کہ وہ جنوں کی مثال سے سبق لیں، اور آزادی کا غلط استعمال کرکے دوبارہ فساد اور سفکِ دماء (خون خرابہ)کی غلطی نہ کریں۔ ورنہ ان کو بھی جنوں جیسا انجام بھگتنا پڑے گا۔

قرآن کی اس آیت میںخلیفہ کا لفظ کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے۔ وہ صرف اس معنی میں ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، انسانوں کے اندر توالد و تناسل کا نظام قائم ہوگا، ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا ہوگی، ایک گروہ کے بعد دوسرا گروہ اس کی جگہ لےگا۔ اس آیت میں خلیفہ کا لفظ انسان کے مشن کو بتانے کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ اس کی تخلیقی نوعیت کو بتانے کے لیے آیا ہے۔ جہاں تک انسان کے مشن کا معاملہ ہے، اس کو جاننے کے لیے ہر انسان کو خدا کی کتاب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ خدا کی کتاب سے معلوم ہوگاکہ انسان کو اس زمین پر کس طرح زندگی گزارنا ہے۔

انبیاء کا نمونہ

قرآن میں انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ (38:46)۔ یعنی ہم نے ان پیغمبروں کو ایک خاص مشن، آخرت کی یاد دہانی کے لیے چن لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مشن کیا ہے۔ پیغمبر کی امت کو بھی ہر زمانے میں اسی مشن کی پیروی کرنا چاہیے۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن آخرت کا مشن تھا۔ مگر یہ مشن اتفاقاً نہیں بنتا۔ اس کے لیے پیغمبروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنا مشن شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ انسان کے خالق نے ان کو کس منصوبہ کے تحت پیدا کیا ہے۔ غور و فکرکی اس زندگی کے بعد انھیں اللہ کی طرف سے ہدایت ملتی ہے، اور پھر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ انسان کی زندگی آخرت رخی (akhirat-oriented life)ہو، انسان کی سوچ کا مرکز و محور آخرت ہو، وہ اپنی زندگی اس سوچ کے تحت گزارے کہ دنیا میں اس کی جو شخصیت بنے ،وہ آخرت کے اعتبار سے ایک کامیاب شخصیت ہو۔

پیغمبر اس لیے نہیں آتا کہ وہ ملی ورک یا سوشل ورک جیسے کام کرےیا کوئی سیاسی پروگرام چلائے۔ پیغمبر کا مشن یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کرے، وہ لوگوں کو بتائے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، ان کے لیے کامیابی کیا ہے، اور ناکامی کیا ۔ وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ موت کے بعد جب وہ آخرت کی دنیا میں پہنچیں تو وہ اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی طرف سے پیغمبروں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی جھکاؤ (tilt)کا ثبوت نہ دیں۔ وہ کسی سمجھوتے کے بغیر خدا کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو استعمال نہ کریں۔

خلافت، ملوکیت

ارسطو (Aristotle) اپنے زمانے کے یونانی بادشاہ (Alexander the Great) کا استاد (tutor) تھا۔ ارسطو کا نظریہ تھا یونان میں آئڈیل حکومت قائم کرنا۔ اس کے لیے اس نے نوجوان الیگزنڈر کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ مگر جب الیگزینڈر یونان کا بادشاہ بنا تو وہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح صرف ایک اقتدار پسند بادشاہ بن گیا۔ ارسطو کا معیاری حکومت کا خواب واقعہ کی صورت اختیار نہ کر سکا۔

یہی تمام دنیا کے مفکرین اور مصلحین کا انجام ہوا ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام سوچنے والے ذہن اسی  آئڈیلزم (idealism)کےمسحور کن تخیل (obsession) میں پڑے رہے۔ ہر ایک کا نشانہ صرف ایک تھا۔ وہ ہے دنیا میں آئڈیل نظام قائم کرنا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری تاریخ میں کوئی بھی شخص اپنے آئڈیل نشانے کو پورا نہ کر سکا۔ ہر ایک کا وہی حال ہوا جو چوتھی صدی قبل مسیح میں ارسطو کا ہوا تھا۔

اس کا سبب کیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پولیٹکل آئڈیلزم (political idealism) فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا کے لیے صحیح سیاسی نظریہ پولیٹکل آئڈیلزم نہیں ہے، بلکہ پولیٹکل پریگمٹزم  (pragmatism) ہے۔ آئڈیل سیاست کا حصول اس دنیا میںسرے سے ممکن ہی نہیں۔

آئڈیل نظام کے لیے خالق نے جنت کی دنیا بنائی ہے۔ جنت کی دنیا ہر اعتبار سے آئڈیل اور پرفکٹ ہوگی۔ مگر خالق نے موجودہ دنیا کو آزمائش گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ یہاں ہر عورت اور هر مرد کو اس لیے پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے آزمائشی حالات میں رہ کر مثبت رسپانس (positive response) دے۔ تاکہ وہ جنت کے لیے مستحق امیدوار (deserving candidate) قرار پائے۔ اور پھر جنت کی ابدی دنیا میں داخلہ کے لیے اس کا انتخاب کیا جائے۔ اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کی بنا پر ہمیشہ یہی ہوگا کہ اس دنیا میں قائم ہونے والا سیاسی نظام انسان کی آزادی کے تابع ہو، اور اس بنا پر یہاں کبھی معیاری نظام نہ بن سکے۔

یہی اصول خود مسلم معاشرہ پر بھی منطبق (apply) ہوتا ہے۔ مسلم معاشرے میں افراد تو معیاری ہوسکتے ہیں۔ مگر عملی نظام مجموعی معنی میں کبھی معیاری نہیں ہوگا۔ایک فرد خود اپنی ذاتی سوچ کے تابع ہوتاہے۔اس لیے وہ اپنی ذات کی حد تک اپنے آپ کو جیسا چاہے ،ویسا بنا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی نظام ہمیشہ اجتماعی حالات کے تابع ہوتاہے۔ انسان اپنی آزادی کا کبھی درست استعمال کرتا ہے، اور کبھی غلط استعمال۔ اس بنا پر اس دنیامیں مجموعی اعتبار سےجو نظام بنے گا ، وہ بیک وقت دونوں قسم کے اجزاء پر مشتمل ہوگا، کچھ درست اور کچھ نادرست۔یہ فرق کسی نقص کی بنا پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ عین مطلوب ہوگا۔ کیوں کہ وہ خالق کے نقشۂ تخلیق کے مطابق ہوگا۔

کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام میں خلافت کا مطلب معیاری سیاسی نظام ہے۔ اس بنا پر وہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان معیاری سیاسی نظام بنانے کی تحریکیں چلاتے ہیں ۔ مگر اس قسم کی کوشش سے مطلوب نظام تو قائم نہیں ہوا، البتہ مسلمانوں کے اندر باہمی ٹکراؤ کی غیر مطلوب حالت قائم ہوگئی۔ ایسے مسلم قائدین نے صرف پولیٹکل اپوزیشن کی مثالیں قائم کی ہیں، ان کی کوششوں کا کبھی کوئی مثبت انجام بر آمد نہیں ہوا ۔ خلافت کی اصطلاح اسلام میں افرادِ انسانی کی آزادی کو بتاتی ہے، نہ کہ معیاری سیاسی نظام کو ۔ قرآن کے مطابق انسان کو خلیفہ بمعنی آزاد مخلوق بنایا گیا ہے ، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان اپنی آزادی کا عملی استعمال کس طرح کرتا ہے: لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (10:14)۔ یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔

قرآن میں اولوالعزم انبیاء (الاحقاف،46:35)کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لیکن کسی بھی نبی کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنے زمانے میں معیاری خلافت کا نظام قائم کیا۔ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم  کے بارے میں بھی قرآن کی کسی آیت میں یہ الفاظ نہیں آئے ہیں کہ تمھارا مشن یہ ہے کہ تم دنیا میں معیاری خلافت قائم کرو۔ پیغمبر اسلام کا مشن بھی دوسرے انبیاء (النساء،4:165)کی طرح انذار و تبشیر (الفرقان،25:56) تھا، نہ کہ معیاری معنوں میں کسی سیاسی نظام کا قیام۔پیغمبر اسلام کے بعد صحابہ کے زمانے میں جو سیاسی نظام قائم ہوا، اس میں بھی مسلم حاکم کو خلیفہ نہیں کہا گیا، بلکہ امیر المومنین کہا گیا۔

 اس صورتِ حال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خلافت کا نظام ملوکیت کے نظام میں تبدیل ہوگیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے حالات کے مطابق، جو سیاسی نظام قابلِ عمل (workable) تھا، وہ قائم ہوا اور وقت کے مسلمانوں نے اس کو قبول کیا۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر نظام میں اسلام کا مطلوب تعمیری سفر بدستور جاری رہا۔ حالات میں تغیر کے باوجود ، اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔   

تھیسس، اینٹی تھیسس

فریڈرش ہیگل(وفات 1831)اٹھارویں صدی کا مشہور جرمن فلسفی ہے۔ اس نے ایک فلسفہ پیش کیا۔ جس کو تھیسس اور انٹی تھیسس (thesis and anti-thesis) کہا جاتا ہے۔  اس نظریہ کو انسانی تاریخ پر منطبق کرتےہوئے، کارل مارکس نے اپنا مشہور نظریہ جدلیاتی مادیت (dialectical materialism) وضع کیا۔ ہیگل اور مارکس، دونوں نے ایک مشترک غلطی کی۔ تاہم ان کے نظریے میں ایک جزئی صداقت پائی جاتی ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نظریے کی اصل فطرت کے ایک قانون پر قائم ہے۔ یہ قانون وہی ہے جس کو قرآن میں قانون دفع (البقرۃ، 2:251؛ الحج، 22:40) کہا گیا ہے۔

قرآن میں دفع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دفع کا لفظی مطلب ہے، ہٹانا (to repel)۔ اس سے مراد تاریخ کے وہ انقلابات ہیں،جو ایک قوم کو غلبہ کے مقام سے ہٹاتے ہیں، او ر اس کے بعد دوسری قوم کو موقع ملتا ہے کہ وہ دنیا کا انتظام سنبھالے۔ اس قسم کے انقلابات تاریخ میں بار بار ہوئے ہیں۔ یہ انقلابات بظاہر انسان کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خالق کا منیجمنٹ (management) ہوتا ہے۔ خالق انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کر رہا ہے۔ یہی وہ  واقعہ ہےجس کو قرآن میں دفع کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

اسی تاریخی حقیقت کو ہیگل اور مارکس نے اس طرح بیان کیا کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک صورت حال یا مقدمہ (thesis) سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد خود تاریخی اسباب سے اس کا جوابی مقدمہ (anti-thesis) وجود میں آتا ہے۔اس کے بعد ایک امتزاج (synthesis) وجود میں آتا ہے، جو سابق حالت کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس طرح تاریخ کا سفر برابر جاری رہتا ہے۔ یہ معاملہ سیکولر تاریخ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور مذہبی تاریخ کے ساتھ بھی۔

قانونِ فطرت کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ حالات کے تحت ایک ایکشن (action) سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے جواب میں ایک ری ایکشن (reaction) پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد تیسری شکل سامنے آتی ہے، وه اس صورتِ حال کا رسپانس (response)ہے۔ نیگیٹیو رسپانس (negative response) حالات کو مزید بگاڑتا ہے، اور پازیٹیو رسپانس (positive response) سماج کو ایک بہتر دور کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی پوری انسانی تاریخ میں ہوا ہے۔ اس حقیقت کو جاننا، اور ری ایکشن سے بچ کر صورتِ حال کا پازیٹیو رسپانس دينا، یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔

اسلام اور سلطان

اسلام کی تاریخ 610عیسوی میں شروع ہوئی۔ 632 عیسوی میںپیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم  کی وفات کے بعد اس دور کا آغاز ہوا جس کو عام طور پر خلافت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس خلافت کی مدت تقریباًتیس ( 30)سال ہے۔ اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے۔ لیکن چاروں خلفاء کا تقرر چار مختلف طریقوں (methods)سے ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ یا سیاسی قائد (political leader)کے تقرر کا معاملہ اسلام میں مبنی بر نص (based on text)معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ مبنی بر اجتہاد معاملہ ہے۔اس بنا پر اس کے لیے کوئی واحد معیاری ماڈل نہیں ۔ اس کا فیصلہ حالات کی بنیاد پر بذریعہ اجتہاد کیا جاتا ہے۔

خلافت کے بعد امیر معاویہ (وفات41ھ)کا دور شروع ہوا۔ وہ ایک صحابی تھے۔ ان کے زمانے میں حکومت کے لیے خاندانی ماڈل (dynasty) کو اختیار کرلیا گیا۔ اس وقت صحابہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ صحابہ نے اس خاندانی ماڈل کو عملاً قبول کرلیا۔ اس کے بعد اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اسی ماڈل پر چلتی رہی۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء سب کے سب اس ماڈل پر راضی ہوگئے۔ اس کے بعد اسلام کی تاریخ میں مختلف مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ مثلا بنو امیہ کا دور، بنو عباس کا دور، عثمانی ایمپائر، مغل ایمپائر ، وغیرہ۔ یہ تمام اسی خاندانی ماڈل پر قائم ہوئے۔ اور دورِ اول کے وہ تمام لوگ جن کو اسلاف کہا جاتا ہے، ان سب نے اس ماڈل کو عملاًقبول کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ ماڈل تاریخی عمل کے نتیجے میں ایک مقبول ماڈل (historically accepted model) بن چکا تھا۔ یہی خاندانی ماڈل موجودہ زمانے کی عرب ریاستوں میں قائم ہے۔

مسلم علماء کے درمیان منہج سلف کو معیاری منہج مانا جاتا ہے۔ متقدمین یا اسلاف کا یہ منہج جس دور میں بنا، وہ پورا دور خاندانی ریاست (dynasty) کا دور تھا۔ اس دور کو تمام علمائے امت نے درست منہج کے طور پر قبول کرلیا ۔ کسی قابلِ ذکر عالم نے اس کے خلاف خروج (revolt) نہیں کیا۔ حتی کہ عباسی دور میں تمام علماء کے اجماع سے یہ مسئلہ بنا کہ مسلم حکمراں کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ بطور حوالہ مشہور محدث امام نووی (وفات676: ھ) کا ایک قول یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں منہج سلف کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھاہے: وأما الخروج عليهم وقتالهم فحرام بإجماع المسلمين وإن كانوا فسقة ظالمين (شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،12/229)۔ یعنی مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا اور ان سے قتال کرنا مسلمانوں کے اجماع کے تحت حرام ہے۔ خواہ وہ (کسی کے نزدیک) ظالم اور فاسق ہوں۔

اس زمانے میںیہ مسلم حکمراں کون تھے۔ یہ وہی تھے جو خاندانی حکومت (dynasty) کے اصول کے تحت حکمراں بنے تھے۔ موجودہ زمانے کی عرب ریاستیں اسی خاندانی نظام کا امتداد (continuation) ہیں۔ اس لیے علماءکا یہ متفقہ فتویٰ موجودہ عرب ریاستوں پر بھی عین اسی طرح اپلائی (apply) ہوگا ،جس طرح وہ اس سے پہلے کی مسلم ریاستوں پر اپلائی ہوتا ہے۔

علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کو کیوں درست ماڈل کے طو رپر مان لیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کا اصل مقصد تمکین فی الارض (الحج،22:41) ہے ، نہ کہ کسی مخصوص ڈھانچہ کو قائم کرنا۔ تمکین سے مراد سیاسی استحکام (political stability)ہے۔سیاسی استحکام سے معتدل ماحول قائم ہوتا ہے، اور معتدل ماحول سے علمائے اسلام اور مصلحین امت کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر دین کے تمام غیر سیاسی شعبوں کو چلائیں۔ 

اس معاملے کی ایک حکمت یہ ہے کہ زندگی کا نظام، قانون اور حکومت پر کم اور روایات (traditions) پر زیادہ چلتا ہے۔ اور روایات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لمبے تاريخي پراسس کے بعد کسی سماج میں قائم ہوتی ہیں۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ روایت ہمیشہ لمبی تاریخ کے بعد بنتی ہے:

It requires a lot of history to make a little tradition.

یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حکومت کی حیثیت اگر سیاسی سلطنت (political empire)کی ہے تو روایات کی حیثیت غیر سیاسی سلطنت (non-political empire)کی ہے۔ روایات پر مبنی سلطنت اگر چہ ایک ناقابلِ مشاہدہ سلطنت (unseen empire) ہوتی ہے۔ لیکن کسی سماج کا نظام سب سے زیادہ بلکہ تقریباً 99 پرسنٹ عملاً اسی غیر سیاسی سلطنت کے تحت چلتا ہے۔ یہ غیر سیاسی سلطنت ہمیشہ وہ لوگ بناتے ہیں ،جوحکومت کے دائرے سے باہر مسلسل طور پر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔

اسلام پر نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لیے ضروری تھا کہ دین کا تسلسل قائم کرنے کے لیے مسلم سماج میں اسلام کا ایک روایاتی ڈھانچہ بنے۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ رسالت کے زمانے میں مخالفت، بائیکاٹ، لڑائی اور ہجرت جیسے واقعات کی بنا پر حالات کا وہ تسلسل نہیں بنا جس میں روایات قائم ہوں۔ خلافت کے زمانے میں باہمی اختلافات بہت زیادہ ابھر آئے۔ یہاں تک کہ چار میں سے تین خلیفہ کو قتل کردیا گیا۔ اس لیے خلافت کے زمانے میں بھی دینی تسلسل کا مطلوب ماحول نہ بن سکا۔

اللہ اپنے منصوبہ کے مطابق،پورے عالم تخلیق کو مینج (manage) کر رہاہے۔مادی کائنات (physical world) اللہ کے مکمل کنٹرول کے تحت چل رہی ہے۔ انسان کو چوں کہ مقصد تخلیق کے تحت آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اللہ کا طریقہ مختلف هے، اور وہ هےانسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسانی تاریخ کو مطلوب انداز میں مینج کرنا۔ اس لیے اللہ کی مرضی ہوئی کہ ایسا سیاسی نظام بنے، جو مسلسل طور پربلا انقطاع چلنے والا ہو۔ اس کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں پایا جاتا ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(15:9)۔یعنی یہ یاد دہانی (قرآن) ہم ہی نے اتاری ہے ، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ حفاظت کے وسیع تر معنی میں یہاں پورے دینِ اسلام کی حفاظت شامل ہے۔دورِ رسالت کےتقریباً 30 سال کے بعد امت کے اندر خاندانی حکومت (dynasty) کا جو نظام قائم ہوا، وہ اسی خدائی انتظام کے تحت وقوع میں آیا۔

اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ خاندانی حکومت کے قیام کے بعد امت کے اندر مطلوب ماحول عملاًقائم ہوگیا۔ اس نظام کو امت نے قبول کرلیا۔ ایسا پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے تحت ہوا۔ اس نظام کے تحت جوتسلسل قائم ہوا، اس کے زیر اثر دینی روایات بننا شروع ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر پورے عالم اسلام میںدین کا ایک روایتی ڈھانچہ عملاً قائم ہے۔ اس کی وجہ سے امت کے ہر فرد کے لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی دین اسلام کو پہچان لے اور اس پر عمل کرنے لگے۔

اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں امیر معاویہ کے بعد جب خاندانی ریاست کا نظام قائم ہوا تو حالات میں استحکام پیدا ہوگیا۔ اور تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پانے لگے۔ مثلاً قرآن کی حفاظت ، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کی تدوین، علومِ اسلامی کی تدوین ، مسجد و مدرسے کانظام قائم ہونا، حج و عمرہ کا نظام، دین کی تبلیغ و اشاعت ، وغیرہ۔ یہ تمام کام امن اور اعتدال کے ماحول میں انجام پانے لگے۔ علوم اسلامی کا کتب خانہ پورا کا پورا اسی دور میں تیار ہوا۔ یہ کام اس سے پہلے عدم استحكام كي بنا پرکم ہو رہاتھا، اور استحكام كے بعد سے یہ نظام عملاًآج تک تقريباً اسی طرح جاری هے۔

امام مالک بن انس(وفات179ھ)اپنے استاد وهب ابن کیسان کے حوالے سے کہتے ہیں: إنه لا يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها(مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر 783)۔ یعنی بلاشبہ اس امت کے دورِ آخر کی اصلاح بھی اسی طریقے کی پیروی سے ہوگی، جس طریقہ کی پیروی سے امت کے دورِ اول کی اصلاح ہوئی۔ اولِ امت (earlier ummah) سے مراد وہی دور ہے جس کو متقدمین کا دور یا اسلاف کا دورکہا جاتا ہے۔ اور دورِ اسلاف پورا کا پورا وہی ہے جو خاندانی ریاست کے دور میں وجود میں آیا۔ اس سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ دورِ اول میں جس سیاسی ماڈل کو تمام علماء کے اتفاقِ رائے سے قبول کیا گیا تھا، اور جس کے نتیجے میں امت کے تمام کام درست طور پر انجام پائے ، وہی ماڈل امت کے بعد کے دور کے لیے بھی درست ہے۔ اسی طریقہ کے مطابق بعد کے زمانے میں بھی امت کی اصلاح ممکن ہے۔

  صحابیٔ رسول عبد اللہ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:الإسلام والسلطان أخوان توأمان (کنز العمال، حدیث نمبر14613)۔ یعنی اسلام اور سلطان دو جڑواں بھائی ہیں۔ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: المُلك و الدین توأمان (کشف الخفاء، حدیث نمبر2329)۔یعنی مُلک اور دین دونوں جڑواں بھائی ہیں۔ ان روایتوں میں سلطان اور مُلک، دونوں کے معنی ایک ہیں،یعنی سیاسی اقتدار (political power)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کا رول اصلاً تائیدی رول (supporting role) ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کےلیے طاقت ور مددگار بنے، وہ اسلام کو شیلٹر (shelter)عطا کرے،تاکہ اس کے زیرِ سایہ تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پائیں۔

قرآن میں عدل یا قسط کے معاملے کو متعدی کے صیغے میں بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ لازم کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی عدل کی پیروی کرو(المائدہ،5:8)،قسط پر قائم رہو (النساء، 4:135) ۔ گویا سیاسی اقتدار کا کام عدل و قسط کی تنفیذ (enforcement) نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ ہے کہ وہ سماج میں معتدل حالات قائم کرے تاکہ لوگوں کو یہ موقع ملے کہ وہ کسی رکاوٹ کےبغیر اپنی زندگی میں عدل و قسط کے پیرو بن سکیں۔

سیاسی اقتدار کے اسی رول کی بنا پر اسلام میں سیاسی اقتدار کا کوئی ایک خارجی ماڈل نہیں ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو امن اور حفاظت عطا کرے۔ تاکہ دین کے تمام کام معتدل انداز میں انجام پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کے ماڈل کو درست ماڈل کی حیثیت سے قبول کرلیا جو کہ واضح طور پرابتدائی خلافت کے ماڈل سے مختلف تھا۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ اس ماڈل کے تحت اہل اسلام کو امن اور حفاظت کا مقصد بخوبی طور پر حاصل ہورہا ہے۔ اور تمام دینی کام بلا رکاوٹ انجام پارہے ہیں،جو کہ اس سے پہلے عملاً پورے طور پرحاصل نہ تھے۔

اسلام کا تاریخی رول

انسان کو اللہ نے آزاد مخلوق کی حیثیت سے بنایا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو دریافت کرے،اور آزادانہ ارادے کے تحت اپنی زندگی کو اس کے مطابق بنائے۔ اس حقیقت کو بتانے کے لیے اللہ نے بار بار اپنے پیغمبر بھیجے۔ ہزاروں سال کے دوران بڑی تعداد میں ہر علاقے میں پیغمبر آئے۔ لیکن انسان پیغمبروں کے ساتھ استہزاء (یٰس،36:30)کا معاملہ کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دینِ خداوندی کی کوئی تاریخ نہیں بنی۔

آخر میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ انسانی تاریخ میں مداخلت كرے،اور پیغمبروں کا مشن جو دعوت کے مرحلے پر ختم ہوتا رہا، اس کو خصوصی تائید کے ذریعے انقلاب (revolution) کے مرحلے تک پہنچائے۔ چنانچه پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی بعثت اسی مقصد کے ساتھ ہوئی۔ آپ کے ذریعے دینِ خداوندی کودعوت سے شروع کیا گیا ، اور پھراس کو انقلاب کے مرحلے تک پہنچادیا گیا۔ اس کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہ تھی، اس لیے اعلان کردیا گیا کہ پیغمبر اسلام سلسلۂ نبوت کے آخری شخص (الاحزاب، 33:40) ہیں۔

پیغمبراسلام کے حوالے سے قرآن میں تین بار، لِیُظْهِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ (9:33؛  48:28؛ 61:9) کے الفاظ آئے ہیں۔ ان آیتوں میں اظہارِ دین کا لفظ سیاسی حکومت کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی انقلاب کے معنی میں ہے: اظهار الدين إنما هو بالحجج الواضحة (زاد المسير، جلد 2، صفحه 245 )؛بالحجة والبراهين (تفسير القرطبي، جلد 8، صفحه 121)یہ ایک پرامن انقلاب ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کو ایک نظریاتی غلبہ کا درجہ حاصل ہے۔ حالاں کہ سائنس یا سائنسدانوں کی کوئی سیاسی حکومت نہیں۔

اظہارِ دین سے مرادکوئی عملي نظام قائم کرنا نہیں۔ بلکہ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ دینِ خداوندی کے راستے کی تمام رکاوٹوں کوعملاً ختم کردیا جائے۔ تاکہ جو انسان دینِ خداوندی کے راستے پر چلنا چاہے، وہ آزادانہ طور پر اس پر چل سکے اور خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اپنی شخصیت ڈیولپ کرنے میں اس کو کوئی خارجی رکاوٹ پیش نہ آئے۔

دینِ حق کی یہ رکاوٹیں بنیادی طور پر دو تھیں، ایک شرک (polytheism) اور دوسري بادشاہت (kingship)۔ قدیم زمانےمیں شرک اور بادشاہت کے نظام کو رفتہ رفتہ کامل غلبہ حاصل ہوگیا تھا۔ اس بنا پرعملاً یہ ناممکن ہوگیا تھا کہ کوئی شخص دینِ خداوندی کے راستے پر کامل آزادی کے ساتھ چل سکے، اور اپنے آپ کو اللہ کا مطلوب انسان بنائے۔

 اعتقادی اعتبار سے شرک اور عملی اعتبار سے بادشاہت، اس راستے میں مستقل رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اللہ نے پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب کو خصوصی تائید عطا کی۔ تاکہ ان دونوں نظاموں کو وہ غلبہ کے مقام سے ہٹادیں، اور ایسے حالات پیدا کردیں جن میں انسانی تاریخ اپنے مطلوب رخ پر سفر کرسکے۔

پہلے نشانے کو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لا يجتمع دينان في جزيرة العرب (موطا امام مالک، حدیث نمبر1862)۔ یعنی جزیرۂ عرب میں دو دین اکٹھا نہیں ہوں گے۔ ساتویں صدی میں جب آپ نے یہ فرمایا اس وقت یہ حال تھا کہ مکہ کےمقدس کعبہ کو شرک کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ کعبہ کی عمارت میں تقریبا تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گئےتھے۔ یہ دراصل مختلف قبائل کےبت تھے۔ اس لیے مشرک قبائل کے لیے کعبہ نے مذہبِ شرک کے مرکز کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔

پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے اللہ کی خصوصی تائید کے تحت ایک دور رس منصوبہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں بیس سال کے اندر کعبہ کی حیثیت بدل گئی۔ وہ شرک کے مرکز کے بجائے توحید کا مرکز بن گیا۔ ایسا اس طرح ہوا کہ عرب قبائل کے سردار بڑی تعدا میں اسلام میں داخل ہوئے۔ اس طرح پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کو یہ موقع ملا کہ وہ کعبہ کو بتوں سے پاک کردیں، اور ابراہیمی نقشہ کے مطابق اس کو توحید کے مرکز کی حیثیت دے دیں۔

پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے مشن کا دوسرا نشانہ یہ تھا کہ جبري بادشاہت کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ اس مشن کا ذکر ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں آیاہے: إذا هلك كسرى فلا كسرى بعده، وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده(صحیح البخاری، حدیث نمبر3120)، یعنی جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا، اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہوگا۔ کسریٰ سلطنت ایران (Sassanid Empire)کا حکمراں تھا۔ اور قیصر سلطنتِ روم (Byzantine Empire) کا حکمراں تھا۔ یہ دونوں قدیم بادشاہی نظام کی علامت بنے ہوئے تھے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ یہ دونوں بادشاہتیں ختم ہوجائیں۔ اور پھر اس کے بعد کوئی بادشاہت کا نظام دوبارہ دنیا میں قائم نہ ہو۔

یہ ایک بے حد مشکل منصوبہ تھا۔ اس منصوبہ کو اس طرح آسان بنا دیا گیا کہ پہلے پیغمبرِا سلام کے زمانے میں ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر میں زبردست ٹکراؤ ہوا۔ اس کے نتیجے میں دونوں سلطنتیں کمزور ہوگئیں۔ اس کا اشارہ قرآن کی سورہ الروم کے ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل عمر فاروق کے زمانے میں ہوئی، جبکہ اہل ایمان سے دونوں بادشاہتوں کا فوجی ٹکراؤ ہوا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں سلطنتیں ٹوٹ کر عملاً ختم ہوگئیں۔

اس طرح انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ دور ایک تاریخی عمل (historical process)کی صورت میں تھا۔ اس تاریخی عمل میں اہل اسلام اور سیکولر گروہوں نے مشترک طور پر کام کیا۔ یہ ایک عظیم تاریخی عمل تھا، جس کی تکمیل یوروپ کی نشا ۃ ثانیہ (Renaissance) کے زمانے میں انجام پائی۔

شرک کے دور کا خاتمہ، توہماتی دور (age of superstition) کا خاتمہ تھا۔ اسلام سے پہلے پوری تاریخ میں توہماتی فکر چھایا ہوا تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ توہماتی دور ختم ہوا، اور انسانوں کے درمیان عقلی تفکیر (rational thinking) کا دور شروع ہوا۔ اس کا نتیجےیہ ہوا کہ جدید علوم پیدا ہوئے، فطرت کے رموز دریافت ہوئے، سائنس کا دور آیا جس نے انسانی تاریخ کو ایک نئے تاریخی دور میں پہنچادیا۔

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہارِ دین کے منصوبے میں دو طرح کے اجزاء شامل تھے، ایک وہ جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں واقعہ بن گیا۔ شرک کے دور کا خاتمہ اسی پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ شرک کے دور کا خاتمہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے شروع ہوا، اور انھیں کے زمانے میں عملاً تکمیل تک پہنچ گیا۔ شرک کا کلچر اگرچہ اب بھی بعض گوشوں میں بظاہر موجود ہے، لیکن اب وہ کہیں بھی غالب حیثیت میں نہیں۔

اظہارِ دین کا دوسرا پہلو وہ ہے، جس کو قرآن و حدیث میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً آیات کے ظہور کے بعدحق کی کامل تبیین (فصلت،41:53)، یا حدیث کا یہ ارشاد: ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين، بعز عزيز أو بذل ذليل (مسند احمد، حدیث نمبر16957)يعني يه معامله پهنچے گا وهاں تك جهاں تك دن ورات پهنچتے هيں، اور كوئي گھر يا خيمه نهيں چھوڑے گا، مگر الله وهاں اس دين كو داخل كردے گا، عزت والے كو عزت كے ساتھ اور ذلت والے كو ذلت كے ساتھ۔

اظہارِ دین کا یہ دوسرا پہلو، ایک ایسا پہلو تھا جو نسل در نسل گہری کوشش کے بعد مکمل ہونے والا تھا۔ اس لیے اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس کام میں سیکولر لوگوں کی تائید بھی بھرپور طور پر حاصل ہو۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔يعني الله ضرو ر اس دين كي تائيد فاجر آدمي كے ذريعه كرے گا۔

اظہارِ دین کا یہ انقلاب اکیسویں صدی میں اپنےآخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب اہلِ ایمان کا یہ کام ہے کہ وہ اس پیدا شدہ مواقع کو بھر پور طور پر دینِ خداوندی کی عالمی دعوت کے لیے استعمال کریں۔ تاکہ کوئی پیدا ہونے والا انسان اس سے بےخبر نہ رہے کہ اس کے خالق نے اس کو کیوں پیدا کیا ہے، اور خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan)اس کے بارے میں کیا ہے۔

ربّانی انسائکلوپیڈیا

قرآن میںبعض باتیں خبر کی زبان میں ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک انشاء کا معاملہ ہے۔ قرآن میں اسی نوعیت کی دو آیتیں ہیں۔ ان دونوں کا ترجمہ یہ ہے:

 کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا ئیں (الکہف،18:109)۔ اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے (لقمان، 31:27)۔

قرآن کی ان آیتوں میں ایک عظیم حقیقت کا بیان ہے۔ یہ بیان ایک عظیم الٰہی منصوبے کا اعلان ہے۔ یہ ایک مطلوب چیز ہے کہ عالم تخلیق میں کلماتِ اللہ یا آلاء اللہ کا مطالعہ کیا جائے، اور اس کو لکھ کر تیار کیا جائے۔ یہ کام موجودہ دنیا کے محدود حالات میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے زیادہ بڑی، ایک لامحدود دنیا درکار ہے۔ آخرت کی دنیا ، اسی قسم کی ایک لامحدود دنیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخرت کی دنیا میں کرنے کا ایک کام یہ ہوگا کہ کلمات اللہ اور آلاء اللہ کو دریافت کیا جائے اور ان کی بنیاد پر ایک انسائکلوپیڈیائی لائبریری تیار کی جائے۔ یہ عظیم انسائکلوپیڈیا وہی ہوگی جس کو ہم نے ربانی انسائکلوپیڈیا کا نام دیا ہے۔

موجودہ محدود دنیا میں یہ ربانی انسائکلوپیڈیا لکھی نہیں جاسکتی۔ خالق نے اس دنیا کو اس لیے بنایا ہے کہ اس دنیا میں اس عظیم ربانی انسائکلوپیڈیا کے لکھنے والے (writers) تیار کیے جائیں۔ پھر آخرت کی دنیامیں ان افراد کو وہ تمام ضروری مواقع اعلی ترین سطح پر مہیا کیے جائیں، جن کو استعمال کرکے وہ اس ربانی انسائکلوپیڈیا کو تیار کریں۔ یہ کام کوئی مشقت کا کام نہ ہوگا، بلکہ وہ آخری حد تک ایک محظوظ کام (enjoyable task) ہوگا۔ اس واقعے کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے:إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ(36:55)۔ يعني بے شک جنت کے لوگ آج اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے۔

ربانی انسائکلوپیڈیا کی تحریر میں اپنے آپ کو شامل کرنا، بلاشبہ ایک ایسا انقلابی تصور ہے جو آدمی کو آخری حد تک پر شوق بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کی تعمیر اس طرح کرنے لگتا ہے کہ وہ اس عظیم اور مقدس ٹیم کا ایک ممبر بن جائے۔ ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کا نشانہ کسی صاحبِ ایمان کے لیے سب سے بڑا نشانہ ہے۔ جو صاحبِ ایمان اس نشانے کو دریافت کرلے، اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح خالی ہوجائے گا۔ نفرت، تشدد اور جنگ جیسی چیزوں  میں اپنے کو مشغول کرنے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوگا۔

قرآن کی مذکورہ آیتوں میں روشنائی اور قلم کا ذکر ہے۔ یہ دوسرے الفاظ میں تصنیفی منصوبہ کا حوالہ ہے۔ ان آیتوں میں روشنائی اور قلم کا لفظ تمثیل کی زبان میں ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کے عظیم کام کو بتاتا ہے۔ یہ علامتی طور پر اس پورے انفراسٹرکچر کو بتا رها هے، جو ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کے لیے کائناتی سطح پر مطلوب ہوں گے۔

اسلام نے انسان کے لیے زندگی کا جو تصور(concept) دیا ہے، اس میں نفرت اور تشدد کے لیے کو ئی جگہ نہیں۔ یہ تصور انسان کے اندر اعلیٰ سوچ (high thinking) پیدا کرتا ہے۔ اس میں ہر قسم کی منفی سوچ اس طرح ختم ہوجاتی ہے جیسے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ تصور انسان کو مکمل معنوں میں ایک مثبت شخصیت (positive personality) بنا دیتا ہے۔

قرآن میں جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے ۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں اہل جنت کے لیے ہر قسم کی سہولتیں اعلی سطح پر حاصل ہوں گی۔ یہ نعمتیںاپنے آپ میں جنت کی واحد چیز نہیں۔ بلکہ قرآن کے بیان کے مطابق، وہ بطور نُزُل (فصلت،41:32) ہوگی، یعنی رب العالمین کی طرف سے مہمانی (hospitality) کے طور پر۔

زندگی کے اسلامي تصور کے مطابق، جنت کا مطلب یہ نہیںہے کہ جنت میووں اور حوروں کی ایک دنیا ہے ، اور آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خودکش بمباری (suicide bombing) کی چھلانگ لگا کر اس دنیائے عیش میں پہنچ جائے۔ جنت کا یہ تصور ، جنت کا کمتر اندازہ (underestimation) ہے۔ جنت ایک اعلیٰ نوعیت کی بامعنی سرگرمیوں (meaningful activities) کا مقام ہے، نہ کہ محدود معنوںمیں صرف ایک عیش خانہ۔جنت میں داخلے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جنتی دنیا کے لیے مستحق امیدوار (deserving candidate) بنائے۔ جنت میں داخلے کے لیے موجودہ دنیا میں تیاری کے عظیم جدو جہد کے کورس سے گزرنا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ کوئی شخص جنت کی دنیا میں داخلے کا استحقاق رکھتا ہے یا نہیں۔

زندگی کا یہ تصور ایک شخص کی زندگی سے دنیا رخی (worldly-oriented)زندگی کا مکمل خاتمہ کردیتا ہے، وہ اس کو پورے معنوں میں آخرت رخی (akhirat-oriented) بنا دیتا ہے۔

توحید ایمپائر

پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا پیغمبرانہ مشن شروع کیا ۔ یہ مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی توحید کو نظریاتی اعتبار سے سب سے زیادہ برترنظریہ بنا دینا ۔ مکہ کے سرداروں نے ایک بار آپ کو بلایا، آپ سے پوچھا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے جواب دیا: كلمة واحدة تعطونيها تملكون بها العرب، وتدين لكم بها العجم (سیرت ابن هشام، جلد 1،صفحہ 417)۔ یعنی میں صرف ایک کلمہ چاہتاہوں ، تم وہ کلمہ مجھ کو دے دو، تم عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم تمھارے آگے جھک جائیں گے۔ یہاں کلمہ کا مطلب ہے آئڈیالوجی۔

پیغمبر اسلام نے یہ بات سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں کہی تھی۔ بلکہ وہ نظریاتی غلبہ کے معنی میں تھی۔ اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ دنیا میں ایک ایسا انقلاب آئے، جب کہ تمام دلائل توحید کے حق میں ہوجائیں، اور تمام مواقع توحید کے موافق ہوجائیں۔ یہی وہ بات ہے جو آپ سے پہلے حضرت مسیح نے ان الفاظ میں کہی تھی— تم اس طرح عبادت کروآسمان میں رہنے والے اے ہمارے باپ، تیرا نام مقدس ہے۔ تیری بادشاہی آئے، جس طرح کہ تیرا منشا آسمان میں پورا ہوتا ہے، اسی طرح اس دنیا میں بھی پورا ہو

So, pray this way:   Our Father in heaven, may Your name be honoured, may Your kingdom come, may Your will be done on earth as it is in heaven.   (Matthew, 6:9-10)

اللہ کے دین میں جبر نہیں (البقرۃ،2:256)۔ البتہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دین کو آخری حد تک مدلّل بنا دیا جائے۔ اس کےبعد انسان کا اپنا اختيار ہے کہ وہ اس کو مانتا ہے یا اس كا انكار كرتا هے (الکہف،18:29)۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ضرورت تھی کہ دین کے موافق ایک انقلاب آئے۔ اس انقلاب کے لیے موحد انسانوں کی ایک ٹیم درکار تھی۔ مگر کسی نبی کے زمانے میں ایسی ٹیم نہ بن سکی۔ اس لیے پچھلے انبیاء کے زمانے میں ان کا مشن انقلاب (revolution) تک نہیں پہنچا۔

پیغمبر ابراہیم کے ذریعے اللہ نے یہ منصوبہ بنایا کہ خصوصی اہتمام کے ذریعے ایسی مطلوب ٹیم تیار کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ساڑھے چار ہزار سال پہلے ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی کی کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرامیں بسادیا۔ اس کے بعد دوہزار سال سے زیادہ مدت میں توالد و تناسل کے ذریعے صحرائی ماحول میں ایک نئی نسل تیار ہوئی۔ تاریخ میں اس نسل کو بنواسماعیل کہا جاتا ہے۔ محمد صلى الله عليه وسلم اور آپ کے اصحاب اسی نسل کے منتخب افراد تھے۔

مطلوب انقلاب اچانک نہیں ظہور میں آسکتا تھا۔اس کے لیے ضرورت تھی کہ تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع کیا جائے، جو انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، مختلف مراحل سے گزر كراپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچے۔ یہ عمل عرب میں شروع ہوا، اور مغرب میں جدید تہذیب (modern civilization)کی صورت میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔

اس انقلاب کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ تھا کہ علوم کی ترقی اس طرح ہو کہ تمام علمی اور سائنسی دلائل دینِ خداوندی کی تصدیق بن جائیں۔ یہ مستقبل میں پیش آنے والا واقعہ تھا ، جس کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔

اس انقلاب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ عملی اعتبار سے یہ اسباب دینِ خداوندی کے مويّد (supporter) بن جائیں۔ یہ انقلاب صرف اہل ایمان کے ذریعے نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے اللہ نے اس کے لیے دوسری قوموں کو بھی اس عمل کا موید بنا دیا۔ یہ پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول میں اس طرح ملتی ہے: إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی بیشک اللہ ضرور اس دین کی مدد کرے گا، فاجر لوگوں کے ذریعے۔

اکیسویں صدی میں یہ تائیدات اپنی آخری صورت میں حاصل ہوچکی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانے میں قول و عمل کی آزادی کا انسان کے لیے ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار پانا، ٹکنالوجی کی ترقی کے ذریعے ہر قسم کے امکانات کا اعلی سطح پر کھل جانا، پرامن طریقۂ کا ر کے ذریعہ ہر مقصد کے حصول كاممکن ہوجانا، ساری دنیا میں کھلا پن (openness) کا ماحول قائم ہوجانا، وغیرہ۔

ابتدائی دور میں، اس عمل کو مسلسل طور پر جاری رکھنے کے لیے ایک تائیدی شلٹر (supporting shelter)درکار تھا۔ اہل اسلام کو سیاسی طاقت دے کر اس شلٹر کا انتظام کیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر تک اہل اسلام کی یہ سیاسی طاقت اس عمل کو تائیدی شلٹر فراہم کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری منزل پر پہنچ گیا۔

بیسویں صدی میں وہ دور آگیا، جب کہ یہ عمل اتنا طاقت ور ہوچکا تھا کہ وہ خود اپنی طاقت سے جاری رہ سکے۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کمزور ہوگئی۔ لیکن مطلوب عمل خود اپنی طاقت سے مسلسل طور پر جاری رہا۔ جدید دور میں ماڈرن تہذیب کا فروغ، اور 1945 میں اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام وغیرہ ، وہ واقعات ہیں، جب کہ یہ عمل امکانی طور پر اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب تمام دلائل اور تمام مواقع توحید کی آیڈیالوجی کے لیے پوری طرح موافق ہوچکے ہیں۔ اب اہل اسلام کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس انقلاب کو شعوری طور پر سمجھیں، اور دانش مندانہ منصوبہ بندی کے تحت توحید کی آیڈیالوجی کو اسی طرح ایک معلوم حقیقت بنادیں، جس طرح موجودہ زمانےمیں سائنس کا علم لوگوں کے لیے ایک معلوم حقیقت بن چکا ہے۔

قرآن میں پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ تمام دین پر اس کوغالب کردے(التوبۃ ، 9:33)۔ اس غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ نظریاتی غلبہ ہے۔مزید یہ کہ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ غلبہ کا یہ واقعہ پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں مکمل طور پر ظاہر ہوجائے گا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخِ انسانی میںایک انقلابی عمل (revolutionary process)جاری ہوگا، جو آخرکار دینِ حق کے کامل نظریاتی غلبہ کے ہم معنی بن جائے گا۔

قرآن و حدیث میں کچھ بیانات حال (present) کی زبان میں ہیں، اور کچھ بیانات مستقبل (future) کی زبان میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کچھ تعلیمات وہ ہیں، جو پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں پوری ہونے والی تھیں، اور کچھ تعلیمات وہ ہیں ،جو رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کے زمانےمیں اپنی تکمیل تک پہنچنے والی تھیں۔

پہلی قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (5:3)۔ یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو پورا کردیا۔ قرآن کی اس آیت میں تکمیل سے مراد قرآن کے نزول کی تکمیل ہے۔ قرآن (کتاب اللہ) کا نزول اپنی آخری صورت میں ہوچکا۔ اب قیامت تک کوئی نیا قرآن جزئی یا کلی طور پر اترنے والا نہیں۔

قرآن کی اس آیت میں اکمالِ دین کا لفظ ہے۔ اکمالِ دین میںباعتبارِ تفصیل یہ بات بھی شامل ہے کہ اسلام کے دورِ اول میں قرآن مدون ہوا، پیغمبر کا اسوہ (example) ہر پہلو سے مستند طور پر قائم ہوگیا، کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے توحید کا مرکز بنادیا گیا،امت مسلمہ عملاً وجود میں آگئی، وغیرہ۔دوسری قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (9:32)۔یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں حالانکہ اللہ کو اس کے علاوہ کوئی بات منظور نہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں— اس آیت کا تعلق پوری انسانی تاریخ سے ہے۔ تاریخ میں مسلسل طور پر اہلِ انکار یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہدایت کے بارےمیں اللہ کا منصوبہ مکمل نہ ہونے پائے۔ مگر قرآن کے نزول کے بعد اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس معاملے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے، اور ہدایت کے بارے میں اللہ کا منصوبہ لازمی طور پر مکمل ہوکر رہے۔ اس طرح کی آیتوں یا حدیثوں میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ مقصد خود زمانۂ رسول میں پورا نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اس طرح پورا ہوگا کہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعہ تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process)جاری ہوگا۔ اس عمل کے نقطۂ انتہا (culmination) پر ایسا ہوگا کہ اتمامِ نور کے بارے میں اللہ کا منصوبہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

اللہ کےمنصوبے کے مطابق ، یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس عمل میں مسلم لوگوں کے علاوہ سیکولر لوگوں نے بھی حصہ لیا۔یہ عمل انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے جاری رہا۔ گویا بظاہر انسان کی آزادی قائم تھی، اور زیریں لہر (undercurrent) کے طور پر خدا کا منصوبہ بھی مسلسل طور پر جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اسلام کی مدون تاریخ میں یہ واقعہ ایک گمشدہ کڑی (missing link) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان تاریخ کے ایک حصے کو جانتے ہیں، اور وہ تاریخ کے دوسرے حصے سے بے خبر ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ عالمی تاریخ میں مسلمانوں نے کس طرح اپنا رول اداکیا۔ لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں کہ عین اسی وقت سیکولر عناصر بھی مسلسل طور پر اپنا تائیدی رول اداکرتے رہے۔

اسلام کا ایک جزء اس کی آئڈیا لوجی ہے۔ یہ آئڈیا لوجی تمام تر قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ اسلام کا دوسرا جزء اس کے تائیدی اسباب ہیں۔ اس دوسرے جزء میں دنیا کی تمام قوموں نے حصہ لیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانہ مذہبی جبر (religious persecution) کا زمانہ تھا، آج انسان کو پورے معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں کھلاپن (openness) نہیں ہوتا تھا، آج پوری دنیا کھلے پن کے دور میں پہنچ گئی ہے۔ قدیم زمانے میں کمیونی کیشن (communication) صرف محدود طور پرہوسکتا تھا، آج ماڈرن ٹکنالوجی نے کمیونی کیشن کو لامحدود حد تک بڑھا دیا ہے۔قدیم زمانے میں بین الاقوامی مسلّمات (international norms) قائم نہیں ہوئے تھے، موجودہ زمانے میں بین الاقوامی مسلّمات بڑے پیمانے پر قائم ہوگئے ہیں۔ قدیم زمانے میں امن اور جنگ کا کوئی مسلّمه اصول نہیں تھا، آج اقوامِ متحدہ (UNO) کے ذریعے امن اور جنگ کا مسلمہ اصول وضع ہوگیا ہے، وغیرہ۔ یہ تمام مسلمات کیسے قائم ہوئے۔ اس کو وجود میں لانے میں بڑا رول سیکولر افراد نے انجام دیا ہے۔

مسلمان اگر اس حقیقت کو جان لیں تو ان کو پوری انسانی تاریخ عملاً اسلام کی تاریخ نظر آئے گی۔ جب کہ اس وقت وہ صرف مسلم تاریخ کو اسلام کی تاریخ سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کی نفسیات ہم اور وہ (we and they) کے تصور پر بنی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننے کے بعد مسلمانوں کی نفسیات ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر قائم ہوجائے گی۔ یہ طرزِ فکر پورے معنوں میں مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پیدا کردے گی، جو بلاشبہ ان کے لیے سب سے بڑی طاقت بن جائے گا۔

دین کا ضروری ڈھانچہ

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن الدين ليأرِزُ إلى الحجاز كما تأرِز الحية إلى جحرها (سنن الترمذی، حدیث نمبر2630)۔ یعنی دین حجاز میں سمٹ آئے گا، جس طرح سانپ اپنے بل میں سمٹ آتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ کے دور میں بھی دین حجاز میں زندہ رہےگا۔

حجاز وہ جغرافی علاقہ ہے جہاں پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کی بعثت ہوئی، جہاں حر م مکہ اور حرمِ مدینہ واقع ہیں، جہاں اسلام کی تاریخ بنی، جہاں ابراہیم اور اسماعیل اور اس کے بعد رسول اور اصحابِ رسول کی روایات قائم ہوئیں، جو اسلام کی عالمی عبادت ، حج کا مرکز ہے۔حرم وہ مقام ہے جہاں جاندار کو مارنا کلی طور پر حرام ہے۔

چنانچہ ارضِ حجاز (عرب) کو مسلمانوں کے درمیان خصوصی احترام کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، جس کو پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں فرمایا کہ جب دنیا میں فتنہ پھیل جائے گا، تب بھی ارضِ حجاز (عرب) نسبتاً محفوظ رہے گا۔ تشدد کے دور میں بھی مسلمان یہاں احتراماً تشدد سے پرہیز کریں گے۔ اس لیے دین کا وہ ڈھانچہ جس کو قائم رکھنا ہر حال میں ضروری ہے، کسی نہ کسی صورت میں یہاں قائم رہے گا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈھانچہ کیا ہے۔ وہ ڈھانچہ یہ ہے کہ امت سیاسی ٹکراؤ سے مکمل طور پر پر ہیز کرے، اور غیر سیاسی دائرے میں پر امن تعمیر کو ہمیشہ جاری رکھے۔ اس مطلوب کو ایک جملے میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے :

Political status quoism and dawah activism

 پر تشدد نزاعات ہمیشہ سیاسی ایشو پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اسلام میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ سیاست کے معاملے میں حالتِ موجوده (status quo) پر عملاً راضی رہو تاکہ پر امن تعمیر کا ماحول ہمیشہ موجود رہے۔ اس طرح اسلام کا ربانی مشن مسلسل طور پر بلا انقطاع جاری رہے گا۔اس اعتبار سے گویا ارضِ حجاز کو عملاً ایک ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔

سیاست اور تعمیر کے درمیان مذکورہ بندوبست (settlement) ہر مسلم علاقے کے لیے مطلوب ہے۔ حدیث میں ارضِ حجاز کا ذکر استثنائی طور پر اس لیے کیا گیا کہ اس علاقے کی مخصوص حیثیت کی بنا پر یہاں ایک نفسیاتی قسم کا جبر (compulsion) قائم ہوگیا ہے۔ فتنہ کے دور میں بھی عملاً ایسا ہوگا کہ مسلمان اس علاقے میں متشددانہ سرگرمیوں سے احتراز کریں گے۔ اس بنا پر یہ علاقہ دورِ فتنہ میں بھی لوگوں کے لیے بلااعلان ایک ماڈل بنا رہے گا۔

مذکورہ حدیث میں حجاز کا لفظ جغرافی مقام کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ اپنے ماڈل کے اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حجاز کے لیے مسلمانوں کے اندر خصوصی احترام کی جو نفسیات پیدا ہوگی، اس کی وجہ سے یہ علاقہ عملاً سیاسی تشدد سے بچا رہے گا، اور اس بنا پر وہ لوگوں کے لیے ایک ماڈل کا کام کرے گا۔ یہ علاقہ اپنی صورتِ حال کے اعتبار سے مسلمانوں کو یہ بتاتا رہے گاکہ ہر جگہ تم اسی سیاسی ماڈل کو اختیار کرو تاکہ اسلام کا اصل مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔

نئے دور کا آغاز

پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے مدنی دور میں وہ واقعہ پیش آیا جو اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ يه واقعه چھ ہجری میں پيش آيا۔صلح حدیبیہ اصلاً ایک پر امن معاہدے کا نام تھا۔ اس صلح سے پہلے اہل توحید اور اہل شرک کےدرمیان ٹکراؤ کا سلسلہ جاری تھا۔ جس نے کئی بار جنگ کی صورت اختیار کرلی تھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد یہ صورتِ حال ختم ہوگئی۔ اس کے بعد عرب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب کہ اہل ایمان کو یہ آزادی مل گئی کہ وہ ملک میں پر امن طور پر اپنا مشن جاری رکھیں۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ان کے لیے متشددانہ مزاحمت پیش نہیں آئے گی۔

یہ معاہدہ جب فریقین کے درمیان طے پاگیا تو اس کے بعد قرآن کی سورہ الفتح نازل ہوئی۔ اس سورہ میں اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا:إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا.  لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (48:1-2)۔ بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی۔ تاکہ اﷲ تمھاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے۔ اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے۔ اور تم کوسیدھا راستہ دکھائے۔

قرآن کی اس آیت میں صراطِ مستقیم (straight path) سے کیا مراد ہے۔ معاہدہ حدیبیہ کے وقت اور اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، وہ اس معاملےمیں شانِ نزول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پس منظر کو لے کر اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں سیدھا راستہ سے مراد مقصد کے حصول کا پر امن طریقہ (peaceful method) ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیس فل میتھڈ کے ذریعے اپنے مشن کو زیادہ موثر طور پر جاری رکھا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں پورا عرب اسلام کا علاقہ بن گیا۔ اس سے پہلے عرب میں شرک کا غلبہ تھا۔ اب پورے عرب میں توحید کا غلبہ قائم ہوگیا۔

یہ پر امن طریقِ کار (peaceful method)کا کرشمہ تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے اپنے مشن کی پرامن منصوبہ بندی کی اور اس کا نتیجہ فتح مبین (clear victory)  كي شكل ميں ظاهر هوا۔ یہاں فتح مبین سے مراد سیاسی فتح نہیں ہے، بلکہ نظریاتی فتح (ideological victory) ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کا نشانہ نظریاتی فتح ہے، نہ کہ سیاسی فتح۔ یہاں صلح حدیبیہ کا مقصد صرف عرب میں’’فتح مبین‘‘ نہیں تھا۔ بلکہ یہ دنیا کے لیے ایک انقلاب کا آغاز تھا۔صلح حدیبیہ کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا ہوا تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ جب کہ اقوامِ متحدہ (UNO) کے عالمی پلیٹ فارم پر دنیا کی تمام قوموں نے متحدہ طور پر یہ طے کیا کہ اب دنیا میں بطور اصول ایک ہی طریقِ کار تسلیم شدہ طریقِ کار ہوگا، اور وہ پرامن طریقِ کار ہے۔ اب اصولی طور پر کسی بھی قوم کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ طریقِ کار (violent method) کو اختیار کرے۔

تاریخ کو اس مقام تک پہنچانے میں مختلف واقعات کا حصہ ہے۔ ان میں سے دو اہم واقعات وہ ہیں، جن کو پہلی عالمی جنگ(1914-1918)اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کہا جاتا ہے۔ ان دونوں جنگوں میں دنیا کی تمام بڑی طاقتیں براہ راست طور پر یا بالواسطہ طور پر شریک تھیں۔اس کے باوجود اس جنگ کا کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ جنگ کے ہر فریق کو غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑا۔

یہ دونوں جنگیں تاریخ کی عظیم جنگیں (great wars) کہی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ ان جنگوں میں ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے، جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کوئی فریق اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جان و مال کی بے پناہ قربانی کے باوجود ہر فریق کے حصے میں تباہی کے سوا کچھ اور نہیں آیا۔ان عظیم جنگوں کے بعد تاریخ میں پہلی بار اس سلسلے میں ایک جبر (compulsion) کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ تمام قوموں نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمارا آپشن (option)صرف پر امن طریقِ کار ہوگا، جنگ اور تشدد کا طریقہ نہیں۔ چنانچہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ پر اقوامِ متحدہ وجود میں آئی جو گویا عالمی صلح حدیبیہ کے ہم معنی تھی۔

اس سے پہلے انسانی تاریخ میں اعلان کے ساتھ یا بلااعلان یہ سمجھا جاتا تھا کہ مقصد کے حصول کا واحد ذریعہ جنگ ہے۔ یہ تصور عملاً پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس تصور کا باقاعدہ خاتمہ صرف بیسویں صدی کے وسط میں ہوا جب کہ اقوامِ متحدہ کا عالمی ادارہ تمام قوموں کے اتفاقِ رائے سے قائم ہوگیا۔

امن (peace)اس دنیا کا کائناتی کلچر ہے۔ انسان کے سوا پوری کائنات ہمیشہ سے اسی امن کلچر پر قائم ہے۔ انسان کو خالق نے آزادی عطا کی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں یہ کلچرعملاً قائم نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انسان اپنی آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر بار بار تشدد کا طریقہ اختیار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خالق نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ تاریخ میں عملاً ایک جبر (compulsion) کی صورت پیدا ہوگئی۔ انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ انسان جبر اور تشدد کو اصولی طور پرقابلِ ترک قرار دے دے۔ اب اگر دنیا میں کہیں جنگ کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی حیثیت ایک استثنا (exception)کی ہوتی ہے۔ جب کہ ماضی کی تاریخ میں جنگ کو عموم کی حیثیت حاصل تھی۔

اب دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک سیکولر دنیا اور دوسري مسلم دنیا۔ سیکولر دنیا کا مسلمہ معیار (accepted criterion) صرف ایک ہے، اور وہ نتیجہ (result) ہے۔ سیکولر دنیا کا اصول یہ ہے کہ جو عمل بےنتیجہ ہو، اس کو اختیار نہیں کیا جائے گا، صرف وہ عمل اختیار کیا جائے گا جو مطلوب نتیجہ پیدا کرنے والا ہو۔ سیکولر دنیا عقل کے اصول پر چلتی ہے، اور عقل کا اصول یہ ہے کہ نتیجہ خیز کام کرو، اور بےنتیجہ کام کو چھوڑ دو۔

 اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے بعد دنیا میں نوآبادیات کا دور آیا۔ نو آبادیاتي نظام اصلاً صنعتی نظام تھا۔ ابتدائی دور میں قدیم تصور کے تحت نوآبادی طاقتوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں اپنی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پولیٹکل پاور کی بھی ضرورت ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے ساتھ ہر جگہ پولیٹکل اقتدار قائم کرنے کی کوشش کی، تاکہ وہ اپنی صنعتی سرگرمیوں کو سیاسی شیلٹر (political shelter) عطا کرسکیں۔

لیکن نوآبادی طاقتوں کو تجربے کے بعد محسوس ہوا کہ جدید دور قوم پرستی (nationalism) کا دور ہے۔ اس دور میں سیاسی شیلٹر کا تصور ایک ناقابلِ عمل تصور بن چکا ہے۔ چنانچہ انھوں نے سیاسی شیلٹر کا ایک بدل دریافت کرلیا۔ اور وہ تنظیم (organization) تھا ۔ انھوں نے کامیاب طور پر یہ منصوبہ بنایا کہ سیاسی شیلٹر کے مقصد کو بہتر تنظیم کے ذریعے حاصل کریں۔

اب انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے لیے صرف دو چیزوں پر ساری توجہ صرف کردی۔ اور وہ تھا— کواليٹي اور آرگنائزیشن۔ انھوں نے بہتر کوالیٹی اور بہتر تنظیم کے ذریعہ زیادہ بڑے پیمانے پر اپنے اس مقصد کو حاصل کرلیا ، جس کو ناکام طور پر نو آبادیات کے تصور کے تحت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جدیددور میں نو آبادی طاقتوں نے جو طریقے استعمال کیے ہیں، ان میں سے دو طریقے وہ ہیں جن کوانوسٹمنٹ (investment) اور آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔ یہ نئے طریقے مکمل طور پر پرامن اور غیر سیاسی طریقے ہیں ، لیکن ان طریقوں کے ذریعے موجودہ زمانے کی ترقی یافتہ قوموں نے اکیسویں صدی میں بہت بڑے پیمانے پر اپنا صنعتی ایمپائر (industrial empire) قائم کرلیا۔ بغیر اس کے کہ اس کو کسی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا پیش آئے۔ یہ حقیقت موجودہ زمانے کی تمام قوموںنے دریافت کرلی۔ اس میں صرف ایک قوم کا استثنا ہے، اور وہ مسلمان ہے۔ آج کی دنیا میں جو تشدد (militancy) جاری ہے، وہ عملاً مسلم تشدد (militancy) ہے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو آج کی دنیا میں متشددانہ طریقِ کار (violent method) کا طریقہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مسلم تشدد کی مثالیں تقریباً ہر روز میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ نائن الیون 2011اور پیرس اٹیک 2015 اس کی چند مثالیں ہیں۔

اس عموم میں مسلمانوں کے استثنا کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بعد کی تاریخ میں جو علمی لٹریچر بنا ، وہ امن کے اصول کے بجائے جہاد (بمعنی قتال ) کے اصول پر بنا۔ یہ رسول اور اصحابِ رسول کے دین سے ایک انحراف کے ہم معنی تھا۔ لیکن وہ مسلم اہلِ علم کے درمیان اتنا زیادہ رائج ہوا کہ آخرکار اس نے عقیدہ کی صورت اختیار کرلیا۔ مسلمانوں کا تشدد مبنی برعقیدہ تشدد ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر لڑ کر مرجاؤ ، اور اس کے بعد سیدھے جنت میں پہنچ جاؤ۔ یہ عقیدہ اتنا زیادہ بڑھا کہ موجودہ زمانے میں ایسے علما پیدا ہوئے جنھوں نے خود کش بمباری (suicide bombing) کو یہ کہہ کر مقدس درجہ دے دیا کہ وہ خود کشی نہیں ہے، بلکہ استشہاد (طلب شہادت) ہے۔ یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے اصل نظریہ ہے۔ اس کی تائید میں کوئی بھی آیت یا حدیث موجود نہیں۔ لیکن اب وہ اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ کوئی قابلِ ذکر عالم اس کے خلاف بولنے والا نہیں۔ پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں یہ کہا تھا إذا وضع السيف في أمتي، فلن يرفع عنهم إلى يوم القيامة (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3952) ۔ یعنی جب میری امت میں تلوار اٹھ جائے گی، تو وہ اس سے قیامت تک ہر گز نہیں دور ہوگی۔

اسلام کی تاریخ

پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔آپ کا مشن دعوتِ توحید کا مشن تھا۔ لوگوں کے لئے اِس پیغمبرانہ مشن کے مآخذ ابتدائی دور میں صرف دو تھے، قرآن اور حدیث۔ قدیم زمانے میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا،اس لئے لوگ حافظہ اور مخطوطات کے ذریعےاسلام کو سمجھتے رہے۔ ابتدائی دور میںاسلام کو سمجھنے کے لئے قرآن و حدیث کوواحد ماخذ (source)کی حیثیت حاصل تھی۔لوگ قرآن اور حدیث کو پڑھتے اور اس سے اسلام کی تعلیمات اخذ کرتے۔بعد کے زمانہ میں جو تبدیلی پیدا ہوئی،اس نےاس معاملےمیں امتِ مسلمہ کے لئےاسلام کا ماخذ بدل دیا۔ اب قرآن و حدیث کے بجائے عملاًتاریخ ان کی ذہن سازی کا ذریعہ بن گئی۔

اس عمل کا آغاز دوسری صدی ہجری میں سیرت نگاری سے ہوا۔اِس ابتدائی دور میں سیرت پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب غزواتی پیٹرن (pattern) پر لکھی گئیں۔ مثلاً مغازی الواقدی، مغازی موسیٰ بن عقبہ، مغازی ابن اسحاق، وغیرہ۔ پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کا مشن اصلاً پرامن دعوت کا مشن تھا۔ لیکن ابتدائی دور کی ان کتابوں نے قارئین کو یہ تاثر دیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا مشن، ایک ایسا مشن تھا جو جنگ وقتال پر مبنی تھا، نہ کہ اللہ کی طرف پُرامن دعوت پر۔

عباسی خلافت 123ھ میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی موضوعات پر تحریری کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ اب وسیع تر معنوں میں اسلام کی تاریخ لکھی جانے لگی۔ لیکن اب بھی بنیادی پیٹرن وہی باقی رہا۔ چناںچہ اس دور میںبھی اسلامی تاریخ کے موضوع پرجوکتابیں لکھی گئیں، وہ عملاً فتوحاتی پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مثلا فتوح الشام للواقدی، فتوح البلدان للبلاذری، وغیرہ۔

ایساکیوں ہوا کہ پیغمبر ِ اسلام کی سیرت لکھنے کے لئے غزواتی پیٹرن اختیار کیا گیا۔ اسی طرح اسلام کی تاریخ لکھنے کے لئے کیوںفتوحاتی پیٹرن ایک مقبول پیٹرن بن گیا۔جواب یہ ہے کہ ایسا زمانی عنصر (age factor) کی بنا پر ہوا۔ پہلے زمانے میں تاریخ نگاری کا یہی پیٹرن تمام دنیا میں رائج تھا۔بادشاہوں کے قصے، سلطنت کے واقعات، اور حکمرانوں کی لڑائیاں، قدیم زمانے میںاسی قسم کی چیزیں تاریخ کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ اس لئے جب مسلمانوںمیں تاریخ نگاری کا کام شروع ہوا تو انھوں نے زمانی تاثر کے تحت اسلام میں بھی تاریخ نگاری کے اسی رواجی پیٹرن کو اختیار کر لیا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہات (التوبۃ،9:30) کہا گیا ہے۔

عبد الرحمٰن ابن خلدون (وفات808 ھ) پہلا شخص ہے، جس نے تاریخ نگاری کے اس پیٹرن پر تنقید کی۔ اس نے کہا کہ تاریخ کو پوری انسانی سرگرمی کا بیان ہونا چاہئے، نہ کہ صرف بادشاہت اور سلطنت کا بیان۔ابن خلدون نے اپنے اِس نقطۂ نظر کو اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ، جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ابن خلدون نےخودبھی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کاٹائٹل یہ تھاديوان المبتدا والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر۔ مگر ابن خلدون کی اپنی لکھی کتاب بھی تاریخ نویسی کے بارے میںاس کے بتائے ہوئے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ابن خلدون کی تاریخ کی یہ کتاب بھی عملاً اس دورکی دوسری تاریخ کی کتابوں جیسی ایک کتاب بن گئی۔

ظہورِ اسلام کے بعد ہزار سال تک اسلام کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، جس کو سیاسی پیٹرن کہنا صحیح ہوگا۔تاریخ کی یہ کتابیں اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتی رہیں، جو عملاً سیاسی نوعیت کے واقعات کا ایک مجموعہ تھا۔

تاریخ نگاری کے اس سیاسی پیٹرن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی تاریخ سے وہی چیز حذف ہوگئی، جو اس کا اہم ترین جز تھی، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کے دور میں اسلام کی تاریخ کے نام سے جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں دعوت کا پہلو سرے سے موجود ہی نہیں۔ مثلاً  مورخ ابن اثیر کی کتاب کا نام الکامل فی التاریخ ہے۔لیکن وہ اسلامی تاریخ کا کامل بیان نہیں۔ کیوں کہ اس کتاب میں سیاسی نوعیت کے واقعات کا ذکر تو کیا گیا ہے، لیکن اس میں اسلام کے دعوتی پہلو کی تاریخ موجود نہیں۔ اسی طرح ابن کثیرنے تاریخ کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی ، جس کا نام البدایۃ والنهایۃ ہے، یعنی از اول تا آخر۔ مگر اس کتاب کا حا ل بھی یہ ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے دوسرے واقعات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن اسلام کی دعوتی تاریخ اس کے اندر موجود نہیں۔

سیاسی پیٹرن کا تعلق صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود نہ رہا۔ یہ پیٹرن ہر شعبۂ علم میں چھاگیا۔ مثلا جب حدیث کی تدوین ہوئی تو حدیث کی کتابوں میں کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے ابواب تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن کتاب الدعوۃ والتبلیغ ان میںموجود نہیں۔ اسی طرح عباسی دور میں فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں بھی کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے تفصیلی ابواب موجود ہیں، لیکن فقہ کی کسی کتاب میں کتاب الدعوۃ والتبلیغ موجود نہیں، وغیرہ۔ یہی وہ کتابیں تھیں جن کو پڑھ کر بعد کی مسلم نسلوں کا ذہن بنایا۔ اس کے نتیجے میں بعد کے مسلمانوں میں سوچنے کا دعوتی پیٹرن رائج نہ ہوسکا، بلکہ سوچنے کا سیاسی پیٹرن رائج ہوگیا۔ مثلاًشاہ ولی اللہ دہلوی کی ایک کتاب حجۃ اللہ البالغہ ہے،جس کا موضوع اپنے نام کے لحاظ سے الله كي حجت ہے، لیکن اس میں دعوت کا باب سرے سے موجود نہیں۔ حالاں کہ قرآن کے مطابق اللہ کی حجت لوگوں کے اوپر دعوت کے ذریعے قائم ہوتی ہے(النساء ، 4:165)۔عجیب بات ہے کہ اسلامی تاریخ کے دعوتی پہلو پر باقاعدہ کتاب لکھنے کا کام سب سے پہلے ایک مسیحی مستشرق نے کیا۔اس كتاب كا ٹائٹل ہے:

T. W. Arnold, The Preaching of Islam, first published in 1896

سیاسی پیٹرن پر لکھی ہوئی تاریخ کی کتابوں کے پڑھنے سے جو ذہن بنا، وہ وہی تھا جس کو سیاسی اور قومی ذہن کہا جاسکتا ہے۔تاریخ نگاری کا یہ پیٹرن جاری تھا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ آیا۔بیسویں صدی میں مسلمان نئے حالات سے دو چار ہوئے۔ان کا ایمپائر ،مثلا ًمغل ایمپائر اور عثمانی ایمپائر ٹوٹ گیا۔مسلمانوں کے اوپر ہر اعتبار سے مغربی قوموں کا غلبہ قائم ہوگیا۔ مغربی قومیں نئی طاقت کے ساتھ ابھریں، اور عملاً سارے عالم پر چھاگئیں، جن میں مسلم قومیں بھی شامل تھیں۔

یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لئےایک سیاسی چیلنج بنی ہوئی تھی۔اس کے نتیجے میںمسلمانوں کے اندر سیاسی ردّ عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں کارل مارکس کا نظریۂ تاریخ بڑے پیمانے پر پھیلا۔ کارل مارکس نے جو نظریۂ تاریخ پیش کیا، اس کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس نے تاریخ کی ایک مادی تعبیر پیش کی، جس کو مادی تعبیرِ تاریخ (material interpretation of history) کہا جا تا ہے۔ 1917 میں جب کارل مارکس کے پیروؤں (کمیونسٹ پارٹی)کو روس میںحکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو اس کے بعد مارکسی فلسفہ ساری دنیا میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

 ان حالات کے زیرِ اثر مسلم دنیا میںایک ظاہرہ پیدا ہوا۔ یہ ظاہرہ زیادہ تر زمانی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کو وقت کے معیار کے مطابق ثابت کرنے کے لئے، اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation of Islam) پیش کرنا شروع کیا۔ ان مسلم مفکرین میں دونام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں،عرب دنیا میں سید قطب مصری (وفات1966)، اور برصغیر ہند میں سید ابولاعلی مودودی (وفات1979)۔

اسلام کی یہ سیاسی تعبیروقت کی مسلم نسلوں کے مزاج کے مطابق تھی۔ چنانچہ وہ عرب اور غیرعرب دنیا میں تیزی سے پھیل گئی۔ اس سیاسی نظریے کے تحت ہر زبان میں لٹریچر تیارکیا گیا۔ جماعتیں اور ادارے بنائے گئے۔ اس سیاسی نظریے کے تحت مسلمانوں میں سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔

اسلام کی سیاسی تعبیر کے اس نظریے کے تحت مسلمانوں کے درمیان جو سرگرمیاں شروع ہوئیں، ان کا نشانہ حکومت پر قبضہ کرنا تھا۔ تاکہ ان کے مفروضہ ذہن کے تحت ہر جگہ اسلام کا نظام قائم کیا جاسکے۔مگر ہر قسم کی قربانیوں کے باوجود ان عناصر کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جو ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ مسلمان ہر جگہ عملاً دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک اقتدار پر قابض گروہ اوردوسرا اقتدار سے محروم گروہ۔ ان دونوں طبقوں کے درمیان لامتناہی طور پر حریفانہ تعلق قائم ہوگیا۔

یہ طبقہ جو اپنے آپ کو اسلام پسند (Islamist) کہتا ہے، اس نے جب دیکھا کہ ان کو مسلم ملکوں میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے تو انھوں نے خود اپنے آپ پر نظر ثانی نہیں کی بلکہ انھوں نے اس کا الزام مغربی قوموں پر ڈال دیا۔ انھوں نے کہا کہ مغربی قوموں نے سازش کر کے مسلم حکمرانوں کو اپنے موافق بنا لیا ہے۔اب ان کی سیاسی مہم کا نشانہ بیک وقت دو ہوگیا۔ ایک طرف مسلم حکمراں، اور دوسری طرف مغرب کی قومیں۔انھوں نے دونوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی سرگرمیاں جاری کردیں۔

مگرآخرکار ان اسلام پسندوں کو نظر آٰیا کہ ساری کوششوں کے باوجود وہ اپنے سیاسی مقصد میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ اب ان کے اندر ایک خطرناک رجحان ابھرا، اور وہ خودکش بمباری (suicide bombing)کا رجحان تھا۔ انھوں نے غلط پروپیگنڈے کے ذریعےوقت کے مسلمانوں کو آخری حد تک انتہاپسندی میں مبتلا کردیا۔چنانچہ ان کو مسلمانوں میں ایسے افراد کثرت سے ملنے لگے، جو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کے لئے تیار تھے۔اکیسویں صدی میںیہ رجحان پوری شدت کے ساتھ کام کررہا ہے۔یہ رجحان یقینی طور پر کوئی صحت مند رجحان نہیں۔ اس کا مطلب عملاً یہ ہے— اگر تم دشمن کو ہلاک نہیں کرسکتے تو ایساکرو کہ خوداپنے آپ کو ہلاک کرکے کم ازکم دشمن کو غیر مستحکم (destabilize)کرو۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں کوئی نیا آغاز لانا صرف اس طرح ممکن ہے کہ ان کے کیس کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں اس معاملے کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ کسی جذباتی اقدام یا ردعمل کے تحت کوئی کارروائی اس معاملے کا حل نہیں بن سکتی۔ یہ احیائے امت کا معاملہ ہے، اور احیائے امت کا معاملہ ہمیشہ اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے۔

راقم الحروف کے نزدیک اس معاملےکا آغاز یہ ہے کہ وہ تمام کتابیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاسی پیٹرن پر لکھی گئیں، ان سب کو کلاسیکل لٹریچر (classical literature) کا درجہ دے دیا جائے۔ یعنی ان کی اہمیت صرف اس اعتبار سے ہو کہ وہ امتِ مسلمہ کی ماضی کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں، لیکن جہاں تک موجودہ زمانے میں ملت کے احیاء اور اس کے مستقبل کی تعمیر کا سوال ہے، اب بلاشبہ ہم کو نئے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ایسا لٹریچر جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں نئے حالات کو سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں عمل کا نقشہ بنایا جائے۔

بعد کے زمانے میں جو ڈیولپمنٹ (development)ہوا، اس کے نتیجے میں امت کے اندر انسان رخي ذهن كے بجائے مسلم رخی ذہن (Muslim-oriented mind)بن گیا۔ مسلمان عام طور پر ہم اور وہ (we and they) کے انداز میں سوچنے لگے۔ مگر یہ ذہن مکمل طور پرایک غیر دعوتی ذہن ہے۔ صحیح ذہن وہ ہے جو ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر مبنی ہو۔ اس لحاظ سے موجودہ زمانے میںجو اسلامی لٹریچر تیار كيا جائے، اس کو تمام تر انسان رخی سوچ (man-oriented thinking) پر مبنی ہونا چاہئے۔ دعوت الی اللہ کے لئےضروری ہے کہ مسلمانوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لئے نصح (خیرخواہی) کا ذہن موجود ہو۔ مسلمانوں کا موجودہ لٹریچر اس اسپرٹ سے خالی ہے۔ آج جس نئے لٹریچر کی ضرورت ہے، اس کو اس کمی سے مکمل طور پرپاک ہونا چاہئے، ورنہ وہ عملاً مطلوب مقصد کے لئے مؤثر نہ ہوگا۔

عہد شباب

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ البخاری کے مطابق، اس کا ابتدائی جزء یہ ہے: يأتي في آخر الزمان قوم، حدثاء الأسنان، سفهاء الأحلام، يقولون من خير قول البرية، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية(صحیح البخاری، حدیث نمبر3611)۔یعنی بعد کے زمانے میں ایک قوم آئے گی، یہ لوگ کم عمر اور کم عقل ہوں گے، بات بہت عمدہ کریں گے، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیرکمان سے نکل جاتاہے۔

اس حدیث میں ایک ظاہرے کی طرف اشارہ ہے، جس کی ایک انتہائی صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مگراس سے قطع نظر اس حدیث سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ کہ کوئی آدمی جب اپنے عہد شباب (youth age) میں ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنی عقل و فہم کے اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کی اس رائے کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھنا چاہیے جس کو اس نے پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ظاہر کی ہو۔

قرآن سے بھی فطرت کا یہ اصول معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ جب جوانی کی عمر میں تھے۔ اس وقت انھوں نے مصر کے ایک قبطی کو گھونسا ماردیا، اس کے بعد وہ مرگیا (القصص،28:15)۔ لیکن حضرت موسیٰ کو عہد شباب میں نبوت نہیں دی گئی۔ بلکہ اس وقت دی گئی جب کہ وہ پختگی کی عمر (age of maturity) تک پہنچ چکے تھے۔ کیوں کہ بحیثیت پیغمبر ان کو قولِ لیِّن (طہ،20:44) کی زبان میں کلام کرنا تھا ۔

مذکورہ حدیث میں مسلم تاریخ کے ایک اہم پہلو کی توجیہہ ملتی ہے۔ مسلم تاریخ اپنے بعد کے زمانے میں نظریاتی انتہاپسندی (ideological extremism) کی طرف چلنے لگی۔ اس کو حدیث میں انتباہ کی زبان میں غلو (ابن ماجہ، حدیث نمبر3029)کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطالعے سے مذکورہ تاریخی ظاہرے کی نفسیاتی توجیہ معلوم ہوتی ہے۔وہ یہ کہ بعد کے زمانے میں جن حضرات کو مسلمانوں کے اندر مفکر (thinker)کا درجہ ملا، ان کا فکر ان کے عہدِ شباب میں بنا تھا، جب کہ وہ ابھی پختگی کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ مثلاً ابن تیمیہ، عبدالوہاب نجدی، ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ۔

عہد شباب میں انسان کے اندر جوش کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار میں اکثر انتہاپسندی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اعتدال کی زبان بولنے کے بجائے، انتہاپسندی کی زبان بولنے لگتا ہے۔ بعد کو اس کا یہ فکر مقدس بن کر لوگوں میں اتنا پھیل جاتا ہے کہ لوگ اس کو نظرِثانی کے بغیردرست فکر سمجھ لیتے ہیں۔ یہی واقعہ بعد کے زمانے کے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔

مثلاً ابن تیمیہ کے زمانے میں ایک عیسائی نے پیغمبر اسلام کے بارے کوئی بات کہی۔ اس کو اس وقت کے مسلمانوں نے شتم رسول کا کیس قرار دیا۔ یہ واقعہ ملک شام میں اس وقت پیش آیا جب کہ ابن تیمیہ اپنی جوانی کے عمر میں تھے۔اس وقت انھوں نے عربی میںایک ضخیم کتاب لکھی جس کا ٹائٹل تھا الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ (البدایۃ والنہایۃ، جلد 13، صفحہ335-36)اس کتاب میں انھوں نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ جو آدمی شتم رسول کا مرتکب ہو، اس کی سزا قتل ہے۔

 ابن تیمیہ اس وقت اگر پختگی کے عمر میں ہوتے تو یقیناً ان کا ردعمل مختلف ہوتا۔ وہ مذکورہ عیسائی سے مل کر اس کو ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے۔ وہ ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں وہ بتاتے کہ شتم رسول جیسا غیر فطری معاملہ ہمیشہ غلط فہمی کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے آدمی کے اوپر تبلیغ کرنا چاہیے، اور پر امن دعوتی عمل کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔

  سید ابوالاعلی مودودی کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا، اس کے بعد انھوں نے اپنی اردو کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔ اس وقت وہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔ چنانچہ انھوں نے جوش و خروش کے انداز میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں جہاد بمعنی قتال کی زبردست وکالت کی گئی تھی۔ حالاں کہ اگر وہ اس وقت پختگی کی عمر میں ہوتے تو شاید وہ ایک اور کتاب لکھتے جس کا عنوان یہ ہوتا: الدعوۃ الی اللہ۔ اس کتاب میں وہ پر امن دعوت کی اہمیت بتاتے اور مسلمانوں کو راغب کرتے کہ وہ پرامن دعوت کے اصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہی معاملہ دوسرے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے براہ راست طور پر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے ،نہ کہ بعد کے زمانے میں لکھی ہوئی کتابوں کا۔

امن ایک اقدام

اسلام میں جنگ، دفاع کا اشو (issue of defence) ہے۔ اور امن، اقدام کا اشو (issue of advancement) ہے۔ اسلام میں اہل ایمان کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی طرف سے جنگ چھیڑیں ۔ البتہ جہاں تک امن کا تعلق ہے ، اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن اقدام کا منصوبہ بنائیں۔ اسلام کا یہ اصول فطرت کے قانون پر مبنی ہے۔

 فطرت کے قانون کے مطابق، جنگ کے ذریعہ کسی مثبت نتیجہ کا حصول ممکن نہیں۔ کیوں کہ جنگ سے کسی بات کا فیصلہ نہیں ہوتا، نہ ہارنے کی صورت میںاور نہ جیتنے کی صورت میں۔ جنگ میں اگر فتح حاصل ہو، تب بھی ہارنے والے فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس لیے جنگ میں فتح بھی ایک نئی جنگ کا آغاز بن جاتی ہے۔

پر امن منصوبہ بندی ہمیشہ اپنا کام کرتی ہے، پرامن منصوبہ بندی کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں کرتی، وہ صرف مسئلہ کے حل کی طرف لے جاتی ہے۔ پر امن منصوبہ بندی کے تحت اقدام کرنا، ایک ایسے انجام کی طرف لے جاتا ہے جہاں جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور لوگوں کو پر امن سرگرمیوں کے لیے مواقع (opportunities) حاصل ہوجائیں۔

اسلام کے دورِ اول کی تاریخ اس اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں اہل ایمان اور ان کے مخالفین کے درمیان کچھ لڑائیاں ہوئیں۔ مثلاً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ حنین، وغیرہ۔ مگر ان لڑائیوں سےٹکراؤ ختم نہیں ہوا۔ گویا باعتبارِ نتیجہ عمل کی کوئی حد نہیں آئی۔  قرآن میں فتح کی آیت صرف صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ فتح کا مطلب ہے ٹکراؤ کا خاتمہ اور پرامن سرگرمیوںکے لیے موافق ماحول پیدا ہوجانا۔کسی اور غزوہ کے بعد فتح کی آیت نہیں اتری۔

حدیبیہ کا واقعہ 6 ھجری میں پیش آیا۔ اس موقع پر فریق ثانی کی کوشش صرف یہ تھی کہ رسول اور اصحابِ رسول مکہ میں داخل نہ ہوں، اور عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں۔ مگر پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے خود اپنی طرف سے امن (peace) کی بات چیت (negotiation) شروع کی۔ اس معاملہ میں آپ اس آخری حد تک گئے کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر منظور کر لیا۔ صرف اس مقصد کے لیے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوجائے اور معتدل حالات قائم ہوجائیں۔ تاکہ کھلے طور پر اسلام کے دعوتی مشن کو جاری کیا جاسکے۔

پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے جب اس طرح فریقِ ثانی سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلی تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر 48 نازل ہوئی۔ اس میں پیشگی طور پر یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ پرامن مصالحت باعتبارِ نتیجہ ایک فتح مبین (clear victory) ہے۔ قرآن کی یہ پیشگی خبر صرف چند سالوں میں واقعہ بن گئی، پر امن اقدام باعتبارِ نتیجہ فتح ثابت ہوا۔

اسلام میں جنگ مجبوری کے تحت وقتی دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پر امن منصوبہ اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کے اندر مستقل طور پر اعتدال کی حالت قائم ہوجائے۔ ہر فرد کے لیے تعمیری سرگرمیوں کے مواقع حاصل ہوجائیں۔

حضرت نوح كا پيغمبرانه رول

حضرت نوح كي تاريخ يه سبق ديتي هے كه اس دنيا ميں سب سے زياده جو چيز مطلوب هےوه يه هے كه خدا كے بندوں تك خدا كا پيغام پهنچے۔تمام پيغمبروں نے اپنے زمانے كے لوگوں كو خدا كے پيغام سے آگاه كيا۔ بعد كے دوركے داعيوں كو بھي اپنے زمانےكے لوگوں كو اسي حقيقت سے آگاه كرنا هے۔

 

حضرت نوح کا پیغمبرانہ رول

حضرت نوح،حضرت آدم کے بعد آنے والے پیغمبر هيں۔ وہ حضرت آدم کی دسویں پشت میں پیدا ہوئے۔ حضرت نوح کی زندگی میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا۔ وہ عظیم طوفان (Great Flood) اور کشتی (Ark) کا واقعہ تھا۔ یہ خصوصی واقعہ اللہ کے منصوبے کے تحت ظاہر ہوا۔ یہ واقعہ قبل از تاریخ دور (pre-historical period) میں پیش آیا۔بظاهر اللہ کو یہ منظور تھا کہ حضرت نوح كا واقعه بعد تاریخ دور (post-historic period) میں دریافت ہو،اور وہ بعد کے زمانے کے لوگوں كے لیے نشانی (sign)  بنے، جس سے وہ اپنی زندگی میں سبق حاصل کریں۔

حضرت نوح کا واقعہ مدوّن تاریخ (recorded history)  میں موجود نہیں۔ حضرت نوح کے واقعے کو جاننے کے صرف دو ماخذ ہیں — قرآن اور بائبل۔ یہاں دونوں متعلق حوالے نقل کئے جاتے ہیں۔

قرآن كا بيان

قرآن کی سورہ نمبر 71 کا نام ’نوح‘ ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے:

شروع اللہ کے نام سے جو بڑامہربان، نہایت رحم والاہے

’’ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کردو، اس سے پہلے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آجائے۔ اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوںيه کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ تمھارے گناہوں سے درگزر کرے گا اور تم کو ایک متعین وقت تک باقی رکھے گا۔ بے شک جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ٹالا نہیں جاتا۔کاش ، تم اس کو جانتے۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا۔ مگر میری پکار نے ان کی دوری ہی میں اضافہ کیا۔ اور میں نے جب بھی ان کو بلایا کہ تو انھیں معاف کردے تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنے اوپر اپنے کپڑے لپیٹ لیے اور ضد پر اَڑ گئے اور بڑا گھمنڈکیا۔پھر میں نے ان کو برملا پکارا۔ پھر میں نے ان کو کھلی تبلیغ کی اور ان کو چپکے سے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا، اور تمھارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا،اور تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا، اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا۔ تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے لیے عظمت کے متوقع نہیں ہو۔ حالاں کہ اس نے تم کو طرح طرح سے بنایا۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔ اور ان میں چاند کو نور اورسورج کو چراغ بنایا۔ اور اللہ نے تم کو زمین سے خاص اہتمام سے اگایا۔ پھروہ تم کو زمین میں واپس لے جائے گا۔اور پھر اس سے تم کو باہر لے آئے گا۔ اور اللہ نے تمھارے لیے زمین کو ہموار بنایا۔ تاکہ تم اس کے کھلے راستوں میں چلو۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب،انھوں نے میرا کہا نہ مانا اور ایسے آدمیوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے گھاٹے ہی میں اضافہ کیا، اور انھوں نے بڑی تدبیریں کیں۔ اور انھوں نے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا۔اور تم ہر گز نہ چھوڑنا وَدکو اور سُواع کو اور یَغوث کو اور نَسرکو۔ اور انھوں نے بہت لوگوں کو بہکادیا۔اور اب تو ان گمراہوں کی گمراہی میں ہی اضافہ کر۔اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کيے گئے، پھر وہ آگ میں داخل کرديے گئے۔پس انھوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔ اور نوح نے کہا کہ اے میرے رب، تو ان منکروںمیں سے کوئی زمین پربسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تونے ان کو چھوڑدیاتو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا، وہ بدکار اور سخت منکر ہی ہوگا۔ اے میرے رب، میری مغفرت فرما،اور میرے ماں باپ کی مغفرت فرمااور جو میرے گھر میں مومن ہوکر داخل ہو، تو اس کی مغفرت فرما۔اور سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کو معاف فرمادے اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر‘‘(71:1-27)۔

قرآن کی سورہ ہودمیں حضرت نوح اور ان کے مشن کے بارے میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ قرآن کی اِن آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:

’’اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ اب تمھاری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا، سوا اس کے جو ایمان لاچکا ہے۔ پس تم ان کاموں پر غمگین نہ ہو جو وہ کر رہے ہیں۔ اور ہمارے رو برو اور ہمارے حکم  سے تم کشتی بنائو اور ظالموں کے حق میں مجھ سے بات نہ کرو، بے شک یہ لوگ غرق ہوں گے۔ اور نوح کشتی بنانے لگا۔ اور جب اس کی قوم کا کوئی سردار اس پر گزرتا تو وہ اس کی ہنسی اڑاتا، انھوں نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں۔ تم جلد جان لوگے کہ وہ کون ہیں جن پر وہ عذاب آتا ہے جو اس کو رسوا کردے اور اس پر وہ عذاب اترتا ہے جو دائمی ہے۔یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور طوفان ابل پڑا، ہم نے نوح سے کہا کہ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی، سوا ان اشخاص کے جن کی بابت پہلے کہا جاچکا ہے، اور سب ایمان والوں کو بھی۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہوجائو، اللہ کے نام سے اس کا چلنا ہے اور اس کا ٹھہرنا بھی۔ بیشک میرا رب بخشنے والا، مہربان ہے۔ اور کشتی پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان ان کو لے کر چلنے لگی۔ اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا جو اس سے الگ تھا۔ اے میرے بیٹے، ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور منکروںکے ساتھ مت رہ۔اس نے کہا میں کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھ کو پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا کہ آج کوئی اللہ کے حکم سے بچانے والا نہیں، مگر وہ جس پر اللہ رحم کرے۔ اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔ اور کہا گیا کہ اے زمین، اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان، تھم جا۔ اور پانی سکھادیا گیا۔ اور معاملہ کا فیصلہ ہوگیا اور کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ دور ہو ظالموں کی قوم۔اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اے میرے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میںسے ہے، اور بے شک تیرا وعدہ سچا ہے۔ اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ خدا نے کہا اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں نہیں۔ اس کے کام خراب ہیں۔ پس مجھ سے اس چیز کے لئے سوال نہ کرو جس کا تمھیں علم نہیں۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ بنو۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اور اگر تو مجھے معاف نہ کرے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں برباد ہوجائوں گا۔کہا گیا کہ اے نوح، اترو، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر اور ان گروہوں پر جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور (ان سے ظہور میں آنے والے) گروہ کہ ہم ان کو فائدہ دیں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک درد ناک عذاب پکڑلے گا‘‘۔(11: 36-48)

بائبل كا بيان

حضرت نوح کا ذکر بائبل کی کتاب پیدائش (Genesis) میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں اس کا متعلق حصہ نقل کیا جاتاہے:

’’ نوح راست باز انسان تھا اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور وہ خداکے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔نوح کے تین بیٹے تھےسام، حام اور یافث۔اب زمین خدا کی نگاہ میں بگڑ چکی تھی اور ظلم وتشدد سے بھری ہوئی تھی۔خدا نے دیکھا کہ زمین بہت بگڑ چکی ہے، کیوں کہ زمین پر سب لوگوں نے اپنے طور طریقے بگاڑ لیے تھے۔چناںچہ خدا نے نوح سے کہامیں سب لوگوں کا خاتمہ کرنے کوہوں، کیوںکہ زمین ان کی وجہ سے ظلم سے بھر گئی ہے۔ اس لیے میں یقیناً نوع انسان اور زمین دونوں کو تباہ کرڈالوں گا۔ لہذا توگوپھر کی لکڑی کی ایک کشتی بنا۔ اُس میں کمرے بنانا اور اُسے اندر اور باہر سے رال سے پوت دینا۔تو ایسا کرنا کہ کشتی تین سو ہاتھ لمبی، پچاس ہاتھ چوڑی اور تیس ہاتھ اونچی ہو۔تو اس کی چھت سے لے کر ہاتھ بھر نیچے تک روشن دان بنانا۔ کشتی کے اندر تین درجے بنانا، نچلا، درمیانی اور بالائی، اور کشتی کا دروازہ کشتی کے پہلو میں رکھنا۔ دیکھ میں زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں، تاکہ آسمان کے نیچے کا ہر جان دار یعنی ہر وہ مخلوق جس میں زندگی کا دم ہے، ہلاک ہوجائے۔ سب جو روئے زمین پر ہیں، مرجائیں گے۔لیکن تیرے ساتھ میں اپنا عہد باندھوں گا اور تو کشتی میں داخل ہوگا۔ تو اور تیرے ساتھ تیرے بیٹے اور تیری بیوی اور تیرے بیٹوں کی بیویاں۔ اور تو تمام حیوانات میں سے دو دو کو جو نر اور مادہ ہوں، کشتی میں لے آنا، تاکہ وہ تیرے ساتھ زندہ بچیں۔ ہر قسم کے پرندوں، جانوروں اور زمین پر رینگنے والے جانداروں میں سے دو دو تیرے پاس آئیں تاکہ وہ بھی زندہ بچیںاور تو ہر طرح کی کھانے والی چیز لے کر اپنے پاس جمع کرلینا، تاکہ وہ تیرے اور اُن کے لیے خوراك کا کام دے۔نوح نے ہركام ٹھیک اُسی طرح کیا جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا‘‘۔ (Genesis 6: 9-22)

’’تب خداوند نے نوح سے کہاتو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں چلا جا، کیوںکہ میں نے اس نسل میں تجھے ہی راستباز پایا ہے۔ تو تمام پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور مادہ اور ناپاک جانوروں میں سے دو دو نر اور مادہ ساتھ لے لینا اور ہر قسم کے پرندوں میں سے سات سات نر اور مادہ بھی لینا تاکہ ان کی نسلیں زمین پر باقی رہیں۔میں سات دن کے بعد زمین پر چالیس دن اور چالیس رات پانی برساؤں گا اور ہر اُس جان دار شے کو جسے میں نے بنایا ہے، مٹادوں گا۔ اور نوح نے وہ سب کیا جس کا خداوند نے اُسے حکم دیا تھا۔ نوح چھ سو برس کا تھا جب زمین پر پانی كا طوفان آیا۔ اور نوح اور اس کے بیٹے اور اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی بیویاں طوفان کے پانی سے بچنے کے لیے کشتی میں داخل ہوگئے۔ پاک اور ناپاک دونوں قسم کے جانوروں اور پرندوں اور زمین پر رینگنے والے جانوروں کے دو دو نر اور مادہ، خدا کے حکم کے مطابق، نوح کے پاس آئے اور کشتی میں داخل ہوئے۔ اور سات دن کے بعد طوفان کا پانی زمین پر آگیا۔جب نوح کی عمر کے چھ سوویں برس کے دوسرے مہینے کی سترھویں تاریخ تھی، اُس دن زمین کے نیچے سے سارے چشمے پھوٹ نکلے اور آسمان سے سیلاب کے دروازے کھل گئے۔ اور زمین پر چالیس دن اور چالیس رات لگاتار مینہ برستا رہا۔اُسی دن نوح اور اُس کی بیوی اپنے تین بیٹوں، سام، حام اور یافث اور اُن کی بیویوں سمیت کشتی میں داخل ہوئے۔ اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے جنگلی جانور ، مویشی، زمین پر رینگنے والے جانور، پرندے اور پروں والے جاندار اُن کے ساتھ تھے۔ یہ تمام جوڑے جن میں زندگی کا دم تھا، نوح کے پاس آئے اور کشتی میں داخل ہوگئے۔ خداکے نوح کو دیئے ہوئے حکم کے مطابق جو جان دار اندر آئے، وہ نر اور مادہ تھے۔ تب خداوند نے کشتی کا دروازہ بند کردیا۔چالیس دن تک زمین پر طوفان جاری رہا اور جوں جوں پانی چڑھتا گیا، کشتی زمین سے اوپر اٹھتی چلی گئی۔پانی زمین پر چڑھتا گیا اور بہت ہی بڑھ گیا اور کشتی پانی کی سطح پر تیرتی رہی۔ پانی زمین پر اس قدر چڑھ گیا کہ سارے آسمان کے نیچے کے تمام اونچے پہاڑ ڈوب گئے۔ پانی بڑھتے بڑھتے پہاڑوں سے بھی پندرہ ہاتھ اوپر چڑھ گیا۔ زمین پر ہر پرندہ، ہر جانور اور ہر انسان گویا ہر جاندار فنا ہوگیا۔ خشکی پر کی ہر شے جس کے نتھنوں میں زندگی کا دم تھا، مرگئی۔ روئے زمین پر کی ہر جاندار شے نابود ہوگئی، کیا انسان، کیا حیوان، کیا زمین پر رینگنے والے جاندار اور کیا ہوا میں اُڑنے والے پرندے، سب کے سب نابود ہوگئے۔ صرف نوح باقی بچا اور وہ جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھا۔اور پانی زمین پر ایک سو پچاس دن تک چڑھتا رہا‘‘۔ (Genesis 7: 1-24)

’’لیکن خدا نے نوح اور تمام جنگلی جانوروں اور مویشیوں کو جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے، یاد رکھا اور اُس نے زمین پر ہوا چلائی اور پانی رک گیا۔ اب سمندر کے چشمے اور آسمان کے سیلاب کے دروازے بند کردئے گئے اور آسمان سے مینہ برسنا تھم گیا اور پانی رفتہ رفتہ زمین پر سے ہٹتا گیا اور ایک سو پچاس دن کے بعد بہت کم ہوگیا اور ساتویں مہینہ کے سترھویں دن کشتی اراراط کے پہاڑوں میں ایک چوٹی پر ٹک گئی۔ دسویں مہینہ تک پانی گھٹتا رہا اور دسویں مہینہ کے پہلے دن پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آنے لگیں۔چالیس دن کے بعد نوح نے کشتی کی کھڑکی کھول کر ایک کوّے کو باہر اُڑا دیا جو زمین پر کے پانی کے سوکھ جانے تک ادھر اُدھر اُڑتا رہا۔ تب اُس نے ایک فاختہ کو اڑا دیا، تاکہ یہ دیکھے کہ زمین پر سے پانی ہٹا ہے یا نہیں۔ لیکن اُس فاختہ کو اپنے پنجے ٹیکنے کو جگہ نہ مل سکی، کیوں کہ ابھی تمام روئے زمین پر پانی موجود تھا۔ چنانچہ وہ نوح کے پاس کشتی میں لوٹ آئی۔ تب اُس نے اپناہاتھ بڑھا کر اُسے تھام لیا اور کشتی کے اندر لے لیا۔ مزید سات دن انتظار کرنے کے بعد اُس نے پھر سے اُس فاخته کو کشتی سے باہر بھیجا۔ شام کو جب وہ اُس کے پاس لوٹی تو اُس کی چونچ میں زیتون کی ایک تازہ پتی تھی۔ تب نوح جان گیا کہ پانی زمین پر کم ہوگیاہے۔ وہ سات دن اور رُکا اور فاختہ کو ایک بار پھر اُڑایا، لیکن اب کی بار وہ اُس کے پاس لوٹ کر نہ آئی۔ نوح کی عمر کے چھ سو برس کے پہلے مہینہ کے پہلے دن تک زمین پر موجود پانی سوکھ گیا۔ تب نوح نے کشتی کی چھت کھولی اور دیکھا کہ زمین کی سطح خشک ہوچکی ہے اور دوسرے مہینہ کے ستائیسویں دن تک زمین بالکل سوکھ گئی۔تب خدا نے نوح سے کہااپنی بیوی اور اپنے بیٹوں اور اُن کی بیویوں سمیت کشتی سے باہر نکل آ۔ اور تمام جانور اور زمین پر رینگنے والے سبھی جاندار، سب پرندے اور ہر وہ شے جو زمین پر چلتی پھرتی ہے، اپنی اپنی جنس کے مطابق کشتی سے باہر نکل آئے۔تب نوح نے خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا اور سب چرندوں اور پرندوں میں سے جن کا کھانا جائز تھا، چند کو لے کر اُس مذبح پر سو ختنی قربانیاں چڑھائیں۔ جب اُن کی فرحت بخش خوشبو خداوند تک پہنچی تو خداوند نے دل ہی دل میں کہامیں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہ بھیجوں گا حالاںکہ اُس کے دل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئندہ کبھی تمام جانداروں کو ہلاک نہ کروں گا، جیسا میں نے کیا۔جب تک زمین قائم ہے تب تک بیج بونے اور فصل کاٹنے کے اوقات، خشکی اور حرارت، گرمی اور سردی،اور دن اور رات کبھی موقوف نہ ہوں گے‘‘۔ (Genesis, 8: 1-22)

تبصرہ

حضرت نوح کا جو مشن تھا، وہی تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔حضرت آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے پیغمبر دنیا میں آئے، اُن سب کا واحد مشن یہ تھا کہ وہ انسان کو اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے آگاہ کریں۔ وه ان کو یہ بتائیں کہ موجودہ دنيا  ايك دار الامتحان (testing ground) هے۔ يهاں انسان كو آزادي دے كر يه امتحان ليا جارها هے كه كون شخص اپني آزادي كا صحيح استعمال كرتا هے اور وه كون شخص هے جو اپني آزادي كا غلط استعمال كرتا هے۔ يه معامله ايك متعين وقت (appointed time) تك كے ليے هے۔ اس كے بعدقيامت آئے گي اور قرآن كے الفاظ ميں، موجوده دنيا كو بدل كر ايك اور دنيا (ابراهيم، 14:48)بنائي جائے گي، جهاں امتحان ميں كامياب هونے والے ابدي جنت ميں جگه پائيں گے، اور امتحان ميں ناكام هونے والوں كا ٹھكانا جهنم هوگا۔

حضرت نوح نے اپني قوم كو لمبي مدت تك هر طرح سمجھايا۔ اس كے بعد يه هوا كه كچھ لوگوں نےآپ كي بات ماني، اور زياده لوگوں نے آپ كي بات كو ماننے سے انكار كرديا۔ اس كے بعد وه وقت آيا جب كه يه ظاهر هوگيا كه اب مزيد كوئي ماننے والا نهيں هے، بلكه معاشره اتنا زياده بگڑ چكا هے كه اس ميں جو شخص پيداهوگا، وه صرف غير صالح بن كر اٹھے گا۔

اُس وقت حضرت نوح نے اللہ کے حکم کے مطابق، دعا کی اور پھر وہ واقعہ پیش آیا جس کو طوفانِ نوح کہا جاتا ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح اور ان کے ماننے والے لوگ اِس کشتی میں سوار ہوئے اور بقیہ تمام لوگ طوفان میں غرق کر دئے گئے۔ صالح لوگوں کو بچا کر ابدی جنت کا مستحق قرار دیاگیا  اور غیر صالح لوگ ہلاک ہو کر ابدی جہنم کے مستحق بن گئے۔

طوفانِ نوح کے اِس معاملے کی حیثیت ایک تاریخی مثال کی تھی۔ اللہ نے حضرت نوح کے واقعے کی صورت میں یہ مثال قائم کردی کہ آخری زمانے میں جب انسانی تاریخ کے خاتمے کا وقت ہوگا، اُس وقت دوبارہ اسي طرح کاايك اور زیادہ بڑا زلزله خيز طوفان آئے گا جس کو قرآن میں قیامت کا نام دیاگیا ہے۔ قیامت کے بعد خدائی منصوبے کے مطابق، حیاتِ انسانی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ یہ آخرت کا دور ہوگا جو کہ کامل بھی ہوگا اور ابدی بھی۔

حضرت آدم پہلے انسان بھي تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ نے حضرت آدم کو جو شریعت دی تھی، اُن کی بعد کی نسلیں اُس شریعت پر باقی رہیں، مگر دھیرے دھیرے ان کے اندر زوال آیا۔ یہ زوال شخصیت پرستی (personality cult) کی صورت میں پیدا ہوا۔

ابتداء ً یہ ہوا کہ وہ اپنے بزرگوں، ودّ، سُواع، یغوث، یعوق، نسر (71:23) کے مرنے کے بعد ان کی تعظیم کرنے لگے۔ تعظیم کے بعد ان کے اندر اپنے بزرگوں کی تقدیس کا عقیدہ پیداہوا۔ دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ انھوں نے اپنے اِن بزرگوں کے مجسمے بنائے اور پھر ان کی عبادت شروع کردی۔

جب بگاڑ کی یہ حد آئی تو اللہ نے ان کے درمیان اُنھیں کی قوم سے پیغمبر نوح کو پیدا کیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق، پیغمبر نوح، حضرت آدم کی دسویں نسل میں پیدا ہوئے۔ حضرت نوح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طورپر لمبی عمر دی ، یعنی 950 سال۔ قرآن کی سورہ نوح (71)میں حضرت نوح کی دعوت کا خلاصہ بتایا گیا ہے۔ دوسرے انبيا كي طرح حضرت نوح کی دعوت بنیادی طورپر دوچیزوں کی طرف تھی — توحید، اور آخرت۔

مگر قوم کا بگاڑ اتنا زیادہ بڑھ چکا تھا کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر بقیہ افراد آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ قرآن میں اُن کی طرف سے جو قول نقل کیاگیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے’’انھوںنے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑنا۔ تم ہرگز نہ چھوڑنا ودّ کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اور نسر کو‘‘۔ (71: 23)

یہ صورتِ حال ہمیشہ غلط تقابل (wrong comparison) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ قومِ نوح کے سامنے ایک طرف، ان کا حال کا پیغمبر تھا جواُن کو بظاہر ایک عام آدمی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ دوسری طرف، ان کے ماضی کے قومی اکابر تھے، جن کے گرد اُن کےقُصّاص (story tellers) نے مفروضہ کہانیوں کا خوش نما ہالہ بنا رکھا تھا۔ اِس خود ساختہ تقابل میں اُن کو حضرت نوح ایک معمولی انسان نظر آتے تھے(هود، 11:27)۔ اس کے بر عکس، ماضی کی شخصیتیں ان کو بہت بڑی دکھائی دیتی تھیں۔ یہی غلط تقابل تھا جس نے اُن کے اندر وہ بے اصل یقین (false conviction)  پیدا کردیا جس کی بنا پر وہ اپنے معاصر پیغمبر کا انکار کردیں۔

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قوم کے اندر اب مزید کوئی فرد ایمان لانے والا نہیں ہے تو اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اُس علاقے میں ایک عظیم سیلاب لایا جائے جس میں صالح افراد بچاليے جائیں اور غیرصالح افراد سب کے سب ہلاک کردئے جائیں۔ اثرياتي شواهد كے مطابق، قومِ نوح کا مسکن دجلہ اور فرات کے درمیان کا وہ علاقہ تھا جس کو تاریخ میں میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا هے۔

کشتیٔ نوح کا معاملہ

پیغمبر کا انکار کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ جو لوگ پیغمبر کا انکار کریں، وہ اِس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ اِس دنیامیں اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ اِس مہلت کو کھو دیتے ہیں کہ وہ خدا کی اِس دنیا میں رہنے کا مزید موقع پاسکیں۔ چنانچہ مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے اُن کو ہلاک کردیا جاتا ہے (العنكبوت، 29:40)۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے مخاطبین کے ساتھ اِس معاملے میں الگ طریقہ اختیار کیا گیا، یعنی ایک عظیم سیلاب (Great Flood) کے ذریعے غیر صالحین کو ہلاک کردینا اور جو صالح افراد ہیں، اُن کو ایک کشتی کے ذریعے بچالینا۔ اِس خصوصی مصلحت کو قرآن کی دو آیتوں میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ(29:15)۔یعنی ہم نے اس(كشتي) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے: وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (54:15)۔یعنی ہم نے اُس (كشتي) کو ایک نشانی کے طور پر باقی رکھا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔

 اِس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح کے معاملے میں کشتی کا طریقہ اِس لیے اختیار کیاگیا، تاکہ وہ محفوظ رہے اور بعد کے لوگوں کے لیے علامتی طورپر وه خدا کے تخلیقی منصوبے کو جاننے کا ذریعہ بنے۔

کشتی اور طوفان کا طریقہ

حضرت نوح کی قوم میسو پوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں آباد تھی۔ اللہ کے حکم کے تحت، وہاں بہت بڑا سیلاب آیا۔ معلوم تاریخ کے مطابق، یہ اپنی نوعیت کا واحد سیلاب تھا۔ جب سیلاب کا پانی اونچا ہوا اور حضرت نوح کی کشتی اس میں تیرنے لگی تو وہ مختلف سمتوں میں جاسکتی تھی، مگر کشتی نے خدائی حکم کے تحت، ترکی کا رخ اختیا رکیا۔ بظاہر اس کا سبب یہ تھا کہ میسوپوٹامیا سے قریب ترین پہاڑی سلسلہ جہاں گلیشیر بنتے ہوں، وہ جودی یا ارارات کا سلسلۂ کوہ تھا۔ تقریباً 16  سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے کشتیٔ نوح ترکی کے مشرق میں واقع جودی پہاڑ پر پہنچی اور وہاں ٹھہر گئی۔

سیلاب کا پانی اترنے کے بعد یہاں کشتی کے لوگ كشتي سےباہر آگئے۔ ان میں تین خاص افراد حضرت نوح کے تین بیٹے تھے — حام، سام، یافث۔ بعد کی انسانی نسل اصلاً حضرت نوح کے انھیں تین بیٹوں کے ذریعے چلی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے ایک بیٹے یافث (Japheth) یورپ کے علاقے میں آباد ہوئے، اور آپ کے دوسرے بیٹے حام (Ham) افریقہ میں آباد ہوئے، اور آپ کے تيسرے بیٹے سام (Shem) ایشیا كے علاقے میں آباد ہوئے۔حضرت نوح کے زمانے تک جو انسانی نسل تھی، وہ براہِ راست طورپر حضرت آدم کی نسل تھی۔ حضرت نوح کے بعد جو انسانی نسل دنیا میں پھیلی، وہ زياده تر حضرت نوح کے انھیں تین بیٹوں کے ذریعے پھیلی۔

حضرت نوح کی کہانی

حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں جو لوگ بچ گئے تھے، وہ بعد کو دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔ دھیرے دھیرے ان کی نسلیں بڑھیں اور پورے کرۂ ارض پر پھیل گئیں۔ یہ لوگ اپنے ساتھ عظیم سیلاب (Great Flood) کی کہانی لے کر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر قوم کے اندر ایک عظیم طوفان کی کہانی کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے۔ لمبے عرصے تک حضرت نوح اور ان کے واقعات صرف ایک افسانہ (myth) سمجھے جاتے رہے۔ تاہم چوں کہ بائبل اور قرآن میں اُن کا ذکر موجود تھا، اِس لئے لوگوں کے ذہن میں، خاص طورپر یہودی علما او ر عیسائی علما کے ذہن میں، یہ سوال برابر باقی رہا کہ اگر حضرت نوح کا قصہ ایک حقیقی قصہ ہے تو اس کا تاریخی ثبوت کیا ہے۔اِس کی تلاش اور تحقیق مسلسل جاری رہی۔ چوں کہ حضرت نوح کا واقعہ بائبل میں تفصیل کے ساتھ آیا تھا، اس لیے وہ یہودی علما اور مسیحی علما کی دلچسپی کا موضوع بن گیا۔ بڑے پیمانے پر اِس موضوع کی تحقیق ہونے لگی، خاص طورپر اُس علاقے کی تحقیق جس کو بائبل میں حضرت نوح کا اور ان کی قوم کا علاقہ بتایا گیا تھا۔

بائبل اور قرآن کا فرق

حضرت نوح اور ان کی کشتی کا ذکر بائبل میں بھی آیا ہے اور قرآن میں بھی، مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ بائبل میں كشتئ نوح کا ذکر صرف ماضی کے ایک قصہ کے طورپر آیا۔ قرآن میں واقعہ بیان کرنے کے علاوہ، ایک اور بات بتائی گئی ہے، وہ یہ کہ حضرت نوح کی کشتی اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت محفوظ رکھی گئی اور بعد کے زمانے میں ظاہر ہو کر وه لوگوں کے لئے سبق بنے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیتیں يهاں درج كي جاتي ہیں

فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (29:15)۔ یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔

وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (54:15)۔ یعنی ہم نے اس (کشتی) کو نشانی کے طورپر باقی رکھا، تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔

إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ- لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ (69:11-12)۔یعنی جب پاني حد سے گزر گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں سوا ر کیا، تاکہ ہم اس (کشتی) کو تمھارے لیے یاددہانی کا ذریعہ بنادیں اور یاد رکھنے والے کان اس کو یاد رکھیں۔

قرآن کی یہ آیتیں ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں اتریں۔ اُس وقت ساری دنيامیں کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت نوح کی کشتی کس مقام پر محفوظ ہے، عرب سے عجم تک ہر ایک کے لیے یہ واقعہ پوری طرح ايك غير معلوم واقعه تھا۔

ایسی حالت میں قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ نوح کی کشتی محفوظ ہے اور وہ مستقبل میں بطور نشاني ظاہر ہونے والی ہے۔ اِس اعلان کی حیثیت ایک غیر معمولی پیشین گوئی کی تھی۔ ہزار سال سے زیادہ مدت تک کشتی نوح کے بارے میں بدستور لاعلمی کی حالت باقی رہی۔ بیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار ہوائی تصویر کشی (arial photography) کے ذریعے معلوم ہوا کہ ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑ کے اوپر کشتی جیسی ایک چیز موجود ہے۔

کشتی نوح كایہ ظہور خداکے ایک عظیم منصوبے کا حصہ ہے، بظاهر وہ انسانی تاریخ کے خاتمے کا ایک ابتدائی اعلان ہے۔ کشتي نوح علامتی طورپر بتارہی ہے کہ دوبارہ ایک آخری اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے۔ اِس طوفان کے بعد انسان کا ایک دورِ حیات ختم ہوجائے گا اور انسانی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ پہلا دور عارضی تھا اور دوسرا دور ابدی ہوگا۔ پهلے دورِ حیات کا مقام موجودہ دنیا تھی، دوسرے دورِ حیات کا مقام آخرت کی دنیا ہوگی۔

قرآن ميں بتاياگيا تھا كه حضرت نوح كي كشتي محفوظ هے۔اِس كا محفوظ هونا بے مقصد نهيں هوسكتا، اِس ليے يه كهنا درست هوگا كه كشتي اِس ليے محفوظ كي گئي هے، تا كه وه بعد كو قيامت سے پهلے ايك تاريخي نشاني كے طور پر ظاهر هو۔ اب سوال يه هے كه كشتي نوح كے اس ظهور كي كيا صورت هوگي۔ غور كرنے سے معلوم هوتا هے كه غالباً كشتي نوح كے اِسي ظهورِ ثاني كا واقعه هے جس كو قرآن (النمل،27:82) اور حديث(صحيح مسلم، حديث نمبر 2941) ميں ’’دابّة‘‘ كے لفظ سے تعبير كياگيا هے۔

دابّہ دراصل کشتی نوح کا تمثیلی نام ہے۔ دابّہ کے لفظی معنی هيں — رینگنے والا۔ کوئی بھی چیز جو رينگنے كي رفتارسے چلے، اس کو دابّہ کہاجائے گا۔ کشتی نوح پانی کے اوپر رینگ کر چلی تھی، اس لیے يه قياس كرنا درست هوگاكه تمثیلی طورپر اس کو دابّہ کہہ دیا گیا۔

کشتی نوح

ترکی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں، وہ یہ کہ ترکی وہ ملک ہے جو دورِ اوّل کے پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کی آخری منزل بنا۔جيسا كه عرض كياگيا، تقریباً 5 ہزار سال پہلے حضرت نوح کے زمانے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اُس وقت حضرت نوح اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ کشتی قدیم عراق( میسوپوٹامیا) سے چلی اور ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع کوہِ ارارات (Ararat Mountain) کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔

اِس واقعے کا ذکر بائبل میں اور قرآن میں نيز مختلف تاریخی کتابوں میں بشكلِ كهاني موجود تھا، لیکن کسی کو متعین طورپر معلوم نہ تھا کہ وہ کشتی کہاں ہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں مسلسل برف باری کے دوران یہ کشتی برف کی موٹی تہ (glacier) کے اندر چھپ گئی۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جگہ جگہ گلیشير پگھلنے لگے۔ چنانچہ ارارات پہاڑ کے گلیشير بھی پگھل گئے۔ اس کے بعد کشتی قابلِ مشاہدہ بن گئی۔

بیسویں صدی کے آخر میں کچھ لوگوں نے ہوائی جہاز میں پرواز کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر اِس کشتی کو دیکھا۔ اِس طرح کی خبریں برابر آتی رہیں ، یہاں تک کہ 2010 میں یہ خبر آئی کہ کچھ ماہرین پہاڑ پر چڑھائی کرکے ارارات کی چوٹی پر پہنچے اور کشتی کا براہِ راست مشاہدہ کیا، پھر انھوں نے کشتی کا ایک ٹکڑا لے کر اس کی سائنٹفک جانچ کی۔

 اِس سائنٹفک جانچ سے معلوم ہوا کہ کشتی کی عمر متعین طورپر چار ہزار آٹھ سو سال ہے، یعنی وہی زمانہ جب کہ معلوم طورپر طوفانِ نوح آیا تھا:

A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah’s Ark—four thousand metres up a mountain in Turkey. The team say they recovered wooden specimens from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the Ark is said to have been afloat. (The Times of India, New Delhi, April 28, 2010)

قرآن میں کشتی نوح کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اُن میں سے ایک وہ ہے جو سورہ العنکبوت میں پایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (29:15)،یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا، اور ہم نے اس(كشتي) کو سارے عالم کے لیے ایک نشانی بنادیا:

Then we saved him and those who were with him in the Ark and made it a sign for mankind.

حضرت نوح کی کشتی تاریخِ انبیاء کی قدیم ترین یادگار ہے۔ قرآن کے مذکورہ بیان کے مطابق، اِس قدیم ترین یادگار کو محفوظ رکھنا اِس لیے تھا، تاکہ وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے علم میں آئے، اور اُن کے لیے دینِ حق کی ایک تاریخی شہادت بنے۔

مگر یہ سادہ بات نہ تھی، اِس عالمی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے بہت سی شرطیں درکار تھیں۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ کشتی کا اِستوا(هود، 11:44)ایک ایسے ملک میں ہو، جو اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عالمی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو، کشتی نوح کے ظہور کا واقعہ ایک طے شدہ وقت پر پیش آئے، جب کشتی نوح ظاہر ہو تو عالمی کمیونکیشن کا دور آچکا ہو، یہ واقعہ جب ظہور میں آئے تو اُس وقت گلوبل سیاحت (global tourism) کا دور بھی آچکا ہو، پرنٹنگ پریس کا زمانہ آچکا ہو، تاکہ خدا کی کتاب (قرآن) کے مطبوعہ نسخے لوگوں كو دينے كے ليے تیار کئے جاسکیں، دنیا کھلے پن (openness) کے دور ميں پہنچ چکی ہو، اِسي کے ساتھ دنیا سے کچھ چیزوں کا خاتمہ ہوچکا ہو۔ مثلاً مذہبی جبر، کٹر پن (rigidity)، علاحدگی پسندی (separatism)،تنگ نظری (narrow-mindness) ، وغیرہ۔

ترکی کے پہاڑ (ارارات) پر کشتی نوح کا موجود ہونا استثنائی طورپر ایک انوکھا واقعہ ہے۔ گلیشير کاپگھلنا جب اِس نوبت کو پہنچے ، جب کہ پوری کشتی ظاهر ہوجائے اور وہاں تک پہنچنے کے راستے بھی ہموار ہوجائیں تو بلاشبہہ یہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ ترکی نقشۂ سیاحت (tourist map) میں نمبر ایک جگہ حاصل کرلے گا۔ ساری دنیا کے لوگ اِس قدیم ترین عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ترکی میں ٹوٹ پڑیں گے۔

اِس طرح اہلِ ترکی کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ساری دنیا تک خدا کے پیغام كو پہنچادیں۔ یہ وہ وقت ہوگا جب کہ ترکی میں آنے والے سیاحوں کے لیے قرآن سب سے بڑا گفٹ آئٹم (gift item) بن جائے گا جس میں پیشگی طور پر کشتیٔ نوح کی موجود گی کی خبر دے دی گئی تھی۔

حضرت نوح کی تاریخی کشتی

حضرت نوح کی کشتی لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ بعد کو وہ اگر کسی کھلی جگہ پر رہتی تو بہت جلد وہ بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی۔ مگر جودی کا علاقہ سخت سردی کا علاقہ تھا۔ کشتی کے ٹھہرنے کے بعد یہاں مسلسل طورپر برف باری(snow fall) کا سلسلہ جاری رہا۔

 اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشتی كے اوپرگلیشير کی موٹی تہہ جم گئی۔ اس طرح کشتی برف کے موٹے تودے کے نیچے دب کر فرسودگی کے عمل سے محفوظ رہی۔

فطرت کا ایک قانون ہے جس کو ارضیات کی اصطلاح میں فاسلائزیشن (fossilization)  کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ فاسل (fossil) سے بنا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب کوئی چیز زمین کے نیچے لمبی مدت تک دبی رہے تو وہ مخصوص کیمیائی عمل (chemical process) کے ذریعے تدریجی طورپر اپنی ماہیت تبدیل کرليتي هے، وہ لکڑی یا ہڈی کے بجائے پتھر جیسی چیز بن جاتي هے۔ فاسلائزیشن کا یہ عمل کم وبیش ایک ہزار سال میں پورا ہوتا ہے اور جب یہ عمل پورا ہوجائے تو وہ چیز اپنی اصل صورت کو باقی رکھتے ہوئے پتھر جیسی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اِس طرح وہ اِس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو ہمیشہ باقی رکھے۔

اللہ تعالیٰ کو اپنے منصوبے کے مطابق، حضرت نوح کی کشتی کو محفوظ رکھنا تھا۔ اُس وقت جو سیلاب آیا، وہ ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا تھا، غالباً دجلہ وفرات (عراق) کے علاقے سے لے کر ترکی کی مشرقی سرحد تک۔ اس سیلاب کے اوپر کشتی بہہ رہی تھی۔ خدا کے فیصلے کے تحت کشتی سیلاب میں بہتے ہوئے جودی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئی۔ یہاں لمبی مدت تک وہ عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں پوری کشتی فاسل (fossil)  میں تبدیل ہوگئی۔

خدائی منصوبے کی تاریخی شہادت

حضرت نوح کی کشتی ہزاروں سال تک گلیشير کے نیچے محفوظ رہی۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کشتی پوری کی پوری ایک فاسل (fossil) بن گئی۔ اِس کے بعد ابتدائی طورپر انیسویں صدی عیسوی كاآخری زمانہ آیا، جب کہ گلوبل وارمنگ (global warming) کا دور شروع ہوا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہاڑوں کے اوپر جمے ہوئے برف کے بڑے بڑے تودے (گلیشير) دھیرے دھیرے پگھلنے لگے۔ آخرکار یہ ہوا کہ جمي هوئي برف کا بڑا حصہ پگھل گیا اور وه پانی کی صورت میں بہہ کر سمندروں میں چلا گیا۔ اس کے بعد برف کے نیچے ڈھکی ہوئی کشتی کھل کر سامنے آگئی۔

دابّہ سے مراد یہی کشتی نوح ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت کے الفاظ بہت با معنی ہیں، جس میں کہاگیا ہے أوّل ما یبدوا منها رأسها (التفسیر المظهری  7/133)۔يعني  دابّہ جب نكلے گا توسب سے پہلے اس کا سر ظاہر ہوگا۔

 یہ تمثیل کی صورت میں اُس واقعےکا نہایت درست بیان ہے جو کشتیٔ نوح کے ساتھ پیش آیا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جب برف پگھلنے لگی تو فطری طورپر کشتی کے اوپر کا حصہ کھلا اور پھر دھیرے دھیرے پوری کشتی سامنے آگئی۔

کشتی نوح پر غور کیجئے تو اس کا پورا معاملہ ایک خدائی منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ — حضرت نوح کی قوم کی ہلاکت کے لیے ایک بڑے سیلاب کا طریقہ اختیار کرنا، پھر کشتی نوح کا ایک متعین رخ پر سفر کرتے ہوئے جودی پہاڑ پر پہنچنا، پھر اس کا گلیشير کے نیچے دب جانا، پھر فاسلائزیشن کے عمل کے ذریعے اس کا مستقل طورپر محفوظ ہوجانا، پھر گلوبل وارمنگ کے ذریعے اس کا کھل کر سامنے آجانا، پھر بیسویں صدی کا دور آنا، جب کہ پرنٹنگ پریس اور جدید کمیونکیشن اور عالمی سیاحت اور اِس طرح کے دوسرے اسباب کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا کہ کشتی نوح کو پیغمبروں کی تاریخ کے ایک پوائنٹ آف ریفرنس کے طورپر لیا جائے اور جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے پیغمبروں کی دعوت کو سارے عالم تک پہنچا دیا جائے۔ — کشتی نوح کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے جس کا اشارہ قرآن کے اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا (11:41)۔

ارضیاتی شواہد

موجودہ زمانے میں ارضیات (Geology) کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقات کی گئی ہیں۔ اِن تحقیقات کے نتیجے میں ایک حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ عراق اور ترکی کے درمیان کا جو علاقہ ہے، اُس میں كئي ہزار سال پہلے بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ یہ سیلاب اتنا بڑا تھا کہ اس نے اُس وقت کی آباد دنیا کو پوری طرح تباہ کردیا ۔ اس موضوع پر بہت سی تحقیقات چھپ چکی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم تحقیق درج ذیل کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے جس کو دو مصنفین نے تیار کیاہے

Noah's Flood: The New Scientific Discoveries About the Event that Changed History, by William Ryan and Walter Pitman, Published: 1999 by Simon & & Schuster, USA, 320 pages

اِن تحقیقات سے یہ بات علمی طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ ہزاروں سال پہلے ایک عظیم سیلاب آیا، لیکن محققین اپنے سیکولر (secular) ذہن کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ مختلف قوموں میں اور اِسی طرح بائبل میں نوح کا جو قصہ بیان ہوا ہے، وہ بعد کو اِسی تاریخی واقعے کو لے کر وضع کیا گیا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ تاریخی واقعہ کو کہانی کاروپ دینا (mythicization) ہے، حالاں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ ارضیاتی تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے، وہ عظیم سیلاب کے بارے میں اُس واقعے کی تاریخی تصدیق کرتی ہے جو پہلے سے بائبل اور قرآن میں موجود تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ بائبل اور قرآن کے نزول کے زمانے میں حضرت نوح اور ان کے عہد میں آنے والے طوفان کے بارے میں تاریخی طورپر کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ قرآن کے بیان میں مزيد یہ بھي بتا دیا گیا تھا کہ مستقبل میں حضرت نوح کی کشتی ظاہر ہوگی اور وہ حضرت نوح کے معاملے کی تاریخی تصدیق کرے گی (القمر، 54:15) ۔

 ایسی حالت میں یہ ہونا چاہيے کہ ارضیاتی تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے، اس کو بائبل اور قرآن کی تاریخی تصدیق (historical verification)سمجھا جائے، نہ کہ برعکس طورپر یہ کہا جائے کہ قدیم زمانے میں جو عظیم سیلاب آیا تھا، اُس كي بنياد پر لوگوں نے فرضی کہانی بنا لی۔

Discovery of Human Artifacts Below Surface of Black Sea Backs Theory by Columbia University Faculty of Ancient Flood, By Suzanne Trimel Columbia University, NYC. Columbia University marine geologists William B.F. Ryan and Walter C. Pitman 3rd inspired a wave of archaeological and other scientific interest in the Black Sea region with geologic and climate evidence that a catastrophic flood 7,600 years ago destroyed an ancient civilization that played a pivotal role in the spread of early farming into Europe and much of Asia. The National Geographic Society offered astonishing evidence on Wednesday (9-13-00) to support Ryan's and Pitman’s theory: the discovery of well-preserved artifacts of human habitation more than 300 feet below the Black Sea surface, 12 miles off the Turkish coast. “This is stunning confirmation of our thesis,” Dr. Ryan said from his office at Columbia's Lamont-Doherty Earth Observatory on Tuesday. “This is amazing. It's going to rewrite the history of ancient civilizations because it shows unequivocally that the Black Sea flood took place and that the ancient shores of the Black Sea were occupied by humans.” Inspiring a re-examination of the role of climate in human history, Drs. Ryan and Pitman's findings in 1996 suggested that the terrifying and swift flood may have cast such a long shadow on succeeding cultures that it inspired the biblical story of Noah's ark. Drs. Ryan and Pitman argued their provocative theory in a 1999 book, “Noah's Flood: The New Scientific Discoveries About the Event That Changed History” (Simon & Schuster).  Ryan and Pitman theorized that the sealed Bosporus strait, which acted as a dam between the Mediterranean and Black seas, broke open when climatic warming at the close of the last glacial period caused icecaps to melt, raising the global sea level. With more than 200 times the force of Niagara Falls, the thundering water flooded the Black Sea, then no more than a large lake, raising its surface up to six inches per day and swallowing 60,0000 square miles in less than a year. (www.earth.columbia.edu)

تاریخی سبق

سیکولر علما کے لیے عظیم انقلاب (Great Flood) یا ارارات کے پہاڑ کے اوپر کشتی کی دریافت محض تاریخ کا ایک سبجکٹ ہے، مگر قرآن کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ تمام انسانوں کے لیے بہت بڑے سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ حضرت نوح کے زمانے میں جو طوفان آیا تھا، وہ بعد کو آنے والے زیادہ بڑے طوفان کے لیے ایک پیشگی خبر هے۔ یہ دریافت گویا ایک وارننگ ہے کہ لوگ متنبہ ہوجائیں اور اُس وقت کے آنے سے پہلے وہ اس کے لیے ضروری تیاری کرلیں۔

حضرت نوح دورِ تاریخ سے پہلے کے پیغمبر ہیں، اِس لیے مدوّن تاریخ میںاُن کا حوالہ موجود نہیں۔ مگرقرآن کا بیان ہے کہ نوح کی کشتی کو خدا باقی رکھے گا، تاکہ وہ بعد والوں کے لیے نشانی ثابت ہو(القمر،54:15)۔ عظیم طوفان اور ارارات پہاڑ کے اوپر کشتی کی دریافت قرآن کے اِس بیان کی ایک تاریخی تصدیق (historical verification) کی حیثیت رکھتی ہے۔

سبق کا پہلو

ایک 'طويل روایت میں فرشتے کی زبان سے یہ الفاظ آئے ہیںوَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ (صحيح البخاري، رقم الحديث7281)ف ر ق کا لفظی مطلب ہےالفصل بین الشیئین۔   )دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا( ۔یعنی محمد، انسانوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

اِس حديثِ رسول كا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایسا مشن جاری ہوگا، جو صالح اور غیر صالح افراد کو ایک دوسرے سے جدا کردے، تاکہ اللہ ایک گروہ کے لیے انعام کا فیصلہ فرمائے اور دوسرے گروہ کے لیے سزا کا فیصلہ۔

یہ بات صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہیں ہے، یہی معاملہ تمام پیغمبروں کا ہے۔ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے، وہ سب اِسی مقصد کے لیے آئے، تاکہ ان کے ذریعے ایک ایسی تحریک چلائی جائے، جو انسانوں کو ایک دوسرے سے چھانٹ دے، صالح افراد الگ ہوجائیں اور غیر صالح افراد الگ، تاکہ اِس کے بعد ایک معلوم حقیقت کے طورپر لوگوں کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ کردیا جائے۔

قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، اُن میں سے کم از کم دو ایسے پیغمبر ہیں جنھوں نے اِس معاملے میں ایک تاریخی شہادت (historical evidence) چھوڑ ی، جو لوگوں کے لیے مستقل طورپر منصوبہ الٰہی کے بارے میں تاریخی یاد دہانی (historical reminder) کا کام کرتی رہے۔

اِس معاملے میں ایک تاریخی مثال وہ ہے جس کا تعلق حضرت موسیٰ سے ہے۔ حضرت موسیٰ نے قدیم مصر میں اپنا دعوتی کام انجام دیا۔ اس کے نتیجے میں آخر کار وہ وقت آیا، جب کہ دو گروہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ — ایک، بنی اسرائیل کا گروہ، جس نے حضرت موسیٰ کے پیغام کو قبول کیا اور دوسرے، فرعون اور اس کے ساتھی، جنھوں نے حضرت موسیٰ کے پیغام کو رد کردیا۔ اِس کے بعد قانونِ الٰہی کے مطابق، ایسا ہوا کہ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی الگ کرکے بچا ليے گئے، اور فرعون اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق کرديے گئے۔

اِس معاملے کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب آخری وقت آگیا، اور فرعون غرق ہونے لگا، اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً  (10: 92) یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ قول پورا ہوا، اور حضرت موسیٰ كے ہم عصر فرعون کی لاش کو حنوط کاری (mummification) کے ذریعے اہرامِ مصر میں محفوظ کردیا گیا۔ فرعون کا یہ جسم اہرامِ مصر میں موجود تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں کچھ مغربی ماہرین نے اس کو نکالا اور کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے ذریعے اس کی تاریخ معلوم کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جسم اُسی فرعون کا ہے، جو حضرت موسیٰ کا معاصر (contemporary) تھا۔

فرعون کے جسم کا اِس طرح محفوظ رہنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک تاریخی واقعے کی علامتی مثال ہے۔ فرعون کا یہ جسم جو قاہرہ (مصر) کے میوزیم میں محفوظ ہے، وہ اپنی خاموش زبان میں یہ بتا رہا ہے کہ آخر کار انسان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، وہ یہ کہ خدائی منصوبے کے تحت، صالح بندوں کو غیرصالح بندوں سے الگ کردیا جائے اور پھر صالح بندوں کو ابدی جنت میں عزت کی جگہ دی جائے اور غیرصالح لوگوں کو ابدی جهنم میں ذلت کی زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

اس قسم کی دوسری مثال حضرت نوح کی ہے۔ حضرت نوح قدیم عراق (Mesopotamia) کے علاقہ میںآئے۔ وہ بہت لمبی مدت تک وہاں کے لوگوں کو بتاتے رہے کہ اللہ نے تم کو پیدا کرکے آزاد نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ وہ تمھارا امتحان لے رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کون اپنی آزادی کا صحیح استعمال کررہا ہے، اور کون غلط استعمال کررہاہے۔

جب امتحان کی مدت پوری ہوگی تو خدا کا فیصلہ ظاہر ہوگا، اور اچھے انسان اور برے انسان دونوں چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کردئے جائیں گے۔ اس کے بعد اچھے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے گا اور برے لوگوں کو جہنم ميں۔

طوفان سے پهلے حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے پیشگی طورپر ایک بڑی کشتی بنالی تھی۔ حضرت نوح اور آپ کے ماننے والے لوگ کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ لوگ اس کشتی کے ذریعے سیلاب کے اوپر تیرتے ہوئے محفوظ رہے۔

 اُس وقت اللہ نے جو کہا تھا، اس كو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہےقِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (11:48) يعني کہا گیا کہ اے نوح، اترو، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر اور ان گروہوں پر جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور (ان سے ظہور میں آنے والے) گروہ کہ ہم ان کو فائدہ دیں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک درد ناک عذاب پکڑلے گا۔

یہ بات پانچ ہزار سال پہلے کی ہے، جب که دنیا میں نہ کوئی تہذیب تھی اور نہ کوئی ٹکنالوجی۔ یہ بات اگرچہ بائبل اور قرآن میں بتائی گئی تھی، لیکن لوگ اس کو مذہبی افسانہ (religious myth) سمجھتے تھے،مگر عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یہ دونوں باتیں ایک معلوم واقعہ بن گئیں۔ ایک طرف، عراق اور شام کے علاقے میں ایسے آثار ملے جو بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک بهت بڑا سیلاب آیاتھا، اور دوسری طرف كشتي نوح جو بھاری برف کے نیچے دبی ہوئی تھی، وہ برف کے پگھلنے سے سامنے آگئی۔ یہ واقعہ ترکی کی مشرقی سرحد پرواقع پہاڑ کے اوپر پیش آیا۔

بیسویں صدی کے وسط تک اِس پورے معاملے کو فرضی کہانی سمجھا جاتا تھا، مگر اب خالص تاریخی شواہد کی بنا پر یہ مان لیا گیا ہے کہ اس علاقے میں ایک ایسا بڑا سیلاب آیا تھا جو نہ اس سے پہلے کبھی آیا اور نہ اس کے بعد۔ یہاں اِس سلسلے ميں تفسیر ماجدی سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے

The story of Noachion deluge, so long dismissed as legendary, has at last come to be recognized as 'hisotorical disaster' for which material evidence has been found in the soil of Ur.  (Woolly, ‘Abraham’,  p. 170)

Archaeological evidence has established the reality of the Flood. (Marston, ‘The Bible Comes Aline’, p. 33)

Both Sumerian and Hebrew legends speak of a flood which destroyed the habitable world as they knew it.  (Lt. Col. Wagstaff, a distinguished explorer)

يهي معاملہ کشتی نوح کا ہے۔ قدیم زمانے میں کشتی نوح کا معاملہ ایک مذہبی افسانہ سمجھا جاتا تھا، مگر اب وہ ایک تاریخی واقعہ بن چکا ہے۔

کوئی بھی شخص ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑی سلسلے کے اوپر ہوائی پرواز کرکے کشتی کو دیکھ سکتا ہے۔ غالباً بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ یہ مقام ٹورسٹ میپ (tourist map) میں خصوصي جگہ حاصل کرلے۔خبروں سے معلوم هوا هے كه ترك گورنمنٹ اِس علاقے كو سياحتي مقام كے طور پر ڈيولپ كرنے كا منصوبه بنارهي هے۔

اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جب انسانی تاریخ کے خاتمہ کا وقت آئے گا اورآخرت کا دور شروع ہوگا تو فرشتہ اسرافیل صور پھونکے گا۔ یہ صور آواز کی صورت ميںنئے دور کی آمد کا اعلان ہوگا۔ کشتی نوح کا ظہور اسی قسم کا ايك واقعہ ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ صور اسرافیل كے ذريعے جس حقيقت کا اعلان زبانِ قال کی صورت میں كيا جائے گا، کشتی نوح زبانِ حال كي صورت ميں اُسي حقيقت كو بيان كرے گي۔

Two members of the search team that claims to have found Noah’s Ark on Mount Ararat in Turkey responded to scepticism by saying that there is no plausible explanation for what they found other than it is the fabled biblical boat that weathered a storm that raged 40 days and 40 nights and flooded the entire Earth. Noah's Ark Ministries International (NAMI) held a press conference April 25, 2010  in Hong Kong to present their findings and say they were  “99.9  percent sure” that a wooden structure found at a 12,000-ft. elevation and dated as 4,800 years old was Noah’s Ark. Noah's Ark Ministries International is a subsidiary of Hong Kong-based Media Evangelism Limited, founded in 1989  to publish multimedia for evangelizing. " We don't have anything to hide."  says Clara Wei, who is a team member. She says that massive wooden planks, some 20 meters long, were found in wooden rooms and hallways buried in the ice atop Mount Ararat in Eastern Turkey. People could not carry such heavy wood to such a height, nor can vehicles access such a remote location on the mountain. Turkish officials from Agri Province, the location of Mount Ararat, also attended this week’s press conference in Hong Kong. Lieutenant governor Murat Güven and Cultural Ministries Director Muhsin Bulut, both provincial officials, believe the discovery is likely Noah’s Ark, according to the announcement posted on the team's website. Culture and Tourism Minister of Turkey, Ertugrul Gunay, welcomed the finding and said it could boost tourism, according to local newspaper today's Zaman. (www.csmonitor.com)

کشتی نوح یا دابہ

قرآن کی سورہ النمل میں یہ آیت آئی ہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82)۔ یعنی جب اُن پر بات آپڑے گی تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابہ نکالیں گے ،جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

قرآن اور حدیث دونوں میں بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا۔ دابہ کا ظہور گویا انسانی تاریخ کے ایک دور کا خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کی علامت ہوگا۔ دابه كا ظهور عملاً سارے انسانوں کے لیے آخری اتمامِ حجت کے ہم معنی ہوگا۔ اس کے بعد وہی واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگا جو حضرت نوح کے زمانے میں پيش آيا تھا، یعنی دوبارہ ایک بڑے طوفان کے ذریعے انسانوں میں سے صالح افراد کو بچالینا اور غیر صالح افراد کو ہلاک کردینا۔مگر يه طوفان قيامت كا طوفان هوگا۔

حدیث کی کتابوں میں دابہ کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، اُن میں زیادہ مستند اور معتبر روایت وہ ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔ اِس میں صرف یہ بتایاگیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا (صحیح مسلم، حديث نمبر158 )۔

 اِس روایت میں اُن باتوں میں سے کوئی بات نہیں ہے، جو دوسری روایتوں میں آئی ہے۔مثلاً دابه كے ساتھ موسي كا عصا هونا اور سليمان كي انگشتري هونا، وغيره۔ ان دوسري روايات ميں كافي تعارض پايا جاتاهے، اس ليے محقق علما نے صحيح مسلم كي مذكوره روايت كے علاوه، دوسري روايتوں كو عام طورپر ضعيف يا موضوع بتايا هے۔ مثلاً امام رازي، علامه آلوسي، علامه الباني، وغيره۔ اس معاملے ميں صحيح مسلك يه هے كه دابه كو صرف دابه كے معني ميں ليا جائے، اور اس سے منسوب بقيه تفصيلات كو غيرمعتبر سمجھ كر اُن كو نظر انداز كرديا جائے۔

دابه كي تحقيق

دابه كے لفظي معني هيں رينگنے والا (creeper) ۔اپنے استعمال كے اعتبار سے، دابه كا لفظ حيوان كے ليے خاص نهيں هے، وه كسي بھي ايسي چيز كے ليے بولاجاتا هے جو رينگنے كي رفتار سے چلے۔ يه استعمال عربي زبان اور غير عربي زبان دونوں ميں پايا جاتا هے۔

مثلاً كها جاتا هے: دبّ الشراب في عروقه (مشروب كا اثر رگوں ميں سرايت كرگيا )۔ اسي طرح كها جاتا هے كه: دبّ الجدول (نهر ميں پاني كا جاري هونا)۔ اسي طرح كهاجاتا هے: دبّ السُّقم في الجسم (جسم ميں بيماري كا سرايت كرنا)۔اسي ليے ايك مخصوص آله ٔحرب كو ’دبّابة‘ كها جاتا هے۔

اِس مقصد كے ليے دبابه كا لفظ قديم زمانے سے رائج هے۔ قديم زمانے ميں دشمن كے قلعے تك پهنچنے كے ليے يه كرتے تھے كه معكوس يو (inverted U) كي شكل ميں ايك گاڑي بناتے تھے جس كے نيچے پهيه لگا هوتا تھا۔ فوجي اس كے اندر داخل هوجاتا اور پهيه كے ذريعے اس كو چلاتا هوا قلعے كي ديوار تك پهنچ جاتا اور پھر قلعے كي ديوار ميں نقب لگا كر اس كے اندر داخل هوجاتا ۔ اس آله ٔ   حرب كو دبابه كها جاتا تھا۔

دبابه كي يه قديم ٹيكنك آج كے مشيني دور ميں بھي رائج هے۔ اِسي اصول كے مطابق، موجوده زمانے ميں ٹينك (tank) بنائے گئے هيں۔ موجوده مشيني ٹينك كو بھي دبابه كهاجاتا هے، يعني وه حربي گاڑي جو پهيے پر چلتي هوئي دشمن كے قلعه تك پهنچ جائے۔

دبابه كي تشريح كے تحت يهي بات عربي لغات ميں آئي هے۔ مثلاً لسان العرب كے الفاظ يه هيں: الدّبابةُ:آلة تُتَّخذ من جلود وخشبة، يدخل فيها الرجال، ويقرّبونها من الحصن المحاصر لينقبوه، وتقيم ما يرمون به من فوقهم۔ وفي حديث عمر رضى الله عنه قال:كيف تصنعون بالحصون؟ قال:نتخذ دبّاباتٍ يدخل فيها الرجال(1/371)

رينگنے كا لفظ اپنے اِسي توسيعي مفهوم ميں هر زبان ميں استعمال هوتاهے۔ مثلاً گھنےكهر ميں ٹرين آهسته رفتار سے چلتي هے تو كها جاتا هے كه ٹرين رينگ رهي هے۔ امريكا كے ناولسٹ جيمس بالڈون (James Baldwin) نے اپني ايك كهاني ميں كشتي كے بارے ميں يه الفاظ لكھے هيں— پراني كشتي پاني كے اوپر گھونگھے كي رفتار سے رينگ رهي هے

The old boat creeps over the water no faster than a snail.

1۔  قرآن كي سوره النمل كي آيتِ دابه ميں ’تكلم‘ بمعني   ينطق نهيں هے، بلكه وه   يدلّ كے معني ميں هے، يعني دلالت كرنا،شهادت دينا۔ لفظ ’كلام‘ كے مادّه كا يه استعمال خود قرآن ميں دوسرے مقام پر موجود هے۔ مثلاً سوره الروم ميں ارشاد هوا هے: أَمْ أَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ(30:35) ۔ يعني كيا هم نے اُن پر كوئي سند اتاري هےكه وه اُن كو خدا كے ساتھ شرك كرنے كو كهه رهي هے۔

جس طرح سوره الروم كي اِس آيت ميں كلام بزبانِ حال كے معني ميں آيا هے، اِسي طرح سوره النمل كي مذكوره آيت ميں كلام كا ماده كلامِ حال كے معني ميں آيا هے، يعني دونوں هي آيتوں ميں كلام كا ماده زبانِ حال كے  مفهوم ميں استعمال هوا هے، نه كه زبانِ قال كے مفهو م ميں۔

آيت كا آخري ٹكڑا يه هے

2۔   أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ— يهاں آيات (signs) سے كيا مراد هے۔ اِس كي وضاحت قرآن كي اِس آيت سے هوتي هے: قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ(11:48)۔

 اِس آيت ميں ’’مسِّ عذاب‘‘كا ذكر هے۔ اسي كے ساتھ يهاں ايك اور چيز محذوف هے، وه يه كه كچھ افراد بچاليے جائيں گے جس طرح كشتي نوح كے افراد بچا ليےگئے اور دوسرے لوگ جو عذاب كے مستحق تھے، وه هلاك كرديے گئے— سفينه كا لفظ حضرت نوح كي كشتي كو بتاتا هے ،اور دابه كا لفظ اُس كشتي كے رول كو۔

قرآن کی آیتِ دابّہ کے حسب ذيل تین حصے ہیں

1۔  وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ ۔

2۔  أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ  ۔

3۔  تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ )  27: 82)۔

آیت کے پہلے حصے کا تعلق اللہ کے فیصلے سے ہے، یعنی دابہ کا خروج اُس وقت ہوگا، جب کہ اللہ تعالي موجودہ دنیا میں انسانی تاریخ کے خاتمے کا فیصلہ فرما دے۔ آیت کے دوسرے حصے کا تعلق قدرتی حالات سے ہے، یعنی فطری اسباب کے تحت ایسے حالات کا پیداہونا جب کہ دابہ (کشتی نوح) کا برفاني کور (cover)ہٹ جائے، اور وہ پورے طورپر لوگوں کے سامنے آجائے۔

آیت کے تیسرے حصے کا تعلق انسان سے ہے، یعنی جب ایسا ہوگا تو یہ انسان کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اِس واقعے کو لے کر اس کی تاریخ لوگوں کے سامنے بیان کرے، اِس واقعے میں سبق کا جو پہلو ہے، اس سے لوگوں کو باخبر کرے۔آیت کا تیسرا حصہ جو انسان سے متعلق ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کو ماننے والے اس وقت اٹھیں اور قرآن کو تمام لوگوں تک پہنچائیں، کیوں کہ دابہ (کشتی نوح) کا ظہور قرآن کی پیشین گوئی کی تصدیق ہوگی۔

یہ واقعہ لوگوں کے لئے اِس بات کی دعوت ہوگا کہ وہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھ کر پڑھیں، اور اس کے ذریعے اُس پیغام کو جو اللہ کی طرف سے پیغمبر وں کے ذریعہ بھیجا گیا تھا،اُس كو ايك ثابت شده صداقت كي حيثيت سے قبول كرليں۔

كشتي كا انتخاب كيوں

صورِ اسرافيل قيامت كا ناطق اعلان هے اور كشتي نوح (دابّه) قيامت كا غير ناطق اعلان۔ صورِاسرافيل جس حقيقت كو بول كر بتائے گا، اسي حقيقت كا اعلان خاموش زبان ميں كشتي نوح (دابه) كے ذريعے كياجائے گا۔

 اِس مقصد كے لئے كشتي كا انتخاب كيوں كيا گيا۔ حسب ذيل پهلوؤں پر غور كرنے سے اندازه هوتا هے كه قديم زمانے ميں كشتي هي اس مقصد كا سب سے زياده بهتر ذريعه بن سكتي تھي

1۔  سنت الله كے مطابق، كشتي كے لئے  لفظِ دابّه كي صورت ميں ايك ملتَبَس نام  (disguised name) دركار تھا، اور كشتي كے لئے لفظِ دابّه كي صورت ميں ايك ملتبس نام نهايت آساني سے حاصل هوتا هے۔

2۔    مطلوب مقصد كے لئے ايك ايسي چيز دركار تھي، جو طوفان ميں تير كر ايك جگه سے دوسري جگه جائے۔ يه كام صرف كشتي كے ذريعےهوسكتا تھا۔

3۔  اِس كام كے لئے ايك ايسا ذريعه دركار تھا، جو كچھ لوگوں كو بچائے اور كچھ لوگوں كو تباه كردے۔ يه كام بھي صرف كشتي كے ذريعے ممكن تھا۔

4۔  اِس كام كے لئے ايك ايسي چيز كي ضرورت تھي جو هزاروں سال تك برف كے نيچے دب كر باقي رهے،اور بعد كو ظاهر هوكر وه لوگوں كے سامنے آئے۔

5۔  كشتي كا ايك فائده يه بھي تھا كه وه كيميائي عمل كے تحت فاسل (fossil)بن كر محفوظ رهے، تاكه وه بعد والوں كے لئے ايك نشاني بنے۔

يه تمام صفات كشتي ميں موجود تھيں۔ مزيد يه كه الله كي سنت التباس (الانعام، 6:9) كے مطابق، كشتي وه واحد چيز تھي جس كے ليے دابّه كي صورت ميں ايك ملتبس نام (disguised name)  مل سكتا تھا۔ الله كي سنت كے مطابق، كشتي كا حواله كشتي كے نام سے دينا مطلوب نهيں تھا، بلكه اس كا حواله ايك ايسے بالواسطه نام كے ذريعه دينا مطلوب تھا جس كو صرف غور كركے سمجھا جاسكتا هو۔ اِس كے ليے دابه نهايت موزوں نام تھا، كيوں كه كشتي بھي پاني پر رينگتي هے اور دابّه كے لفظي معنى هيں رينگنے والا۔

قرآن ميں هے كه جب وقت آئے گا تو هم، لوگوں كے لئے زمين سے ايك دابه (رينگنے والا) نكاليں گے  (النمل، 27:82)۔ يه الفاظ بهت خوبي كے ساتھ اصل واقعه كو بتاتے هيں۔ كيوں كه كشتي كے ساتھ جو واقعه پيش آيا، وه يه تھا كه اس كے اوپربرف كي بهت موٹي ته جم گئي۔ پھر گلوبل وارمنگ كے زمانے ميں برف پگھلنا شروع هوئي تو دھيرے دھيرے كشتي كھل كر سامنے آگئي۔ ’’رينگنے والي چيز‘‘كا زمين سے نكلنا بالكل لفظي طورپر اِس واقعه كي تصوير كشي كررها هے۔

قرآن ميں دابه كا ذكر جهاں آيا هے، وهاں صرف يه بتايا گيا هے كه دابه لوگوں سے ’’كلام‘‘ كرے گا، اور يه خبردے گا كه لوگوں نے الله كي آيتوں (signs) پر يقين نهيں كيا۔ قرآن ميں دابه كے بارے ميں اتنا هي بتايا گيا هے۔ قرآن ميں يه نهيں بتايا گيا هے كه لوگ دابه كي بات سنيں گے تو اس كے بعد تمام لوگ اس كو ماننے والے بن جائيں گے۔ قرآن سے يه تو ثابت هے كه دابه لوگوں سے ’’كلام‘‘ كرے گا، ليكن يه بات قرآن ميں نهيں هے كه لوگ دابه كے كلام كو سن كر اُس كے مومن بن جائيں گے۔

اِس سے مستنبط هوتا هے كه دابه (كشتي نوح) كا ظهور دوباره اُسي نوعيت كا هوگا جيسے كه نوح كے زمانے ميں هوا تھا۔ حضرت نوح كي دعوت وتبليغ سے ان كے زمانے كے بهت كم لوگ اُن پر ايمان لائے۔ اِسي طرح يهي معامله بعد كے زمانے ميں بھي پيش آئے گا، يعني دوسري بار بھي صرف كچھ لوگ اس سے اثر قبول كريں گے اور زياده لوگ اس كو نظر انداز كرديں گے۔

 حقيقت يه هے كه بعد كے زمانے ميں دابه (كشتي نوح) كا ظهور صرف اعلان كے لئے هوگا۔ اس كے نتيجے ميں ايسا نهيں هوگا كه تمام لوگ اس كے مومن بن جائيں اور دنيا ميں كوئي خدا كا انكار كرنے والا باقي نه رهے۔

پيغمبرانه يادگاريں

حضرت نوح سے حضرت محمد تك خداكے بهت سے پيغمبر دنيا ميں آئے۔ اُن ميں سے تين پيغمبر ايسے هيں جن كي مادي يادگاريں آج بھي دنيا ميں موجود هيں۔ يه تين پيغمبر هيں— حضرت نوح، حضرت ابراهيم اور حضرت محمد۔ تين پيغمبروں كي يه مادي يادگاريں علامتي طورپر دعوت كے تين دور كو بتاتي هيں۔ پهلي مادي يادگار حضرت نوح عليه السلام كي هے، جو ايك كشتي كي صورت ميں آج بھي موجود هے۔ يه كشتي علامتي طورپر بتاتي هے كه ايسا هونے والا نهيں كه انسانوں كو ان كے حال پر چھوڑ ديا جائے، بلكه تمام پيدا هونے والے انسانوں كو آخر كار دو گروه ميں تقسيم كيا جائے گا۔

يه تقسيم لوگوں كے ريكارڈ (record) كے مطابق هوگي، اور پھر اچھے ريكارڈ والوں كے ليے جنت كا فيصله كيا جائے گا، اور برے ريكارڈ والوں كے ليے جهنم كا فيصله۔ دوسري مادي يادگار حضرت ابراهيم عليه السلام كي هے جو كعبه كي صورت ميں آج بھي مكه ميں موجود هے۔

كعبه علامتي طورپر اُس غيرمعمولي منصوبه بندي (extraordinary planning) كي يادگار هے جب كه يهاں كے صحرائي علاقه ميں حضرت ابراهيم نے اپني بيوي هاجره اور اپنے بيٹے اسماعيل كو بسايا، اور پھر توالد اور تناسل كے لمبے دور كے بعد وه نسل تيار هوئي جس كو بنو اسماعيل كهاجاتاهے۔ رسول اوراصحابِ رسول اسي نسل كے منتخب افراد تھے۔ يه ايك استثنائي گروه تھا جس كو ايك  مستشرق نے هيروؤں كي قوم (a nation of heroes) كها هے۔

تيسري مادي يادگار حضرت محمد صلي الله عليه وسلم كي هے جو مدينه كي مسجد نبوي كي صورت ميں موجود هے۔ مسجد نبوي كے اندر حضرت محمد صلي الله عليه وسلم كي قبر واقع هے۔

حضرت محمد اور آپ كے اصحاب كي غير معمولي كوشش سے انساني تاريخ ميں ايك نيا دور شروع هوا۔ اس نئے دور كو دورِ شرك كا خاتمه اور دورِ توحيد كا آغاز كها جاسكتا هے۔ حضرت محمد اور آپ كے اصحاب نے انساني تاريخ ميں ايك نئے عمل (process)كا آغاز كيا۔ اِس كے نتيجه ميں وه انقلابي واقعه پيش آيا جس كو قرآن ميں اظهارِ دين (الفتح، 48:28) كهاگيا هے۔

 اظهارِ دين سے مراد كوئي سياسي اظهار نهيں هے، اِس سے مراد زياده وسيع نوعيت كا ايك همه جهتي اظهار هے۔ اس كے نتيجه ميں وه عالمي واقعه پيش آيا جس كو انفجارِ مواقع (opportunity explosion) كهاجاسكتا هے۔

حضرت محمد اور آپ كے اصحاب كے ذريعے تاريخ ميں جو عمل (process) شروع هوا، وه اكيسويں صدي عيسوي ميں اپني آخري تكميل تك پهنچ چكا هے۔ اِس انقلاب كے مختلف پهلو هيں۔ مثلاً مذهبي آزادي، توحيد كے حق ميں سائنسي شواهد، عالمي كميونكيشن، گلوبل موبلٹي (global mobility) ، پرنٹنگ پريس،سياست كا ڈي سينٹرلائزيشن (decentralization of political power) ، اداروں كا دور (age of institutions)، وغيره۔

اِنھيں جديد مواقع ميں سے ايك يه هے كه نئے حالات كے نتيجه ميں حضرت نوح كي كشتي ظاهر هوكر لوگوں كے سامنے آگئي جو كه كئي هزار سال تك برف كي بھاري تهه كے نيچے چھپي هوئي تھي۔

دابہ کا نکلنا

قرآن کی سورہ النمل میں قیامت سے پہلے کی ایک نشانی کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیاہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82) اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک دابّہ نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماري نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

قرآن کی یہ آیت 1400سال سے غیر واضح بنی ہوئی تھی، لیکن حضرت نوح کی کشتی کے بارے میں حال میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، اس كي روشني ميں محفوظ طور پر يه استنباط كيا جاسكتا ہے کہ دابہ سے مرادغالباً حضرت نوح کی کشتی ہے، یعنی پانی كے اوپر رینگنے والا دابه۔ قرآن میں حضرت نوح کی کشتی کو ایک نشانی (آیت) کہاگیا ہے۔ اِسي طرح قرآن میں دابہ کو بھی ایک آیت کہاگیا ہے۔ کشتی نوح اور دابه کے درمیان یہ مشابہت بہت بامعنی ہے۔ آغازِ انسانی سے اللہ نے یہ انتظام کیا کہ ہر دور میں خدا کے پیغمبر آئیں اور انسان کو بتائیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے، مگر انسان نے اپنی سرکشی کی بنا پر یہ کیا کہ اس نے پیغمبروں کو نظرانداز کیا، حتی کہ انسانیت کی مدون تاریخ (recorded history) میں پیغمبروں کا اندراج نہ ہوسکا، پیغمبر عقیدہ کا معاملہ بن گئے، نہ کہ تاریخی طورپر ثابت شدہ حقيقت كامعاملہ۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے بظاہر تخلیق (creation)کو جانا، مگر وہ مقصدِ تخلیق (purpose of creation)  سے بالکل بے خبر رہا۔

قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا ہوگا کہ اِس مِتھ (myth) کو توڑ دیا جائے گا۔ اور اِس مِتھ کو توڑنے کا ذریعہ ایک پیغمبر کی ایک تاریخی نشانی کا ظہور ہوگا، جس کا ذکر بائبل اور قرآن دونوں میں موجود هے۔اِس طرح مذهبي عقيده ايك علمي مسلّمه بن جائے گا۔

جيسا كه عرض كيا گيا، دابه کا لفظی مطلب ہے رینگنے والا۔حضرت نوح کی کشتی پانی پر رينگنے والی سواری تھی۔ وہ طوفان کے اوپر چلتی ہوئی ترکی کے سرحدی پہاڑ ارارات (Ararat)  پر پہنچ گئی۔

اب اكيسویں صدی ميں کشتی نوح کا یہ معاملہ ایک واقعہ بن کر سامنے آگیا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ وہ پوری طرح منظر عام پر آجائے ،اور پھر زبانِ حال سے کلام کرکے لوگوں کو بتائے کہ پیغمبر کی جس نشانی کا تم انکار کرتے رہے، وہ اب تمھارے سامنے عیاناً موجود ہے۔

حضرت نوح نے براہِ راست طورپر اپنی قوم سے اور بالواسطہ طورپر تمام انسانیت كو بتايا تھا کہ اللہ کے منصوبے کے مطابق، مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ سياره ارض پر انسان کا قیام ایک مقرر مدت تک ہے (نوح، 71:4)۔ یعنی ایک مقرر وقت (appointed time)تک دنیا میں حالتِ امتحان میں رہنا اور اس کے بعد آخرت میں اللہ کے سامنے حساب کے لئے پیش کردیا جانا۔ یہی زندگی کی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت نوح نے اور دوسرے پیغمبر وں نے انسان کو بتایا، لیکن انسان نے اس پيغمبرانه انتباہ (warning)کو اپنے ریکارڈ سے خارج کردیا۔

دابہ کے ظہور کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ لیکن دونوں جگہ اس کا ذکر مستقبل کی پیشین گوئی کے طورپر ہے، اِس لیے دابہ کے بارے میں شارحین اور مفسرین کی مختلف رائیں ہیں۔ دابه كے بارے ميں مزید مطالعے کے بعد اب میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، اس کو میں نے اِس مضمون میں درج کردیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق، یہی رائے مجھ کو زیادہ درست معلوم ہوتی ہےهذا ما عندي، والعلم عند الله۔

اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق، کئی بار ایسا ہوا کہ کسی پیغمبر کی قوم پر انکار کے نتیجے میں عذاب آیا۔ مگر دوسرے تمام پیغمبروں کے معاملے میں جو صورت اختیار کی گئی، وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہوا تو پیغمبر کے ماننے والوں سے کہاگیا کہ تم بستی کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ جب وہ بستی کو چھوڑ کر دور کے علاقہ میں گئے تو مقامی طورپر شدید طوفان یا زلزلہ کے ذریعے منکر قوم کو تباہ کردیا گیا، مگر حضرت نوح کی قوم کے معاملے میں ایک بالکل مختلف طریقہ اختیا رکیا گیا۔

حضرت نوح نے لمبی مدت تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام پہنچایا۔ کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے اور زیادہ تر لوگ منکر بن گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو حکم دیا کہ تم ایک بڑی کشتی بناؤ۔ اس میں اهلِ ایمان کو اور اسی کے ساتھ مویشیوں کے جوڑوں کو سوار کرو۔ جب یہ سب ہوگیا اور لوگ کشتی میں سوار ہوچکے تو بہت بڑا سیلاب آیا۔ پانی زمین سے بھی نکلا اور آسمان سے بھی برسا۔ پانی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ اس کی سطح پہاڑی کی چوٹی تک پہنچ گئی۔

اِسی مختلف انداز کی بنا پر یہ ہوا کہ حضرت نوح کی کشتی بعد کی انسانی نسلوں کے لیے محفوظ رہے۔ اِس کی وجہ سے یہ ہوا کہ کشتی زمین سے اوپر اٹھ کر پہاڑ کی بلندی تک پہنچ گئی۔

کشتی نوح کے بارے میں جو بات قرآن میں کہی گئی ہے، اس کی مزید تفصیل دابہ والی آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ اِس آیت میں یہ الفاظ ہیں: أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82)۔يعني ہم ان کے لئے زمین سے ایک دابّہ (غیر انسانی مخلوق) نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا، کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس كا مطلب يه هے كه دابہ بتائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔

اِس آیت میں آیات) نشانیوں) سے مراد پچھلے ادوار میں اللہ کے پیغمبروں کا ظہور ہے۔ اللہ کا ہر پیغمبر اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہوتا تھا، مگر قدیم زمانے میں پیغمبروں کے معاصرین نے پیغمبروں کا انکار کیا۔ اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِس طرح کیاگیا ہے: مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوابِهِ يَسْتَهْزِءُونَ(36:30)يعني جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔

پیغمبروں کا آیتِ الٰہی ہونا اُن کے مخاطبین کے لیے مجرد ايك نظری شہادت (theoretical evidence) کے ہم معنی ہوتا تھا، اِسی لیے وہ ان کی تکذیب کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ پیغمبر اور پیغمبری کے حق میں ایک مادی شہادت (material evidence)  قائم ہو، اور—کشتی نوح بمعنی دابہ غالباًاِسي قسم کی ایک مادی شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔

موجودہ زمانے میں کشتی نوح ظاہر ہو کر بزبانِ حال یہ کہہ رہی ہے کہ اے انسانو، تم نے پیغمبر نوح اور ان کے خدائی مشن کا انکار کیا۔ تم نے اپنی تاریخ سے اُن کو اِس طرح حذف کیا جیسے کہ کبھی ان کا وجود ہی نہ تھا۔ اب عیاناً وہ تمھارے سامنے اِس طرح ظاہر ہوچکی ہے کہ اس کا انکار تمھارے لیے ممکن نہیں۔ نظری شہادت کا معاملہ اختیاری اعتراف کي حیثیت رکھتاتھا، مگر مادی شہادت کا معاملہ جبری اعتراف کا درجہ رکھتا ہے۔ اب انسان کے لیے اِس بات کا کوئی منطقی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ پیغمبر اور پیغمبرانہ مشن کے معاملے میں انکار کا طریقہ اختیار کرے۔

موجودہ زمانے میں کشتی نوح کا ظہور دین ِ خداوندی کے لیے ایک عظیم تاریخی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ واقعہ تمام تر مسیحی علما اور یہودی علما كي تحقيقات كے ذريعے انسانی علم میںآیا۔ کیوں کہ قرآن کے علاوہ، کشتی نوح کا ذکر بائبل (Old Testament) میں موجود تھا، اِس لیے وہ مسیحی علما اور یہودی علما کا موضوعِ تحقيق بن گیا۔ انھوںنے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس کی تحقیق کی، اور پھر اپنے نتائج ِتحقیق کو شائع کرکے اس کو عام کردیا۔

قرآن اور بائبل كے بيان كا فرق

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اِس معاملے میں بائبل کے بیان اور قرآن کے بیان میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔ بائبل میں کشتی نوح (Noah's Ark) کا ذکر تفصیل سے آیا ہے، مگر ایک بات بائبل میں سرے سے موجود نہیں، اور وہ یہ پیشین گوئی ہے کہ کشتی نوح بعد کے زمانے میں ظاہر ہوگی اور وہ اللہ کی آیت (نشانی) بنے گی۔ کشتی نوح کے اِس پہلو کا ذکر قرآن میں ایک سے زیادہ بار آیا ہے، لیکن بائبل میں وہ سرے سے موجود نہیں۔

یہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ قرآن کے مومنین بعد کے زمانے میں کشتی نوح کو تلاش کریں، اور اس کو دریافت کرکے بعد کے لوگوں کے لیے اس کو حجت بنادیں۔ یہ کام وہ لوگ کرسکتے تھے جن کے اندر سائنسی تحقیق کا ذوق ہو، مگر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ سائنسی تحقیق کے ذوق سے مکمل طورپر خالی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسیحی اور یہودی علما اِس معاملے کی تحقیق نہ کرتے تو شايد تاریخِ نبوت کے اِس معاملے سے انسان ابھی تک بے خبر رہتا۔

کشتی نوح کا ظاہر ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ قیامت سے پہلے قیامت کی آمد کا اعلان ہے۔ یہ اُس تاریخی واقعے کا اعلان ہے کہ خالق نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے اپنی مرضی سے باخبر کیا، مگر انسان نے اِس کو نظر انداز کیا۔ یہ تخلیقِ خداوندی اور تاریخِ انساني کے درمیان فرق کو ختم کرنے کا اعلان ہے جس کو انسان نے قائم کررکھا تھا، یعنی خالق کے مقرر کردہ منصوبه تخلیق کو نظر انداز کرکے زمین پر زندگی گزارنا۔

قیامت كا دن حقيقت كے کلّی ظہور کا دن ہے۔ اِس سے پہلے کشتی نوح (Noa’s Ark)  کا ظہور حقیقت کے جزئی ظہور کا دن هوگا۔ کشتی نوح کا ظہور علامتی طورپر بتائے گا کہ دنیا کے خالق نے انسان کے لیے جو نقشۂ حیات مقرر کیا تھا، اور پیغمبروں کے ذریعے جس کا علم بھیجا تھا، انسان نے اس کو کامل طورپر نظر انداز کیا، حتیٰ کہ اس کو اپنی تاریخ سے حذف کردیا۔ کشتی نوح کا ظہور اِس حذف شدہ تاریخ کو دوبارہ سامنے لانے کے ہم معنی ہوگا۔

یہی وہ وقت ہوگا جب کہ خدا کی محفوظ کتاب قرآن کو تمام انسانوں کے سامنے لایا جائے، کیوں کہ قرآن واحد کتاب ہے جس میں پیغمبروں کی تاریخ اور خدا کے منصوبۂ تخلیق کو واضح طورپر بتایا گیاہے۔ کشتی نوح کا ظہور تاریخِ انسانی کے ایک گم شدہ باب کی دریافت ہوگا، اور قرآن تاریخ کے اِس گم شدہ باب کا مستند بیان (authentic statement)۔

كشتي نوح اور تركي

جيسا كه عرض كيا گيا، حضرت نوح كي كشتي عراق (ميسوپوٹاميا) كے علاقه سے روانه هوئي۔ وه اپنے چاروں طرف مختلف مقامات كي طرف جاسكتي تھي، ليكن اس نے ايك خاص رخ پر اپنا سفر كيا۔ پھر وه چلتي هوئي تركي كے مشرقي سرحد پر واقع ايك پهاڑ كے اوپر ٹھهر گئي۔

ايسا كيوں هوا۔ حضرت نوح كي كشتي كے لئے مختلف آپشن (option) موجود تھے، ليكن اس نے صرف ايك هي آپشن ليا، اور وه تركي كے پهاڑ كا آپشن تھا۔ ايسا بلا شبه خدا كي هدايت پر هوا۔ اِس معاملے كو اتفاقي واقعه كے طورپر نهيں لے سكتے۔ همارے لئے لازم هے كه هم اس كو خالق كے منصوبے كے تحت پيش آنے والا واقعه سمجھيں۔

اس معاملے پر غور كرنے سے معلوم هوتا هے كه حضرت نوح كي كشتي كے ذريعه الله تعاليٰ كو جو رول مطلوب هے، اس رول كے لئے زياده موزوںمقام اپني بعض خصوصيات كي بنا پر، تركي (Turkey) تھا۔الله تعاليٰ كو يه معلوم تھا كه بعد كے زمانے ميں تركي ايك مسلم ملك بنے گا۔ الله تعاليٰ كو معلوم تھا كه تركي ايسا ملك هے، جو مشرقي دنيا اور مغربي دنيا كے درميان جنكشن (junction) كي حيثيت ركھتا هے۔

الله تعاليٰ كو معلوم تھا كه مختلف اسباب سے تركي ميں ساري دنيا كے سياح كثرت سے آئيں گے۔ اسي كے ساتھ الله تعاليٰ كو يه بھي معلوم تھا كه مسلم ملكوں كي لمبي فهرست ميں تركي وه واحد ملك هوگا جو مذهبي كٹرپن  (religious fanaticism) سے خالي هوگا اور اس بنا پر وه سب سے زياده موزوں ملك هوگا جهاں سے كشتي نوح كا مطلوب رول ادا كيا جاسكے۔

يه مطلوب رول كيا هے۔ وه بلا شبه دعوت هے، يعني الله كے تخليقي منصوبه سے تمام مرد اور عورت باخبر هوجائيں۔ اِس مقصد كے لئے كشتي نوح ايك تاريخي شهادت (historical evidence) كي حيثيت ركھتي هے۔ وه اُس خدائي منصوبه كي ايك تاريخي يادگار هے جس كا ظهور حضرت نوح كے ذريعه هوا۔ كشتي نوح براهِ راست طورپر حضرت نوح كي تاريخ كي مادي شهادت هے، اور بالواسطه طورپر تمام نبيوں كي تاريخ كي مادي شهادت۔

الله تعاليٰ كو مطلوب تھاكه قيامت سے پهلے تمام انسانوں كے سامنے اس بات كا محسوس اعلان هوجائے كه انسان كے بارے ميں الله كا منصوبۂ تخليق كيا تھا۔ كشتي نوح اس خدائي منصوبهٔ تخليق (creation plan of God) كي ايك ناقابلِ انكار شهادت هے، اور مختلف اسباب سے اِس شهادت كي ادائيگي كے لئے سب سے زياده موزوں مقام تركي تھا۔

ضرورت هےكه تمام دنيا كے مسلمان عموماً اور تركي كے مسلمان خصوصاً اس خدائي منصوبے كو سمجھيں، اور اس منصوبے كي تكميل كے لئے وه سارا اهتمام كريں، جو اس كے لئے ضروري هو۔ مثال كے طورپر وه كشتي نوح كے مقام كو ايك اعليٰ درجه كے ٹورسٹ اسپاٹ (tourist spot) كے طورپر ڈيولپ (develop) كريں۔ وه وهاں آمد ورفت كي تمام سهولتيں مهيا كريں۔ پھر وهاںاعليٰ معيار پر وه يه انتظام كريں كه وهاں تربيت يافته افراد موجود هوں، لائبريري موجود هو۔ وهاں قرآن كا ترجمه مختلف زبانوں ميں برائے ڈسٹري بيوشن يا برائے فروخت موجود هو۔ وهاں اِس بات كا اعليٰ انتظام كيا جائے كه كشتي نوح كے حوالے سے پيغمبرانه مشن لوگوں كے سامنے اطمينان بخش صورت ميں آسكے۔ گويا كه كشتي نوح كے ظهور كا يه مقام صرف ايك كشتي كے ظهور كا مقام نه رهے، بلكه وه پورے معنوں ميں جديد ترين معيار كا ايك دعوتي سنٹر بن جائے۔

خدا كے تخليقي منصوبے كے مطابق، هماري زمين كے لئے دو سيلاب مقدر تھے —— ايك، حضرت نوح كے زمانے كا سيلاب اور دوسرا، وه جو تاريخ بشري كے خاتمے پر پيش آئے گا۔ كشتي نوح پهلے سيلاب كے لئے تاريخي يادگار كي حيثيت ركھتي هے، اور دوسرے سيلاب كے لئے اس كي حيثيت تاريخي ريمائنڈر (historical reminder) كي هے۔

اكيسويں صدي عيسوي كے ربعِ اول ميں كشتي نوح (دابه) كا ظهور گويا اِس بات كي وارننگ هے كه لوگو، تياري كرو، كيوں كه آخري طوفان كا وقت قريب آگيا هے۔

خوش قسمت هيں وه لوگ جو اِس خدائي منصوبے كو سمجھيں، اوراس كي تكميل كركے الله كے يهاں اجرِ عظيم كے مستحق بنيں۔ حقيقت يه هے كه هزاروں سال تك برف كے تودے ميں دبے رهنے كے بعد كشتي نوح كا ظاهر هونا صورِ اسرافيل سے پهلے كے دور كا سب سے بڑا واقعه هے۔ اِس كے بعد اگلا واقعه صرف صورِ اسرافيل هوگا جو گويا، اِس بات كا آخري اعلان هوگا كه عمل كرنے كا وقت ختم هوچكا، اور عمل كا انجام پانے كا دور آگيا۔

عالمي دعوت كي پيشين گوئي

ايك روايت كےمطابق، پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم نے كهالايبقى على ظهر الأرض بيت مدر ولا وبرإلا أدخله الله كلمةَ الإسلام، بعزّ عزيز أو ذلّ ذليل (مسند احمد، حدیث نمبر24215) يعني زمين كے اوپر كوئي گھر يا خيمه نهيں بچے گا، مگر الله وهاں اسلام كا كلمه داخل كردے گا، عزت والے كو عزت كے ساتھ اور ذلت والے كو ذلت كے ساتھ

The day will come when the word of God will enter in every home, big or small of the globe, willingly or unwillingly.

اِس حديث ميںيه پيشين گوئي كي گئي هے كه مستقبل ميں ايك ايسا وقت آئے گا جب كه يه ممكن هوجائے كه خدا كا كلمه (word of God) زمين پر بسنے والے تمام انسانوں تك پهنچ جائے۔ عالمي دعوت كا يه واقعه كوئي پُراسرار واقعه نهيں هے۔ فطرت كے قانون كے مطابق، يه واقعه انسانوں كے ذريعه معروف وسائل كے تحت انجام پائے گا، نه كه فرشتوں كے ذريعے يا كسي طلسماتي طريقے كے ذريعے۔

الله كو جب كوئي كام مطلوب هوتا هے، تو اُس كي طرف سے موافق حالات فراهم كئے جاتے هيں، مگر كوئي اعلان نهيں كيا جاتا ۔ يه انسان كي ذمے داري هوتي هے كه وه اپني عقل كو استعمال كركے فطرت كے اشارے كو سمجھے، اور اس كو مطلوب مقصد كے ليے استعمال كرے۔ اس كي ايك مثال بارش كا معامله هے۔ بارش الله كي طرف سے هوتي هے، ليكن يه كسان كا كام هے كه وه بارش كے خاموش پيغام كو سنے،اور اس كو زراعت كے ليے استعمال كرے۔

يهي معامله دعوت كا هے۔ موجوده زمانه بالكل نيا زمانه هے۔ اِس زمانے ميں بهت سي ايسي چيزيں وجود ميں آئي هيں جو انتهائي حد تك دعوت الي الله كے ليے موافق هيں۔ مثلاً مذهبي آزادي، پرنٹنگ پريس، سياحت اور دوسرے مقاصد كے تحت انسانوں كي عالمي نقل وحمل، جديد كميونكيشن، پرنٹ ميڈيا اور الكٹرانك ميڈيا كے ذرائع، اسفار كي سهولتيں، وغيره۔

اِس قسم كے واقعات خاموش زبان ميں اعلان كررهے هيں كه الله كے ماننے والو، اٹھو، حديث ميں جس عالمي دعوت كي پيشين گوئي كي گئي تھي، اس كے مواقع آخري حد تك كھل چكے هيں۔ اِن مواقع كو استعمال كرو۔ اِن مواقع كو استعمال كرتے هوئے الله كے پيغام كو تمام انسانوں تك پهنچادو، تاكه زمين پر بسنے والا كوئي بھي مرد يا عورت الله كے تخليقي منصوبه (creation plan) سے بے خبر نه رهے۔

قديم زمانے ميں كوئي بڑا كام حكومت كي حمايت كے بغير نهيں هوسكتا تھا، كيوں كه تمام مواقع حكومت كے قبضے ميں هوتے تھے۔ موجوده زمانے ميں يه هوا هے كه مواقع (opportunities) كو سياسي اقتدار سے الگ كردياگيا هے۔

قديم زمانه اگر حكومت كا زمانه تھا تو موجوده زمانه اداروں (institutions) اور آرگنائزيشن (organizations) كا زمانه هے۔ اب اداروں اور تنظيموں كے ذريعے زياده بڑے پيمانے پر وه سب كيا جاسكتا هے جو حكومت كے ذريعےصرف جزئي طورپر متوقّع هوتا تھا۔ اِسي طرح آج يه ممكن هوگيا هے كه قديم پاليٹكل ايمپائر سے بھي زياده بڑے پيمانے پر دعوه ايمپائر قائم كياجائے۔قديم حالات ميں پالٹكل ايمپائر صرف محدود جغرافي علاقه ميں قائم هوسكتا تھا۔ جديد حالات ميں اي ايمپائر (e-empire) كسي ركاوٹ كے بغير پورے كره ارض كي سطح پر قائم كيا جاسكتا هے۔ يه عالمي امكانات بلاشبه صرف دعوت الي الله كے ليے پيدا كيےگئے هيں۔

امتِ محمدی کا مشن

امتِ محمدی کا مشن کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے — پیغام محمدی کو ہر زمانہ میں اور ہرقوم میں پہنچاتے رہنا۔ نسل درنسل اس کو جاری رکھنا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔یہی امتِ محمدی کا واحد مشن ہے۔ یہی امت محمدی کا اصل فریضہ ہے۔ امتِ محمدی کی دنیا وآخرت کی سعادت اسی دعوتي مشن کی انجام دہی پر منحصر ہے۔اِس کے سوا کوئی اور کام ان کو فلاح و سعادت سے ہم کنار کرنے والا نہیں، نہ موجودہ دنیا میں اور نہ آخرت کی دنیا میں۔

حضرت نوح كي اهميت

قرآن ميں بتايا گيا هے كه الله تعاليٰ نے حضرت نوح كي كشتي كو آيت (sign) كا درجه دے ديا: وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ(54:15) يعني هم نے كشتي كو ايك نشاني كے طورپر باقي ركھا، تو كيا هے كوئي نصيحت لينے والا۔

اِس تذكيري مقصد كے اعتبار سے حضرت نوح كا انتخاب سب سے زياده موزوں انتخاب هے۔ حضرت نوح قبل ازتاريخ دور ميں پيدا هوئے، اِس لئے هزاروں سال تك يه سمجھا جاتا رها كه خالص تاريخي اعتبار سے حضرت نوح كاكوئي وجود نهيں۔

ايسي حالت ميں بائبل اور قرآن ميں حضرت نوح اور ان كي كشتي كا ذكر كوئي ساده بات نه تھي۔ اِس كي حيثيت نامعلوم تاريخ كے بارے ميں ايك پيشين گوئي (prediction) كي تھي۔

اِس اعتبار سے ديكھئے تو كشتي اور طوفانِ نوح كا بطور ايك تاريخي واقعه دريافت هونا بے حد اهم هے۔ وه ثابت كرتا هے كه انساني زندگي كي نوعيت كے بارے ميں قرآن كا بيان بالكل درست هے۔ پيغمبروں نے جس آخرت اور اس كے محاسبه كي خبر دي تھي، وه بالكل صحيح خبر تھي۔ دابه كا ظهور گويا اِسي حقيقت كا ايك خاموش اعلان هے۔

اب آخري وقت آگيا هے كه انسان بيدار هو۔ وه دابه كي خاموش آواز كو سنے، وه قرآن كا دوباره مطالعه كرے۔ وه خدا كے تخليقي نقشه(creation plan of God) كو سامنے ركھ كر اپنے عمل كي منصوبه بندي كرے۔ شواهد بتاتے هيں كه انساني تاريخ بظاهر اپنے خاتمه كے دور ميں پهنچ چكي هے۔

اب اپني اصلاح كے ليے انسان كے پاس بهت كم وقت باقي ره گيا هے۔ لوگوں كے ليے فرض كے درجے ميں ضروري هوگيا هے كه وه اُس وقت كي تياري كريں جس كے ليے قرآن ميں يه الفاظ آئے هيں: فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ(7:34)يعني جب اُن كا وقت آجائے گا تو وه نه ايك گھڑي پيچھے هٹ سكيں گے اور نه آگے بڑھ سكيں گے۔

آخرت كا اعلان

خدا نے موجوده زمين (planet earth)  كو انسان كے عارضي قيام كے لئے بنايا هے۔ اس كي ايك مدت مقرر هے۔زمين كا لائف سپورٹ سسٹم (life support system) بھي اِسي محدود مدت كے اعتبار سے بنايا گياهے۔

 خدا كے علم كے مطابق، جب يه محدود مدت پوري هوگي، تو اس كے فوراً بعد صور پھونك ديا جائے گاجو اِس بات كا اعلان هوگا كه انساني تاريخ كا پهلا دور ختم هوچكا، اب وه وقت آگيا هے، جب كه انسان كے لئے دوسرے دورِ تاريخ كا آغاز كرديا جائے۔

 منصوبه خداوندي كے مطابق، اس كے بعد اِس دنيا كو توڑ كر ايك اور زياده بهتر دنيا بنائي جائے گي۔ اِس دوسري دنيا ميں صرف وه لوگ جگه پائيں گے جو موجوده دنيا ميں اپنے آپ كو اس كا مستحق اميدوار (deserving candidate) ثابت كرچكے ـتھے۔

خدا كو يه مطلوب هے كه صور پھونكے جانے سے پهلے كچھ ايسي نشانياں ظاهر هوں، جو پيشگي طور پر انسان كو يه خبر ديں كه موجوده دنيا ختم هونے والي هے، اور دوسري دنيا شروع هونے والي هے۔ تم اپني غلطيوں كي اصلاح كرلو، اور اگلي دنيا ميں داخل هونے كے لئے تيار هوجاؤ۔

اس مقصد كے لئے خدا نے پيشگي طورپر الارم (alarm) دينے كا جو انتظام كيا هے، اس كو ويك اَپ كال (wake-up call) كهه سكتے هيں۔اِس الارم يا ويك اَپ كال كي دو خاص نشانياں هيں —  ايك، فطرت ميں ، اور دوسري تاريخ ميں۔ حالات بتاتے هيں كه دونوں قسم كے الارم بج چكے۔ اگرچه اس كو سننا صرف اُن لوگوں كے لئے ممكن هے جو خاموش آواز كو سننے كي صلاحيت ركھتے هوں۔

فطرت كے الارم كي ايك نماياں مثال يه هے كه هماري زمين ميں زندگي كے جو وسائل (resources) ركھے گئے تھے، وه نهايت تيزي سے ختم هورهے هيں۔ يه كهنا صحيح هوگا كه يه وسائل اب بظاهر خاتمه كي آخري حد پر پهنچ چكے هيں۔ يه بات قرآن ميں پيشگي طور پربتادي گئي تھي كه دنيا ميں جو وسائلِ حيات هيں، وه محدود هيں، نه كه لامحدود (الحجر،15:21)۔

موجوده زمانے ميں جس طرح هر چيز تحقيق (research) كاموضوع بني هوئي هے، اسي طرح فطرت كے وسائل (natural resources) پر بھي بڑے پيمانے پر ريسرچ هورهي هے۔ اس سلسلے ميں كافي ميٹريل چھپ كر سامنے آچكا هے۔ يهاں هم اِس نوعيت كي چند كتابوں كا حواله درج كرتے هيں:

1.     The Limits to Growth by Donella H. Meadows, Dennis L. Meadows, Jorgen Randers Universe Books, 1972, pp. 205, Printed in the USA

2.     The End of Nature by Bill Mc Kibben, Anchor, 1989, pp. 195, printed in the USA

3.     Beyond the Limits Donella Meadows, Dennis Meadows, Jorrgen Randers, Chelsea Green, 1992, Pages 320, Printed in the USA

مذكوره بالا كتابيں اوراس طرح كي دوسري كتابيں بتاتي هيںكه فطرت (nature) كے وسائل ابتدا هي سے محدود هيں۔ انسان نے، خاص طورپر موجوده ترقي كے زمانے ميں، ان وسائل كا لامحدود استعمال كيا، جس كا تحمل هماري محدود دنيا نهيں كرسكتي تھي۔ اب يه وسائل اتنا زياده كم هوچكے هيں كه هر طرف سسٹينيبل ڈيولپمينٹ (sustainable development) كي باتيں هو رهي هيں۔ مگر حقيقت يه هے كه يه سسٹينيبل ڈولپمنٹ كا معامله نهيں هے، بلكه يه وسائل كے خاتمه كا معامله هے۔

 وسائل كا يه خاتمه اتنا زياده حتمي بن چكا هے كه بعض سائنس دانوں مثلاً اسٹيفن هاكنگ (Stephen Hawking)  نے يه تجويز كياهے كه انساني نسل كو اگر باقي ركھنا هے تو هم كو خلائي بستياں (space colonies) بنانا چاهيے۔ مگر ظاهر هے كه يه صرف ايك سائنٹفك جوك (scientific joke)  هے، نه كه حقيقي معنوں ميں كوئي قابلِ عمل تجويز۔

قيامت كے الارم كا دوسرا پهلو وه هے جس كو تاريخي پهلو كها جاسكتا هے۔ اس تاريخي پهلو كي غالباً سب سے زياده نماياں مثال نوح كي كشتي (Ark of Noah) كا ظهور هے۔ كشتئ نوح كے ظهور كا معامله كوئي ساده معامله نهيں هے۔ وه تاريخي شهادت (historical evidence) كي زبان ميں پيغمبرانه مشن كا ايك علامتي بيان هے۔

كشتي نوح يا دابّه گويا زبانِ حال سے يه كهه رهے هيں كه حضرت نوح اور اسي طرح خداكے دوسرے بهت سے پيغمبر دنيا ميں آئے، ليكن انسان نے ان كو اتنا زياده نظر انداز كيا كه اپني مدوّن تاريخ (recoded history) ميں ان كا اندراج تك نهيں كيا۔

يه كشتي نوح يا دابّه اُس تاريخ كو بيان كررهے هيں، جب كه پيغمبر نے اپنے زمانے كے انسانوں كو آگاه كيا كه اگر انھوں نے پيغمبر كي بات نهيں ماني تو وه خدا كي پكڑ ميں آجائيں گے، اور اب يه واقعه عملاً پيش آگيا۔حقيقت يه هےكه كشتي نوح يا دابّه خدا كے تخليقي منصوبه (creation plan)  كا علامتي اظهار هيں۔ وه خداكے تخليقي منصوبے كے بارے ميں ايك زنده شهادت (living evidence) كي حيثيت ركھتے هيں۔

محاسبهٴ آخرت كا اعلان

قرآن ساتويں صدي عيسوي كے رُبع اول ميں اترا۔ اُس وقت كشتي نوح كا ماضي بھي لامعلوم تھا، اور اس كا مستقبل بھي لامعلوم۔ نزولِ قرآن كي هزار سال سے بھي زياده مدت گزرنے كے بعد كشتي نوح كے ماضي كے بارے ميں قرآن كا بيان كامل طورپر درست ثابت هوا۔

 اِسي طرح يقيني هے كه كشتي نوح كے مستقبل كے بارے ميں قرآن كا بيان كامل طورپر درست ثابت هوگا۔ ماضي كے بارے ميں قرآن كے بيان كا درست ثابت هونا اپنے آپ ميں اِس بات كا ثبوت هے كه مستقبل كے بارےميں بھي اُس كا بيان درست ثابت هو۔ ايك پهلو سے قرآن كي اعتباريت (credibility) ثابت هونے كے بعد دوسرے پهلو سے قرآن كي اعتباريت اپنے آپ درست ثابت هوجاتي هے۔

حقيقت يه هے كه كشتي نوح كا ظهور علامتي طورپر ايك پوري تاريخ كا ظهور هے، يه خدا كے تخليقي منصوبه اور اس كے مطابق پيغمبرانه مشن كي صداقت كا مستند اعلان هے۔ كشتئ نوح كا ظهور انسان كو يه پيغام ديتا هے —  اے لوگو، محاسبه كا وقت بهت قريب آچكا۔ خدا كے سامنے پيش هونے كي تياري كرو، اِس سے پهلے كه تم كو خدا كے سامنے جواب دهي كے ليے كھڑا كرديا جائے۔

كشتي نوح كا ظهور ساده طورپر صرف آركيالوجي (archaeology) كا ايك آئٹم نهيں هے، وه خدا كے تخليقي پلان كا ايك ناگزير حصه هے۔ كشتي نوح علامتي طورپر بتاتي هے كه پيدا كرنے والے نے انسان كو كس مقصد كے تحت پيدا كيا هے، اور اِس مقصد كے تحت آخر كار اس كے مستقبل كے بارے ميں كيا فيصله هونے والا هے۔

خلاصهٴ كلام

انسان كي تاريخ حضرت آدم سے شروع هوتي هے۔ اِس كے بعد ايك لمبا دور هے، جب كه خدا كے منتخب بندے اٹھے۔ انھوں نے پيغمبر كي حيثيت سے لوگوں كو بتايا كه تخليق كے بارے ميں خالق كا نقشه كيا هے۔ انسان كا خالق انسان سے كيا چاهتا هے، اورآخر كار انسان كا انجام كيا هونے والا هے۔ دعوت يا اعلان كا يه كام لمبي مدت تك جاري رها۔

اِس كے بعد دوسرا دور وه هے جس كو انتباه (alarm) كا دوركها جاسكتا هے، يعني آنے والے وقت سے  پيشگي طورپر لوگوں كو باخبر كرنا۔ انتباه كا يه كام كشتي نوح كے ظهور ِ ثاني يا دابه كے حوالے سے انجام پانا تھا۔ بظاهر انتباه كا يه كام هوچكا، اور اب وه وقت زياده دور نهيں جب كه قبل از قيامت دور ختم هو اور انساني تاريخ اپنے خاتمه (end) تك پهنچ جائے۔

اِس كے بعد تيسرا دور شروع هوگا ،جس كا آغاز صورِ اسرافيل سے هوگا۔ اسلامي عقيدے كي رُو سے جب وه وقت آجائے گا كه الله كے علم كے مطابق، عمل كي مهلت ختم هو گئي، اور انجام كا دور آگيا، اُس وقت فرشته اسرافيل صور پھونكے گا، اور پھر اچانك انساني زندگي كا آخري اور ابدي دور شروع هوجائے گا، جس كي خبر تمام پيغمبروں نے دي تھي۔

 

ختم ِ نبوت

ختم ِ نبوت كے بعد امتِ محمدي مقام ِ نبوت پر هے۔ يعني اس كو وهي كام انجام دينا هے جو پيغمبر نے اپنے زمانه ميں      انجام ديا تھا۔ اس سے معلوم هوا كه خود پيغمبر كي طرح، امتِ محمدي كا امتِ محمدي هونا تمام تر اس پر موقوف هے كه وه پيغمبر كي نيابت ميں      تبليغ ما انزل الله كا كام كرے۔ وه هر زمانه كے انسانوں      تك خدا كے دين كو اس كي بے آميز صورت ميں      پهنچاتي رهے۔

 

ختم ِ نبوت

اسلامی عقیدے کے مطابق، پیغمبروں      کی آمد کا سلسلہ اُسی وقت سے شروع ہوگیا، جب کہ انسان کو پیدا کرکے اس کو موجودہ زمین پر آباد کیا گیا ہے۔ آدم، پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی (سوره آل عمران، 3:33)۔ اِس کے بعد ہر دور اور ہر نسل میں      مسلسل طورپر پیغمبر آتے رہے، اور لوگوں      کو خدا کا پیغام دیتے رہے(المومنون،23:44)۔ساتویں      صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں      قدیم مکہ میں      پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ آپ پر خدا نے اپنی کتاب قرآن اتاری۔ اِس کتاب میں      یہ اعلان کردیاگیا کہ محمد، اللہ کے رسول ہیں     ، اور اِسی کے ساتھ وہ نبیوں      کے خاتَم (الاحزاب، 33:40) کی حیثیت رکھتے ہیں     ۔خاتم، یاسیل (seal)  کے معنیٰ کسی چیز کو آخری طورپر مہر بند کرنے کے ہیں     ، یعنی اس کا ایسا خاتمہ جس کے بعد اس میں      کسی اور چیز کا اضافہ ممکن نہ ہو :

Seal: To close completely

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ختمِ نبوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایالا نبيّ بعدي (صحیح البخاري، حدیث نمبر 3455 )۔ یعنی میرے بعد کوئی اور نبی نہیں     ۔

ختم نبوت کا مطلب ختم ضرورتِ نبوت ہے۔ محمد ِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ اِس لیے ختم کردیا گیا کہ اس کے بعد نئے نبی کی آمد کی ضرورت باقی نہ رہی۔ جیسا کہ معلوم ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے ساتھ استثنائی طورپر ایسا ہوا کہ وہ کامل طورپر محفوظ ہوگیا، اور جب دینِ خداوندی محفوظ ہوجائے، تو اس کے بعد یہی محفوظ دین، ہدایت حاصل کرنے کا مستند ذریعہ بن جاتا ہے۔ خدا کی ہدایت کو جاننے کے لیے اصل ضرورت محفوظ دین کی ہے، نہ کہ پیغمبر کی۔قرآن کی ایک آیت میں      اِس حقیقت کو واضح طور پر بیان کردیاگیا ہے۔

قرآن کی سورہ المائدہ میں     ایک آیت ہے، جس کے بارے میں      روایات میں     آیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی، جب كه آپ میدان عرفات میں      اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس آیت کا ایک جزء یہ ہے: ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًۭا (5:3)۔ یعنی آج میں      نے تمہارے لئے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔

امت محمدی پر جو قرآن نازل ہونا شروع ہوا تھا یہ اس کے پورے ہونے کا اعلان ہے۔ ایک قول کے مطابق، یہ آیت قرآن کی سب سے آخر میں      نازل ہونے والی آیت ہے۔قرآن کی اِس آیت کے تین جُز ہیں     

1۔  آج میں      نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا۔یعنی تم کو جو احکام دیے جانے تھے، وہ سب دے دیے گئے۔ تمہارے لیے جو کچھ بھیجنا مقدر کیا گیا، وہ سب بھیجا جا چکا۔

2۔  میں      نے تمھارے اوپر اپنی نعمت کو پورا کردیا، یعنی قرآن کے گرد، اصحابِ رسول کی ایک مضبوط ٹیم جمع ہوگئی، جو قرآن کی حفاظت کی ضامن ہے۔

3۔   اور میں      نے اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لیے پسند کرلیا، یعنی اب اسلام کو ہمیشہ کے لیے مستند دین ِ خداوندی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔

قرآن میں      پچیس پیغمبروں      کا ذکر ہے۔ حدیث کے مطابق، قدیم زمانے میں      جو پیغمبر دنیا میں      آئے، ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7871)۔مگر ان پیغمبروں      پر بہت کم لوگ ایمان لائے۔ اِس بنا پر اِن پیغمبروں      کے ساتھ کوئی مضبوط ٹیم نہ بن سکی، جو اُن کے بعداُن کی لائی ہوئی کتاب کی ضامن بنے۔ چنانچہ پچھلے پیغمبروں      کی لائی ہوئی کتابیں      اور ان کے صحیفے محفوظ نہ رہ سکے۔

پیغمبر آخر الزماں      محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کا معاملہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ آپ 570  عیسوی میں     عرب کے شہر مکہ میں      پیدا ہوئے۔ اُس وقت یہاں      جو لوگ (بنواسماعیل) آباد تھے، ان کی پرورش تمدن سے دور صحرائی ماحول میں      ہوئی۔ اِس بنا پر وہ اپنی اصل فطرت پر قائم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو استثنائی طورپر ساتھ دینے والوں      کی بڑی تعداد حاصل ہوگئی۔ بائبل میں     اِس استثنائی واقعے کو بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں      بیان کیاگیا ہے— وہ دس ہزار قُدسیوں      کے ساتھ آیا

He came with ten thousand of saints (Deuteronomy 33:2)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی صدی ہجری میں      مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا۔ ہجرت (622ء) کے آٹھویں      سال آپ فاتحانہ طور پر دوبارہ مکہ میں      داخل ہوئے، تو اُس وقت آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ موجود تھے۔ اِس کے بعد اپنی وفات سے تقریباً ڈھائی مہینے پہلے جب آپ نے آخری حج ادا کیا اور عرفات کے میدان میں      اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا، اُس وقت آپ کے اصحاب کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اِس کے بعد 632 عیسوی میں      جب مدینہ میں     آپ کی وفات ہوئی، اُس وقت عرب کے تقریباً تمام لوگ اسلام میں      داخل ہوچکے تھے، اور آپ کے اصحاب کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استثنائی طورپر یہ معاملہ ہوا کہ آپ کواتنی بڑی تعداد میں      قابلِ اعتماد رفقا حاصل ہوگئے۔ یہ ایک انتہائی طاقت ور ٹیم تھی۔ مورخین کی شہادت کے مطابق، اِس ٹیم کا ہر فرد ایک ہیرو (hero) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت عرب کے باہر دو بڑے ایمپائر موجود تھے— بازنطینی ایمپائر، اور ساسانی ایمپائر (Byzantine Empire & Sassanid Empire)۔ یہ دونوں      ایمپائر اسلامی مملکت کے خلاف ہوگئے۔ اِس طرح دونوں      کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ اسلام کو جیت ہوئی، اور دونوں      ایمپائر ٹوٹ کر ختم ہوگئے۔ یہی وہ عظیم واقعہ ہے جس کو بائبل میں      بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں      بیان کیاگیا ہے— ازلی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے:

And the everlasting mountains were scattered (Habakkuk 3:6)

اِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت جلد بعد ایک عظیم مسلم سلطنت بن گئی ،جو اسلام کی پشت پر ایک مضبوط سیاسی طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اصحابِ رسول اور اہلِ اسلام کا یہ سیاسی غلبہ تاریخ کا ایک استثنائی واقعہ تھا۔ مؤرخین نے عام طورپر اِس کا اعتراف کیا ہے۔ انڈیا کے ایک مورخ ایم این رائے (وفات1954 ) کی ایک کتاب (The Historical Role of Islam)   پہلی بار1937  میں      دہلی سے شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں     انھوں     نے اسلامی انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے اُس کو تمام معجزات میں      سب سے بڑا معجزہ قرار دیاہے

The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (The Historical Role of Islam, Bombay, 1938, p. 5)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب، قرآن کی حفاظت کے کام میں      مسلسل طورپر مشغول ہوگئے۔ قرآن کو یاد کرنا، قرآن کو لکھنا، قرآن کا چرچا کرنا، یہی اُن کا سب سے بڑا مشغلہ بن گیا۔ اِس طرح، اصحابِ رسول کی جماعت گویا کہ ایک زندہ کتب خانہ بن گئی۔ پھر جب مسلم سلطنت قائم ہوئی، تو حفاظتِ قرآن کی مہم کو ایک سیاسی طاقت کی تائید بھی حاصل ہوگئی۔ حفاظتِ قرآن کا یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک غیر منقطع طورپر چلتا رہا۔ یہ کسی کتاب کی حفاظت کا ایک استثنائی معاملہ تھا، جو قدیم زمانے میں      کسی بھی کتاب کے ساتھ پیش نہیں      آیا، نہ کوئی دنیوی کتاب اور نہ کوئی دینی کتاب۔

حفاظتِ قرآن

پچھلے زمانے میں      انسانوں      کی رہنمائی کے لیے جو پیغمبر آئے، وہ سب اپنے ساتھ خدا کی کتاب اور صحیفے لائے۔ مگر یہ کتابیں      اور صحیفے بعد کو محفوظ نہ رہ سکے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بھی پیغمبر کے گرد اُس کے ساتھیوں      کی کوئی مضبوط ٹیم اکٹھانہ ہوسکی۔ پیغمبرِ اسلام کے ساتھ استثنائی طورپر ایسا ہوا کہ آپ کو اپنے پیروؤں      (followers)کی ایک مضبوط ٹیم حاصل ہوگئی۔یہ ٹیم قرآن کی حفاظت کی ضامن بن گئی۔

ایک مستشرق (orientalist) نے اِس معاملے کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی وفات کے فوراً بعد آپ کے اصحاب، حفاظتِ قرآن کے لیے سرگرم ہوگئے۔ انھوں     نے اِس مقصد کے لیے تاریخ میں      پہلی بار ڈبل چیکنگ سسٹم (double checking system) کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ ایک ایسا طریقہ تھا جس کے بعد قرآن کی حفاظت میں      کسی قسم کا احتمال سرے سے باقی نہیں      رہتا۔

632 عیسوی میں      مدینہ میں      پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اُس وقت ہزاروں      کی تعداد میں     ایسے اصحابِ رسول موجود تھے، جن کو پورا قرآن بخوبی طورپر یاد تھا۔ نیز یہ کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ اترتا توآپ اُسی وقت اُس کو قدیم طرز کے کاغذ (قرطاس) پر لکھوا دیتے۔ مگر یہ سب ایک جگہ اکٹھا کتابی صورت میں      نہ تھے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر کے زمانے میں     یہ کیا گیا کہ زید بن ثابت الانصاری (وفات 665 ء) کی قیادت میں      ایک ٹیم بنائی گئی۔ اِس ٹیم نے قرآن کی تمام تحریروں      کو اکھٹا کیا۔ اِس کے بعد انھوں      نے یہ کیا کہ قرآن کے تحریری ذخیرے کا تقابل حافظے سے کیا، اور حافظے کا تقابل تحریری ذخیروں      سے کیا۔ اِس ڈبل چیکنگ کے بعد انھوں      نے قرآن کا ایک مستند نسخہ (authentic copy)لکھ کر تیار کیا۔ یہ نسخہ چوکور صورت میں      تھا، اِس لیے اُس کو رَبعہ (square) کہاجاتاتھا۔ یہ رَبعہ، قرآن کا مستند نسخہ قرار پایا۔لوگوں      نے اِس نسخے کی مزید نقلیں      تیار کیں     ۔ اِس طرح وہ مسلم دنیا میں      ہر طرف پھیل گیا۔)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب:عظمتِ قرآن(

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام مسلسل طورپر ایک زندہ موضوع بن گیا۔ اہلِ اسلام، ایشیا اور افریقہ کے درمیان ایک بڑے رقبے میں      ہر جگہ پھیل گئے ۔

اِن لوگوں      کی تقریر اور تحریر کا موضوع اسلام تھا۔ قرآن کی کتابت، قرآن کی تفسیر، حدیث کی تدوین، حدیث کی شرح، پیغمبر اسلام کی سیرت، اصحابِ رسول کے حالات، اسلام کی تاریخ، فقہ کی ترتیب وتدوین، وغیرہ۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد سیکڑوں      سال تک یہ موضوعات لاکھوں      اہلِ اسلام کے درمیان تقریر اور تحریر کاموضوع بنے رہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام قرآن ہی کے ذریعے کیا جاتا تھا، اِس لیے دعوت و تبلیغ کے دوران بھی مسلسل طورپر قرآن کو پڑھنے اور سنانے کا عمل جاری رہا۔ یہ ایک ڈبل حفاظت کا معاملہ تھا۔ اِس عمل کے دوران ایک طرف، قرآن اور حدیث کی حفاظت ہوئی اور اسی کے ساتھ عربی زبان ایک زندہ اور محفوظ زبان بنتی چلی گئی۔

یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں      تک کہ اٹھارھویں      صدی عیسوی میں     پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ فرانس کا حکمراں      نپولین (وفات 1821ء) 1798ء میں      مصر میں      داخل ہوا۔ وہ اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس بھی لے آیا۔ اِس سے پہلے کاغذ سازی کی صنعت 751 عیسوی میں      سمرقند میں      آچکی تھی۔ اِس طرح، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً ایک ہزار سال بعد قرآن اور علوم قرآن کی حفاظت پرنٹنگ پریس کے دور میں      داخل ہوگئی۔ اب قرآن کے مطبوعہ نسخے دستیاب ہونے لگے۔ دورِ طباعت میں      داخل ہونے کے بعد قرآن آخری طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا۔ اِس کے بعد قرآن میں      کسی بھی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان باقی نہیں      رہا۔

ختمِ نبوت کے حق میں      یہی سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد استثنائی طورپر ایسے اسباب پیدا ہوئے، جو خدا کی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یقینی تدبیر کی حیثیت رکھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تدبیر اپنے آخری انجام تک پہنچ گئی، یعنی قرآن کامل طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا، اور جب خدا کی ہدایت کتاب کی صورت میں      محفوظ ہوجائے تو ایسی کتاب پیغمبر کا بدل بن جاتی ہے۔ اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی آمد کی ضرورت باقی نہیں      رہتی۔

رسول کی بعثت کا مقصد

ایک روایت کے مطابق، دنیا میں     ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ167)۔ اِن تمام پیغمبروں      کا مقصد صرف ایک تھا— انسان کو خدا کے تخلیقی پلان(creation plan of God)  سے آگاہ کرنا۔ تمام پیغمبروں      نے مشترک طورپر یہی ایک کام کیا۔ انھوں      نے بتایا کہ خدا نے کیوں      انسان کو پیدا کیا ہے۔ اِس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات (pre-death period) میں      انسان سے کیا مطلوب ہے، اور موت کے بعد کے دورِ حیات(post-death period) میں     اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اِسی کو قرآن میں      اِنذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ یہی انذار اور تبشیر تمام پیغمبروں      کا مشترک مشن تھا (الانعام،6:48)۔ اِس کے سوا کوئی چیز اگر کسی پیغمبر کی زندگی میں     نظر آتی ہے، تو وہ اس کی زندگی کا ایک اضافی پہلو (relative part)  ہے، نہ کہ حقیقی پہلو(real part)۔

موجودہ دنیا میں      انسان کی دو ضرورتیں      ہیں     ۔ ایک ہے اس کی مادّی ضرورت، جس کی تکمیل فزیکل سائنس (physical science) کے ذریعے ہوتی ہے۔ انسان کی دوسری ضرورت یہ ہے کہ اُس کے پاس وہ خدائی ہدایت(divine guidance) موجود ہو، جس کی اتباع کرکے وہ آخرت میں     کامیاب زندگی حاصل کرے۔ اِس دوسری ضرورت کی تکمیل پیغمبرانہ الہام سے ہوتی ہے۔ تقریبِ فہم کے لیے اس کو ہم ریلجس سائنس (religious science) کہہ سکتے ہیں     ۔

فزیکل سائنس میں      آخری سائنٹسٹ (final scientist) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant)  لفظ ہے۔ فزیکل سائنس میں      مسلسل طورپر ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اِس لیے اِس میدان میں      کوئی سائنٹسٹ آخری سائنٹسٹ نہیں     ہوسکتا۔ اِس کے برعکس، ریلجس سائنس ایک ہی خدائی ہدایت (divine guidance) پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ خدائی ہدایت غیر متغیر طورپر ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔ اِس لیے ریلجس سائنس میں     یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ کوئی آخری پیغمبر (final prophet) ہو،جو انسان کو خداکا آخری کلام(final word)   دے دے، اور انسانیت کا قافلہ اس کی رہ نمائی میں      بھٹکے بغیر مسلسل طورپر اپنے سفرِ حیات کو جاری رکھے۔

خدا کی طرف سے آنے والا ہر پیغمبر ایک ہی ابدی ہدایت لے کر لوگوں      کے پاس آیا۔ لیکن بشری تقاضے کے تحت جب پیغمبر کی وفات ہوئی، تو اس کے بعد اس کی لائی ہوئی خدائی ہدایت محفوظ نہ رہ سکی۔ اِس لیے بار بار یہ ضرورت پیش آئی کہ نیا پیغمبر آئے، او روہ انسان کو دوبارہ مستند ہدایت عطا کرے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی لائی ہوئی خدائی ہدایت، قرآن اور سنت کی شکل میں      کامل طورپر محفوظ ہوگئی، اِس لیے آپ کے بعد کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔

پیغمبر کا آنا ایک بے حد سنگین معاملہ ہوتا ہے۔ جب ایک زندہ پیغمبر موجود ہو تو اُس وقت انسان کے لیے ایک ہی انتخاب (option)  باقی رہتاہے، یہ کہ وہ پیغمبر کا اقرار کرے۔ اقرار نہ کرنے کی صورت میں      پیغمبر کے معاصرین کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اِس لیے خدا کی یہ اسکیم نہیں      کہ دنیا میں      ہمیشہ ایک زندہ پیغمبر موجود رہے۔ خدا کی اسکیم کے مطابق، اصل مطلوب یہ ہے کہ خدا کی ہدایت ہمیشہ محفوظ اور غیر محرَّف حالت میں     موجود رہے۔ جب خدائی ہدایت کا متن (text) محفوظ ہوجائے، اوراُس میں      تحریف کا امکان باقی نہ رہے، تو زندہ پیغمبر کا موجود ہونا، غیر ضروری ہوجاتا ہے۔ یہی واقعہ پیغمبر آخر الزماں      کے ظہور کے بعد پیش آیا۔ خدا کی کتاب انسان کے لیے ایک بک آف ریفرنس (book of reference)  کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب ایک محفوظ بک آف ریفرنس دستیاب ہوجائے، تو اس کے بعد نئے پیغمبر کی بعثت اپنے آپ غیر ضروری ہوجاتی ہے۔

پیغمبرانہ ہدایت کی ابدیت

پیغمبر کے ذریعے خدا کی جو ہدایت آتی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہوتی ہے۔ قرآن میں      پیغمبرانہ ہدایت کو روشن آفتاب(سِرَاجًا مُنِيرًا) سے تشبیہ دی گئی ہے (الاحزاب،33:46)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی ہدایت اُسی طرح ابدی ہوتی ہے، جس طرح آفتاب کی روشنی انسان کے لیے ابدی ہوتی ہے۔

اِس سے معلوم ہوا کہ تبدیلی ٔ زمانہ کے حوالے سے نئے پیغمبر کی ضرورت کو بتانا، ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ زمانے کی تبدیلی، یا مادّی تہذیب کی نئی ترقی کا کوئی تعلق نئی نبوت سے نہیں      ہے۔ زمانے کی تبدیلی سے اگر کوئی عملی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو وہ صرف نئے اجتہاد کی ضرورت کو ثابت کرتاہے، نہ کہ نئے نبی کی ضرورت کو۔مثلاً مسح علی الخفّین کے مسئلے کو لیجیے۔ قدیم زمانے میں      چمڑے کے موزے ہوا کرتے تھے۔ اُس وقت چمڑے کے موزے کے حوالے سے مسح علی الخفین کا مسئلہ بتایا گیا۔ اب اون اورکاٹن، وغیرہ سے تیار کئے ہوئے موزوں      کا زمانہ ہے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کی ضرورت کو بتاتی ہے، نہ کہ نئے نبی کی ضرورت کو۔ اِس طرح کے بدلے ہوئے حالات میں      صرف یہ کافی ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں      صورتِ موجودہ پر شرعی حکم کا از سرِ نو انطباق (re-application)   کیا جائے۔ اِسی کا نام اجتہاد ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں      تھے، تو اس وقت وہاں      آب پاشی (irrigation) کا مسئلہ تھا۔ لوگوں      نے کہا کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں     ۔ آپ خدا کی مدد سے ہمارے اِس مسئلے کو حل کیجیے۔ آپ نے جواب دیا- مابهذا بُعثتُ إلیکم (السیرۃ النبویۃ لابن هشام، جلد 1 ، صفحہ 316)۔ یعنی میں     تمھارے پاس اِس کام کے لیے نہیں      بھیجا گیا ہوں     :

I have not been sent to you for this purpose.

اِسی طرح جب آپ مدینہ میں      تھے تو وہاں      کے حالات کے اعتبار سے بعض مسائل پیدا ہوئے، جو باغ بانی (horticulture) سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاں      کے لوگوں      نے اِس معاملے میں      آپ سے مشورہ حاصل کرنا چاہا۔ آپ نے دوبارہ ان کو وہی جواب دیا جو آپ مکہ کے لوگوں      کو دے چکے تھے۔ آپ نے فرمایا کہأنتم أعلم بأمر دنیاکم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2363)۔ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملے میں      زیادہ جانتے ہو :

You know better about your worldly matters.

آب پاشی، باغ بانی، فنِ تعمیراور صنعت جیسی چیزوں      کا تعلق انسانی تہذیب سے ہے۔ تہذیب کا عمل ہمیشہ انسانی تحقیق وجستجو پر مبنی ہوتا ہے۔ اِس معاملے کو خدا نے انسان کے اپنے اوپر چھوڑ دیا ہے۔ تاہم جہاں      تک ہدایت کا معاملہ ہے، اُس کا تعلق خدائی وحی سے ہے۔ انسان کی یہی ضرورت ہے جس کے لیے خدا نے وحی ونبوت کا سلسلہ جاری کیا۔

مشہور فرانسیسی مصنف ڈاکٹر الکسس کیرل (وفات1944 ) نے 1935 میں     ایک کتاب شا ئع کی۔ اِس کتاب کا نام— انسانِ نامعلوم (Man the Unknown)   تھا۔ مگر زیادہ صحیح طور پر اِس کتاب کانام— ہدایت نامعلوم (Guidance the Unknown)  ہونا چاہیے۔ انسان کی صحیح ہدایت کا تعلق امورِ غیب سے ہے۔ یہ صرف خدا ہے جو امورِ غیب کا علم رکھتا ہے۔ اِس لیے صرف خدا ہی انسان کو صحیح رہنمائی دے سکتا ہے۔ ماضی میں      پیغمبروں      کے ذریعے یہی رہ نمائی انسان کو دی جاتی رہی۔

اب اِس خدائی رہ نمائی کا مستند متن قرآن کی صورت میں      محفوظ ہے۔ اب قیامت تک کے لیے قرآن، نبوت کا بدل ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ انسان اِس مستند کلامِ الٰہی (word of God) کو پڑھے، وہ اُس پر تدبر کرے، اور قیامت تک اُس سے اپنے لیے رہ نمائی لیتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاجئت فختمتُ الأنبیاء (صحیح مسلم،حدیث نمبر 2287)۔  یعنی میں     آیا اور میں      نے نبیوں      کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا۔

دلیلِ نبوت

پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ میں      570 ء میں      پیدا ہوئے۔ آپ کی عمر چالیس سال ہوئی تو 610 ء میں      خدا نے آپ کو اپنا پیغمبر بنایا، اور آپ پر قرآن اتارا۔ آپ کا مشن توحید کا مشن تھا۔ اِس مشن کے لیے آپ نے تقریباً 23  سال تک کام کیا ۔ اِس کے بعد 632 ء میں      مدینہ میں      آپ کی وفات ہوئی اور وہیں      آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ نے استثنائی طورپر اپنے ساتھیوں      کی ایک بڑی جماعت بنائی، جس کواصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ اصحابِ رسول کی اِس جماعت نے آپ کے مشن کوتکمیل کے درجے تک پہنچایا۔

رسول اور خاتم الانبیاء

قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف نبی تھے، بلکہ وہ خاتم الانبیاء بھی تھے، یعنی آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں     ۔ آپ کے بارے میں      خاتم الانبیاء ہونے کا یہ اعلان صرف ایک اعلان نہیں     ، وہ آپ کے پیغمبرِ خدا ہونے پر ایک تاریخی دلیل بھی ہے۔ آپ نے ساتویں      صدی کے رُبعِ اول میں      یہ اعلان کیا کہ میں      خاتم الانبیاء ہوں     ۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کوئی شخص نبی کا دعوے دار بن کر نہیں      اٹھا۔ گویا کہ آپ کے الفاظ تاریخ کا ایک فیصلہ بن گئے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کوئی شخص ایسا پیدا نہیں      ہوا جو اپنے بعد آنے والی تاریخ کے بارے میں      ایک بیان دے اور اس کا یہ بیان اس کے بعد تاریخ کا ایک واقعہ بن جائے۔ مثلاً کارل مارکس (وفات1883 ء) نے اپنے تجزیے کی بنیاد پر یہ اعلان کیا تھا کہ کمیونسٹ انقلاب سب سے پہلے فرانس میں      آئے گا، مگر اُس کا یہ اعلان واقعہ نہ بن سکا۔ اِسی طرح تاریخ میں      کئی لوگ ایسے گزرے ہیں     ، جنھوں      نے مستقبل کے بارے میں      پیشین گوئی کرنے کی جرأت کی، مگر اِس قسم کی ہر پیشین گوئی غلط ثابت ہوئی، وہ تاریخی واقعہ نہ بن سکی۔

اِس عموم میں      صرف ایک استثناء ہے، اور وہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ نے ساتویں      صدی عیسوی کے رُبع اول میں      مدینہ میں     یہ اعلان کیا کہ میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں     ۔ یہ بات حیرت انگیز طورپر تاریخ کا ایک واقعہ بن گئی۔ یہ استثناء بلا شبہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ آپ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول تھے اور اِسی کے ساتھ نبیوں      کے خاتِم بھی۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعلان قرآن میں      بار بار کیاگیا ہے۔ مثلاً فرمایا: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّيْنَ  (33:40)۔ یعنی محمد تمہارے مردوں      میں      سے کسی کے باپ نہیں      ہیں     ، لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں      کے خاتم ہیں     ۔ اِس آیت کے مطابق، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بھی تھے ،اور خدا کے آخری پیغمبر بھی۔ اِسی طرح خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا کہأنا النّبیّ لاکذب (صحیح البخاری، حديث نمبر 4315 ؛ صحیح مسلم، حديث نمبر 1776)یعنی میں     نبی ہوں     ، اِس میں     کوئی شک نہیں     ۔ اِسی طرح آپ نے فرمایا: وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4252)۔ یعنی میں      آخری نبی ہوں     ، میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں     ۔

دعوائے نبوت نہیں

یہ بات نہایت اہم ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پورے تاریخی دور میں      ساری دنیا میں      کوئی بھی شخص ایسا پیدا نہیں      ہوا جو اپنی زبان سے اِن الفاظ میں      نبوت کا دعویٰ کرے  —میں      خدا کا پیغمبرہوں     ، بالکل اُسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ، حضرت مسیح اور حضرت محمد، خدا کے پیغمبر تھے:

I am the prophet of God in the same sense in which Moses and Jesus and Muhammad claimed they were prophets of God.

 جب کوئی شخص اِن الفاظ میں     ، نبوت کا دعویٰ کرنے والا نہیں      اٹھا تو پیغمبر اسلام کا یہ دعویٰ اپنے آپ ایک ثابت شدہ حقیقت بن گیا۔ آپ کے اِس اعلان کے بعد تقریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں     ، لیکن ابھی تک کوئی بھی شخص ایسا نہیں      اٹھا جو اپنی زبان سے یہ اعلان کرے  — میں      خدا کا پیغمبر ہوں     ۔ اِس طرح آپ کا دعویٰ گویا کہ بلا مقابلہ اپنے آپ ثابت ہوگیا۔

اِس سلسلے میں      کچھ نام بتائے جاتے ہیں     ، جن کے بارے میں      یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں     نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ مگر یہ خیال درست نہیں     ۔ مثلاً کہاجاتا ہے کہ آپ کے زمانے میں      یمن کے مُسیلمہ (وفات633 ء) نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن کتابوں      سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے کسی مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں     کیا تھا۔ اُس نے صرف یہ کہا تھا کہ میں      محمد کے ساتھ نبوت میں      شریک کیاگیا ہوں     ۔ اِس طرح اُس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حیثیت دے دی، اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرکتِ نبوت سے انکار کیا تو اُس کا دعویٰ اپنے آپ ختم ہوگیا۔

اِسی طرح آپ کے زمانے میں      یمن میں     ایک اور شخص پیدا ہوا، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ شخص اسود العَنسی (وفات 632 ء) تھا۔ تاہم تاریخ کی کتابوں      سے یہ ثابت نہیں      ہوتا کہ اُس نے خود اپنی زبان سے یہ کہا تھا— میں      خدا کا پیغمبر ہوں     ۔ میرے مطالعے کے مطابق، اُس کا کیس ارتداد اور بغاوت کا کیس تھا، نہ کہ دعوائے نبوت کا کیس۔

اِسی طرح آپ کے بعد ابو الطیب المتنبّي (وفات965 ء) کے بارے میں      کہاجاتا ہے کہ اس نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، مگر یہ درست نہیں     ۔ اصل یہ ہے کہ المتنبّی ایک شاعر تھا اور نہایت ذہین آدمی تھا۔ اُس نے مزاحیہ طورپر ایک بار اپنے کو نبی جیسا بتایا، بعد کو اس نے اپنے اِس قول کو خود ہی واپس لے لیا۔

اِسی طرح کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں      ایسے دو افراد پیدا ہوئے، جنھوں      نے مذکورہ الفاظ میں     ،اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا—  بہاء اللہ خاں      (وفات1892ء) اور مرزاغلام احمد قادیانی (وفات1908 ء)، مگر تاریخی ریکارڈ کے مطابق، یہ بات درست نہیں     ۔

بہاء اللہ خاں      نے صرف یہ کہا تھا— میں     مظہرِ حق ہوں     ۔ انھوں      نے کبھی یہ نہیں      کہا کہ میں     خدا کا پیغمبر ہوں     ۔ اِسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے کبھی اپنی زبان سے یہ نہیں      کہا کہ میں      خدا کا پیغمبر ہوں     ، جس طرح حضرت موسیٰ، حضرت مسیح اور حضرت محمد، خدا کے پیغمبر تھے۔ انھوں     نے صرف یہ کہا تھا کہ میں     ظلِّ نبی ہوں     ، یعنی میں     نبی کا سایہ ہوں     ۔ اِس طرح کے قول کو ایک قسم کی دیوانگی تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کو حقیقی معنوں      میں      دعوائے نبوت نہیں     کہا جاسکتا۔

ہندوگروؤں      کی مثال

موجودہ زمانے میں      ہندوؤں      میں     کچھ ایسے افراد پیدا ہوئے، جن کے متعلق کہا گیا کہ وہ وقت کے پیغمبر ہیں     ، مگر یہ بات بھی خلاف واقعہ ہے۔ مثلاً دہلی کے نرنکاری بابا گُربچن سنگھ (وفات1980 ء) کے بارے میں      ایک پمفلٹ مجھے ملا، جس میں      نرنکاری بابا کو وقت کا پیغمبر (prophet of the time) لکھاگیا تھا۔ میں     اُن سے ان کے دہلی کے آشرم میں      ملا، میں      نے ان کی تقریر سنی اور ان سے گفتگو کی۔ لیکن معلوم ہوا کہ نرنکاری بابا کے کچھ معتقدین ان کے بارے میں      ایسا کہتے ہیں     ۔ لیکن خود نرنکاری بابا نے اپنی زبان سے یہ دعویٰ نہیں     کیا  — میں      خدا کا پیغمبر ہوں     ۔

اِسی طرح کیرلا (تری وندرم) میں     ایک مشہور ہندو گرو تھے۔ اُن کا نام برہما شری کروناکرا (وفات1999ء) تھا۔ تری وندرم میں     ان کا ایک بڑا آشرم تھا، جس کا نام ’شانتی گری آشرم‘ ہے۔ اُن کے مشن کے کچھ لوگ مجھ سے دہلی میں      ملے۔ انھوں      نے کہا کہ ہمارے بابا جی وقت کے پیغمبر ہیں     ۔ اِس کے بعد میں     نے خود کیرلا کا سفر کیا،اور تری وندرم میں     ان کے آشرم میں      ان سے ملا۔ میں     نے ان کے معتقدین سے پیشگی طور پر بتادیا تھا کہ میں      کس مقصد سے وہاں      جارہا ہوں     ۔

میں      نے یہ سفر فروری 1999ء میں     کیا تھا۔ شانتی گری آشرم میں      پہنچ کر میں     اُن سے ملا۔ مجھے ایک خصوصی کمرے میں      لے جایا گیا، جہاں      بابا جی کے ساتھ اُن کے تقریباً پچاس معتقدین موجود تھے۔ گفتگو کے دوران میں     نے بابا جی برہما شری کرونا کرا سے ایک سوال کیا۔ اس کا جواب انھوں     نے واضح لفظوں      میں      دیا۔ وہ سوال وجواب یہ تھا:

Q:     Do you claim that you are a prophet of God in the same sense in which Moses, and Jesus, and Muhammad claimed they were prophets of God.

A:     No, I don’t make any such claim.

اِس گفتگو میں     میں     نے ڈائریکٹ طورپر ان سے پوچھا کہ کیا آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں      کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں     ۔ انھوں     نے صاف طورپر کہا کہ نہیں     ، میں     ایسا دعویٰ نہیں     کرتا۔ جب انھوں      نے اِس طرح کہہ دیا تو اُس کے بعد میرا سوال و جواب ختم ہوگیا۔ اُس کے بعد میں      خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر اُن کی باتیں      سنتا رہا اور پھر چلا آیا۔ اِس سفر میں      شانتی گری آشرم میں      میں      نے دو دن قیام کیا۔

کیا وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پوری تاریخ میں      کوئی ایسا شخص نہیں      اٹھا جو اپنی زبان سے یہ دعویٰ کرے کہ میں     خدا کا پیغمبر ہوں     ۔ اِس پرغور کرتے ہوئے میری سمجھ میں      یہ بات آتی ہے کہ ایسا کلام اتنا زیادہ غیر معمولی ہے کہ کوئی غیر پیغمبر اس کو اپنی زبان سے ادا نہیں     کرسکتا۔ جس طرح خدا کے سوا کوئی اور شخص یہ نہیں      کہہ سکتا کہ میں     خدائے ربّ العالمین ہوں     ، اِسی طرح کوئی شخص یہ بھی نہیں      کہہ سکتا کہ میں     خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر (Prophet of God)ہوں     ۔ پیغمبری کا دعویٰ صرف کوئی سچا پیغمبر ہی کرسکتا ہے۔ کوئی غیر پیغمبر شخص دوسرے دوسرے الفاظ بول سکتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں      کہہ سکتا— میں     خدا وند ِ عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں     ۔

پیغمبر ایک تاریخی استثنا

پیغمبر کے پیغمبر ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ پوری انسانیت کے مقابلے میں      ایک استثنا (exception) ہوتاہے۔ خدا کی طرف سے جتنے بھی پیغمبر آئے ، سب کے سب درجے کے اعتبار سے یکساں      تھے(البقرۃ،2:285)، لیکن رول کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق تھا۔ پچھلے پیغمبروں      کا رول زمانی رول تھا، اور پیغمبر آخرالزماں      صلی اللہ علیہ وسلم کا رول ابدی رول تھا۔

قرآن اور حدیث کی تصریح کے مطابق، کسی پیغمبر کو دوسرے پیغمبر کے اوپر شخصی فضیلت حاصل نہ تھی۔ پیغمبر ہونے کے اعتبار سے ایک کا جو درجہ تھا، وہی دوسرے کا درجہ بھی تھا۔ لیکن کارِمفوّضہ کی نسبت سے ہر ایک کی ضرورتیں      الگ الگ تھیں     ۔ اِس بنا پر ہر ایک کو مختلف نوعیت کے ذرائع دیے گئے۔ مثلاً حضرت موسیٰ کی نصرت قوتِ عصا کے ذریعے کی گئی، تو حضرت مسیح کی نصرت قوتِ شفا کے ذریعے۔

پیغمبر اسلام اور دوسرے نبیوں      کے درمیان ایک واضح فرق یہ ہے کہ دوسرے تمام پیغمبر روایتی دورِ تاریخ میں     آئے، اور روایتی دورِ تاریخ ہی میں      ان کا پیغمبرانہ رول ختم ہوگیا۔ اِس کے مقابلے میں     ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ آپ تاریخ کے روایتی دور میں      آئے ، لیکن توسیعی معنوں      میں      آپ کی نبوت تاریخ کے سائنسی دور تک جاری رہی۔ اِس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عطیات برائے نصرت دیے گئے، وہ پچھلے اَدوار کی نسبت سے مختلف تھے۔رول کے اِسی فرق کی بنا پر ہم یہ دیکھتے ہیں      کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیا کے درمیان دلائل کی نسبت سے فرق پایا جاتا ہے، یعنی پچھلے انبیا کے یہاں      اگر روایتی نوعیت کے دلائل ہیں      تو پیغمبراسلام کے یہاں      سائنسی نوعیت کے دلائل۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے پیغمبر آئے، وہ سب تاریخ کے روایتی دور میں      آئے۔ اِس کے مقابلے میں      پیغمبر اسلام، تاریخ کے اُس دور میں      آئے جب کہ سائنسی دور شروع ہونے والا تھا۔ اِس بنا پر یہ ہوا کہ دوسرے پیغمبروں      کو حِسّی معجزے دیے گئے۔ یہ معجزے صرف پیغمبر کے معاصر (contemporary)لوگوں      کے لیے دلیل تھے۔ اِن معجزوں      کی استدلالی حیثیت مشاہدے پر مبنی تھی۔ پیغمبر کے بعد وہ معجزہ ختم ہوگیا، اِس لیے وہ بعد کی نسلوں      کے لیے دلیل بھی نہ رہا۔معجزے کا دلیل ہونا، اُن معاصر لوگوں      کے لیے ہے، جو اس کو دیکھیں     ، وہ اُن غیر معاصر لوگوں      کے لیے دلیل نہیں      ہے، جو اس کو صرف سنیں      یا پڑھیں     ، مگر انھوں      نے اِس کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے پیغمبروں      کے درمیان اگر چہ درجے کے اعتبار سے فرق نہ تھا، لیکن پیغمبر اسلام ایک ایسے دورِ تاریخ میں      آئے، جب کہ آپ کی دعوت اور آپ کی زندگی سے متعلق ہر چیز محفوظ (preserve)رہ سکتی تھی— اِس بنا پر ایسا ہوا کہ آپ کی نبوت ایک مسلسل نبوت بن گئی۔ ہر پیغمبر کو خدا کی طرف سے پیغمبری کے ساتھ دلیل بھی دی جاتی تھی، جس کو قرآن میں      ’’بُرہان‘‘ کہاگیا ہے۔ یہ دلیل پچھلے پیغمبروں      کے لیے حسی معجزہ (physical miracle)  کی صورت میں      ہوتی تھی، لیکن پیغمبر اسلام کے لیے یہ دلیل تاریخ کی صورت میں      ہے، ایک ایسی استثنائی تاریخ جو کسی اور انسان کے ساتھ کبھی جمع نہیں      ہوئی۔

نبوتِ محمدی کا ثبوت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت، دوسرے پیغمبروں      کی طرح، یہ ہے کہ آپ کی زندگی ایک تاریخی استثنا (historical exception)کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی یہی استثنائی حیثیت ہے، جس کو قرآن کی سورة الاسراء(17:79) میں      ’مقامِ محمود‘ (praised state)  بتایا گیا ہے۔ مقامِ محمود سے مراد مقامِ اعتراف ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو انسانوں      کے درمیان اعترافِ کامل کا درجہ حاصل ہوگا۔ آپ کے گرد ایسی استثنائی تاریخ اکھٹا ہوگی کہ خود انسان کے اپنے مانے ہوئے معیار کے مطابق، آپ کی نبوت ایک مسلّمہ نبوت بن جائے گی۔

قرآن میں      ’مقامِ محمود‘ کی آیت سے مراد، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہیں     ۔ آپ کے بارے میں      مشہور امریکی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب میں      لکھا ہے — آپ تاریخ کے واحد شخص ہیں      جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:

He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں      لوویسٹ پوائنٹ (lowest point)   610 ء کے بعد آیا، جب کہ مکہ کی ایک غیر مسلم خاتون اُمِّ جمیل نے آپ کے پاس آکر آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا  مُذمَّماً أبینا، یعنی تم ایک قابلِ مذمت شخص (condemned person) ہو، ہم تم کو  ماننے سے انکار کرتے ہیں     (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 3376)۔ اِس کے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال بعد 1978 میں      آپ کی زندگی کا ہائیسٹ پوائنٹ (highest point)آیا، جب کہ امریکا کے ایک غیر مسلم اسکالر ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے 570 صفحے کی ایک کتاب (The 100) میں      اعلان کیا کہ— محمد پوری انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔

ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب سے زیادہ کامیاب انسان (supremely successful)کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دوسرے لفظوں      میں     اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پوری انسانی تاریخ میں     ایک استثنا (exception) کی حیثیت رکھتے ہیں     ۔ہر لحاظ سے آپ تمام انسانوں      کے درمیان کامل طورپر ایک منفرد حیثیت کے مالک ہیں     ۔

مستقبل کی تصدیق

قرآن ساتویں      صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں      اترا۔ اُس وقت قرآن میں      یہ اعلان کیاگیا:سَنُرِيهِمْ ءَايَٰتِنَا فِى الْآفَاقِ وَفِىٓ أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدٌ(فصلت،41:53)۔عن قریب، ہم اُن کو اپنی نشانیاں      دکھائیں      گے، آفاق میں      بھی اور خود اُن کے اندر بھی، یہاں      تک کہ اُن پر کھُل جائے گا کہ یہ حق ہے ۔

اِس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدا نے جس صداقت کا اعلان کیا ہے، وہ ایک ابدی صداقت ہے۔ بعد کو آنے والی تاریخی تبدیلیاں      اُس کو رد نہیں      کریں      گی، بلکہ وہ اس کی تصدیق کرتی چلی جائیں      گی۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ اعلان پوری طرح سچا ثابت ہوا۔ ظہورِ اسلام کے بعد کے زمانے میں      مختلف قسم کی تبدیلیاں      ہوئیں      اور پھر علومِ سائنس کا دور آیا، جوگویا کہ تاریخ کا سب سے بڑا فکری انقلاب تھا۔ مگر بعد کو پیش آنے والے اِن انقلابات نے دینِ محمدی کی جُزئی یا کُلّی طورپر تردید نہیں      کی، بعد کے زمانے میں      پیش آنے والے تمام واقعات دینِ محمدی کی صداقت کا ثبوت بنتے چلے گئے— اِس قسم کا استثنا (exception) لمبی تاریخ میں      صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا۔ یہاں      ہم اِس تاریخی واقعے کے بعض پہلوؤں      کا ذکر کریں      گے۔

توحید کی صداقت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کے طور پر یہ اعلان کیا کہ خدا صرف ایک ہے۔ خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے، اور نہ کوئی اس کا شریک۔ اُس وقت ساری دنیا میں      انسان کے ذہن پر شرک کا تصور غالب تھا۔ لوگ مخلوقات میں      تعدّد دیکھتے تھے، اِس لیے انھوں      نے مان لیا کہ خدائی میں      بھی تعدّد ہے، یعنی مختلف چیزوں      کو مختلف خداؤوں      نے بنایا ہے۔ مثلاً پانی کو کسی اور خدا نے بنایا، اور پہاڑ کو کسی اور خدا نے بنایا، اور سورج کو کسی اور خدا نے بنایا،اور چاند کو کسی اور خدا نے بنایا، وغیرہ۔

انسانی علم مظاہرِ فطرت کا مطالعہ کرتا رہا۔ اِس مطالعے میں      سیکڑوں      سال بیت گئے۔ یہاں      تک کہ سر آئزاک نیوٹن (وفات1727) کے زمانے میں      یہ تعدّد گھٹ کر چار تک پہنچ گیا۔ نیوٹن کے زمانے میں      سائنس دانوں      نے یہ مان لیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں      بہت سی نہیں      ہیں     ، بلکہ صرف چار طاقتیں      ہیں     ، جو پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہیں     ۔ وہ چار طاقتیں      یہ ہیں     

1۔    قوتِ کشش (gravitational force)

2۔  برقی مقناطیسی قوت (electromagnetic force)

3۔  طاقت ور نیوکلیر قوت(strong nuclear force)

4۔   کم زور نیوکلیر قوت(weak nuclear force)

مگر مسئلہ یہاں      ختم نہیں      ہوا۔ نیوٹن کے زمانے سے کائنات کا جو سائنسی مطالعہ شروع ہوا تھا، اُس سے دن بدن یہ واضح ہوتا چلا گیا کہ وسیع کائنات میں     اگرچہ ان گنت چیزیں      ہیں     ، اور سب کی سب متحرک ہیں     ، لیکن اِن تمام متحرک اور متنوع چیزوں      کے درمیان حیرت ناک حد تک ہم آہنگی (harmony) پائی جاتی ہے۔ تمام چیزیں      کامل توافُق کے ساتھ کام کرتی ہیں     ۔ یہ ہم آہنگی اور توافق اُس وقت ممکن نہیں      ہوسکتی جب کہ کائنات کو متعدد طاقتیں      کنٹرول کررہی ہوں     ۔ چنانچہ سائنس داں      مسلسل اِس کوشش میں      تھے کہ وہ اِس معاملے میں     تعدّد کو توحّد تک پہنچائیں     ۔ آخر کار برٹش سائنس داں      اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) نے یہ کام اطمینان بخش طورپر انجام دیا۔

اسٹفن ہاکنگ، نظریاتی فزکس کا سب سے بڑا سائنس داں      مانا جاتا ہے۔ اس نے خالص سائنسی متھڈ کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی صرف ایک طاقت ہے۔ اِس نظریہ کو سنگل اسٹرنگ تھیوری (single string theory)  کہاجاتا ہے۔ اِس طرح اِس معاملے میں      سائنسی نقطۂ نظراور توحید کا اسلامی نقطۂ نظر دونوں      ایک ہوگئے۔ توحید کا نقطۂ نظر جس کائنات کا تقاضا کررہا تھا، کائنات کی وہی نوعیت سائنسی مطالعے سے ثابت ہوگئی۔

علم قلیل

قرآن کی سورة الاسراء(17:85)  میں     اعلان کیاگیا تھا کہ انسان کو صرف علم قلیل حاصل ہے۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ انسان تخلیقی طورپر محدودیت (limitations) کا حامل ہے۔ اپنی اِس فطری محدودیت کی وجہ سے وہ صرف علم قلیل تک پہنچ سکتا ہے، علم کثیر کا حصول اس کے لیے ممکن نہیں     ۔ ایسی حالت میں     انسان کو خدا کے پیغمبر کے اوپر ایمان لانا چاہیے۔ پیغمبر وحیِ الٰہی کے ذریعے اُس بات کو جان لیتا ہے جس کو انسان اپنی محدودیت کی بناپر نہیں      جان سکتا۔ اِس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی ہدایت پیغمبر کے ذریعے حاصل کرے۔ اِس معاملے میں      انسان کے لیے اِس کے سواکوئی اور انتخاب (option) موجود نہیں     ۔

قرآن میں     یہ بات ساتویں      صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں      کہی گئی تھی۔ اُس وقت انسان اِس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ قرآن کی اِس تنبیہ کے باوجود بڑے بڑے فلسفیانہ دماغ علم کُلّی کی تلاش میں      سرگرداں      رہے۔ آخر کار کئی ہزار سال کی ناکام کوشش کے بعد جدید سائنس ظہور میں     آئی۔ جدید سائنس نے دور بین اورخورد بین جیسے بہت سے طریقے دریافت کیے۔ اب یہ یقین کیا جانے لگاکہ سائنسی مطالعے کے ذریعے انسان اُس مطلوب علم تک پہنچ جائے گا، جہاں      تک پچھلے زمانے کا انسان نہیں      پہنچ سکا تھا۔

یہ تلاش نیوٹن کے بعد سے عالم کبیر (macro world) کی سطح پر چلتی رہی۔ آخر کار آئن اسٹائن (وفات1955) کا زمانہ آیا، جب کہ انسانی علم عالم صغیر(micro world) تک پہنچ گیا۔ اب یہ معلوم ہوا کہ جس مادّے کو پہلے قابلِ مشاہدہ (visible)سمجھا جاتا تھا، وہ بھی اپنے آخری تجزیے میں      قابلِ مشاہدہ نہیں     ۔ یہاں      پہنچ کر یہ مان لیا گیا کہ سائنسی طریقہ انسان کو علم کُلی تک پہنچانے میں      حتمی طورپر ناکام ہے۔

سائنس کی یہ علمی ناکامی پہلے صرف عالم صغیر کی حد تک دریافت ہوئی تھی، مگر بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ خود عالم کبیر بھی انسان کے لیے حتمی طورپر ناقابلِ مشاہدہ ہے۔ سائنس کے آلات مادی دنیا کے بارے میں      انسان کو کلی علم تک پہنچانے سے عاجز ہیں     ۔ انسان جس طرح عالم صغیر کے بارے میں      علم قلیل رکھتاہے، اُسی طرح وہ عالم کبیر کے بارے میں      بھی صرف علم قلیل کا حامل ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں     ۔ یہ نظریہ بلیک ہول (Black Hole) کی دریافت کے بعد سامنے آیا۔

ایمسٹرڈم (ہالینڈ) میں     ماہرینِ طبیعیات(physicists)کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس 2007 میں      ہوئی۔ اِس موقع پر فزکس کا نوبل پرائز پانے والے ایک امریکی سائنس داں      جیمس واٹسن (James Watson Cronin) نے اپنے مقالے میں      بتایا— ہماری کائنات کا 96 فی صد حصہ ڈارک میٹر (dark matter) پر مشتمل ہے۔ اُس کی روشنی یا ریڈی ایشن ہم تک نہیں      پہنچتی، اِس لیے ہم اُس کو ڈائرکٹ طورپر نہیں      دیکھ سکتے۔ موجودہ آلات کے ذریعے ہم اُن کا احاطہ نہیں      کرسکتے

Dark matter cannot be detected directly, because it does not emit or reflect light or radiation — or not enough to be picked up by available tools. (The Times of India, New Delhi, September 23, 2007, p. 20)

جیمس واٹسن نے اپنے مذکورہ بیان میں      مزید کہا — ہم سمجھتے تھے کہ ہم کائنات کو جانتے ہیں     ، مگر معلوم ہواکہ ہم کائنات کے صرف چار فی صد حصے ہی کو براہِ راست طورپر جان سکتے ہیں     

We think we understand the universe, but we only understand four percent of everything.

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ علم کے بارے میں      مستقبل نے اُسی بات کی تصدیق کی جو بہت پہلے اُس کتاب میں      کہہ دی گئی تھی جو پیغمبر اسلام، خدا کی طرف سے لائے تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے دماغ اِس یقین کے ساتھ اپنی تلاش میں     لگے ہوئے تھے کہ وہ علم کُلی تک پہنچ سکتے ہیں     ، مگر قرآن میں      پیشگی طورپر یہ اعلان کیاگیا کہ اپنی محدودیت کی بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں      کہ وہ خود اپنی کوشش سے علم کلی تک پہنچ سکے۔ آخر کار خود انسانی علم نے قرآن کے بیان کی تصدیق کردی۔ مستقبل نے انسانی مفروضے کو رد کردیا اور قرآن کے بیان کی کامل تصدیق کردی۔

دنیائے فانی کا نظریہ

قرآن میں      واضح الفاظ میں      موجودہ دنیا کے بارے میں      یہ تصور دیاگیا تھا کہ یہ زمینی سیّارہ جس پر انسان آباد ہے، اس کی ایک محدود عمر ہے۔ یہاں      انسان اپنے لیے جنت (paradise)کی تعمیر نہیں      کرسکتا۔ یہ دنیا عارضی طورپر امتحان کے لیے بنی ہے اور اس کے بعد یہاں      سے اُن تمام چیزوں      کا خاتمہ کردیا جائے گاجس کی مدد سے انسان یہاں      زندہ رہتا ہے اور اپنے لیے اپنی مطلوب دنیا بنانے کی کوشش میں      لگا ہوا ہے۔ یہاں      اِس سلسلے میں      دو آیتیں      نقل کی جارہی ہیں      :

1۔      يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(14:48) ۔ یعنی جس دن یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب ایک زبردست اللہ کے سامنے پیش ہوں      گے۔

2۔     إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى ٱلْأَرْضِ زِينَةًۭ لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًۭا.وَإِنَّا لَجَٰعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًۭا جُرُزًا(18:7-8)۔یعنی جو کچھ زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی رونق بنایا ہے، تاکہ ہم لوگوں      کو جانچیں      کہ اُن میں      کون اچھا عمل کرنے والا ہے، اور ہم زمین کی تمام چیزوں      کو ایک صاف میدان بنادیں      گے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق، موجودہ سیّارۂ زمین پر جو زندگی بخش حالات ہیں     ، وہ حتمی طورپر ختم ہونے والے ہیں     ، اور مسلسل ان کا کاؤنٹ ڈاؤن ہو رہا ہے۔ لیکن بڑے بڑے انسانی دماغوں      نے اِس کے برعکس نظریہ قائم کیا۔ سُقراط اور افلاطون اور ارسطو سے لے کر موجودہ زمانے کے رہنماؤں      تک ہر ایک نے یہ نظریہ قائم کیا کہ وہ انسانیت کے مستقبل کو آئڈیل دَور کی طرف لے جارہے ہیں— آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل سماج اور آئڈیل نظام، وغیرہ۔ اِس معاملے میں  لوگوں  کا واہمہ (obsession) اتنا بڑھا ہوا تھا کہ بار بار برعکس نتیجہ نکلنے کے باوجود انھوں      نے اپنی کوشش جاری رکھی۔

چارلس ڈار ون (وفات1882) کا عضویاتی ارتقا (organic evolution)کا نظریہ سامنے آیا تو اس کے وسیع تر انطباق کے تحت یہ یقین کرلیا گیا کہ انسان کی تمدنی تاریخ مسلسل بہتر سے زیادہ بہتر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ صنعتی سائنس کے ظہور کے بعد اِس نظریے کو مزید تقویت ملی اور یہ یقین کرلیاگیا کہ موجودہ دنیا کو جنّتی دنیا میں      تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اَلوِن ٹافلر کی کتاب فیوچر شاک(Future Shock) پہلی بار 1970 میں      چھپی ۔ اِس کتاب میں      یہ تاثر دیا گیا تھا کہ دنیا ترقی کرکے انڈسٹریل ایج (industrial age) میں      پہنچی تھی۔ وہ مزید ترقی کرکے سپرانڈسٹریل ایج (super industrial age) کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ امریکا کو اسپیس ٹکنالوجی میں      کچھ ترقی ہوئی تو اُس نے اعلان کردیا کہ اب ہم زمینی تہذیب سے آگے بڑھ کرخلائی تہذیب (space civilization) کے دور تک پہنچ رہے ہیں     ۔ اب ہم زمین سے چاند تک سفر کریں      اور وہاں      سے مرّیخ (Mars)  تک پہنچ جائیں      گے:

We want to build a space civilization for tomorrow from where humans can travel to the Moon and from there to Mars (The Times of India, September 26, 2007, p. 21).

یہ باتیں      ہورہی تھیں      کہ ہماری زمین پر وہ اختتامی دور شروع ہوگیا، جس کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ (UNO) موجودہ دنیا کا سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحت، ایک انٹرنیشنل پینل بنایا گیا ۔ اِس پینل میں     ڈھائی ہزار سائنس داں      شامل کیے گئے۔ اِن سائنس دانوں      کا تعلق دنیا کے ایک سو تیس (130)ملکوں      سے تھا۔ یہ پینل موسمیاتی تبدیلی پررسرچ کے لیے تھا۔ اِس پینل نے اپنی رسرچ مکمل کرکے اس کی تفصیلی رپورٹ اقوامِ متحدہ کے حوالے کردی ہے۔

یہ کسی ایک کانفرنس کی بات نہیں     ۔ آج کل تقریباً ہر روز میڈیا میں     اِس قسم کی خبریں      آرہی ہیں     ۔ تمام دنیا کے سائنس داں      مسلسل یہ کہہ رہے ہیں      کہ زمین پر زندگی کے اسباب کا مسلسل خاتمہ ہورہا ہے۔ کئی انواعِ حیات (species)اب تک ناموافق موسم کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں     ۔ اِس سلسلے کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (3 جنوری 2007) میں      شائع ہوئی۔ اُس کا عنوان یہ تھا— انتباہی نشانیاں      (Warning Signs) ۔

اِس سلسلے کا ایک اور حوالہ یہ ہے۔ مشہور سائنس داں      جیمس لولاک (James Lovelock) نے جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں      کہا ہے کہ 2050 ء تک سطحِ ارض کا بڑا حصہ خشک ہوچکا ہوگا۔ بیش تر زندگیاں      ختم ہوجائیں      گی۔ ہم ایک ایسے انجام کے کنارے پہنچ چکے ہیں     ، جب کہ ایک ایک کرکے لوگ مرنے لگیں      گے، یہاں      تک کہ سارے لوگ ختم ہوجائیں      گے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جس کو اِس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں      دیکھا ہوگا۔ جو کچھ ہونے والا ہے، اُس میں      اگر بیس فی صد آدمی بھی زندہ بچ جائیں      تو وہ بہت خوش قسمت انسان ہوں      گے:

We are on the edge of the greatest die-off humanity has ever seen. We will be lucky if 20% of us survive what is coming. (The Times of India, May 18, 2007, p. 22)

گلوبل وارمنگ (global warming)کا موضوع موجودہ زمانے میں      سب سے زیادہ برننگ ٹاپک (burning topic)بن چکاہے۔ اِس موضوع پر کثرت سے رپورٹیں      اور مضامین اور کتابیں      شائع ہو رہی ہیں     ۔ کسی کو مزید تفصیل جاننا ہو تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہ آسانی یہ تفصیلات جان سکتا ہے۔

غیر معمولی کامیابی

ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب (The 100)  میں      لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام نے نہ صرف مذہبی سطح پر، بلکہ سیکولر سطح پر بھی استثنائی کامیابی حاصل کی۔ انھوں      نے لکھا ہے کہ اعلیٰ کامیابی کے معاملے میں      پوری انسانی تاریخ میں      محمد کا کوئی ہم سر نہیں     ۔ اِس سلسلے میں      اُن کے چند جملے یہ ہیں     :

The most astonishing series of conquests in human history (p. 35). The largest empire that the world had yet seen (p. 35). The most influential political leader of all time (p. 39). It is this unparalleled combination of secular and religious influence which I feel entitles Muhammad to be considered the most influential single figure in human history (p. 40).

یعنی محمد کی کامیابی پوری تاریخ میں     عجیب ترین سلسلۂ فتوحات کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں     نے اور اُن کے ساتھیوں      نے تاریخ کا سب سے بڑا ایمپائر قائم کیا۔ وہ پوری تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر سیاسی رہ نما تھے۔ مذہبی اور سیکولر دونوں      اعتبار سے ان کی اِس بے نظیر کامیابی کا تقاضا ہے کہ ان کو پوری تاریخ کا واحد سب سے زیادہ کامیاب انسان قر ار دیا جائے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر کامیابی کا اعتراف مؤرخین نے عام طورپر کیا ہے۔ یہاں      ہم ایک اور اقتباس نقل کرتے ہیں۔ انڈیا کے ایک ہندواسکالر ایم این رائے (وفات1954) نے لکھا ہے— اسلام کی سیاسی توسیع بلا شبہ تمام معجزات میں      سب سے زیادہ بڑا معجزہ ہے:

The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (The Historical Role of Islam, p. 5)

لالہ رگھوناتھ سہائے (صدر انجمن اتحاد مذاہب، لاہور) نے مختلف مذاہب کےدس  رہنماؤں      کی زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کا نا م ہےـروشن ستارے۔اس کتاب میں      انھوں      نے پیغمبر اسلام کے بارے میں      یہ الفاظ لکھے ہیں     ’’چند ہی سال میں      اسلام کا تمام عرب میں      پھیل جانا، اور مختلف مخالف فرقوں      اور قبیلوں     کا آں      حضرت کا پیرو بن جانا دراصل ایک معجزہ تھا۔‘‘ (مزید مطالعے کے لیےملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب پیغمبر اسلام)۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں      یہ حقیقت اتنی زیادہ بدیہی ہے کہ عام طورپر مورخین نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ تاریخ میں      بڑے بڑے ایمپائر قائم ہوئے۔ مثلاً یونانی ایمپائر، رومن ایمپائر، ساسانی ایمپائر، برٹش ایمپائر، مگر کوئی بھی ایمپائر اسلامی فتوحات کے برابر نہیں     ۔ پیغمبر اسلام کا یہ تاریخی استثنا ابھی تک قائم ہے۔ یہ اُن دلائل میں     سے ایک دلیل ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ خدا کے پیغمبر تھے، اور آپ کو خدا کی خصوصی مدد حاصل تھی۔ خدا کی مدد کے بغیر کوئی بھی شخص اِس قسم کی استثنائی کامیابی حاصل نہیں      کرسکتا۔

نظریۂ امن

امن کے بارے میں      انسان ہمیشہ سوچتا رہا ہے۔ قدیم زمانے میں      امن ایک قسم کا انتظامی معاملہ سمجھا جاتا تھا، یعنی امن ایک ایسی چیز تھی جس کو حاکمانہ اختیار کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔ اِس نظریے کے تحت ارباب اختیار نے امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً پیکس رومانا(Pax Romana)، پیکس برٹانکا (Pax Britanica)، پیکس امریکانا(Pax Americana)، وغیرہ۔ مگر اِس قسم کا سیاسی امن صرف جُزئی طورپر کسی سماج کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔ اِس لیے وہ اہلِ علم کے درمیان مطلوب امن کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔

بیسویں  صدی کے آغاز سے امن پر مبنی ایک باقاعدہ نظریہ(ideology) وجود میں      آیا۔ اِس کو عام طورپر پیسی فزم (pacifism) کہا جاتا ہے۔ پیسی فزم کے نظریے کے تحت موجودہ زمانے میں      متعدّد مفکرین پیدا ہوئے۔ مثلاً سموئل کانٹ (Samuel Cant)، مارکس اریلیس (Marcus Aurelius) اور مہاتما گاندھی وغیرہ۔ اِس نظریے کی حمایت میں      بہت سے مقالات اور کتابیں      شائع ہوئیں     ۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا میں      اِس موضوع پر تقریباً دس صفحے کا ایک مقالہ شامل ہے۔ اِس موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں      کی فہرست بہت لمبی ہے۔ یہاں      ہم صرف تین کتابوں      کا نام درج کرتے ہیں     

1—Raymon Raymond Aron, Peace, and War, 1966

2E.L. Alen, Francis E. Pollard, The Case for Pacifism and Conscientious Objection, 1946

3—Aldous Huxley, An Encyclopaedia of Pacifism, 1937

لیکن امن کے رہنما اور مفکرین کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام افراد جس امن تک پہنچے، وہ صرف ایک منفی امن (negative peace) تھا۔ جہاں      تک مثبت امن (positive peace) کا تعلق ہے، وہاں      تک کوئی بھی شخص نہ پہنچ سکا۔ امن کے تمام مفکرین جس امن کی بات کرتے ہیں     ، وہ جنگ اور تشدد کے مقابلے میں      ہوتی ہے۔ چنانچہ امن کی تعریف جنگ اور تشدد کی غیرموجود گی (absence of war and violence) سے کی جاتی ہے۔ اِسی تصور کی بنا پر یہ تمام افراد مفروضہ دشمنانِ امن کے خلاف اقدام کرتے رہے۔ کیوں      کہ اُن کے نزدیک اِن دشمن طاقتوں      کے خاتمے سے دنیا میں      امن قائم ہوتا تھا۔

اِس نظریۂ امن میں      امن کو مثبت قدر (positive value)کا مقام حاصل نہ ہو سکا۔اِس نظریۂ امن میں      امن کو صرف ایک طریقۂ کار (method) کا درجہ حاصل ہوا، نہ کہ وسیع تر معنوں      میں      ایک نظریۂ حیات (ideology)کا درجہ۔

پیسی فزم (pacifism)کے معاملے میں      مہاتما گاندھی کا نام نمایاں      طورپر شامل ہے۔ لیکن ان کا نظریۂ امن بھی ایک منفی نظریۂ امن کی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی دہلی میں      ایک خصوصی سیمینار ہوا۔ اِس سیمینار کی مکمل روداد نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’دی پائنیر‘ (26 جنوری1997 ) میں      شائع ہوئی۔ اِس سیمینار میں      راقم الحروف کے علاوہ حسب ذیل افراد شریک ہوئے — رام چندر گاندھی، رویندر کمار، سبراتا مُکھرجی، کے آر ملکانی۔ اِس سیمینار کا موضوع یہ تھا — کیا گاندھی آج کامیاب ہوتے:

Could Gandhi have succeeded today?

میں      نے اپنی تقریر میں      کہا کہ گاندھی ماضی میں      بھی کامیاب نہیں      ہوئے، پھر وہ آج کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں     ۔ میں      نے کہا کہ گاندھی کا مقصد ایک پُرامن انقلاب لانا تھا، مگر اپنے پیشِ نظر مقصد کے مطابق، وہ کوئی پُرامن انقلاب نہ لاسکے۔ انھوں      نے جو کچھ کیا، وہ انقلاب نہ تھا، بلکہ محدود معنوں      میں      صرف حکم رانوں      کی تبدیلی (coup) تھا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک ناگہانی انقلاب (coup)تھا، نہ کہ کوئی حقیقی انقلاب۔ میری یہ تقریر لفظ بہ لفظ مذکورہ اخبار میں      چھپی۔ میری تقریر کے ایک جملے کو لے کر اخبار نے اُس کا عنوان اِن الفاظ میں      قائم کیا تھا:

Gandhi presided over a non-violent coup, he didn’t usher in a revolution.

یہی معاملہ ہر اُس رہنما اور مفکر کا ہوا جو امن (peace)کے نام پر کام کرنے کے لیے اٹھا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسانی زندگی میں      پر امن واقعے کو ظہور میں     لانے کے لیے ایک پُرامن آئڈیالوجی (peaceful ideology) درکار ہے۔ چوں      کہ کوئی شخص پُرامن آئڈیالوجی کو دریافت نہ کرسکا، اِس لیے وہ پُرامن زندگی کی تشکیل بھی نہ کرسکا۔

رہنماؤں      کی اِس ناکامی کا مشترک سبب یہ ہے کہ ہر ایک امن کو سیاسی اقتدار کے ساتھ جوڑے ہوئے تھا، ہر ایک نے وقت کے سیاسی اقتدار کو امن کی راہ میں      رکاوٹ سمجھا، ہر ایک اِس طرح سوچتا رہا کہ اگر امن کو حاصل کرنا ہے تو سب سے پہلے سیاسی اقتدار کی رکاوٹ کو ختم کرنا ہوگا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امن کی ہر تحریک وقت کے سیاسی اقتدار سے ٹکرا گئی۔ فطری طور پر اربابِ اقتدار نے بھی اپنی طاقت کو ان تحریکوں      کے خلاف استعمال کیا۔ اِس طرح دونوں      کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ امن کے نام پر آخر میں      جو چیز قائم ہوئی، وہ صرف بد امنی اور انارکی (anarchy)تھی۔ اِس کی ایک مثال 1947 کے بعد بننے والے ’’گاندھیائی انڈیا‘‘ میں      دیکھی جاسکتی ہے۔

تاریخ کی ان تمام مثالوں      کے برعکس، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیا فارمولا دریافت کیا۔ اِس فارمولے کا علم آپ کو خدا کی طرف سے دیاگیا تھا۔ اِسی لیے قرآن میں     اُس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا(48:27)۔یعنی خدا نے وہ بات جانی، جس سے انسان بے خبر تھا۔

امن کا فارمولا

امن کا یہ فارمولا جو خدا نے اپنے علم کے تحت بتایا، وہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ ہرمسئلہ کے ساتھ مواقع موجود رہتے ہیں     (الشرح، 94:5-6)۔ اِس لیے تم مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو:

Ignore the problem and avail the opportunities.

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی رہنمائی سے اِس فارمولے کو سمجھا اور اس کو حدیبیہ ایگری مینٹ (628 ء) کی شکل میں      استعمال کیا۔ حدیبیہ ایگری مینٹ گویا کہ امن فارمولے کا ایک کامیاب مظاہرہ (demonstration) تھا۔ (حدیبیہ ایگری مینٹ کی تفصیلات میری کتابوں      میں      دیکھی جاسکتی ہیں     ۔ مثلاً امن عالم اور مطالعہ سیرت ،وغیرہ)۔

امن کا یہ فارمولا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی شخص دریافت نہ کرسکا۔آپ نے اگرچہ اپنی زندگی میں      اِس فارمولے کو نہایت کامیاب طور پر استعمال کیا تھا، لیکن میرے علم کے مطابق، کوئی بھی شخص اِس کو حقیقی طورپر سمجھ نہ سکا، حتی کہ خود مسلمان بھی اِس فارمولے کو سمجھنے سے مکمل طورپر عاجز رہے۔ موجودہ زمانے میں      مسلمان ہر جگہ مسائل (problems) سے لڑ رہے ہیں     ۔ وہ اِس حقیقت کو جان نہ سکے کہ مسائل کے باوجود اُن کے لیے نہایت اعلیٰ مواقع موجود ہیں     ۔ اُن کو چاہیے تھا کہ وہ مسائل کو نظر انداز کرتے اور مواقع (opportunities)کو استعمال کرتے، لیکن اپنی بے شعوری کی بنا پر وہ اِس حکمت کو دریافت کرنے میں      ناکام رہے۔

پیغمبر اسلام کے اِس امن فارمولے نے تاریخ میں     ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اِس نئے دور کو ایک لفظ میں      ڈی سنٹرلائزیشن آف پولٹکل پاور (decentralization of political power) کہاجاسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس پراسس کا آغاز ہورہا ہے، جس میں      سیاسی اقتدار صرف ایک ثانوی چیز ہے۔ اولین چیزیں      وہ ہیں      جو سیاسی اقتدار کے باہر پائی جاتی ہیں     ۔ موجودہ زمانے میں      انسٹی ٹیوشن (institution)کا تصور اِسی تاریخی پراسس (historical process)کا اگلا مرحلہ ہے۔

موجودہ زمانے میں      ایسا ہوا ہے کہ سیاسی اقتدار کے باہر مختلف مقاصد کے لیے انسٹی ٹیوشن بنائے جاتے ہیں     ۔ مثلاً تعلیم کے لیے، صنعت وتجارت کے لیے، سماجی فلاح کے لیے اور مشنری ورک کے لیے، وغیرہ۔ اِن اداروں      کے ذریعے اتنے بڑے بڑے کام لیے جارہے ہیں      کہ لوگوں      نے حکومتی اقتدار (political power)کے بغیر مختلف عنوانات سے اپنے ایمپائر بنا رکھے ہیں     ۔ اِس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ماضی کے برعکس، حکومت کا دائرہ سمٹ کر اب صرف انتظامیہ (administration) تک محدود ہوگیا ہے۔ یہ تاریخ کی ایک عظیم تبدیلی ہے، مگر اِس تبدیلی کا آغاز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کیا تھا۔غالباً اسی تبدیلی کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ ہے: وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (61:13)۔ یعنی ایک اور چیز بھی جس کی تم تمنا رکھتے ہو، اللہ کی مدد اورقریب کی فتح، اور مومنوں      کو خوش خبری دے دو ۔

اِس تبدیلی نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ حکومت سے ٹکراؤ کیے بغیر خالص پُرامن طریقِ کار کے ذریعے بہت بڑے بڑے کام کیے جاسکیں     ۔ باشعور قوموں      نے اِس امکان سے فائدہ اٹھا کر عملاً ایسا کررکھا ہے۔ چنانچہ اِن لوگوں      نے حکومت سے باہر رہتے ہوئے اور حکومت سے ٹکراؤ کیے بغیر انتہائی اعلیٰ پیمانے پر اپنا میڈیا ایمپائر اور ایجوکیشنل ایمپائر اور انڈسٹریل ایمپائر اور مشنری ایمپائر بنالیا ہے ۔ مگر جہاں      تک اِس امکان کی دریافت کا تعلق ہے، وہ پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی رہنمائی کے تحت حاصل ہوئی۔ اِس استثنائی معرفت کی اِس کے سوا کوئی اور توجیہہ نہیں      کی جاسکتی کہ یہ مانا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے۔

ایک غلط فہمی

کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں      کہ آج کی دنیا میں      بہت سے دوسرے لوگ خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے مانے جانتے ہیں     ۔ مثلاً ہندو لوگ رام اور کرشن کو پیغمبر کا درجہ دیتے ہیں     ۔ اِسی طرح مسیحی لوگ حضرت مسیح کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا خصوصی رہنما سمجھتے ہیں     ۔ مگر یہ صرف ایک غلط فہمی ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں     ۔

جہاں      تک رام اور کرشن کا تعلق ہے، اِس بحث کے ذیل میں      اُن کو زیر غور لانا ممکن نہیں     ۔اِس کا سبب یہ ہے کہ رام اور کرشن ایک افسانوی شخصیت (mythological figure) کی حیثیت رکھتے ہیں     ، ان کو تاریخی شخصیت (historical figure) کا درجہ حاصل نہیں     ۔ انڈیا کے کسی بھی مستند تاریخی ریکارڈ سے یہ ثابت نہیں      ہوتا کہ رام اور کرشن کوئی حقیقی شخصیت تھے۔ رام اور کرشن کا کوئی ریفرنس نہ انڈیا کی تاریخ میں      پایا جاتا ہے، اور نہ عالمی تاریخ میں     ۔

مثال کے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں      ہم خالص تاریخی ریکارڈ کی بنیاد پر یہ جانتے ہیں      کہ وہ 570 ء میں      مکہ میں      پیدا ہوئے۔ انھوں     نے 610 ء میں      مکہ میں      اپنی پیغمبری کا اعلان کیا اور اپنے مشن کا آغاز کیا۔ 622 ء میں      آپ مکہ کوچھوڑ کر مدینہ چلے گئے اور وہاں      انھوں     نے اسلام کی پہلی اسٹیٹ  (city state)قائم کی۔ 632ء میں     آپ کی وفات مدینہ میں      ہوئی، اور وہیں      پر آپ دفن کیے گئے۔ آپ کی قبر اب بھی مدینہ میں      موجود ہے۔ اِس قسم کی تاریخی معلومات (historical data)نہ رام کے بارے میں      دست یاب ہیں      ،اور نہ کرشن کے بارے میں     ۔

یہ حقیقت اتنی زیادہ واضح ہے کہ خود ہندو اسکالر اس کو مانتے ہیں     ۔ ہندو مصنفین نے اِس موضوع پر مقالات اور کتابوں      کی صورت میں      بہت زیادہ لکھا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو

The JNU historians reject the Ramayana as a source of historiography: “The events of the story of Rama, originally told in the Rama-Katha, which is no longer available to us, were rewritten in the form of a long epic poem, the Ramayana, by Valmiki. Since this is a poem and much of it could have been fictional, including characters and places, historians cannot accept the personalities, the events, or the locations as historically authentic unless there is other supporting evidence from sources regarded as more reliable by historians. Very often historical evidence contradicts popular beliefs.” (Koenraad Elst: Ram Janmabhoomi Vs Babri Masjid, Voice of India, New Delhi, 1990 p. 14)

تحریکوں      کی تاریخ

لارڈ ایکٹن (John Emerich Edward Dalberg Acton) مشہور مغربی مفکر ہے۔ وہ 1834ء میں      پیدا ہوا اور 1902 ء میں      اس کی وفات ہوئی۔ اس نے سیاست اور حکومت کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اپنے مطالعے کی بنیاد پر اس نے سیاسی اقتدار (political power)کے بارے میں      کہا — اقتدار بگاڑتا ہے، اور کامل اقتدار بالکل بگاڑ دیتا ہے:

Power corrupts, and absolute power corrupts absolutely.

یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو جب بھی اقتدار ملتا ہے، تو وہ بگڑ جاتا ہے۔ دوسروں      کی سیاسی بُرائی بتانے والے، اقتدار پاتے ہی خود بھی اُسی قسم کی برائی میں      مبتلا ہوجاتے ہیں     ۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنی بڑائی کا احساس نہایت گہرے طورپر موجود ہے۔ اقتدار اِس احساس کو غذا دیتا ہے، وہ اس کو ختم نہیں      کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار تک پہنچتے ہی تمام لوگ بگڑ جاتے ہیں     ۔ اِس سلسلے میں      تاریخ کی چند مثالیں      یہاں      درج کی جاتی ہیں     :

—1تحریکوں      کی تاریخ میں      بہت سے مشہور لوگوں      کے نام آتے ہیں     ۔ مگر واقعات بتاتے ہیں      کہ اِن لوگوں      کو سیاسی ہنگامہ کرنے والے تو بہت سے لوگ ملے، لیکن اِن میں      سے کسی کو بھی قابلِ اعتماد ساتھی نہ مل سکے۔ مشہور فلسفی ارسطو (Aristotle) اِس معاملے کی ایک تاریخی مثال ہے۔ وہ یونان میں      384قبل مسیح میں      پیداہوا اور 322 قبل مسیح میں      اس کی وفات ہوئی۔ وہ شاہِ یونان الیگزنڈر دی گریٹ (Alexander the Great) کا استاد تھا۔ وہ آئڈیل اسٹیٹ اور فلاسفر کنگ میں     یقین رکھتا تھا۔

        اس نے اِس مقصد کے لیے الیگزنڈر کی تعلیم و تربیت اُس وقت کی، جب کہ وہ ابھی شہزادہ تھا۔ ارسطو کو یقین تھا کہ الیگزنڈر ایک فلاسفر کنگ بنے گا، اور اس کے خوابوں      کی آئڈیل اسٹیٹ قائم کرے گا۔ لیکن بڑا ہونے کے بعد جب الیگزنڈر 336 قبل مسیح میں      باقاعدہ بادشاہ بنا تو اس نے ارسطو کے راستے کو چھوڑ دیا، اور عالمی فتوحات کے لیے نکل پڑا۔ اس کا سیاسی خواب ابھی پورا نہیں      ہوا تھا کہ وہ صرف 33  سال کی عمر میں      بیمار ہو کر بابل (عراق) میں      مرگیا۔

—2    یہی معاملہ کارل مارکس (Karl Marx) کا ہے۔ وہ 1818 ء میں      جرمنی میں      پیدا ہوا اور 1883 ء میں      لندن میں      اس کی وفات ہوئی۔ اس کے افکار کی بنیاد پر بہت بڑی کمیونسٹ تحریک اٹھی۔ 1917 ء میں      کمیونسٹ پارٹی روس میں     حکومت کرنے میں      کامیاب ہوگئی، لیکن مارکس کے تمام ساتھی اصل مارکسی راستے سے ہٹ گئے۔ ایک کمیونسٹ مسٹر میلوون جیلاس (Milovan Djilas)کے الفاظ میں     ، طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے نام پر کمیونسٹ گروہ خود ایک نیا طبقہ (new class) بن گیا۔

        ٹراٹسکی (Leon Trotsky) روس میں      1879 ء میں      پیدا ہوا اور 1940ء میں      میکسکوسٹی میں      اس کو قتل کردیا گیا۔ ٹراٹسکی کمیونسٹ پارٹی میں      لینن کے بعد نمبر دو کا لیڈر تھا، مگر 1917 ء  کے بعد اُس نے دیکھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے لوگ سیاسی بگاڑ کا شکار ہوگئے۔ اس نے انقلاب سے غدّاری (Revolution Betrayed) کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو 1937ء میں      چھپی۔ اِس کے بعد خود روس کے کمیونسٹ لیڈروں     نے اس کو ہلاک کردیا۔

—3یہی منظر خود انڈیا میں     نظر آتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے زبردست سیاسی تحریک چلائی۔ ان کے ساتھ ایک بھیڑ اکھٹا ہوگئی، لیکن 1947 ء میں     آزادی کے بعد ان کی پارٹی کے تمام لوگ مہاتما گاندھی کے راستے سے ہٹ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر خود مہاتما گاندھی نے 1947 ء کے بعد اپنی پارٹی کے لوگوں      کے بارے میں      کہا تھا— اب میری کون سنے گا۔ مہاتما گاندھی کے اِس جملے کو لے کر ایک کتاب ہندی میں      لکھی گئی۔ اس کتاب کا ٹائٹل یہی ہے — ’’اب میری کون سنے گا‘‘۔ 15 اگست 1947 کو انڈیا میں      سیاسی آزادی آئی۔ اس کے بعد 30 جنوری 1948 ء کو دہلی میں      مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔

ہیرؤوں      کی جماعت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں      جو استثنائی واقعات جمع ہوئے، اُن میں      سے ایک یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں      کی ایک ایسی ٹیم بنانے میں      کامیاب ہوئے، جیسی ٹیم پوری تاریخ میں     کوئی نہ بنا سکا۔ اِس واقعے کا اعتراف مورخین نے واضح الفاظ میں      کیا ہے۔ مثلاً مشہور برطانی مستشرق ڈیوڈ سموئل مارگو لیتھ(David Samuel Margoliouth)  1885 میں      لندن میں      آکسفورڈ یونیورسٹی میں      عربک ڈپارٹمنٹ کا پروفیسر تھا۔ اُس نے عرب تاریخ اور اسلامی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا نے اُس کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں     — اُس کے بارے میں     یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کو اسلامی موضوعات پر بہت سے عرب علماء سے بھی زیادہ واقفیت حاصل تھی:

He came to be regarded as more knowledgeable on Islamic matters than most Arab scholars.

اسلام اور عرب تاریخ کے موضوع پر اس کی کئی کتابیں      ہیں     ۔ اس کی ایک کتاب وہ ہے جو 1905  میں      چھپی۔ یہ کتاب اسلام کے ظہور کے موضوع پر ہے، اور اس کا نام یہ ہے:

Muhammad and the Rise of Islam

اِس کتاب میں     پروفیسر مارگولیتھ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو ہیروؤں      کی ایک قوم (a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اصحابِ رسول کا گروہ ایک ایسا گروہ تھا، جیسا گروہ تاریخ میں      کسی اور شخص کے گرد اکھٹا نہیں      ہوا۔

اِسی طرح فلِپ ہِٹّی (Philip K. Hitti) مشہور اسکالر ہیں     ۔ وہ 1886  میں      لبنان میں      پیدا ہوئے اور امریکا میں     1978 میں     ان کی وفات ہوئی۔ وہ عربی زبان اور اسلامی علوم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں     ۔ وہ امریکا کی کئی یونیورسٹیوں      میں      عربی زبان اور مشرقی علوم کے پروفیسر رہے ہیں     ۔ ان کی ایک مشہور کتاب عرب تاریخ پر ہے۔ اُس کا نام یہ ہے  :

History of the Arabs

ان کی یہ کتاب پہلی بار 1937 میں      چھپی۔ اِس کتاب میں     انھوں      نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (companions)کے تذکرے کے تحت لکھا ہے  — پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد ایسا معلوم ہوا، جیسے عرب کی بنجر زمین جادو کے ذریعے ’’ہیروؤں      کی نرسری‘‘ میں     تبدیل کردی گئی ہو، ایسے ہیرو جن کے مِثل، تعداد یا نوعیت میں     ، کہیں      اور پانا سخت مشکل ہے:

After the death of the prophet sterile Arabia seems to have been converted as if by magic into a nursery of heroes the like of whom, both in number and quality, is hard to find anywhere. (p. 142)

مستقبل کی دنیا

موجودہ زمانے میں      دو مختلف آئڈیالوجی اُبھری— سیکولر آئڈیالوجی اور مذہبی آئڈیا لوجی۔ سیکولر آئڈیا لوجی سے مراد وہ آئڈیا لوجی ہے جو خالص انسانی عقل (reason) کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ اِس کے مقابلے میں     ، مذہبی آئڈیالوجی وہ ہے، جو پیغمبر کی رہنمائی کے تحت بنی۔ موجودہ زمانے کا یہ ایک عجیب ظاہرہ ہے کہ سیکولر آئڈیالوجی اب اپنی ناکامی کے آخری دور میں      پہنچ چکی ہے۔ اِس کے برعکس، تمام قرائن (clues)  بتارہے ہیں      کہ مذہبی آئڈیالوجی نئی صبح کی مانند انسان کے اوپر طلوع ہونے والی ہے، بلکہ وہ طلوع ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

جدید مادّی ترقیوں      کے بعد سیکولر مفکرین نے یہ یقین کرلیا کہ بہت جلد ہمارے سیّارۂ زمین (planet earth) پر وہ بہتر دنیا بننے والی ہے، جس کا خواب ہزاروں      سال سے انسان دیکھتا رہا ہے۔ اِس آئڈیالوجی کی ایک نمائندہ کتاب فیوچر شاک (Future Shock) ہے، جس کو اُس کے مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) نے پہلی بار 1970 میں      شائع کیا۔یہ کتاب شائع ہوتے ہی بیسٹ سیلر بن گئی۔ اِس کتاب میں      مصنف نے تیقن کے ساتھ یہ پیشین گوئی کی تھی کہ دنیا تیزی کے ساتھ انڈسٹریل ایج سے ترقی کرکے سُپر انڈسٹریل ایج میں      داخل ہونے والی ہے۔ یہ سویلائزیشن کا اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ ہوگا، جب کہ انسان کی تمام مادّی خواہشیں      اپنا مکمل فلفل مینٹ (fulfilment)پالیں     ۔

مگر اکیسویں      صدی کاآغاز اِس قسم کے تمام اندازوں      کے خاتمے کے ہم معنی بن گیا۔ اب شدت کے ساتھ وہ ظاہرہ پیدا ہوا، جس کو گلوبل وارمنگ (global warming)کہاجاتا ہے۔ انڈسٹریل سرگرمیوں      سے پیدا ہونے والی کثافت نے سیارۂ زمین پر ایسے حالات پیدا کئے، جب کہ یہ دنیا سرے سے انسان کے لیے قابلِ رہائش (habitable)  ہی نہیں      رہے گی۔آج کل میڈیا میں      مسلسل یہ خبریں      آرہی ہیں      کہ تمام دنیا کے سائنس دانوں      نے گہری رسرچ کے بعد یہ پایا ہے کہ ہماری زمین میں      موسمیاتی تبدیلی (climatic change) اِس خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ غیرمنقلب (irreversible) ہوچکی ہے۔

یہ سائنس کی زبان میں      قیامت کی پیشین گوئي ہے، یعنی زمین پر موجودہ حالات کا خاتمہ اور ایک نئی تاریخ کا آغاز۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (18 نومبر 2007) نے گلوبل وارمنگ کے موضوع پر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اِس رپورٹ کے عنوان کے لئے اُس نے بامعنی طور پر اِن الفاظ کا انتخاب کیا تھا— قیامت اب زیادہ دور نہیں     :

Doomsday not so Far

یہ صورتِ حال ایک طرف سیکولر آئڈیالوجی کی تنسیخ کررہی ہے، اور دوسری طرف وہ ہم کو یہ قرینہ (clue) دے رہی ہے کہ اِس معاملے میں      مذہبی آئڈیالوجی زیادہ درست اور مبنی بَرحقیقت ہے۔ مذہبی آئڈیالوجی جو پیغمبروں      کے ذریعے معلوم ہوئی، وہ یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین اِس لیے بنایا ہی نہیں      گیا کہ یہاں     انسان اپنے لیے مادی جنت کی تعمیر کرسکے۔ یہاں      کے ناقص اسباب قطعیّت کے ساتھ کسی مفروضہ مادی جنت کی تعمیر میں      مانع ہیں     ۔

اِس معاملے میں      درست اورمطابقِ واقعہ بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے تمام اسباب، امتحانی پرچے (test papers)   کی حیثیت رکھتے ہیں     ۔ موجودہ دنیا میں      جو چیزیں      انسان کو ملی ہیں     ، وہ بطور انعام نہیں      ہیں     ۔ اگریہ چیزیں      بطور انعام ہوتیں     ، تو وہ اپنی ذات میں     کامل ہوتیں     ۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، یہاں      کی ہر چیز ناقص ہے اور اِن چیزوں      کا ناقص ہونا یہ بتاتا ہے کہ یہی نظریہ درست ہے کہ یہ چیزیں      امتحانی پرچے کی حیثیت رکھتی ہیں     ، وہ انسان کو انعام کے طورپر نہیں      دی گئیں     ۔

یہ قرینہ (clue) یہ ثابت کرتا ہے کہ اِس معاملے میں      پیغمبرانہ نظریہ ہی صحیح نظریہ ہے، یعنی یہ کہ موجودہ دنیا غیر معیاری دنیا (imperfect world)  ہے۔ اِس کے بعد ایک اور دنیا بنے گی، جو اِس دنیا کا معیاری ورژن (perfect version) ہوگا۔ موت کے بعد بننے والی اِس معیاری دنیا میں      وہ لوگ جگہ پائیں      گے، جو موجودہ امتحانی دنیا میں     اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرچکے ہوں     ۔

اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام سیکولر فلسفی اور مفکر اور رہنما ہزاروں      سال سے یہ کوشش کرتے رہے ہیں      کہ وہ موجودہ دنیا میں      منصفانہ سماج (just society) بنائیں     ، مگر ساری کوششوں     کے باوجود اُنھیں      کامیابی نہ ہوسکی۔ اِس کے برعکس، جو ہوا وہ یہ کہ ساری دنیا میں     انارکی اور کرپشن اور استحصال اور بددیانتی پھیل گئی۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں      اِس معاملے میں     مزید اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ اب تمام قرائن کے مطابق، یہ ناممکن ہوچکا ہے کہ منصفانہ سوسائٹی کی تعمیر کے مقصد کو حاصل کیا جاسکے۔ جدید ترقیوں      نے لوگوں      کے بگاڑ میں      صرف اضافہ کیا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں     ۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کا ضمیر ایک منصفانہ سماج چاہتا ہے۔یہ ضمیر جس طرح پہلے لوگوں      کے اندر موجود تھا، اُسی طرح وہ آج بھی پایا جاتا ہے۔ اب موجودہ حالات میں      منصفانہ سماج کا قیام عملاً ناممکن ہوچکا ہے۔ مثلاً موجودہ عدالتی نظام اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ اُس سے اب انصاف کی امید ہی نہیں      کی جاسکتی۔ قوانین کی بھر مار کے باوجود صرف عدالت کی بے انصافیوں      میں     اضافہ ہوا ہے۔

یہ معاملہ دوبارہ ایک قرینہ (clue) ہے، جو پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتا ہے، یعنی یہ کہ مجرموں      کو سزا دینا، اور سچے انسانوں      کو اُن کے عمل کا انعام دینا، موجودہ محدود دنیا میں      ممکن ہی نہیں     ۔ انسانی ضمیر کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک اور دنیا درکار ہے، ایک ایسی دنیا جہاں      خود خدا ظاہر ہو کر سب کا حساب لے اورانصاف کو قائم کرے۔یہ صورتِ حال اِس پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک یومُ الحساب (day of judgment) آنے والا ہے۔ اُس وقت خدائی طاقت کے ذریعے منصفانہ سماج کا وہ قیام ممکن ہوجائے گا، جو انسانی طاقت کے ذریعے موجودہ دنیا میں      ممکن نہیں     ہوا تھا۔

پیغمبرانہ آئڈیالوجی کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دَور ہیں     — قبل از موت دورِ حیات، اور بعد از موت دورِ حیات۔ اب یہ آخری طورپر ثابت ہوچکا ہے کہ قبل از موت دورِ حیات اپنی محدودیتوں      کی وجہ سے اُس کامل دنیا کی تعمیر کے لیے ناکافی ہے، جو انسان کا ضمیر چاہتا ہے۔ یہ مطلوب دنیا بلا شبہ بنے گی، لیکن وہ موت کے بعد کے وسیع تر دورِ حیات ہی میں      بن سکتی ہے— یہ مطلوب دنیا ایک زیرِتعمیر دنیا ہے۔ اب وہ دن زیادہ دور نہیں     ، جب کہ یہ بننے والی مطلوب دنیا مکمل ہو کر ہمارے سامنے آجائے۔

پیغمبر ِ انقلاب

قرآن میں      پچیس پیغمبروں      کا ذِکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں      کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر زمانے میں      جاری رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساتویں      صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں      محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ قرآن کے مطابق، آپ خدا کے رسول بھی تھے اور نبیوں      کے خاتم بھی۔

پیغمبروں      کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام پیغمبر مشترک طورپر توحید کا پیغام لے کر آئے ، لیکن پچھلے پیغمبروں      کے زمانے میں      یہ پیغام زیادہ تر فکری مرحلے میں      رہا، وہ عملی انقلاب کے درجے تک نہیں      پہنچا۔ پیغمبر آخر الزماں      صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کو اپنے اصحاب کی صورت میں      ایک مضبوط ٹیم مل گئی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر عملی انقلاب کے درجے تک پہنچا دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں      یہ انقلاب عملی طورپر پیش آیا، اور پھر وہ تاریخِ بشری کا ایک معلوم اور مسلّم حصہ بن گیا۔

پیغمبرآخر الزماں      محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں      کے ليے ایک ’’روایتی عقیدہ‘‘ کی حیثیت نہیں      رکھتی، بلکہ وہ ایک مسلّمہ تاریخی واقعہ ہے۔ پیغمبر آخرالزماں      سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کی زندگی مدوّن تاریخ کا جُز نہ بن سکی، مگر پیغمبر اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مسلّم تاریخی پیغمبر کی ہے، آپ کی نبوت پورے معنوں      میں      ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔انسانی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے، اُس میں      پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ابدی تعلیم کے اثرات نمایاں      طورپر دکھائی دیں      گے۔ وہ تمام بہترین روایات اور وہ تمام اعلیٰ قدریں      جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے، وہ سب پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کے براہِ راست نتائج ہیں     ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تاریخ کے ایک عظیم انسان کی حیثیت رکھتے ہیں     ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانِ کامل (القلم، 68:4)بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ خدا نے پیغمبرآخرالزماں      کی شکل میں      تاریخ میں      ایک ایسا بلند ترین مینارکھڑا کردیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر اُٹھائے، وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہنما کی تلاش میں      نکلے تو اُس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا روشن اور بلند و بالا وجود اُس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرلے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیٔ اعظم اور رہبرِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں     ۔ اِسی لیے خدا نے آپ کو نبیوں      کے خاتم(الاحزاب،33:40) کی حیثیت سے مبعوث فرمایا۔ دوسرے انبیا صرف اللہ کے رسول تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی۔

راقم الحروف کی کتاب ’پیغمبر انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں      چھپی۔ اس وقت میں      نے اِس کتاب میں      پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مذکورہ الفاظ لکھے تھے، جونہ صرف مسلمانوں      کے لیے بلکہ غیرمسلموں      کے لیے بھی نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں     ۔

قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو محمودیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے(الاسراء، 17:79)۔ چنانچہ نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ عام مصنفین اور مورخین نے پیغمبر اسلام کی عظمت کو کھلے طورپر تسلیم کیا ہے۔بارھویں      اور تیرھویں      صدی عیسوی میں      مسلم قوموں      اور مسیحی قوموں      کے درمیان لڑائیاں      پیش آئیں     ، جن کو صلیبی جنگ (crusades) کہاجاتا ہے۔ اِن جنگوں      میں      مسیحی قوموں      کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد مسیحی مصنفین نے اسلام کے خلاف ایک قلمی جنگ چھیڑ دی۔ کثرت سے ایسی کتابیں      لکھی گئیں     ، جن میں      اسلام اور پیغمبر اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔

اِس سلسلے کو توڑنے والا پہلا قابلِ ذکر شخص اسکاٹ لینڈ کا ایک مصنف ٹامس کارلائل (وفات1881) ہے۔ اُس نے جرأت مندانہ طورپر اِس رجحان کو بدلا۔ اُس کی مشہور کتاب هيروز اور ہیروورشپ(On Heroes, Hero Worship) پہلی بار1841 میں      چھپی۔ اِس انگریزی کتاب میں      اُس نے پیغمبر اسلام کی مثبت تصویر پیش کی۔ اُس نے پیغمبر اسلام کو دوسرے تمام پیغمبروں      کے مقابلے میں      ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔

اِس کے بعد کثرت سے مختلف زبانوں      میں      پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں      کتابیں      شائع ہوئیں     ۔ اِن کتابوں      میں      تاریخ میں      آپ کے انقلابی رول کا کھلے طورپر اعتراف کیا گیا۔ مثلاً انڈیا کے ایک اسکالرایم این رائے (وفات1954 ) کی کتاب 1939 (Historical Role of Islam)   میں      پہلی بار دہلی سے چھپی۔ اِس میں      انھوں      نے لکھا کہ پیغمبر اسلام، تمام پیغمبروں      میں      سب سے بڑے پیغمبر تھے۔ انھوں     نے سب سے بڑا تاریخی معجزہ دکھایا:

Every prophet establishes his pretentions by the performance of miracles. On that token, Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, before or after him. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 5)

پیغمبر آخر الزماں      صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں      یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ آپ کو مقامِ محمود کا درجہ عطا کیا جائے گا(الاسراء،17:79)۔ مقامِ محمودیت کا ایک پہلو وہ ہے جو آخرت میں      ظاہر ہوگا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، موجودہ دنیا سے ہے۔ موجودہ دنیا کی نسبت سے مقامِ محمود یہ ہے کہ آپ کو تاریخی اعتبار سے ایک مسلّم نبوت (established prophethood) کا درجہ حاصل ہوگا۔

آپ سے پہلے جو انبیا آئے، وہ مدوّن تاریخ میں      ریکارڈ نہ ہوسکے۔آپ کے سوا ہر ایک کی حیثیت، اعتقادی نبوت کی ہے، نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ آپ کو خدا نے آخری پیغمبر بنایا ـتھا۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آنے والا نہ تھا۔ اِس لیے ضروری تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی پیغمبرانہ زندگی کامل طورپر محفوظ ہوجائے، وہ تسلیم شدہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل کرلے۔ کیوں      کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، جب پیغمبر مستند تاریخی ریکارڈ کادرجہ حاصل کرلے تو اس کے بعداُس کی لائی ہوئی کتاب اور اُس کی تعلیمات کا یہی ریکارڈ پیغمبر کا قائم مقام بن جاتا ہے۔ اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں      رہتی۔

خاتم النبیین

قرآن کی سورہ الاحزاب میں      پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں      یہ اعلان کیاگیا ہے: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّيْنَ( 33:40)۔ یعنی محمد تمھارے مَردوں      میں      سے کسی کے باپ نہیں      ہیں     ، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں      کے خاتم ہیں     ۔

قرآن کی اِس آیت میں      پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صفتیں      بیان کی گئی ہیں     — رسول اللہ، اور خاتم النبیین۔ رسول اللہ ہونے کے اعتبار سے آپ دوسرے تمام رسولوں      کی مانند تھے، جیسا کہ قرآن میں     اہل ایمان کی زبان سے آیا ہےلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ  (2:285)۔یعنی ہم اس کے رسولوں      میں      سے کسی کے درمیان فرق نہیں      کرتے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول ہونے کے اعتبار سے، ایک رسول اور دوسرے رسول کے درمیان کوئی فرق نہیں     ۔ لیکن مذکورہ آیت (الاحزاب، 33:40) کے مطابق، اِس کے سوا آپ کی ایک اور حیثیت ہے،اور وہ یہ کہ آپ رسول ہونے کے علاوہ خاتم النبیین ہیں     ، یعنی سلسلۂ نبوت کے آخری پیغمبر۔ آپ کا خاتم النبیین ہونا دراصل آپ کی ایک مزید (additional) صفت کو بتاتا ہے، یعنی آپ کی آمد کے بعد نبیوں      کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

اِس قرآنی آیت میں      ’خاتم‘ کا لفظ آیا ہے۔ لغت کے اعتبار سے ’خاتَم‘ اور ’خاتِم‘ دونوں      میں      کوئی فرق نہیں      ہے۔ دونوں      کا مطلب ایک ہے، یعنی آپ سلسلہ نبوت کے آخری نبی ہیں     ۔ آپ کے بعد اب کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں     ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اِس فیصلے کو غیر مشتبہ بنانے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے مزید اہتمام یہ کیا کہ آپ کی کوئی اولادِ نرینہ (male offspring)نہیں     ۔ ورنہ یہ امکان تھا کہ لوگ آپ کے بیٹے کو پیغمبر کا درجہ دے دیں     ۔

نبیوں      کا خاتم ہونا صرف فہرست کی تکمیل کا معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ اُس ضرورت کے ختم ہوجانے کا معاملہ تھا، جس کی بناپر پچھلی تاریخ میں      بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے ہیں     ۔ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ نئے پیغمبر کو بھیجنے کی ضرورت اُس وقت ہوتی ہے جب کہ خدا کا دین محفوظ حالت میں      باقی نہ رہے ۔ جیسا کہ قرآن میں     آیا ہےلِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ(2:213)۔یعنی تاکہ وہ فیصلہ کردے ان باتوں      کا جن میں      لوگ اختلاف کر رہے ہیں     ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین مکمل طورپر محفوظ ہوگیا، اِس لیے بطور حقیقت اِس کی ضرورت باقی نہ رہی کہ آپ کے بعد کوئی نیا نبی آئے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں      کئی چیزیں      ایسی ملتی ہیں      جو دوسرے پیغمبروں     کے یہاں      موجود نہیں     ۔ مثلاً سیاسی غلبہ۔ اِس قسم کی چیزیں      تکمیلِ نبوت کے لیے نہیں      ہیں     ، بلکہ وہ ختمِ نبوت کے لازمی تقاضے کے طورپر ہیں     ۔ اگر یہ مزید چیزیں      آپ کی زندگی میں      شامل نہ ہوتیں     ، تو ایسا نہ ہوتا کہ نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوجائے۔ حالاں      کہ منصوبۂ الٰہی کے مطابق، ایسا ہونا ضروری تھا۔

اصل یہ ہے کہ پیغمبر کے آنے کا مقصد صرف یہی نہیں      ہوتا کہ وہ شخصی طورپر اپنے زمانے کے لوگوں      کو خدا کا پیغام پہنچا دے، بلکہ اِسی کے ساتھ پیغمبر کے آنے کا یہ مقصد بھی ہوتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ میں      ایک نئے دور کا آغاز کرے۔ وہ ہدایتِ ربّانی کے معاملے کو خود تاریخی عمل (historical process) میں     شامل کردے۔ پیغمبر اسلام کے ظہور کے بعد یہ سب کچھ بہ تمام وکمال پیش آگیا۔ اِس لیے اب نبیوں      کی آمد کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی کے یہ تمام اضافی پہلو قرآن میں      بتا دیے گئے ہیں     ۔

مثلاً قرآن میں      ارشاد ہوا ہے: وَقَٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌۭ  (2:193;8:39)۔یعنی تم اُن سے قتال (جنگ) کرو، یہاں     تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ اِس آیت میں      ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔چنانچہ مفسرین نے اس آیت میں      فتنہ کی تفسیر ان الفاظ میں      کی ہے: حَتَّى لَا يُفْتَنُ مُؤْمِنٌ عَنْ دِينِهِ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ468 ؛ تفسیر ابن ابی حاتم،اثر نمبر 9074)۔ یعنی یہاں      تک کہ کسی ایمان والے کو اس کے دین کی وجہ سے ستایا نہ جائے۔

قدیم بادشاہی زمانے میں      لمبی مدت سے دنیا میں      مذہبی جبر کا نظام قائم تھا۔ اِس قسم کا نظام نہ اچانک قائم ہوتا،اور نہ وہ اچانک ختم ہوتا۔ اِس قرآنی حکم کا مدّعا یہ تھا کہ تاریخِ بشری میں      ایک ایسا عمل (process) جاری ہوجائے، جس کے نتیجے میں     ایساہو کہ مذہبی جبر مکمل طورپر ختم ہوجائے، اور اس کے بجائے مذہبی آزادی کی حالت مکمل طورپر قائم ہوجائے۔

مذہبی آزادی (religious freedom)کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں     ۔ وہ براہِ راست خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) سے جُڑا ہوا معاملہ ہے۔ خدا نے انسان کو امتحان (test) کے مقصد کے تحت اِس دنیا میں      رکھا ہے۔ اِس مقصد کے تحت، دنیا میں      آزادی کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ اِسی حکمت کی بنا پر پیغمبر اسلام کو فتنہ کے خاتمے کا حکم دیاگیا، اوراس کے مطابق، آپ کے لیے اسباب فراہم کیے گئے۔ چنانچہ آپ نے اِس کام کو انجام دیا، یہاں      تک کہ انسانی تاریخ میں     مذہبی آزادی (religious freedom)کا دور کامل طورپر آگیا۔

دعوت اور حجت

خدا کی ہدایت کے دو پہلو ہیں     — دعوت اور حجت۔ دعوت سے مراد یہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو کسی کمی یا بیشی کے بغیر بتانا۔ خدا کا صحیح تعارف، خدا کے تخلیقی نقشے کا اعلان، جنت اور جہنم کے معاملے سے انسان کو با خبر کرنا، وغیرہ۔ انھیں      حقیقتوں      کی وضاحت کا نام دعوت ہے۔

دعوت کا یہ عمل تمام پیغمبروں      نے اپنے اپنے زمانے میں     کیا۔ نُکاتِ دعوت کے اعتبار سے، ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ البتہ ایسا ہوا کہ پچھلے پیغمبروں      کا دعوتی کلام اپنی صحیح صورت میں      محفوظ نہ رہ سکا۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا دعوتی ذخیرہ (قرآن اور حدیث) مکمل طورپر اپنی اصل زبان میں      محفوظ ہوگیا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیاکہ بعد کی نسلیں      بھی آپ کے دعوتی پیغام سے اُسی طرح باخبر ہوسکیں     ،جس طرح آپ کے ہم زمانہ لوگ باخبر ہوئے تھے۔

جہاں      تک حجت کا سوال ہے، اُس کے دو درجے ہیں       —روایتی استدلال اور علمی استدلال۔ استدلال ہمیشہ معلوم اشیا کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں      انسانی معلومات کا دائرہ روایتی اشیا تک محدود تھا، اِس لیے قدیم زمانے میں      ہمیشہ روایتی استدلال پر اکتفا کیاگیا۔ مثلاً حضرت یوسف خدا کے ایک پیغمبر تھے۔ اُن کا زمانہ 1910 تا1800  قبل مسیح تبایاگیا ہے۔ انھوں     نے قدیم مصر میں      توحید کی دعوت دی۔ اُس وقت انھوں     نے فرمایااے میرے جیل کے ساتھیو، کیا جُدا جُدا کئی معبود بہتر ہیں     ، یا اللہ اکیلا زبردست (12:39)۔

یہ روایتی استدلال کی ایک مثال ہے۔ مگر یہاں      ایک اور استدلال موجود تھا، اور وہ تھا علمی استدلال (scientific reasoning)۔ یہ استدلال وہ تھا، جو خدا کی پیدا کردہ نیچر (فطرت) میں      موجود تھا، مگر یہ استدلال قدیم زمانے میں      صرف امکان کے درجے میں     تھا، وہ ابھی تک واقعہ نہیں      بنا تھا۔ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے ذریعے جو انقلاب پیش آیا، اس نے تاریخ میں     ایک نیا پراسس جاری کیا۔ اِس کے نتیجے میں      ایساہوا کہ یہ امکانی استدلال واقعہ بن کر سامنے آگیا۔

فطرت کی تسخیر

نیچر کا لفظ جب بولا جاتا ہے تو اُس سے مراد پوری دنیا ئے مخلوقات ہوتی ہے

Nature: The Sum total of all things in time and space; the entire physical universe.

یہ نیچر ہمیشہ سے موجود تھا، لیکن قدیم زمانے میں      انسان شرک میں     مبتلا ہوگیا۔ شرک دراصل مظاہرِ فطرت کی پرستش (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ چوں     کہ انسان نیچر کو معبود کی نظر سے دیکھتا تھا، اِس لیے وہ اس کو تحقیق وتفتیش (exploration) کی نظر سے نہ دیکھ سکا۔ اِس طرح، شرک ایک مستقل ذہنی رکاوٹ (mental block) بن گیا۔ علمی دلائل جن کو قرآن میں     آیات (نشانیاں     ) کہاگیا ہے، وہ عالم فطرت میں      موجود تھیں     ، مگر وہ ظاہر ہو کر سامنے نہ آسکیں     ۔

قرآن میں     پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو ایک حکم اِن الفاظ میں      دیاگیا تھا:وَقَٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُۥ لِلَّهِ(8:39)۔يعني اور ان سے لڑو يهاں      تك كه فتنه باقي نه رهے اور دين سب الله كے ليے هو جائے۔کچھ مفسرین کے مطابق، اِس آیت میں      ’فتنہ‘ سے مراد شرک ہے۔ یعنی پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو حکم دیاگیا کہ شرک کے سیاسی اور اجتماعی غلبےکو ختم کرو، خواہ اربابِ شرک کی جارحیت کی بنا پر اُن کے مقابلے میں     جنگ کرنا پڑے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پیغمبر اوراصحابِ پیغمبر کی کوششوں      کے نتیجے میں      شرک کا سیاسی اور اجتماعی غلبہ دنیا سے ختم ہوگیا، اور توحید کو غلبہ حاصل ہوگیا۔(اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیےراقم الحروف کی کتاب ’’اسلام دورِ جدید کا خالق‘‘ ملاحظہ فرمائیں     )۔

اِس کے بعد دنیا میں     ایک نیا عمل شروع ہوا۔ ایک لفظ میں      اس کو فطرت کی پرستش (nature worship) کے بجائے، فطرت کی تسخیر کا عمل کہاجاسکتا ہے، یعنی فطرت کو پرستش کے بجائے تحقیق اور مطالعہ کا موضوع بنانا۔ اِس کے نتیجے میں      دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ فطرت (نیچر) میں      چھپے ہوئے دلائل سامنے آگئے۔ یہ تاریخی عمل اسلام کے ابتدائی زمانے میں      شروع ہوا اور یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے بعد وہ اپنی تکمیل تک پہنچا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ خدائی حقیقتوں      کو روایتی دلائل کے بجائے سائنسی دلائل کے ذریعے ثابت شدہ بنایا جاسکے۔ چند مثالوں      سے اِس کی وضاحت ہوتی ہے

—1خدا کے وجود پر قرآن میں     ایک دلیل یہ دی گئی تھی کہ:أَفِى اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ (14:10)۔یعنی کیا خدا کے بارے میں      شک ہے، جو آسمانوں      اور زمین کو پھاڑنے والا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں     لفظ فاطر (پھاڑنے والا) خدا کے وجود کا ایک ثبوت ہے۔ کیوں      کہ پھاڑنا ایک بالقصد مداخلت (intervention) کا عمل ہے، اور بالقصد مداخلت کاعمل ایک مداخلت کار(intervener)کاثبوت ہے۔اورجب مداخلت کار کا وجود ثابت ہوجائے تو اپنے آپ خدا کا وجود (existence of God)ثابت ہوجاتا ہے۔

قرآن کی اِس آیت میں     خدا کے وجود (existence of God)کا ایک علمی ثبوت موجود ہے، لیکن اِس علمی ثبوت کی وضاحت صرف دورِ سائنس کے بعد ہوئی۔بیسویں      صدی کے رُبع اوّل میں      سائنس دانوں      نے اُس کائناتی واقعے کو دریافت کیا، جس کو بگ بینگ (Big Bang) کہاجاتاہے۔ بگ بینگ کی دریافت کے بعد یہ ممکن ہوگیاکہ مذکورہ قرآنی آیت میں      چھپے ہوئے سائنسی دلائل کو سمجھا جائے، اور اس کو استعمال کیاجائے۔

—2قرآن کی سورہ الجاثیہ میں      خدا کی ایک نعمت کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیا ہے:اَللَّهُ الَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِىَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِه (45:12)۔یعنی اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اُس کے حکم سے سمندر میں      کشتیاں      چلیں     ۔

قرآن کی اِس آیت میں      ایک عظیم حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ قدیم روایتی زمانے کا انسان اس معاملے کو صرف ایک پُراسرار عقیدے کے طورپر لیتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں      اس کی توجیہہ، ایک معلوم فطری قانون کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں      ایک جدید سائنس ظہور میں      آئی ہے، جس کو علم سکونِ سیّالات (science of hydrostatics) کہاجاتا ہے۔ اِس کے مطابق، پانی یا سیّال چیزیں      ایک خاص قانون کے تابع ہیں     ، اور وہ تخفیفِ وزن (buoyancy) یا ٹھوس اَجسام کو پانی میں      ڈالنے سے اس کو بحال رکھنے یا ابھارنے کی صلاحیت ہے:

(Buoyancy) The upward pressure by any fluid on a body, partly or wholly, immersed therein, it is equal to the weight of the fluid displaced.

اِس جدید سائنس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کی مذکورہ آیت کو خالص علم انسانی کی بنیاد پر سمجھا جاسکے، اور خدا کے اِس عظیم احسان پر یقین کیا جائے کہ اُس نے سمندر کو ایک محکم قانون کا پابند بنادیا۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوگیا کہ وسیع سمندروں      کی سطح پر انسان کشتی اور جہاز کے ذریعے سفر کرسکے، اور وہ دور دراز منزل تک بہ آسانی پہنچ جائے۔

—3خدا کی ایک نعمت کا ذکر قرآن کی سورہ ق میں     اِن الفاظ میں      بیان کیا گیا ہے: وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا (50:9) ۔یعنی ہم نے آسمان سے مبارک پانی اتارا۔ قرآن کی اِس آیت میں      خدا کی ایک عظیم نعمت کا ذکر ہے۔ قدیم زمانے میں      یہ بات صرف ایک روایتی عقیدے کی حیثیت رکھتی تھی، مگر سائنسی دریافتوں      کے بعد وہ ایک عظیم علمی دلیل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔

قرآن کی اِس آیت میں      بارش کا حوالہ دیاگیا ہے۔ بارش کیا ہے۔ بارش دراصل سمندر کا پانی ہے، جو بھاپ بن کر اوپر جاتا ہے اور پھر مخصوص قانون کے تحت دوبارہ وہ نیچے کی طرف لوٹتا ہے، جس کو بارش کہتے ہیں     ۔ جیسا کہ معلوم ہے، سمندر کا پانی کھاری ہوتاہے۔ ایسا اِس لیے ہے کیوں     کہ سمندر کے پانی میں      1/10 حصہ نمک شامل رہتا ہے۔ یہ نمک سمندر کے پانی میں      تحفظی مادّہ (preservative) کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ چوں      کہ پانی کے مقابلے میں      نمک وزنی ہوتا ہے، اِس لیے جب سمندر کا پانی سورج کی گرمی سے بھاپ بن کر اوپر کی طرف اٹھتا ہے تو اس کا نمک کا حصہ نیچے رہ جاتا ہے۔ یہ اِزالۂ نمک (desalination) کا ایک عمل ہے، جو خدا کے قانون کے تحت ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ سمندر کا کھاری پانی ہم کوشیریں      پانی کی صورت میں      دست یاب ہوتا ہے۔ اِس عمل کے بغیر سمندر کا پانی ہمارے لیے قابلِ استعمال ہی نہ ہوتا۔

کولریج (Coleridge) ایک برٹش شاعرہے۔ اس کی وفات 1834 میں      ہوئی۔ اس نے ایک نظم لکھی ہے۔ اِس نظم میں     اس نے بتایا ہے کہ لکڑی کا بنا ہوا ایک جہاز سمندر میں      سفر کے لیے روانہ ہوا۔ درمیان میں      سخت طوفان آیا۔ اُس کے نتیجے میں      جہاز ٹوٹ گیا۔ بہت سے لوگ پانی میں      ڈوب گئے۔ ایک مسافر کو جہاز کا ایک تختہ مل گیا۔ وہ اِس تختے کے اوپر لیٹ گیا اور پانی میں      تیرنے لگا۔ وہ پیاسا تھا، لیکن وہ اپنی پیاس بجھا نہیں      سکتا تھا، کیوں      کہ اُس کے آس پاس جو پانی تھا، وہ سب کا سب کھاری پانی تھا۔ شاعر اِس کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ— ہر طرف پانی ہے، لیکن ایک قطرہ بھی پینے کے لیے نہیں     :

Water everywhere, nor a drop to drink.

قرآن کی اِس آیت میں      بتایا گیا ہے کہ خدا نے پانی کو مبارک (purified) بنا کر آسمان سے اُتارا۔ یہ بلاشبہ خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قدیم زمانے میں      یہ معاملہ ایک روایتی عقیدے کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں      سائنس کی دریافتوں      نے اس کو ایک عظیم قابلِ شکر حقیقت بنا دیا۔

—4پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں      ایک بار سورج گرہن پڑا۔ اتفاق سے اُسی دن پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کا کم عمری میں      انتقال ہوگیا تھا۔ مدینہ کے لوگوں      نے اُس کو دیکھا تو انھوں      نے کہا — پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوا تھا، اِس لیے آج یہ سورج گرہن واقع ہوا ہے (کسفت الشمس لموت إبراهیم)۔ لوگوں      کا ایسا کہنا قدیم زمانے کے رواج کی بنا پر تھا۔ کیوں      کہ اُس زمانے میں      لوگ اِسی قسم کے واقعات کو گرہن کا سبب سمجھتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے مدینہ کے لوگوں      کو وہاں      کی مسجدمیں      اکھٹا کیا اور انھیں      خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاإِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَصَلُّوا، وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ(صحیح البخاري، حديث نمبر 1040)۔ یعنی کسی کے مرنے اور کسی کے جینے سے چاند اور سورج میں      گرہن واقع نہیں      ہوتا، بلکہ وہ خدائی نشانیوں      میں      سے دو نشانی ہیں     ۔ پس جب تم اُن کو دیکھو تو تم نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو، یہاں      تک کہ گرہن کھل جائے۔

اِس حدیثِ رسول میں      سورج گرہن اور چاند گرہن (solar eclipse & lunar eclipse) کو نشانی (signs) کہاگیا ہے۔ قدیم زمانے کے مخاطبین اپنے روایتی فریم ورک کے اعتبار سے اتنا ہی سمجھ سکتے تھے۔ لیکن موجودہ زمانے میں      لوگوں      کا فریم ورک سائنٹفک فریم ورک بن چکا ہے۔ اب آج کا انسان اِس قابل ہوگیا ہے کہ وہ خالص علمی معنوں      میں      اِس حقیقت کو سمجھ سکے۔ اور اِس طرح زیادہ گہرائی کے ساتھ وہ معرفت کا رزق حاصل کرے۔

موجودہ زمانے میں      جدید فلکیات کے تحت مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ زمین اور سورج اور چاند تین انتہائی مختلف سائز کے متحرک اَجرام ہیں     ۔ مگر وسیع خلا میں      اُن کو ایک ناقابلِ قیاس حساب کے ذریعے ایک خاص پوزیشن کے تحت ایک سیدھ میں     لایا جاتا ہے، اِسی خاص پوزیشننگ کے نتیجے میں      سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے:

Eclipse is a result of unimaginably well-calculated aligning of three different moving bodies in the vast sapce.

دعوت کا نیا دور

سیرت کے موضوع پر راقم الحروف کی کتاب ’پیغمبر انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں      چھپی۔ میں      نے اُس ميں      ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے موقع پر اپنے اصحاب کو  ’العصابۃ‘ سے تعبیر کیا تھا۔ یہ العصابۃ کوئی سادہ گروہ نہ تھا، بلکہ یہ وہ گروہ تھا، جس پر ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ اِس طرح اُس کے افراد اِس قابل ہوئے کہ تاریخ میں     وہ ایک عظیم انقلابی دورکا آغاز کریں     ۔

اصحابِ رسول نے نبوت محمدی کے اظہارِ اوّل کے لیے کام کیا تھا۔ اب نبوتِ محمدی کے اظہارِ ثانی کا زمانہ ہے۔ اِس دوسرے رول کے لیے آج پھر ایک العصابہ درکار ہے۔ اِسی دوسرے العصابہ کو حدیث میں      ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے۔ یہ دوسرا العصابہ وہ ہوگا، جس پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔

جیسا کہ میں      نے اپنے دوسرے مضامین میں      واضح کیا ہے، پہلے دورِ تاریخ کا آغاز ہاجرہ اُمِّ اسماعیل نے چار ہزار سال پہلے کیا تھا۔ اِس تاریخی عمل کی تکمیل میں      ڈھائی ہزار سال لگے۔ اِس کے بعد اِس تاریخی نسل میں      محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب پیدا ہوئے۔اِسی تاریخی نسل سے اصحابِ رسول نکلے، جنھوں      نے پیغمبر کا ساتھ دے کر پہلے دور کا کارنامہ انجام دیا۔

اصحابِ رسول نے جس دورِ تاریخ کا آغاز کیا تھا، تقریباً ڈیڑھ ہزار سال میں      وہ اپنے نقطۂ کمال پر پہنچ چکا ہے۔ اصحابِ رسول کےبعداب دوبارہ بہت سے اللہ کے بندے اٹھیں      گے، غالباً اِنھیں      افراد کو حدیث میں      ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 249)۔ یہ گروہ نئے حالات میں      اپنی غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے نبوت محمدی کا دوبارہ اظہار کرے گا۔

نبوتِ محمدی کا یہ اظہارِ ثانی، تاریخ انسانی کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔ اِس کے بعد موجودہ عارضی دنیا کو بدل کر نئی ابدی دنیا بنائی جائے گی، تاکہ اہلِ حق کو خدا کا ابدی انعام دیا جائے، اور اہلِ باطل کو ابدی طور پر رُسوائی کے عذاب میں      ڈال دیا جائے۔

اسلام دورِ جديد ميں

ساتويں      صدي ميں      الله تعالي نے اپنے دعوتي منصوبے كے ليے ضروري مواقع مهيا كرديے تھے ۔ رسول اوراصحابِ رسول نے ان مواقع كو استعمال كركے خدا كے منصوبه كو عملي واقعه بنايا۔ اسي طرح موجوده زمانے ميں      اسلام كي عمومي دعوت كے ليے الله كا جو منصوبه هے اس كے ليے تمام ضروري اسباب مهيا كرديے گئے هيں     ۔ اب خدا كے بندوں      كو اٹھنا هے اور دوباره خدا كے منصوبے كو عملي طورپر مكمل كرديناهے۔

 

اسلام دورِ جديد ميں

اميرشكيب ارسلان (1946-1869) كي ايك كتاب هے جس كا نام هے: لماذا تأخر المسلمون وتقدّم غيرهم (مسلمان كيوں      پيچھے هوگئے اور ان كے سوا دوسرے كيوں      آگے هوگئے) يه كتاب 50 سال پهلے چھپي تھي ۔ اس کے بعد ميں      نے ايك عربي مجله رابطة العالم الاسلامی (اپريل 1985) ميں     ايك مضمون پڑھا۔ اس مضمون كا عنوان دوباره حسب ذيل الفاظ ميں      قائم كياگيا تھا:

لما ذا تأخرنا وتقدم غيرنا

اس كا مطلب يه هے كه موجوده زمانه كے مسلمان پچھلي نصف صدي سے ايك هي سوال سے دوچار هيں     ، اور وه سوال يه هے كه هم جديد دور ميں      دوسري قوموں      سے كيوں      پيچھے هوگئے، اور دوسري قوميں      هم سے آگے كيوں      نكل گئيں     ۔ مزيد عجيب بات يه هے كه اسي نصف صدي كے اندر جاپان ايٹمي بربادي كے كھنڈر سے ابھرا، اور ترقي كي انتها پر پهونچ گيا۔ چنانچه امريكه ميں      ايك كتاب چھپي هے جس كا نام هے جاپان نمبر ايك: