با اصول زندگی (Ba Usool Zindagi)

By
Maulana Wahiduddin Khan

بااصول زندگی

(Leaflet)

مولانا وحید الدین خاں

 

دنیا کا نظام اِس طرح بناہے کہ یہاں ہمیشہ ایک کو دوسرے سے اختلاف پیش آتا ہے۔ یہ اختلاف مبنی بر فطرت ہے۔ اِس لیے اُس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں، کامیاب زندگی کا اصول صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ (adjust)  کرکے زندگی گزاری جائے۔ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہمی مفاد(mutual interest) کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔ اِس دنیا میں اِس کے سوا، کوئی انتخاب (option)  کسی کے لیے ممکن نہیں۔

اِس معاملے میں، مسلمانوں کا معاملہ دوسروں سے الگ نہیں ہے۔ البتہ مسلمان کو اِس معاملے میں ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ دوسروں کے لیے یہ ایڈجسٹ مینٹ (adjustment)  صرف مفاد(interest)  کا ایک معاملہ ہے، مگر مسلمان کے لیے یہ معاملہ ایک اعلیٰ عبادت کا معاملہ بن جاتا ہے۔

اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف دنیوی مفاد کے تحت پیش آتا ہے۔ مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے، ایک خدائی مشن کے حامل ہیں، یعنی خدا کے ابدی پیغام کو دوسرے تمام انسانوں تک پہنچانا۔پیغام رسانی کا یہ کام صرف اُس وقت درست طورپر انجام پاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں اور غیر مسلم قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں۔ مسلمان جب دوسری قوموں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے تو اُس کا محرّک (incentive) اُس کا یہی دعوتی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے ایڈجسٹ مینٹ نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اِس لیے ایڈجسٹ مینٹ کرتا ہے، تاکہ اُس کا دعوتی مشن کسی رکاوٹ کے بغیر پُر امن انداز میں جاری رہے۔ محرک کا یہ فرق بہت اہم ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک ایسا عبادتی عمل بن جاتا ہے جو اُس کو آخرت میںاجر ِ عظیم کا مستحق بنادے۔ اِس کے برعکس، دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔

مذکورہ قسم کا ایڈجسٹ مینٹ موجودہ دنیا کا ایک لازمی قانون ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص یا گروہ کا کوئی استثنا (exception)  نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر اصولی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُن کو مفاد کی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرنا ہوگا۔ مگر ایسی صورت میں ان کا ایڈجسٹ مینٹ عبادت کا عمل نہ ہوگا، بلکہ وہ صرف موقع پرستی (expediency)  کا ایک معاملہ ہوگا، یعنی وہی چیز جس کو شریعت کی زبان میں منافقت (hypocrisy)  کہاجاتا ہے۔ اصول پسندی، ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے، اِس کے مقابلے میں، موقع پرستی ایک انتہائی بُری صفت ۔

اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option)  ہے— اخلاص، یا منافقت۔ مخلصانہ زندگی میں منافقت کا کوئی مقام نہیں۔ اِسی طرح منافقانہ زندگی میں اخلاص کا کوئی درجہ نہیں۔ دعوتی مشن واحد مشن ہے جو آدمی کو اِس معاملے میں منافقانہ روش سے بچاتا ہے۔ دعوتی مشن آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ربانی مشن کی خاطر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ داعی بھی ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے، مگر اُس کا ایڈجسٹ مینٹ، اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر ۔

یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر دعوتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُنھیں ذاتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنا پڑے گا۔ گویا کہ اگروہ دوسروں کے درمیان مخلص بن کر نہ رہیں تو اُنھیں دوسروں کے درمیان منافق بن کر رہنا ہوگا، اور بلاشبہہ منافقانہ زندگی سے زیادہ بُری کوئی چیز اِس دنیا میں نہیں۔